چیمبرز صرف تجاویز ہی نہیں شیڈو بجٹ بھی پیش کریں گے

چھوٹے دکاندار گوشوارے بھرنے سے بھاگتے ہیں، ان پر فکس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی جائے گی

بجٹ بناتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے، ایکسپریس فورم کے شرکاء کا اظہار خیال۔ فوٹو: وسیم نیاز/ ایکسپریس

روزنامہ ایکسپرپس نے بجٹ سے پہلے مختلف سیکٹرز سے بجٹ کے حوالے سے تجاویز حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

ایکسپریس فورم میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر سہیل لاشاری' ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی صدر قیصرہ شیخ اور سمال ٹریڈرز اینڈ کریانہ مرچنٹس کے صدر راؤ اکرام نے اپنی تجاویز دیں۔ شرکاء نے سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ چھوٹا تاجر گوشوارے بھرنے سے گھبراتا ہے اس لئے فکس ٹیکس لگایا جائے۔



غربت ختم کرنے کے لئے ان ڈائریکٹ ٹیکس کم کیئے جائیں جبکہ بجلی کی کمی ختم کرنے کے لئے ڈیم بنائے جائیں۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ اس بار صرف بجٹ کے لئے تجاویز ہی نہیں دی جا ئیں گی بلکہ چیمبرز کی طرف سے ایک شیڈو بجٹ بھی دیا جائے گا۔ چیمبرز کی بجٹ تجاویز اور شرکاء فورم نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

سہیل لاشاری(صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

اس دفعہ بجٹ کے لئے پوری تاجر برادری اکٹھی ہوگئی ہے۔ کراچی اور فیصل آباد میں مشاورتی اجلاس کر چکے ہیں جبکہ تیسرا لاہور میں ہوگا۔ اس دفعہ ہماری کوکوشش ہے کہ بجٹ کے لئے صرف تجاویز ہی نہ دی جائیں بلکہ ایک شیڈو بجٹ بھی دیں پہلے ہم صرف تجاویز دیتے تھے اب ہم تعلیم' صحت' آرمی کا بجٹ وغیرہ دینا چاہتے ہیں۔ میں جو باتیں شیڈو بجٹ میں آئیں گی وہ بتانا چاہتا ہوں بجلی اور گیس کے بحران کی باتیں کی جاتی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اس بحران کا حل کیا نکالنا ہے اس میں سب سے مضبوط تجویز یہ ہو گی کہ کالا باغ ڈیم کو بنایا جائے اس کے لئے بجٹ میں پیسے رکھے جائیں کیونکہ یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو تین سال میں تین ہزار چھ سو میگاواٹ بجلی بنانے کا اہل ہو گا اور پانی بھی اسٹور ہوگا۔

یہ ایسا ڈیم ہے جس سے سیلاب سے بچا جا سکے گا اس سے 8 ہزار ایکٹر رقبہ کے پی کے کا اور 6 ہزار ایکڑ سندھ کا رقبہ زیر کاشت آئے گا۔ اگر اس پر اتفاق رائے ہوتا ہے تو بھی ٹھیک ہے ورنہ لیڈر شپ تو کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے جو عوامی مفاد میں ہو۔ اس کے لئے علاوہ ٹیکس اہم ترین شعبہ ہے۔ حکومت کو ٹیکس ریفارمز لانی ہوں گی۔ ٹیکس کی شرح اتنی ہو کہ سمگلنگ نہ ہو سکے۔ کم آمدنی ظاہر نہ کی جا سکے اور ہر بندہ ٹیکس دینے پر راضی ہو اس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دکاندار جو زیادہ تعداد میں ہیں ان سے فکس ٹیکس لیں ان سے گوشوارے نہ بھروائیں ان کی اسسیمنٹ کر لیں جیسا پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ کوئی چھوٹا دکاندار ہے تو سالانہ 5 ہزار لے لیں اور اسی طرح بڑے اور اس سے بڑے دکاندار سے زیادہ ٹیکس لے لیں دکاندار گوشوارے بھرنے سے بھاگتے ہیں انہیں گوشواروں کے چکر سے نکال دیا جائے۔ ہمیں مہنگائی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے یہ اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہم لارج مینو فیکچرنگ کی طرف توجہ دیں حکومتوں کا بنیاد کام ہوتا ہے کہ وہ ایسی فضا دے کہ آپ کھل کر کام کر سکیں اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ پکڑ لو جکڑ لو یہ مناسب بات نہیں ہے۔ مہذب قومیں جس سے کوئی مسئلہ ہو اسے میز پر بٹھا کر بات کرتی ہیں جب خوف کی فضا قائم ہوتی ہے تو بزنس مین کھل کر کام نہیں کر سکتا۔ کرپشن ختم کی جائے انتظامی معاملات درست کئے جائیں جہاں لیکج ہو رہی ہے اسے دور کریں آپ بجلی کو ہی دیکھ لیں کتنی چوری ہو رہی ہے۔

سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کی بجلی بھی عدم ادائیگی پر کاٹ دی گئی جب حکومتیں ہی ایسے کریں گی تو عوام پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ آپ خودہی سوچ سکتے ہیں۔ انرجی سیکٹر میں بہت کام ہو رہا ہے لیکن مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس سیکٹر میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کو اب انڈسٹری کے طور پر لینا چاہئے کیونکہ اب بجلی ایک کاروبار بن گئی ہے حکومت بھی سرمایہ کاروں کو کہہ رہی ہے کہ آپ بجلی کے لئے سرمایہ کاری کریں' بجلی پوری ہو گی تو غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی۔ بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار اس لئے پاکستان نہیں آ رہے کیونکہ یہاں بجلی پوری نہیں ہے جو ادار ے نقصان میں جا رہے ہیں انہیں پیکیج دینے کی بجائے ان کی مینجمنٹ بہتر کریں خواتین کا رول بڑھایا جائے انہیں حکومت کی سپورٹ ہونی چاہئے۔ ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں اچھے اور ایماندار لوگوں کو آگے لایا جائے۔ اگر صرف ٹیکس جمع کرنے کے نظام سے لیکج ہی روک دیں تو ٹیکس دوگنا ہو جائے گا کیونکہ جو کچھ صنعتکار اور ٹیکس جمع کرنے والے افراد کر کرتے ہیں وہ ختم ہونی چاہئے یہی گڈ گورننس ہے۔



ہماری تجویز ہے جو سیلز ٹیکس ریفنڈ ہیں وہ فوری دیئے جائیں لوگوں کے اربوں کروڑوں روپے سیلز ٹیکس کی مد میں ریفنڈ نہیں ہو رہے جس سے پیسے کی گردش نہیں ہو رہی کیونکہ وہ پیسہ حکومت کے پاس پڑا ہے جو اس نے صنتعکاروں سے ایڈوانس لے کر رکھا ہوا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صورتحال یہ ہے کہ سیلز ٹیکس کبھی وفاقی حکومت مانگتی ہے کبھی صوبائی حکومت مانگتی ہے اسے کلیئر کریں کہ سیلز ٹیکس کس نے لینا ہے۔ اگر کوئی بھی پالیسی بنانی ہوتو حکومت کو سٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر صورتحال بہتر نہیںہو سکتی۔ حکومت کو بجٹ بنا کر سٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا چاہئے کہ ہم نے یہ بجٹ بنایا ہے بتائیں آپ کی کیا تجاویز ہیں ورنہ تو پھر سارا سال منی بجٹ ہی آتے رہیں گے۔

