سفر وسیلۂ ظفر
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے 13 فروری کی رات ہمارے سفر کا آغاز ہوا اور 14 فروری کی صبح ہم مانسہرہ جاپہنچے۔ 18 افراد پر مشتمل سینئر ٹیوٹر آفس کا یہ قافلہ ہر دلعزیز اساتذہ کرام پر مشتمل تھا، جو محض اپنا دل لبھانے کی خاطر گھروں سے نکلے تھے۔
ہمارا پہلا پڑاؤ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں تھا۔ 2002 میں قائم ہونے والا یہ تعلیمی ادارہ، مانسہرہ سے 14 کلومیٹر دور قصبہ ڈھڈیال میں واقع ہے۔ سی پیک روٹ سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر، شاہراہ قراقرم کے پہلو میں موجود ہزارہ یونیورسٹی اپنے اطراف خوبصورت پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی نے ہمارے لیے سِرن ریسٹ ہاؤس کھول دیا تھا۔ ہزارہ ڈویژن میں وادی کاغان کی طرح دیگر خوبصورت وادیاں بھی ہیں اور وادی سرن انہی وادیوں میں سے ایک ہے۔ ہزارہ یونیورسٹی بھی اسی وادی میں واقع ہے اور اسی مناسبت سے ریسٹ ہاؤس کو یہ نام دیا گیا ہے۔ اس نام کی ایک اور نسبت دریائے سِرن بھی ہے جو اسی وادی میں سے گزرتا ہے۔
ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ
ہمیں بتایا گیا کہ 2002 سے قبل یہاں مینٹل اسپتال کے علاوہ محکمہ زراعت کے دفاتر بھی تھے، جنہیں دوسری جگہ منتقل کرکے ہزارہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ یہاں سے ہم نے وادی سرن کے دو خوبصورت مقامات چھتر پلین اور ڈاڈر کا قصد کیا۔
ہماری پہلی منزل چھترپلین تھی۔ ہزارہ یونیورسٹی سے تقریباً 40 کلومیٹر کا سفر ایک گھنٹے میں طے کرنے کے بعد ہم چھترپلین پہنچے۔ چھترپلین کی خوبصورتی کو داد دینے کے بعد ہم نے گاڑی کا رخ ڈاڈر کی طرف موڑ دیا۔ 37 کلومیٹر کا یہ فاصلہ بھی تقریباً ایک گھنٹے میں طے ہوا۔ گاڑی سے اتر کر چند فرلانگ نیچے ہم دریائے سرن کے کنارے جا بیٹھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں 1939 میں ٹی بی مریضوں کے علاج معالجے کےلیے تاریخی سینیٹوریم قائم کیا گیا تھا۔
سینی ٹوریم بمقام ڈاڈر
کہا جاتا ہے کہ اس وقت یہ ایشیا کے بڑے سینیٹوریم میں سے ایک تھا جو 1600 کنال کے رقبے پر قائم کیا گیا تھا۔ 2005 کے زلزلے اور بعد ازاں 2010 کے سیلاب نے سینیٹوریم کی عمارات کو خاصا نقصان پہنچایا لیکن سینیٹوریم کی خستہ حال اور بچی کھچی عمارات آج بھی موجود ہیں، جہاں 20 سال قبل مینٹل اسپتال کو اس وقت منتقل کیا گیا جب ڈھڈیال میں قائم مینٹل اسپتال کا رقبہ، ہزارہ یونیورسٹی کےلیے مختص کردیا گیا تھا۔
اس تاریخی عمارت کی خستہ حالی کو دیکھ کر مجھے بہت رنج ہوا۔ کاش کوئی حکمران اس تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے بارے میں سوچتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ جہاں زندہ انسانوں کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو وہاں ایسی عمارتوں کو کون پوچھتا ہے۔ خستہ حال سینیٹوریم کا رنج اپنی جگہ، لیکن دریائے سرن کے کنارے دیکھنے کو اور بھی بہت کچھ تھا۔ چیڑ اور دیودار کے قدآور درختوں کے نیچے پتھروں پر بیٹھ کر سامنے خوبصورت وادی کا نظارہ کرنا کوئی معمولی تجربہ تھوڑی تھا۔
