یکم مئی انقلابی جدوجہد …
یکم مئی 1886ء کو ’’شکاگو‘‘ کے مزدوروں نے جو 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کیا تھا آج ان مزدوروں کی قربانیوں کا ثمر ہے
دنیا بھر میں یکم مئی بڑی شان و شوکت اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ نے مزدوروں کے ساتھ جو روش آج سے128سال پہلے اپنائی ہوئی تھی اس میں بظاہر تبدیلی تو ضرور آ ئی ہے لیکن مزدوروں کے مسائل آج بھی اپنی جگہ برقرار ہیں جو اختتام پذیر ہونے کا نام نہیں لیتے کیونکہ قوانین تو بہت بنائے گئے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کرانا حکمرانوں کے بس سے باہر ہے یہاں تک کے اعلیٰ عدلیہ نے بھی بار بار مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے قوانین پر سختی سے عمل در آمد کر نے کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔
مثال کے طور پر بھٹہ مزدروروں کے لیے سوشل سیکیورٹی کارڈ بنانے میں محکمہ لیبر اور ضلعی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت جاری ہے ۔ 7 جولائی 2013ء کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بینچ نے چیف سیکریٹری پنجاب کو آرڈر جاری کیا تھا کہ2 ہفتوں کے اندر تمام بھٹوں کو رجسٹر کر تے ہوئے بھٹہ مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کیے جائیں۔ جس کے لیے مالکان سے Contribution لینا بھی محکمے کی ذمے داری ہو گی۔
اس کے علاوہ آئی جی پنجاب کو آرڈر کر تے ہوئے تمام اضلاع کے پولیس آفیسرز کو پابند کیا گیا کہ اگر بانڈ ڈ لیبر ایکٹ کی کسی بھی بھٹے پر خلاف ورزی ہو تی ہے یا کسی مزدور سے جبراً کام لیا جا تا ہے تو آپ ذمے دار ہوں گے، یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جا ری کیے گئے احکامات کے مطابق تمام متعلقہ افسران کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ خود دورے کریں، بھٹوں اور بھٹہ ورکرز کی رجسٹریشن، کم از کم اجرتوں پر عمل درآمد، سوشل سیکیورٹی کارڈ کا اجراء، جبری مشقت سے متعلق معاملات پر فوری ایکشن لے کر مالکان کو پابند بنائیں۔ افسوس کہ پاکستان میں موجود فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر صرف اپنے مفادات کی زبان سمجھتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے مزدوروں کو اینٹوں کی بھٹیوں میں بھی جھونکنے سے بھی گریز نہیں کرتے، انھیں صرف دولت کمانے سے مطلب ہے۔
عدالتیں کتنے ہی مزدور دوست فیصلے کیوں نہ کر لیں لیکن جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے یہ لفظوں کے کھیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج تک کسی حکمران نے بھی مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی مثبت اقدامات نہیں کیے، اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ بیشتر حکمرانوں اور سیاستدانوں کا تعلق فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر سے ہے یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کے مسائل پاکستان میں جوں کے توں نظر آتے ہیں۔ یہی وہ سوالات ہیں جو ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ اس ملک میں فرسودہ نظام کا خاتمہ کیے بغیر مزدوروں کے مسائل کا حل ناممکن ہے۔ لہٰذا عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے شعور کو بیدار کریں تا کہ ان عناصر سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
یکم مئی مزدوروں کے حقوق کے لیے بڑی اہمیت کا حامل دن ہے یہ دن آج سے تقریباً125سال پہلے ''شکاگو''کے مزدوروں کی لازوال قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے استحصالی عناصر کے خلاف بغاوت کا نعرہ بلند کیا۔ یہ بغاوت اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے کی گئی تھی کیونکہ سرمایہ دار طبقہ نے مزدوروں کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال رکھا تھا۔ مزدوروں کو سیکڑوں سال اپنے آقاؤں کی من مانی سہنی پڑی۔ ایک طویل عرصہ گذرنے کے بعد ''شکاگو'' کے مزدوروں نے اپنے حقوق کے حصول اور غلامی سے نجات کے لیے جب علم بغاوت بلند کیا تو ان غریب محنت کشوں کے ساتھ وقت کے فرعونوں نے ظلم و جبر کی وہ داستانیں رقم کیں کہ جنھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
