تعلیم یافتہ عورت۔۔۔ تہذیب یافتہ معاشرہ

حصول علم صرف ’صنفِ قوی‘ کا حق سمجھنے کی سوچ ختم نہیں ہوسکی

حصول علم صرف ’صنفِ قوی‘ کا حق سمجھنے کی سوچ ختم نہیں ہوسکی ۔ فوٹو : فائل

جب ہم تعلیم نسواں کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ''تعلیم نسواں'' دو الفاظ کا مرکب ہے، تعلیم اور نسواں۔ تعلیم کا مطلب ہے ''علم حاصل کرنا'' اور نسواں سے مراد 'خواتین' ہیں، اس مرکب الفاظ کا واضح مطلب عورتوں کی تعلیم ہے۔

علامہ اقبال نے عورت کے بارے میں جو کہا ہے کہ''وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ'' تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ اپنے گہرے مطالعے اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اقوام کی زندگی کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے کے بعد پتھر پر لکیر کھینچی ہے۔ کیوں کہ اب یہ حقیقت سب مانتے ہیں کہ عورت ذات اس کائنات کا حسین وجمیل شاہ کار اور دل کش وجود ہے۔

وہ انسانی زندگی کا ایک خوب صورت اور کیف آور نغمہ ہے جس کے بغیرزندگی کی سانس نہیں چل سکتی۔ عورت کے بغیر انسانی نسل کا استحکام اور نشوونما ناممکن ہے۔ بقائے حیات و معاشرے کا قیام و استحکام، جسمانی و روحانی آسودگی عورت ہی دم قدم سے ہے۔ عورت ماں کے روپ میں بے لوث محبت و شفقت و ہمدردی اور ایثار و قربانی کی اَن مول داستان ہے۔ عورت بیوی کی صورت میں خلوص، وفاداری اور چاہت کا حسین افسانہ ہے۔

عورت بہن کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے، تو بیٹی کے روپ میں خدا کی بہت بڑی رحمت ہے۔ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا فرما کر اس کی حیثیت متعین کردی ہے، بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اسلام نے عورت کو تحت الثریٰ سے اٹھا کر فوق الثریٰ تک پہنچا دیا ہے۔

لہٰذا ایک پڑھی لکھی سمجھ دار عورت اپنے گھر اور ماحول کے مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت انہی اصولوں کی روشنی میں بہتر انداز میں کر سکتی ہے اور ملک و ملت کی تقدیر سنوار سکتی ہے۔ جہاں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کی تعلیم کا تعلق ہے، تو یہ وہ طاقت و قوت ہے جس نے دربار خداوندی میں انسان کی فضیلت فرشتوں پر ثابت کیا ہے۔

علم ایک لازوال دولت ہے، جو تقسیم کرنے سے کم ہونے کے بہ جائے بڑھتی ہے۔ دولت کی حفاظت آپ کرتے ہیں، جب کہ علم آپ کی حفاطت کرتی ہے یہ وہ روشنی ہے جو جہالت کی تاریکی کو مٹاتی ہے۔ یہ وہ زرخیز زمین ہے، جس کے پھولوں اور پھلوں کی کوئی گنتی، کوئی شمار نہیں۔ یہ وہ سمندر ہے، جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جو انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی سکھاتی ہے۔

اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابل ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ حصول علم پر ہرممکن زور دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ مقامات پر بلاواسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ پھر یہ مذہب مرد کی طرح عورت کے لیے بھی تعلیم کا حصول لازم قرار دیتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ''علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

کم علمی،فرسودہ روسم و رواج اور جہالت کہیے یا ایک سوچا سمجھا منصوبہ کہا جائے کہ ہمارے ہاں ماضی میں بھی اور اب بھی خواتین کو علوم کے ذرائع تک آزادانہ رسائی کے راستے میں طرح طرح کی مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج بھی ہمارے معاشرے میں وہ نسل در نسل زیور تعلیم سے محروم رکھی جا رہی ہیں۔

ملک کے دیگر صوبوں کے مقابل خیبر پختون خوا میں اب بھی لڑکیوں کی تعلیم پر وہ توجہ نہیں دی جاتی، جو دینی چاہیے۔ اسی کم علمی کے باعث آج بھی پشتو کا یہ فرسودہ اور جہالت سے بھرا ہوا قول دہرایا جاتا ہے کہ جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے لیے تو یا اپنا گھر ہے یا گور۔ اس دائرے یا حصار سے کسی عورت کا باہر نکلنا مرد اپنے لیے باعث شرم سمجھتے تھے۔


اس پر مستزاد صوبے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی نے بھی لڑکیوں پر حصول علم کے دروازے بند کرنے کی اپنی پوری کوشش کی ہے۔ انھی عناصر کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی وجہ سے بعض علاقوں کے لوگ تعلیم نسواں کے متعلق بڑی غلط فہمی کا شکار ہوئے ۔

وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں ہی کو دینا ضروری ہے۔ تعلیم صرف روزگار کے لیے چاہیے۔ہم اپنی بہن بیٹی کسی کو نوکر نہیں بنانا چاہتے۔ ملازمت اور دیگر شعبوں میں صرف مردوں کو آنا چاہیے۔ عورت تو صرف اپنے گھر کی دیکھ بھال اور باورچی خانے کے لیے پیدا ہوئی ہے اور ان کی زندگی اپنے گھر سے شروع ہوکر اپنے شوہر یا اپنی قبر پر جاکر ختم ہونی چاہیے۔

اگرچہ اس قسم کی سوچ بہت بڑی جہالت اور گم راہی ہے۔ قدیم زمانے سے ہی ہمارے ہاں یہ رواج اور دستور رہا ہے کہ عورت کے ذمے صرف گھر کے کام کاج ہیں، اسے گھر کی چار دیواری میں اس طرح محصور کر دیا جائے کہ ان کا تعلق خانہ داری امور کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ ہو، حتیٰ کے انھیں تعلیم دینا، مردوں کی طرح علم سے آراستہ کرنا بھی مناسب نہیں، بلکہ ان کے خیال میں وہ عورت بہتر ہے جو تعلیم یافتہ نہ ہو اس کے علاوہ تمام امور کو انجام دینا خواہ ملازمت ہو یا دیگر کام ان کو برائی اور قباحت کی نظر سے دیکھا اور تصور کیا جاتا رہا ہے، جب کہ مذ ہب کی رو سے ایسی کوئی تعلیم یا ہدایت دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ عورتیں بھی انسان ہیں۔ علم کی روشنی ہر انسان کو جینا سکھاتی ہے۔

کسی دانا کا مشہور قول ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ بچہ جو کچھ اس درس گاہ سے سیکھتا ہے وہ اس کی آئندہ زندگی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ بچے کی بہترین تربیت کے لئے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مفکرین کی رائے میں: ''مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جب کہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے۔'' فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین کا قول ہے: ''آپ مجھے اچھی مائیں دیں، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔''

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں سے نکل کر اب ایک گھر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب وہی قوم یا ملک اس جہاں پر حکمرانی کر سکتا ہے، جو علم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ اگر کسی ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین پس ماندہ ہوں گی، تو وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔ لہٰذا عورتوں کے لیے تعلیم کا حصول اور واقفیت عامہ یا معلومات عامہ سے آراستہ ہونا نہایت ضروری ہو چکا ہے۔

آج کی دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ اس لیے ایک پڑھی لکھی عورت ہی اس نئے ماحول سے مطابقت پیدا کر سکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسرے تک پہنچا سکتی ہے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کر سکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ ہی بنے۔

عورت کی اولین ذمہ داری اس کا گھر ہے۔ وہ پڑھی لکھی ماں، بیوی اوربہن کے طور پر بھی اپنے بچوں کی بہتر تربیت کر سکتی ہے۔ عورت اس کائنات کا وہ حسن ہے، جس کے بغیر ساز ہستی میں سوز باقی نہیں رہتا زندگی کا پہیا گردش نہیں کر سکتا اور نہ ہی حیات انسانی میں کوئی رنگ و بوُ باقی رہتی ہے۔

گھریلو زندگی جو کسی بھی سماج و معاشرے کی بنیادی اکائی ہے عورت کے بغیر کسی معاشرے کا تصور ممکن نہیں، عورت نصف انسانیت اور نصف حیات ہے، مرد اور عورت اس کے دو پہیے ہیں۔ مرد اپنے کنبے کا کفیل ہے تو عورت اپنے بچوں کی اتالیق، خاتون اگر پڑھی لکھی ہوگی تو وہ زیادہ بہتر طریقے سے تربیت کر کے اپنے بچوں کو معاشرے کا کار آمد شہری بننے میں مددگار ثابت ہوگی۔

تاکہ وہ عملی زندگی میں کچھ کر سکیں اور نسلوں کی بھی بہتر پرورش ہو سکے۔ بچے کا زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور وہ اس کے طور طریقے، عادات اور دل چسپیوں کو مستعار لیتا ہے۔ ماں بچے کو اچھے بْرے کی تمیز اور صحیح غلط کی پہچان سکھاتی ہے اسی لیے عورت کا تعلیم یافتہ اور باکردار ہونا بے حد ضروری ہے، کیوں کہ آنے والی نسل کی تہذ یب اور تربیت کی ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ اگر عورت تہذیب یافتہ ہوگی تو پورا معاشرہ تہذیب یافتہ ہوگا۔
Load Next Story