دریائے سرن بمقام ڈاڈر
دریائے سرن کا پانی جھرنوں کی سی کیفیت لیے ہوئے تھا۔ پانی کی آواز میں کچھ ایسی موسیقی تھی کہ دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے کچھ احباب نے باقاعدہ کنگنانا شروع کردیا۔ آبی اور انسانی موسیقی نے کچھ ایسا سماں باندھا کہ روح سرشار ہوکر جھومنے لگی۔ جھومنے گانے کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ ہمارے پہلو سے کوئی درجن بھر کے قریب بچے گزرے جو سرتاپا، پانی سے بھیگے ہوئے تھے۔ علیک سلیک سے پتا چلا کہ یہ بچے اسی دریا میں نیچے سے نہا کر لوٹے ہیں۔ حد ہوتی ہے ویسے! اتنے تیز پانی میں یہ بچے نہا رہے ہوں گے، کتنی خطرناک بات ہے! پھر چند لمحوں بعد انہی بچوں کے سرپرست بھی نمودار ہوگئے۔ ان سے بات چیت جاری تھی کہ وہاں چند بکریاں کہیں سے چرتی چراتی آگئیں۔ افسوس کہ ہمارے پاس وقت نہیں تھا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کہیں ٹھہرنا چاہتا ہے لیکن وقت کبھی نہیں ٹھہرتا۔ لہٰذا وقت کا تقاضا یہی تھا کہ اب یہاں سے کوچ کیا جائے۔ بس اٹھے اور چل پڑے۔ ہماری اگلی منزل شنکیاری تھی۔ چلتی ہوئی گاڑی کی آواز میں بہت کچھ گڈمڈ ہورہا تھا۔ چیڑ، دیودار اور دیگر پودے پیچھے کو دوڑے جارہے تھا۔
تقریباً آدھ گھنٹے کی مسافت طے ہوئی تو شنکیاری پہنچ گئے۔ ڈرائیور نے قومی تحقیقاتی ادارہ چائے و ہائی ویلیو کراپس کے مین گیٹ پر گاڑی روک دی۔ شام کے 5 بج رہے تھے، تحقیقی ادارے کا عملہ و افسران چھٹی کرکے جاچکے تھے۔ ادارے کے اعلیٰ افسران کے خصوصی تعاون سے گیٹ کھل گیا اور ہم پاکستان کے سب سے بڑے چائے کے تحقیقاتی ادارے میں داخل ہوگئے۔ داخلی دروازے کے عین سامنے چائے کے باغات نے ہمیں خوش آمدید کہا۔
شنکیاری، مانسہرہ میں چائے کے باغات
قطار در قطار، چار چار پانچ پانچ فٹ کے چائے کے پودوں کو انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے تراشا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چائے کے ایک ہی پودے سے گرین چائے، بلیک چائے اور وائٹ چائے تیار کی جاتی ہے۔ اگر آپ چائے کے پودے کی کونپل توڑیں تو اوپر والے پتے سے وائٹ چائے، دوسرے پتے سے گرین چائے اور تیسرے پتے سے بلیک چائے بنتی ہے۔ پتیوں سے چائے بنانے کا پلانٹ بھی اسی ادارے میں موجود ہے جہاں گرین اور بلیک چائے تیار کی جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں مانسہرہ اور سوات کے اضلاع میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ایکڑ رقبہ چائے کی کاشت کےلیے موزوں ہے۔ مقامی طور پر چائے کاشت کرکے ہم سالانہ 600 ملین ڈالر کا زر مبالہ بچا سکتے ہیں۔
