الیکشن اور پارٹیوں کے بدلتے تیور

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ہر جماعت کی اپنی اپنی مجبوریاں اور ترجیحات ہوا کرتی ہیں

mnoorani08@hotmail.com

جیسے جیسے ملک میں نئے الیکشن کی آمد آمد ہے ویسے ویسے سیاسی جماعتوں کے تیور اور مزاج بدلنے لگے ہیں۔ خاص کر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان جو اتفاق اور اتحاد پچھلے چند سالوں میں دیکھا گیا تھا وہ اچانک اب ختم ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ہر جماعت کی اپنی اپنی مجبوریاں اور ترجیحات ہوا کرتی ہیں۔ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انھیں نیا بیانیہ اپنانا پڑتا ہے اور جب تک وہ اپنے مد مقابل حریف کو نشانہ نہ بنا لیں وہ عوام کی نظروں میں مقبول اور مقدم بن ہی نہیں سکتے ہیں۔

آصف علی زرداری موجودہ سیاسی کھیپ میں سب سے زیادہ ذہین اور زیرک سیاستدان تصور کیے جاتے ہیں، وہ ایک مکمل پلاننگ کے ساتھ سیاست کرتے ہیں۔ اُن کی یہ منصوبہ بندی محض چند سالوں پر محیط نہیں ہوتی، وہ دس پندرہ برس کی پلاننگ کے تحت سیاست کرتے ہیں۔ اپنے پچھلے دور میں انھوں نے آئین کی اٹھارویں ترمیم پاس کروا کے پاکستان کے صوبوں کو بہت سے ایسے حقوق دلا دیے جو انھیں پہلے کبھی بھی حاصل نہیں تھے۔

انھیں وفاق سے ایسی ایسی مراعات اور مالی فائدہ دلوا دیے جو انھیں مکمل طور پر خود کفیل بنانے میں بہت معاون اور مددگار ثابت ہوئے۔

انھیں پتا تھا کہ ملک بھر میں صرف ایک صوبہ ایسا ہے جہاں وہ ہمیشہ نہ صرف الیکشن جیت سکتے ہیں بلکہ اسی صوبے کے پیسوں سے اپنی پارٹی کو بھی چلا سکتے ہیں۔ چاہے اُن کے پاس وفاق میں حکومت ہو یا نہ ہو لیکن صرف یہ ایک صوبہ اُن کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو۔

اس ترمیم کے ذریعے انھوں نے وہ کچھ حاصل کر لیا جو شاید پہلے حاصل نہیں تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے سندھ صوبہ ایسا من وسلویٰ ہے جہاں الیکشن جیت جانا اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو پتا نہیں ہوتا کہ وہ اگلا الیکشن جیت پائے گی بھی یا نہیں لیکن پیپلز پارٹی کو سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ صوبہ سندھ میں وہ ضرور کامیاب ہوگی۔

ملک بھر کے عوام چاہے اسے کسی الیکشن میں مسترد کر دیں لیکن صوبہ سندھ کے عوام کسی اور جماعت پر اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اسی لیے سندھ صوبے کی حکمرانی کا تاج ہمیشہ پیپلزپارٹی کے سر ہی سجا کرتا ہے۔ اس صوبے کی حکمرانی کے ذریعے پیپلزپارٹی سارے ملک کو بھی کنٹرول کر لیتی ہے۔

آصف علی زرداری جب چاہتے ہیں کسی تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اس سے نکل جاتے ہیں۔ قبل از وقت حکومتوں سے استعفیٰ دیکر یا اسمبلیاں توڑکر سڑکوں کی سیاست کے وہ بہت بڑے مخالف ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں جب اجتماعی استعفوں کی بات کی جانے لگی تو انھوں نے اس مطالبے کی سخت مخالفت کی اور اس احتجاجی تحریک سے باہر نکل آئے، انھیں معلوم تھا کہ سندھ صوبے سے محروم ہوکر وہ کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔

اسی صوبے سے اُن کے لوگوں کی روٹی روزی لگی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو صاحب نے اب گزشتہ سال آنے والے سیلاب کو بہانہ بنا کر وفاق سے اربوں روپے طلب کر لیے ہیں اور اس مطالبے کو بجٹ کی منظوری سے منسلک بھی کر دیا ہے۔


یہ وہ سیاسی چالیں ہوا کرتی ہیں جنھیں اگر وقت پرکھیلا جائے تو کامیابی کے امکانات یقینی ہوا کرتے ہیں اوراِن چالوں کے لیے ذہانت اوربصیرت ایک لازمی امر ہے اورجو صرف پیپلزپارٹی کی قیادت کا ہی خاصہ ہے۔

جوں جوں الیکشن قریب آتے جائیں گے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا رویہ بدلتا جائے گا، وہ عمران خان کو کم اور مسلم لیگ نون کو زیادہ نشانہ بنا رہے ہونگے۔ ویسے بھی عمران فیکٹر اب اس الیکشن مہم سے تو کم ازکم فارغ ہوچکا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف ہرزہ سرائی سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔

ملک بھر میں پیپلزپارٹی کا اگر کوئی سیاسی حریف ہے تو وہ مسلم لیگ نون ہی ہے۔ اسی لیے وہ اس الیکشن مہم میں صرف اور صرف مسلم لیگ نون کے خلاف ہی اپنا سارا سیاسی زور لگا دے گی، ابھی تو صرف شروعات ہیں۔ رفتہ رفتہ اتحادی حکومت کی تمام ناکامیوں کی ذمے داری وہ مسلم لیگ نون پر ڈالتی دکھائی دے گی۔ دیکھا جائے تو مسلم لیگ کو اس گرداب میں پھنسانے والی بھی پاکستان پیپلزپارٹی ہی ہے۔ اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک لانے والی پاکستان پیپلزپارٹی ہی تھی۔

اس وقت مسلم لیگ نون اس تحریک کے حق میں ہرگز نہیں تھی لیکن زرداری صاحب ڈٹ چکے تھے اور اس مقصد سے قربانی کا دنبہ انھوں نے شہباز شریف کو بنا لیا۔ میاں نوازشریف ان مشکل ترین مالی حالات میں عارضی حکومت لینے کے حق میں ہرگز نہیں تھے لیکن آصف علی زرداری نے اپنا دامن بچاتے ہوئے بالآخر شہباز شریف کو راضی اور رضا مند کر ہی لیا۔

آج جس بجٹ کو لے کر بلاول بھٹو حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اس بجٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے اس کی منظوری دیکھا جائے تو اس کابینہ نے دی تھی جس میں بلاول زرداری سمیت کئی اور وزراء بھی موجود تھے، اگر بجٹ اس قدر ناپسند تھا تو پھر اس کی منظوری کیوں دی گئی؟

اب مشکل وقت میں آنکھیں دکھا کر وہ سیاسی فائدہ تو ضرور حاصل کرسکتے ہیں لیکن ملک اور قوم کے مفاد کی قیمت پر۔ ایک ایسے وقت میں جب IMF بھی ہمیں ڈیفالٹ ہوتا دیکھنا چاہتا ہے بجٹ کی منظوری میں روڑے اٹکانا کسی طور بھی قومی مفاد میں گردانہ نہیں جاسکتا ہے۔ ہمیں چاہیے جلد سے جلد بجٹ پاس کر کے ملک کو آگے لے جائیں ۔

سیاست کرنی ہے تو اس کے بعد کی جائے ، جو جو الزام تراشیاں کرنی ہیں وہ الیکشن مہم کے دوران کرلی جائیں۔ سیلاب کے نقصانات پورے کرنے کے لیے وفاق کے پاس پیسے نہیں ہیں، یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ بیرونی ممالک سے زبانی ہمدردیاں تو بہت ملی تھیں لیکن مالی امداد ہونے والے نقصانات کے مقابلے میں بہت کم ہی ملی تھی۔ اس لیے ایسے وقت میں یہ مطالبہ کرنا کچھ درست اور جائز حکمت عملی قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔

بلاول بھٹو صاحب اگر خود کو اگلا وزیراعظم بنتا دیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ دیگر جماعتوں کی مدد کے بغیر اپنی یہ آرزو ہرگز پوری نہیں کر پائیں گے۔ ہوسکتا ہے اس مقصد کے پورا ہونے کے لیے انھیں مسلم لیگ نون کے تعاون کی بھی ضرورت پڑجائے اورجس کے امکانات بھی بہت ہیں۔

دوستی اور مفاہمت کے دعویدار آصف علی اپنی زندگی میں اپنے اس فرزند ارجمند کو اس ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی اس دلی خواہش کی تکمیل کے لیے انھوں نے دس پندرہ سالوں میں بہت جتن بھی کیے ہیں۔ بلاول بھٹو کی سیاسی تربیت بھی انھوں نے اسی ٹارگٹ کے حصول کی خاطر کی تھی اور وہ یہ ٹارگٹ اسی الیکشن میں پورا ہوتا دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔

اُن کے پاس وقت بہت کم ہے اور اُن کا عزم اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اس بار یہ مقصد پورا بھی کر لیں گے، اگر سادی اکثریت نہ بھی ملی تو وہ مفاہمت کا جادو اور دوستی کی چھڑی چلا کر اپنا یہ ٹارگٹ ضرور حاصل کر لیں گے۔ بلاول بھٹو توکیا ہمارے کسی اور سیاستدان میں یہ کمال اور جوہر ہرگز نہیں ہے جو آصف علی زرداری کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، انھوں نے اگر بلاول بھٹوکو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ اسے پورا بھی کرکے دکھائیں گے۔
Load Next Story