پیپلز پارٹی کا دیرینہ خواب پورا
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے میئرکا عہدہ حاصل کرنا پیپلز پارٹی کا دیرینہ خواب تھا جو اس نے اپنی منصوبہ بندی کے تحت حاصل کرلیا اور وہ کراچی ہی نہیں بلکہ حیدر آباد کی میئرشپ حاصل کرنے میں کامیاب رہی، اس طرح شہری علاقے کہلانے والے کراچی اور حیدرآباد کی مقامی حکومتیں پیپلز پارٹی نے حاصل کرلی ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے قیام کے 55 سال بعد اب یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ دیہی سندھ ہی کی نہیں بلکہ شہری سندھ کی بھی نمایندہ جماعت بن چکی ہے اور ایم کیو ایم کا شہری سندھ کی نمایندگی کا دعویٰ اب سرکاری طور پر ختم ہو گیا ہے۔
سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، نوابشاہ اور میرپور خاص شہری سندھ کہلاتے تھے جہاں ماضی میں ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی و میئرز منتخب ہوتے رہے تھے جب کہ سکھر سے ایم کیو ایم کا دعویٰ پہلے ہی ختم ہو چکا تھا اور سکھر کا گزشتہ میئر بھی پیپلز پارٹی کا تھا جو دوبارہ بھی میئر منتخب ہو چکا ہے۔
جن کے والد اور چچا بھی سکھر کے میئر رہے ہیں اور اب ایم کیو ایم کے چاروں شہری علاقوں کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور نوابشاہ کے جو میئر منتخب ہوئے ہیں ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیے مشہور ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کے بعد دیہی سندھ اورکراچی کے دیہی علاقوں کی پارٹی بن چکی تھی اور وہی علاقے اس کا ووٹ بینک بھی تھے اور وہاں کے لوگ پیپلز پارٹی کو اپنی پارٹی قرار دیتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے جہاں اس کا ووٹ بینک تھا اس کی حالت بدلی ہے۔
اندرون سندھ میں ترقی بھی ہوئی وہاں کے لوگوں کو سرکاری ملازمتیں بھی دی گئیں جس کی وجہ سے وہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ مضبوط ہوا۔ اندرون سندھ کے اضلاع میں جی ڈی اے، جے یو آئی اور قوم پرست پارٹیاں پیپلز پارٹی کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں اور انتخابات میں ناکام رہیں، صرف پیرپگاڑا کے حامی علاقوں میں مسلم لیگ (ف) کا ووٹ بینک تھا۔
جہاں سے جی ڈی اے متحد ہو کر بھی پیپلز پارٹی کا موثر مقابلہ کرنے میں ناکام رہی اور آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں جتنی کامیابی حاصل کی اتنی کامیابی گزشتہ پندرہ سالوں میں پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور اور حکومتوں میں بھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔
یہ بھی ریکارڈ ہے کہ بھٹو حکومت اور بے نظیر حکومتوں میں دو بار سندھ میں لسانی فسادات ہوئے تھے جس کی وجہ سے اندرون سندھ سے کراچی اور حیدرآباد میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی تھی جو اردو بولنے والوں کی تھی جس پر ایم کیو ایم نے سیاسی فائدہ ضرور اٹھایا تھا مگر نقل مکانی کرنے والوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی جب کہ ایم کیو ایم کی وجہ سے ہی اندرون سندھ سے نقل مکانی ہوئی تھی جس کے ذمے دار قوم پرست بھی تھے اور پیپلز پارٹی بھی نقل مکانی کرانے میں حصہ دار تھی مگر 2008 کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ میں تیسری حکومت ہے جس میں سندھ میں کوئی لسانی فساد نہیں ہوا جس کا کریڈٹ آصف زرداری کی سیاست کا ہے جن کی ہدایت پر مراد علی شاہ کی حکومت ان کے والد عبداللہ شاہ سے مختلف ہے جب کہ عبداللہ شاہ کی حکومت میں ایم کیو ایم کو کچلا گیا کراچی میں لسانی کشیدگی بڑھی تھی مگر 15 سالوں سے اب پہلے جیسی صورت حال نہیں۔