اکنامی بہتر ہو رہی ہے جی ڈی پی گروتھ 5 فصید کے قریب پہنچ گئی ہے جو پہلے 2.93 فیصد تھی اگر حکومت اور عوام مل کر اکٹھے کام کریں تو مسائل کا حل جلدی اور بہتر تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ڈالرز بھی آنے شروع ہو گئے ہیں زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کریں اور اس کے ساتھ ساتھ بجٹ میں واہگہ پر انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لئے پیسے رکھیں کیونکہ اس وقت ساڑھے تین سو ٹرک آ اور جا رہا ہے اگر تجارت بڑھ جاتی ہے تو پھر تو وہاں رش بڑھ جائے گا ٹرک کھڑے کرنے کی جگہ ہی نہیں ہوگی۔ دوسری طرف کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی بات ہو رہی ہے۔

پوری دنیا میں کوئلے کی ترسیل کے لئے ریلوے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ریلوے کا سسٹم کوئلے کی ترسیل کے لئے بہتر بنایا جائے کیونکہ ٹرین 30 فیصد تک سستی ہے جب آپ ٹنوں کے حساب سے کوئلے کی ترسیل کرتے ہیں تو بات کہاں جا پہنچتی ہے بجٹ میں یہ بھی بتایا جائے کہ آپ ریلوے کو کیسے ٹھیک کریں گے آپ کہہ رہے ہیں کہ ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگانا ہے تو بتائیں ساہیوال میں کوئلہ کیسے پہنچائیں گے۔

ٹیکسوں کی شرح کم کر کے اور فکس ٹیکس کی طرف جانے سے ریونیو زیادہ اکٹھا ہو گا۔ ٹیکس جمع کرنے کا نظام بہت کرپٹ ہے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انڈر دی ٹیبل کچھ بھی نہ ہو ہمیں اپنے وسائل کو ضائع ہونے سے بھی بچانا چاہئے۔ اگر یہ حکومت بھی ملک کو مسائل سے نہ نکال سکی تو ہمیں کسی اور سے امید نہیںکیونکہ گذشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان کے معاشی حالات مسلسل زوال کی طرف گامزن رہے۔ سابق حکومت کے دور میں ملک پر غیرملکی قرضوں کے بوجھ میں کم از کم 80 فیصد اضافہ ہوا، شاہانہ حکومتی اخراجات جاری رہے، صنعتیں زوال پذیر رہیں، آئی ایم ایف کے اشارے پر بجلی پٹرول گیس کی قیمتوں میں پے درپے اضافے کیے گئے جس کی وجہ سے ملک معاشی زوال کا شکار ہوگیا۔

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ موجودہ حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی صورتحال کی نزاکت کو سمجھا اور معاملات کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جس سے معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں ۔ حکومت کے اہم کارناموں میں سرِ فہرست یورپین یونین سے جی ایس پی پلس سٹیٹس کا حصول اور روپے کی قدر میں استحکام ہے لیکن کچھ معاملات ہنوز باعثِ تشویش ہیں جیسا کہ توانائی کا بحران جو معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے گردشی قرضوں پر قابو پاکر بڑا اہم کارنامہ سرانجام دیا تھا لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ گردشی قرضوں کا بوجھ ایک مرتبہ پھر بڑھ گیا ہے۔

قیصرہ شیخ(صدرویمن چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

اس دفعہ تاجر برادری مکمل طور پر متحد ہے۔ کراچی اور فیصل آباد میں تاجر برادری نے پری بجٹ کانفرنس کی ہیں جس میں طے ہوا کہ بجٹ کے لئے مشترکہ تجاویز دی جائیں اس کانفرنس میں ایف بی آر کے لوگ بھی شریک ہوئے۔اور تاجروں نے اپنے مسائل بتائے۔ ہم نے جو تجاویز دیں ان میں کہا کہ اس دفعہ جو وفود باہر جاتے ہیں ان میں خواتین کو بھی بھجوایا جائے کیونکہ خواتین 50 فیصد سے زیادہ ہیں۔ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہم نے یہ بھی کہا کہ خواتین کے لئے علیحدہ انڈسٹریل زون بنایا جائے جیسا حیدر آباد دکن میں بنایا گیا ہے اس طرح بنگلہ دیش کی بھی مثال موجود ہے۔