چائے کے باغات کے علاوہ یہاں کیوی کے باغات بھی موجود ہیں، جن پر تجربات جاری ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں سیب، آلو بخارہ، لوکاٹ اور جاپانی پھل وغیرہ کے پودے بھی موجود تھے، جن پر موسم کے مطابق پھل بھی لگے ہوئے تھے۔ اس قومی ادارے کے مختصر دورے کے بعد ہزارہ یونیورسٹی دوبارہ لوٹ آئے۔ پہاڑوں میں بسنے والوں کے بارے میں لوگ کچھ بھی کہیں ایک بات تو طے ہے کہ ان کی مہمان نوازی اور استقبالی طبیعت کا کوئی جوڑ نہیں۔ ہمارے ایک میزبان کا خیال تھا کہ مہمانوں کو نزدیکی شہر بفّہ میں تیار ہونے والے کھوّے کا ذائقہ ضرور چکھنا چاہیے۔ ہمیں بتایا گیا کہ بفّہ کی یہ خاص سوغات اپنے منفرد ذائقے کی بدولت پاکستان بھر میں جانی جاتی ہے۔
اگلے دن ہماری گاڑی سی پیک روڈ پر دوڑے جارہی تھی۔ کہیں پہاڑ، کہیں دریا، کہیں ندیاں لیکن مستقل سبزہ۔ گاڑی سرنگ سے گزری تو چائنا سے فارغ التحصیل ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ چائنا کی ٹنل ٹیکنالوجی بہت ترقی یافتہ ہے۔ چائنا میں 60 فیصد رقبہ پہاڑوں پر مشتمل ہے اور چینی ان پہاڑوں میں بڑی کامیابی سے سڑکیں بناتے ہیں۔ ان سرنگوں میں گاڑی کا دوڑنا ہمارے لیے منفرد تجربہ تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ تقریبا ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ڈنگہ گلی جا پہنچیں گے۔ جی ہاں! وہی ڈُنگہ گلی جہاں ایوبیہ نیشنل پارک میں سے پائپ لائن ٹریک بل کھاتا ہوا گزرتا ہے۔ یہ پائپ لائن ٹریک پاکستان کے خوبصورت ترین ٹریک میں سے ایک ہے۔ کہتے ہیں کہ جس نے پائپ لائن ٹریک نہیں دیکھا اس نے گلیات میں کچھ بھی نہیں دیکھا۔
ڈنگہ گلی اور ایوبیہ کو ملاتا ہوا پائپ لائن ٹریک
ساڑھے چار کلومیٹر پر مشتمل یہ ٹریک ڈنگہ گلی اور ایوبیہ کو آپس میں ملاتا ہے۔ ہمارا وفد اس ٹریک کو پار کرنے کےلیے تیار تھا۔ٹکٹ خریدنے کے بعد سب لوگ ٹریک پر موجود تھے۔ اس وادی کا دلفریب نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ گہرائی میں اترتے ہوئے پہاڑوں پر ایستادہ درخت، درختوں پر اٹھکیلیاں کرتے ہوئے پرندے، پرندوں کی چہچہاہٹ، کوہساروں کی بلند چوٹیاں، چوٹیوں پر پھیلا ہوا سبزہ، سبزے سے گلے ملتے ہوئے بادل، بادلوں سے ٹپکتی ہوئی بوندیں، بوندوں سے مَس ہوتے ہوئے چہرے، چہروں پر پھیلتی ہوئی مسکراہٹ، اور مسکراہٹ سے مہکتا ہوا سماں... یہ تو محسوس کرنے کی بات ہے۔ کوئی تنہا بیٹھ کر بھی انجمن میں ہوتا ہے اور کوئی انجمن میں بیٹھا ہوا بھی تنہا ہوتا ہے۔
پائپ لائن ٹریک سے وادی کا نظارہ
زندگی کی تقسیم آپ پائپ لائن ٹریک پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ دیکھیں سامنے دیودار کا ننگ دھڑنگ درخت... ہری بھری شاخوں اور سبز نوکیلے پتوں سے محروم اپنے سوکھے ہوئے بدن کا ماتم کررہا ہے۔ ذرا سنیے دور سے آتی ہوئی کوئل کی کُوک، یوں جیسے کسی بچھڑے ہوئے کا نوحہ پڑھ رہی ہو۔ یہ دیکھیے پہاڑ کے پاؤں پر جمی ہوئی کائی... جسے نہ کوئی دیکھتا ہے اور نہ کوئی دیکھے گا۔ بس یہی زندگی کا راز ہے۔ زندگی کے رازوں پر سے پردہ اٹھانے کy بجائے اس وقت ہمیں ان وادیوں کو داد دینی چاہیے اور پربتوں کی ان شاہزادیوں کو سراہا جانا چاہیے، ہوا کے لمس کو محسوس کیا جانا چاہیے اور بادلوں سے چھنتی ہوئی شعاؤں سے آنکھ مچولی کرنی چاہیے۔