پی پی دور کے سابق صوبائی وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے بھی سندھ میں اپنے اقدامات سے حالات خراب کیے تھے۔ اندرون سندھ سے لوگوں کو کراچی منتقل کرایا تھا مگر ان کو بعد میں لاوارث چھوڑ دیا تھا اور سندھ میں امن برقرار رکھنے کے لیے ذوالفقار مرزا کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی گئی تھی جس سے کراچی کی صورت حال میں بہتری آئی تھی۔ ایم کیو ایم کا یہ الزام درست ہے کہ کراچی انتظامیہ میں سارے افسر باہر کے غیر مقامی ہیں۔
اردو بولنے والوں کے لیے سرکاری ملازمتیں نچلی سطح پر صرف پی پی کے حامیوں کو ملیں اور اندرون سندھ کے لوگوں کو کراچی کے ڈومیسائل پر سرکاری نوکریاں دے کر شہری علاقوں کو محروم رکھا گیا جواب میں پی پی کا موقف ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو سیاسی طور پر ملازمتیں فراہم کیں۔
صرف کراچی کو دیکھ لیا جائے تو ایم کیو ایم کا الزام درست لگتا ہے کہ کراچی میں کمشنر سے اسسٹنٹ کمشنروں اور صوبائی سیکریٹریوں، میونسپل و دیگر محکموں کے اکثر افسران کا تعلق اندرون سندھ سے ہے ۔ کراچی میں پولیس کے محکمے میں بھی مقامی افراد برائے نام ہیں۔
بھٹو دور میں اردو بولنے والی ممتاز شخصیات پیپلز پارٹی میں شامل ہوئی تھیں جو نظر انداز کیے جانے اور ممتاز بھٹو کی لسانی سیاست اور 1972 کے لسانی ہنگاموں کے باعث الگ ہوگئے تھے جس کے بعد اردو بولنے والوں کو پی پی میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور پہلی بار پی پی نے کراچی کے اپنے حامی اردو بولنے والے اپنے دیرینہ گھرانے کے مرتضیٰ وہاب کو اپنا میئر منتخب کرا تو لیا ہے اور اس کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا ہے جس کے بعد اب پی پی کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی اور اردو بولنے والوں کو پی پی میں لانے کے لیے ان کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا اور کراچی کے ساتھ سالوں سے جاری ناانصافیاں ختم کرکے کراچی کو اہمیت دینا ہوگی۔
پیپلز پارٹی اپنے قیام کے 55 سال بعد اب یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ دیہی سندھ ہی کی نہیں بلکہ شہری سندھ کی بھی نمایندہ جماعت بن چکی ہے اور ایم کیو ایم کا شہری سندھ کی نمایندگی کا دعویٰ اب سرکاری طور پر ختم ہو گیا ہے۔
سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، نوابشاہ اور میرپور خاص شہری سندھ کہلاتے تھے جہاں ماضی میں ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی و میئرز منتخب ہوتے رہے تھے جب کہ سکھر سے ایم کیو ایم کا دعویٰ پہلے ہی ختم ہو چکا تھا اور سکھر کا گزشتہ میئر بھی پیپلز پارٹی کا تھا جو دوبارہ بھی میئر منتخب ہو چکا ہے۔
جن کے والد اور چچا بھی سکھر کے میئر رہے ہیں اور اب ایم کیو ایم کے چاروں شہری علاقوں کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور نوابشاہ کے جو میئر منتخب ہوئے ہیں ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیے مشہور ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کے بعد دیہی سندھ اورکراچی کے دیہی علاقوں کی پارٹی بن چکی تھی اور وہی علاقے اس کا ووٹ بینک بھی تھے اور وہاں کے لوگ پیپلز پارٹی کو اپنی پارٹی قرار دیتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے جہاں اس کا ووٹ بینک تھا اس کی حالت بدلی ہے۔
اندرون سندھ میں ترقی بھی ہوئی وہاں کے لوگوں کو سرکاری ملازمتیں بھی دی گئیں جس کی وجہ سے وہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ مضبوط ہوا۔ اندرون سندھ کے اضلاع میں جی ڈی اے، جے یو آئی اور قوم پرست پارٹیاں پیپلز پارٹی کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں اور انتخابات میں ناکام رہیں، صرف پیرپگاڑا کے حامی علاقوں میں مسلم لیگ (ف) کا ووٹ بینک تھا۔