ضروری نہیں کہ یہ بہت بڑی جگہ پر بنایا جائے یہ ایک کنال پر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ای ڈی آئی پچھلی حکومت کے دور میں بن گیا تھا لیکن ابھی تک اسے فنڈز نہیں دیئے گئے اس کے علاوہ وہ خواتین کے لئے ایس ایم ای کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وہ زیادہ وویمن فرینڈلی ہونی چاہئے تاکہ خواتین ملکی معیشت میں رول پلے کر سکیں۔

عورتوں کو بھی ٹیکس دینا چاہئے جو خواتین کاروبار کر رہی ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں آنا چاہئے ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ عورت کو ٹیکس دینے سے گھر والے ہی بہت ڈرا دیتے ہیں ہم نے یہ تحریک چلائی ہے کہ خواتین کو بھی ٹیکس دینا چاہئے اس حوالے سے ریونیو بورڈ میں میٹنگ بھی ہوئی تھی انہیں بتایا تھا کہ خواتین کو ہراساں کرنے کی بجائے اگر آپ ان کے ساتھ بات چیت کر کے انہیں بتائیں کہ ٹیکس دینے سے انہیں کیا فائدہ ہو گا تو یقیناً خواتین بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائیں گی۔

راؤ اکرم(صدر کریانہ اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن)

بجٹ حقیقی طور پر عوام دوست ہونا چاہئے جس میں تاجروں' کسانوں' مزدروں' سرکاری ملازمین غرض ہر طبقے کو ریلیف دیا جائے۔ جب سے ملک بنا ہے حکومتیں یہی کہتی آئی ہیں کہ معیشت خراب ہے عوام قربانی دیں غریبوں نے بہت قربانیاں دیں لیکن خزانہ نہ بھر سکا اور مہنگائی بڑھتی گئی پھر ڈالر سستا بھی ہوگیا لیکن مہنگائی کم نہ ہوئی۔ بہت شور تھا کہ بجلی کی کمی چند مہینے میں دور ہو جائے گی لیکن ایک سال میں بھی کچھ نہ ہوا بجلی کے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبے شروع کئے جائیں۔

دوسری طرف دیکھیں عام آدمی ٹیکس دیتا ہے لیکن بڑا طبقہ ٹیکس نہیں دیتا ٹیکس کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور وصولی کا طریقہ آسان کیا جائے کسانوںکو سبسڈی دی جائے۔ فصل بروقت بوئی جائے اور حکومت کسان کی فصل صحیح قیمت پر خرید لے۔ مزدوروں کی کم از کم اجرت 9 ہزار روپے مقرر کی گئی جس سے اس مہنگائی کے دور میں گھر چلانا ناممکن ہے لیکن مزدور کو یہ اجرت بھی پوری نہیں دی جاتی۔ سی این جی سٹیشن کے مزید لائسنس جاری نہ کئے جائیں سی این جی ایک عیاشی ہے وہی گیس صنعتوں اور گھریلو صارفین کو سپلائی کی جائے۔ غریب بچوں کو وظیفہ دیا جائے' بوڑھوں کو بڑھاپا الاؤنس ملنا چاہئے۔




ڈگری ہولڈرز کو جب تک نوکری نہیں ملتی انہیں بھی حکومت کی طرف سے وظیفہ دیا جائے غربت کی وجہ سے نئی نسل میں جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے جو خطرناک ہے دوسری طرف سادگی اپنا کرغیر ترقیاتی اخراجات کم کئے جائیں یہ کیسا ملک ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کو اسمبلی میں روٹی ایک روپے کی ملتی ہے جبکہ غریب عوم روٹی 6 روپے کی خریدتے ہیں۔ اگر عوام میں قوت خرید بڑھے گی تو کاروبار چلے گا عوام کچھ خریدنے کے قابل ہی نہیں رہیں تو لوگ تو کاروبار چھوڑ دینگے۔ اس کے علاوہ چھوٹے دکانداروں کی کہیں شنوائی نہیں ہے ان کی بہتری کے لئے سمال ٹریڈرز چیمبر کے قیام کا اعلان کیا جائے اور حکومت اس کے لئے نہ صرف اقدامات کرے بلکہ اس کے لئے بجٹ میں رقم بھی مختص کی جائے۔

ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اس کی بڑی وجہ ان ڈائریکٹ ٹیکس ہیں عام آدمی کچھ بھی خریدتا ہے تو اس پر ٹیکس دیتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے اس کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکس لگائے جائیں اس وقت 80 فیصد ٹیکس ان ڈائریکٹ اور صرف 20 فیصد ڈائریکٹ ٹیکس ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ صرف 20 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس اور 80 فیصد ٹیکس ڈائریکٹ لگائے جائیں۔ انکم ٹیکس اور دولت ٹیکس جمع کرنے کا نظام بہتر بنایا جائے۔ ایماندار اور اہل افسر ٹیکس جمع کرنے کے لئے لگائے جائیں حکومت اپنے وسائل میں اضافہ کرے اور ایس آر او کلچر ختم کر ے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

معاشی مسائل کے حل کے لیے تجاویز

٭حکومت کو قرضوں اور غیرملکی امداد پر انحصار حتی المقدور حد تک کم کرکے اپنے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے جن کی ملک میں کوئی کمی نہیں۔ قرضوں سے تو ہر ممکن حد تک اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ مجموعی قومی آمدن کا ایک بڑا حصّہ ان قرضوں کے سود کی ادائیگی پر صرف ہوجاتا ہے جبکہ اصل قرضے وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ ہر سال وفاقی بجٹ میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے ایک بڑی رقم مختص کی جاتی ہے۔



اگر حکومت قرضے نہیں لے گی تو نہ صرف سود کی مد میں خرچ ہونے والی بھاری رقم بچے گی بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی بجلی ، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بھاری اضافے جیسی شرائط بھی تسلیم نہیں کرنی پڑیں گی۔ جہاں تک امداد کا تعلق ہے تو اس کے عوض حکومت کو کوئی کڑی شرائط قبول نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ امداد دینے والے ممالک پاکستان پر کوئی احسان نہیں کررہے ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُن کی امداد سے کہیں زیادہ بڑھ کر تعاون کرچکا ہے جس سے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی معیشت کو 70 ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان برداشت کرنا پڑا۔

پاکستان نہ صرف مطالبہ کرے کہ اِسے غیرمشروط امداد دی جائے بلکہ وہ تمام ممالک پاکستانی مصنوعات کو اپنی مارکیٹوں تک ڈیوٹی فری رسائی فراہم کریں جو پاکستانی تعاون کے بغیردہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ اس سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوگا اور قیمتی زرمبادلہ ملک میں آئے گا۔

٭بجلی کے بحران کی بنیادی وجہ روایتی ذرائع پر انحصار ہے۔ ملک میں زیادہ بجلی فرنس آئل سے پیدا کی جارہی ہے جو بہت مہنگی پڑتی ہے ، ہائیڈل پیداوار بہت کم ہے کیونکہ گذشتہ تقریباً چالیس سالوں سے ملک میں کوئی ڈیم تعمیر کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی اور کالا باغ ڈیم کو بھی سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جبکہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔

٭بجلی کے بحران اور بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کا سب سے اہم حل یہ ہے کہ ہائیڈل بجلی کی پیداوار بڑھائی جائے وگرنہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ چند ہی سالوں میں بجلی کی قیمت 50روپے فی یونٹ تک جاپہنچے۔ موجودہ حکومت ان تمام معاملات پر توجہ دے رہی ہے جو بڑی خوش آئند بات ہے، تھرکول پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے، نندی پور پاور پارجیکٹ ریکارڈ وقت میں مکمل کیا گیا ہے اور بجلی کی پیداوار کے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے لیکن کالاباغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے لہذا حکومت وفاقی بجٹ 2014-15 میں کالاباغ ڈیم کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کرے ۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف وافر سستی بجلی پیداہوگی بلکہ زرعی شعبے کو وافر پانی بھی میسر ہوگا۔