''شکاگو'' کے مزدوروں نے جب اپنے حقوق مانگے تو ظالم حکمران طبقہ نے نہتے مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جسکے نتیجے میں ان گنت مزدوروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ان غریب محنت کشوں کا یہ ساری دنیا کے مزدوروں پر احسان در احسان ہے کیونکہ مزدوروں سے 24 گھنٹوں میں سے 16، 16 گھنٹے مشقت لی جاتی تھی جب کہ ان کی اجرت نہ وقت پر دی جاتی تھی اور نہ ہی ان کی مزدوری کے حساب سے اُن کا جائز حصہ دیا جاتا تھا یوں سمجھ لیجیے کہ سرمایہ دار طبقہ نے مزدوروں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ یہ وہ المیہ ہے جسے بیان کرتے وقت مزدوروں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں ان مزدوروں کی قربانیوں تا دم مرگ یاد رکھنا ہو گا کیونکہ جو لوگ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرتی۔
یکم مئی 1886ء کو ''شکاگو'' کے مزدوروں نے جو 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کیا تھا آج ان مزدوروں کی قربانیوں کا ثمر ہے جو ہمیں مل رہا ہے۔ مزدوروں کی اس لازوال جدوجہد کے بعد دنیا کے تمام بڑے انقلابات میں مزدور طبقے نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے جن میں انقلابِ فرانس سے لے کر انقلاب روس، عراق میں تبدیلی، برصغیر کی آزادی کی تحریکیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں جتنی بھی فوجی آمریت اور جمہوری آمریت آئی ہیں ان کے خلاف مزدور طبقے نے بھر پور مزاحمت کی ہے تا کہ جمہوریت کا بول بالا ہو۔ مزدور طبقہ ہی وہ قوت ہے جو جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے اور دنیا بھر میں آج تک وہی حکمران کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے مزدور طبقے کا دل جیتا ہے۔ اعداد و شمار کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے دنیا بھر میں 2 فیصد سرمایہ دار طبقہ ہے جب کہ دنیا بھر میں مزدور طبقے کا تناسب 98 فیصد ہے۔
دنیا کے کسی بھی حصے میں مزدور طبقے کے مسائل یکساں ہیں اگر مزدور طبقہ اپنی یکجہتی کی طاقت کو بروئے کار لائے تو اپنے مسائل کو بآسانی حل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں پھر 1886ء کی تاریخ کو دوہرانا ہو گا اور انقلاب کو برپا کرنے کے لیے ہر سطح پر سرمایہ دار طبقے کا بائیکاٹ کرنا ہو گا جب تک ہم غلامی کا طوق اپنے گلوں سے اتار کر نہیں پھینکیں گے تب تک حکمران طبقہ اپنی من مانی کرتا رہیگا لیکن اس کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا کیونکہ متحد ہونا انقلاب کا باعث بنتا ہے اور انقلاب مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے یہی وہ قدم ہے جو ہمیں سرمایہ دار طبقے کی غلامی سے نجات دلانے کا باعث بنے گا۔
پاکستان میں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ایک پرچم تلے جمع ہو چکے ہیں اور ایوانوں میں ان کے نمایندگان پہنچ چکے ہیں جب کہ غریب و متوسط طبقے کے لوگ حق پرست جماعت کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہے۔ سندھ سے یہ انقلاب پورے پاکستان یہاں تک کہ آزاد کشمیر میں بھی داخل ہو چکا ہے اس لیے سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔
پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں وہی سب کچھ دہرایا گیا ہے جو انقلاب روس و فرانس کی وجوہات بنا تھا۔ آج پاکستان میں غربت و مہنگائی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور آئے دن پیٹرول، گیس، بجلی اور روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں جو غریب محنت کش کے لیے موت کا باعث ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے یہ سرمایہ دار طبقہ اپنی روش تبدیل کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ مزدوروں کا یہ سمندر انھیں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے۔
مثال کے طور پر بھٹہ مزدروروں کے لیے سوشل سیکیورٹی کارڈ بنانے میں محکمہ لیبر اور ضلعی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت جاری ہے ۔ 7 جولائی 2013ء کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بینچ نے چیف سیکریٹری پنجاب کو آرڈر جاری کیا تھا کہ2 ہفتوں کے اندر تمام بھٹوں کو رجسٹر کر تے ہوئے بھٹہ مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کیے جائیں۔ جس کے لیے مالکان سے Contribution لینا بھی محکمے کی ذمے داری ہو گی۔
اس کے علاوہ آئی جی پنجاب کو آرڈر کر تے ہوئے تمام اضلاع کے پولیس آفیسرز کو پابند کیا گیا کہ اگر بانڈ ڈ لیبر ایکٹ کی کسی بھی بھٹے پر خلاف ورزی ہو تی ہے یا کسی مزدور سے جبراً کام لیا جا تا ہے تو آپ ذمے دار ہوں گے، یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جا ری کیے گئے احکامات کے مطابق تمام متعلقہ افسران کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ خود دورے کریں، بھٹوں اور بھٹہ ورکرز کی رجسٹریشن، کم از کم اجرتوں پر عمل درآمد، سوشل سیکیورٹی کارڈ کا اجراء، جبری مشقت سے متعلق معاملات پر فوری ایکشن لے کر مالکان کو پابند بنائیں۔ افسوس کہ پاکستان میں موجود فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر صرف اپنے مفادات کی زبان سمجھتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے مزدوروں کو اینٹوں کی بھٹیوں میں بھی جھونکنے سے بھی گریز نہیں کرتے، انھیں صرف دولت کمانے سے مطلب ہے۔
عدالتیں کتنے ہی مزدور دوست فیصلے کیوں نہ کر لیں لیکن جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے یہ لفظوں کے کھیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج تک کسی حکمران نے بھی مزدوروں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی مثبت اقدامات نہیں کیے، اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ بیشتر حکمرانوں اور سیاستدانوں کا تعلق فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر سے ہے یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کے مسائل پاکستان میں جوں کے توں نظر آتے ہیں۔ یہی وہ سوالات ہیں جو ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ اس ملک میں فرسودہ نظام کا خاتمہ کیے بغیر مزدوروں کے مسائل کا حل ناممکن ہے۔ لہٰذا عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے شعور کو بیدار کریں تا کہ ان عناصر سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
یکم مئی مزدوروں کے حقوق کے لیے بڑی اہمیت کا حامل دن ہے یہ دن آج سے تقریباً125سال پہلے ''شکاگو''کے مزدوروں کی لازوال قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے استحصالی عناصر کے خلاف بغاوت کا نعرہ بلند کیا۔ یہ بغاوت اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے کی گئی تھی کیونکہ سرمایہ دار طبقہ نے مزدوروں کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال رکھا تھا۔ مزدوروں کو سیکڑوں سال اپنے آقاؤں کی من مانی سہنی پڑی۔ ایک طویل عرصہ گذرنے کے بعد ''شکاگو'' کے مزدوروں نے اپنے حقوق کے حصول اور غلامی سے نجات کے لیے جب علم بغاوت بلند کیا تو ان غریب محنت کشوں کے ساتھ وقت کے فرعونوں نے ظلم و جبر کی وہ داستانیں رقم کیں کہ جنھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