یہ دیکھیے پہاڑ کی بلندی سے پانی گر رہا ہے۔ چلیے ہم اسے آبشار کہتے ہیں۔ ہاتھ آگے بڑھا کر چلو میں پانی بھرا جائے اور پھر ٹھنڈے شفاف پانی سے حلق تر کیا جائے۔ سبحان اللہ! چشموں کے پانی میں واقعی شفا ہے۔ یہ چشمہ سب کےلیے ہے۔ کسی امیر، غریب کی کوئی تفریق نہیں کرتا، نہ کسی چھونے والے کو ٹوکتا ہے اور نہ کسی چّلو بھرنے والے کو روکتا ہے۔ اس کا فیض سب کےلیے جاری ہے۔ یہ چشمہ ہمیں خیر کی دعوت دیتا ہے اور ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
یہ پہاڑ پر کیا لکھا ہوا ہے؟ کون لوگ تھے یہ انگریز... اِن پہاڑوں پر بھی اپنے نقش چھوڑ گئے ہیں۔ پہاڑ کو تراش کر کتنے ہی نام یہاں کندہ کیے گئے ہیں۔ ایک پتھر پر برطانوی رجمنٹ ''رائل اسکاٹس گرے'' کا بیج نقش ہے۔ بیج کے دائیں بائیں غالباً ان فوجیوں کے نام درج ہیں جنہوں نے جنگوں میں شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا ہوگا۔
پائپ لائن ٹریک پر پتھر پہ کندہ کیا گیا رائل اسکاٹس گرے رجمنٹ کا بیج
یہ وہی رجمنٹ ہے جس نے 1848 میں حالیہ ضلع منڈی بہاؤالدین میں پنجابیوں اور سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئی فتح حاصل کی تھی۔ اور اس فتح کے نتیجے میں پنجاب سکھوں کے ہاتھ سے نکل کر انگریزوں کے ماتحت آگیا تھا۔ اسی رجمنٹ نے 1857 میں ہونے والی بغاوت کو کچلا تھا، جب بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے سر کاٹ دیے گئے تھے اور بادشاہ کو رنگون (موجودہ برما) میں قید کردیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس رجمنٹ کے کارناموں کو انگریزوں سے زیادہ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں اس بات کا احساس رہے کہ ''ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات''۔
دوسرے پہاڑ کے سینے پر بھی کئی دیگر رجمنٹوں کے بَیج کندہ ہیں۔ جس طرح ان پتھروں پر برطانوی راج کے نشانات موجود ہیں، اسی طرح ہماری زندگیوں میں بھی نوآبادیاتی دور کی نشانیاں باقی ہیں۔ اب یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ ان نشانات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ فی الحال آپ سامنے والے بنچوں پر بیٹھیں، وادی کا نظارہ کریں تاکہ تازہ دم ہوکر آگے بڑھا جاسکے۔
لیجیے! ساڑھے 4 کلومیٹر کا پائپ لائن ٹریک ختم ہوا۔ یہاں سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر 130 سال پرانی موٹو ٹنل ہے، جسے 2 سال قبل تعمیر نو کے بعد سیاحوں کےلیے کھولا گیا تھا۔ 250 فٹ لمبی یہ ٹنل انگریزوں نے پہاڑ کے آرپار، ایوبیہ اور خیرا گلی میں آنے جانے کےلیے بنائی تھی۔
موٹو ٹنل
ہم بھی ٹنل پار کرکے خیرا گلی میں جانکلے۔ یہاں سے ذرا اوپر ایوبیہ کے ہوٹل تھے، جہاں دال روٹی کی جاسکتی تھی۔ ابھی کھانا کھا رہے تھے کہ موسم بدل گیا۔ پہاڑ کی چوٹیوں سے الجھنے والے بادل، تیز ہوا کے دوش پر ہماری طرف دوڑے چلے آرہے تھے۔ بارش کے چھینٹے پڑے تو موسم اور ٹھنڈا ہوگیا۔ سب نے اپنے اپنے بیگ ٹٹولے اور سردی سے بچاؤ کا سر بند کیا۔ ایسے موسم میں چائے پینے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ شام ڈھل چکی تھی۔ پہاڑوں کے پیچھے چھپتے ہوئے سورج کی کرنیں ہمیں الوداع کہہ رہی تھیں۔ بادلوں سے اَٹے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے، اٹھکیلیاں کرتی ہوئی تیز ہوا میں کھڑے ہوکر چائے کی چسکیاں لی گئیں اور گاڑی میں بیٹھ کر خانص پور کی طرف روانہ ہوگئے۔