جہاں سے جی ڈی اے متحد ہو کر بھی پیپلز پارٹی کا موثر مقابلہ کرنے میں ناکام رہی اور آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں جتنی کامیابی حاصل کی اتنی کامیابی گزشتہ پندرہ سالوں میں پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور اور حکومتوں میں بھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔
یہ بھی ریکارڈ ہے کہ بھٹو حکومت اور بے نظیر حکومتوں میں دو بار سندھ میں لسانی فسادات ہوئے تھے جس کی وجہ سے اندرون سندھ سے کراچی اور حیدرآباد میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی تھی جو اردو بولنے والوں کی تھی جس پر ایم کیو ایم نے سیاسی فائدہ ضرور اٹھایا تھا مگر نقل مکانی کرنے والوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی جب کہ ایم کیو ایم کی وجہ سے ہی اندرون سندھ سے نقل مکانی ہوئی تھی جس کے ذمے دار قوم پرست بھی تھے اور پیپلز پارٹی بھی نقل مکانی کرانے میں حصہ دار تھی مگر 2008 کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ میں تیسری حکومت ہے جس میں سندھ میں کوئی لسانی فساد نہیں ہوا جس کا کریڈٹ آصف زرداری کی سیاست کا ہے جن کی ہدایت پر مراد علی شاہ کی حکومت ان کے والد عبداللہ شاہ سے مختلف ہے جب کہ عبداللہ شاہ کی حکومت میں ایم کیو ایم کو کچلا گیا کراچی میں لسانی کشیدگی بڑھی تھی مگر 15 سالوں سے اب پہلے جیسی صورت حال نہیں۔
پی پی دور کے سابق صوبائی وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے بھی سندھ میں اپنے اقدامات سے حالات خراب کیے تھے۔ اندرون سندھ سے لوگوں کو کراچی منتقل کرایا تھا مگر ان کو بعد میں لاوارث چھوڑ دیا تھا اور سندھ میں امن برقرار رکھنے کے لیے ذوالفقار مرزا کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی گئی تھی جس سے کراچی کی صورت حال میں بہتری آئی تھی۔ ایم کیو ایم کا یہ الزام درست ہے کہ کراچی انتظامیہ میں سارے افسر باہر کے غیر مقامی ہیں۔
اردو بولنے والوں کے لیے سرکاری ملازمتیں نچلی سطح پر صرف پی پی کے حامیوں کو ملیں اور اندرون سندھ کے لوگوں کو کراچی کے ڈومیسائل پر سرکاری نوکریاں دے کر شہری علاقوں کو محروم رکھا گیا جواب میں پی پی کا موقف ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو سیاسی طور پر ملازمتیں فراہم کیں۔
صرف کراچی کو دیکھ لیا جائے تو ایم کیو ایم کا الزام درست لگتا ہے کہ کراچی میں کمشنر سے اسسٹنٹ کمشنروں اور صوبائی سیکریٹریوں، میونسپل و دیگر محکموں کے اکثر افسران کا تعلق اندرون سندھ سے ہے ۔ کراچی میں پولیس کے محکمے میں بھی مقامی افراد برائے نام ہیں۔
بھٹو دور میں اردو بولنے والی ممتاز شخصیات پیپلز پارٹی میں شامل ہوئی تھیں جو نظر انداز کیے جانے اور ممتاز بھٹو کی لسانی سیاست اور 1972 کے لسانی ہنگاموں کے باعث الگ ہوگئے تھے جس کے بعد اردو بولنے والوں کو پی پی میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور پہلی بار پی پی نے کراچی کے اپنے حامی اردو بولنے والے اپنے دیرینہ گھرانے کے مرتضیٰ وہاب کو اپنا میئر منتخب کرا تو لیا ہے اور اس کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا ہے جس کے بعد اب پی پی کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی اور اردو بولنے والوں کو پی پی میں لانے کے لیے ان کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا اور کراچی کے ساتھ سالوں سے جاری ناانصافیاں ختم کرکے کراچی کو اہمیت دینا ہوگی۔