''شکاگو'' کے مزدوروں نے جب اپنے حقوق مانگے تو ظالم حکمران طبقہ نے نہتے مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جسکے نتیجے میں ان گنت مزدوروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ان غریب محنت کشوں کا یہ ساری دنیا کے مزدوروں پر احسان در احسان ہے کیونکہ مزدوروں سے 24 گھنٹوں میں سے 16، 16 گھنٹے مشقت لی جاتی تھی جب کہ ان کی اجرت نہ وقت پر دی جاتی تھی اور نہ ہی ان کی مزدوری کے حساب سے اُن کا جائز حصہ دیا جاتا تھا یوں سمجھ لیجیے کہ سرمایہ دار طبقہ نے مزدوروں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ یہ وہ المیہ ہے جسے بیان کرتے وقت مزدوروں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ہمیں ان مزدوروں کی قربانیوں تا دم مرگ یاد رکھنا ہو گا کیونکہ جو لوگ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرتی۔
یکم مئی 1886ء کو ''شکاگو'' کے مزدوروں نے جو 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کیا تھا آج ان مزدوروں کی قربانیوں کا ثمر ہے جو ہمیں مل رہا ہے۔ مزدوروں کی اس لازوال جدوجہد کے بعد دنیا کے تمام بڑے انقلابات میں مزدور طبقے نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے جن میں انقلابِ فرانس سے لے کر انقلاب روس، عراق میں تبدیلی، برصغیر کی آزادی کی تحریکیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں جتنی بھی فوجی آمریت اور جمہوری آمریت آئی ہیں ان کے خلاف مزدور طبقے نے بھر پور مزاحمت کی ہے تا کہ جمہوریت کا بول بالا ہو۔ مزدور طبقہ ہی وہ قوت ہے جو جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے اور دنیا بھر میں آج تک وہی حکمران کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے مزدور طبقے کا دل جیتا ہے۔ اعداد و شمار کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے دنیا بھر میں 2 فیصد سرمایہ دار طبقہ ہے جب کہ دنیا بھر میں مزدور طبقے کا تناسب 98 فیصد ہے۔
دنیا کے کسی بھی حصے میں مزدور طبقے کے مسائل یکساں ہیں اگر مزدور طبقہ اپنی یکجہتی کی طاقت کو بروئے کار لائے تو اپنے مسائل کو بآسانی حل کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انھیں پھر 1886ء کی تاریخ کو دوہرانا ہو گا اور انقلاب کو برپا کرنے کے لیے ہر سطح پر سرمایہ دار طبقے کا بائیکاٹ کرنا ہو گا جب تک ہم غلامی کا طوق اپنے گلوں سے اتار کر نہیں پھینکیں گے تب تک حکمران طبقہ اپنی من مانی کرتا رہیگا لیکن اس کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا کیونکہ متحد ہونا انقلاب کا باعث بنتا ہے اور انقلاب مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے یہی وہ قدم ہے جو ہمیں سرمایہ دار طبقے کی غلامی سے نجات دلانے کا باعث بنے گا۔
پاکستان میں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ایک پرچم تلے جمع ہو چکے ہیں اور ایوانوں میں ان کے نمایندگان پہنچ چکے ہیں جب کہ غریب و متوسط طبقے کے لوگ حق پرست جماعت کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہے۔ سندھ سے یہ انقلاب پورے پاکستان یہاں تک کہ آزاد کشمیر میں بھی داخل ہو چکا ہے اس لیے سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔
پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں وہی سب کچھ دہرایا گیا ہے جو انقلاب روس و فرانس کی وجوہات بنا تھا۔ آج پاکستان میں غربت و مہنگائی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور آئے دن پیٹرول، گیس، بجلی اور روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں جو غریب محنت کش کے لیے موت کا باعث ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے یہ سرمایہ دار طبقہ اپنی روش تبدیل کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ مزدوروں کا یہ سمندر انھیں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے۔