٭پاکستان کوئلے سے صرف ایک فیصد بجلی پیدا کررہا ہے جبکہ امریکہ میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار 80 فیصد، چین میں 70 فیصد اور بھارت میں 50 فیصد ہے۔ وزیراعظم نواز شریف تھرکول پراجیکٹ کا افتتاح پہلے ہی کرچکے ہیں لیکن ضروری ہے کہ اس منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ اگر ضروری ہو تو کوئلہ درآمد کرلیا جائے کیونکہ درآمد کرنے کے باوجود بھی بجلی فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی سے پانچ گنا سستی پڑے گی۔



٭توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دیا جائے۔ اس وقت ہمسایہ ممالک بھارت ہوا کے ذریعے 9600 میگاواٹ سے زائد جبکہ چین 12,000 میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کررہا ہے جبکہ پاکستان کا اِس دوڑ میں دور دور تک کوئی نام و نشاں نہیں۔ بھارت نے پچھلے سال ہوا کے ذریعے توانائی کے حصول کی صلاحیت میں 1800 میگاواٹ جبکہ چین نے 6300 میگاواٹ کا اضافہ کیا ہے۔ مزید برآں امریکہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ہمیں ایٹمی توانائی سے بجلی کے حصول کی ٹیکنالوجی فراہم کرے۔

٭معاشی استحکام کے حصول کے لیے پاکستان کو برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا جس کے لیے علاقائی تجارت کے فروغ کی جانب زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ علاقائی تجارت کا مطلب یہ نہیں کہ دھڑا دھڑا درآمدات شروع کرکے تجارتی حجم میں اضافہ کیا جائے بلکہ ہمیں علاقائی ممالک کو برآمدات بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کو وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ریلوے لنک قائم کرنے چاہئیں جس سے ان ریاستوں کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوگا۔

٭ہماری برآمدات اب تک صرف چند روایتی شعبوں تک محدود ہیں جس کی وجہ سے ان میں اضافے کا خواب پورا نہیں ہوسکا۔ اب یہ اشد ضروری ہوگیا ہے کہ برآمدات کے روایتی میدانوں سے نکل کر نئے شعبوں اور نئی منڈیوں کی تلاش پر توجہ دی جائے۔ ہمیں عالمی منڈی کے تقاضوں کے مطابق نئی مصنوعات بھی تیار کرنی چاہئیںخواہ وہ روایتی نہ ہوں۔

مستحکم پاکستان کیسے ممکن ہے؟

کسی بھی ملک کا استحکام اس کی معیشت کے استحکام میں مضمر ہے۔ اگر کسی ملک کی معیشت مضبوط ہو تو اس کے استحکام کو ہرگز کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا اور اگر معیشت کمزور ہو تو نہ صرف کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ اس ملک کی سالمیت کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے لہٰذا پاکستان کے استحکام کے لیے ہمیں اپنی معیشت کو استحکام دینا ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے بنیادی مسائل کیا ہیں۔

بنیادی مسائل

٭60 ارب ڈالر کے لگ بھگ غیرملکی قرضوں کا بھاری بوجھ۔
٭توانائی کا بدترین بحران ۔
٭گذشتہ چار دہائیوں سے ایک بھی بڑا ڈیم تعمیر نہ کرنا۔
٭تجارتی خسارہ۔
٭بجلی ، گیس اور پٹرول جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے جا اضافے۔
٭صنعتی شعبے کی قابلِ رحم حالت اور زیادہ پیداواری لاگت۔
٭پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کا بھاری خسارہ۔
٭امن و امان کی بدترین صورتحال۔
٭ماحولیاتی آلودگی کے بڑھتے ہوئے مسائل۔
٭غربت اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ۔
٭عوامی سطح پر تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان۔
Load Next Story