گاڑی سے اتر کر ایک دو فرلانگ پیدل چلے تو سامنے ورجن میری کیتھولک چرچ کو ایستادہ پایا۔ برطانوی راج کی علامت، اس چرچ کی تعمیر کا آغاز 1901 میں ہوا تھا۔ چرچ کے آس پاس رہائش کےلیے ریسٹ ہاؤس بھی بنے ہوئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خانص پور کو ہِل اسٹیشن کے طور پر استعمال کرنے والے برطانوی افسروں کی مذہبی ضروریات کے پیش نظر یہ چرچ بنایا گیا ہوگا۔
ورجن میری کیتھولک چرچ بمقام خانص پور
شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔ گاڑی کوزہ گلی کی طرف روانہ تھی۔ ٹور کی آخری رات ہمارا قیام کوزہ گلی میں تھا۔ ہوٹل کے سامنے والا پہاڑ اپنی پوری ہیبت کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ پہاڑ کے اس پار گہرا جنگل تھا اور جنگل میں گہری خاموشی تھی۔ اس خاموشی میں کبھی کبھار کوئی سرسراہٹ سی سنائی دیتی۔ کوزہ گلی کی رات، کسی دوشیزہ کے سرمئی آنچل کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ آسمان پر کہیں کہیں ٹانکے ہوئے ستارے رات کی خوبصورتی میں اضافہ کررہے تھے۔ بہت سی غمزدہ راتوں کی طرح یہ خوبصورت رات بھی گزر جائے گی۔ سچ کہتے ہیں کہ وقت کبھی نہیں ٹھہرتا۔ یہ لمحہ لمحہ ریت کی طرح، مُٹھی سے سرکتا رہتا ہے۔ انسان چلتا رہتا ہے، انسان ڈھلتا رہتا ہے، آنے والے کل کےلیے۔
پہاڑ کی دوسری طرف سب احباب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سورج کی کرنیں اپنے ہونے کا احساس دلا رہی تھیں۔ جنگل کے بندر اپنے بال بچوں سمیت سڑک کنارے آبیٹھے تھے۔ سڑک سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کے شور اور بندروں کی بھاگ دوڑ نے ماحول میں چستی سی پیدا کر رکھی تھی۔ آج ہماری منزل کیری سرافالی کا گاؤں تھا جو یہاں سے کوئی پون گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ سب احباب پہاڑی دیہات کی سیر کےلیے پُرجوش تھے۔ گاڑی نیچے وادی میں اترتی چلی جارہی تھی۔ سڑک کے ایک طرف گہرا جنگل تھا اور دوسری جانب پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر پھیلی ہوئی بستیاں۔ ہم نے انہی بستیوں میں سے ایک بستی تک پہنچنا تھا۔
آلوبخارہ، خوبانی اور املوک وغیرہ کے درختوں میں چھپا ہوا کیری سرافالی کا گاؤں
پہاڑوں سے پھوٹتے ہوئے چشموں کا ٹھنڈا پانی جگہ جگہ ہمارا راستہ کاٹ رہا تھا۔ ایک چشمے پر گاڑی رکی تو سب نے سیر ہوکر پانی پیا۔ گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ متصل جنگل شیر، چیتے اور تیندوے سمیت کئی طرح کے جانوروں کی آماجگاہ ہے۔ جنگلی درندے، جنگلی جانوروں کے ساتھ ساتھ پالتو جانوروں کا شکار بھی کرتے ہیں۔ محکمہ وائلڈ لائف نے ان درندوں کو گولی مارنے سے منع کر رکھا ہے۔ شکار ہونے والے پالتو جانور کے مالک کو کسی حد تک زرِ تلافی مل جاتا ہے۔ گزشتہ 6 مہینے میں کیری سرافالی کی کوئی چالیس پچاس گائیں ان گوشت خور درندوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اگرچہ یہ درندے انسانوں پر حملہ نہیں کرتے لیکن پھر بھی خدشہ تو موجود رہتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں انسانوں کو نقصان پہنچنے کے اِکا دُکا واقعات بھی ہوئے ہیں۔ ایک مقام سے آگے گاڑی نہیں جاسکتی تھی اس لیے ہم گاڑی سے اتر کر پیدل اس گاؤں کی طرف چل پڑے۔
ہم جیسے میدانی علاقوں میں بسنے والوں نے، شاہراہوں سے گزرتے ہوئے پہاڑی بستیوں کو دور سے تو دیکھا ہی ہوتا ہے، لیکن ان بستیوں میں اتر کر، بستیوں کے گھروں میں بیٹھ کر ان کی قربت کو محسوس نہیں کیا ہوتا۔ بس آج ہم کچھ ایسا ہی کرنے چلے تھے۔ بلندی سے اتر کر پہاڑ کی جڑوں میں گاؤں آباد تھا اور ہم سب اس گاؤں تک پہنچنے کےلیے کمربستہ تھے۔ غیر ہموار اور ٹیڑھے میڑھے راستوں پر اٹھنے والا ہر قدم ہمیں بستی کے قریب سے قریب تر کیے جارہا تھا۔ املوک، آلو بخارہ، خوبانی، اخروٹ اور شہتوت کے درخت ہمارے استقبال کےلیے راستے میں کھڑے تھے۔ ہم ان درختوں کے نیچے اور دائیں بائیں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ پہاڑ کی کوکھ میں سیدھے کیے گئے سیڑھی نما زمین کے ٹکڑے زراعت کےلیے مختص تھے، جہاں مکئی اور سبزیات وغیرہ کی کاشت کی جاسکتی ہے۔ دیہاتیوں نے اپنے اپنے گھروں کے باہر پھل دار درخت لگا رکھے تھے۔ خوبانی اور آلوبخارے کے پودے پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ مہمان نواز ی کی خاطر ہمارے میزبان نے خوبانی کے پودے کو جھنجھوڑا تو زمین پر پھلوں کی بارش ہونے لگی۔ زمین سے خوبانی اٹھا کر کھانے کا بھی اپنا ہی لطف ہے۔ بچپن میں ہم بالکل ایسے ہی بیر کھایا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت بیری کے مالک کا خطرہ ہمیشہ سر پر موجود رہتا تھا، آج تو ہم مالک کی دعوت پر خوبانی کھانے آئے تھے۔ پھلوں کی مٹھاس سے میزبان کا خلوص ٹپک رہا تھا۔ اُدھر ایک بچہ آلو بخارے کے درخت پر چڑھا ہوا تھا۔ وہ رسیلے آلو بخارے توڑ توڑ کر مہمانوں کو کیچ کروا رہا تھا۔
ہمیں آج پتا چلا کہ میدانی اور پہاڑی علاقے کے گھروں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی فرق تھا تو وہ میزبان کی گرم جوشی کا تھا۔ جس محبت اور اصرار کے ساتھ ہمیں چائے پیش کی جارہی تھی وہ انہی لوگوں کا خاصا ہوسکتا ہے۔ چائے پیتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا تو بادل امڈتے ہوئے نظر آئے۔ ویسے پہاڑوں میں بادلوں کا آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن ان بادلوں کا موڈ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ بادلوں کی گرج چمک نے ہماری تشویش میں اور اضافہ کردیا۔ ہم چاہتے تھے کہ بارش سے پہلے پہلے کھلے راستوں تک جاپہنچیں۔ لہٰذا اب میزبان سے اجازت لینے کا وقت تھا۔ بس پھر کیا تھا! اٹھے اور اٹھ کے چل دیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