محنت کشوں کا استحصال …
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ریاست کے اداروں کی پالیسیاں دستور کی روشنی میں مرتب کی جاتی ہیں۔۔۔
محنت کشوں کے عالمی تہوار یکم مئی پر دنیا بھر کی مزدور تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں 1886ء کے مزدور شہدا کو ان کی بے مثال قربانی پر ریلیاں اور جلسے منعقد کر کے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس بات کا عہد بھی کرتے ہیں ان کی جدوجہد کی روشنی میں محنت کشوں کے جائز حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز کو بلند کیا جائے۔ اس تناظر میں ہم اگر ملک کی سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ان پر سرمایہ دار طبقے اور بیورو کریسی کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے۔
جس کی وجہ سے اب ان کے اشاروں پر محنت کشوں کے خلاف پالیسیاں مرتب کر کے تاریخ کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے جب کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے محنت کش، متوسط طبقے اور کسانوں کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے البتہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہید بھٹو نے محنت کشوں کو شعور دیا تھا کہ آپ لوگ و 1886ء میں جس طرح شکاگو کے محنت کشوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر تاریخ رقم کی ہے اس کی روشنی میں جدوجہد کرنی ہوگی۔
اس کی بدولت دنیا بھر کی تمام ریاستوں نے لیبر قوانین کو مرتب کر کے سرمایہ دار اور اداروں کی بیوروکریسی کو مجبور کیا کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے لیکن اس سلسلے میں حکومتی سطح پر لیبر قوانین کو بھی ٹریڈ یونین رہنماؤں کی مشاورت کے ساتھ مرتب کرنے کے یکطرفہ فیصلے سرمایہ دار اور بیوروکریسی کے اشاروں پر مرتب کیا جاتا ہے۔ ریاست کی چھتری کو استعمال کر کے انصاف کی بھی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ محنت کشوں کی پارٹی ہے لیکن شہید بھٹو نے محنت کشوں اور کسانوں کو پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا تھا جسے شہید محترمہ بے نظیر نے بھی اس فلسفے کو اپنی زندگی میں آگے تو بڑھایا لیکن محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ مسلسل ہو رہا تھا اس کے باوجود مزدور پر امید تھے کہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے فلسفے پر عمل کرے گی لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت نے بالکل محنت کشوں کے ساتھ رشتہ تقریباً ختم کر لیا ہے اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پارٹی کے اندر محنت کشوں کی ترجمانی کا منصب سونپ دیا جو اپنی ذات کی حد تک معاملات کو ترجیح دیتے ہیں اور پارٹی کی حمایت کے لیے بات چیت کے لیے کوئی فورم تشکیل نہیں دیا جو نئے لوگوں کو پارٹی میں شمولیت کروائے۔
مسلم لیگ (ن) اس وقت حکومتی پارٹی ہے میاں محمد نواز شریف کی حکومت جب 1999ء میں جبری ایک آمر نے ختم کی تو انھیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کا اظہار کراچی پی سی ہوٹل میں ٹریڈ یونین لیڈروں سے ملاقات میں کیا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کو مستقبل میں نہیں دہرائیں گے۔ اس موقعے پر مجھ سمیت دیگر ٹریڈ یونین رہنماؤں نے ان کو نشاندہی کی کہ آپ کی پارٹی میں محنت کشوں کی کوئی جگہ نہیں نظر آتی لیکن جب آپ کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو بہت سے خوشامدی لوگ آپ کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں جن کی مسلم لیگ (ن) پارٹی کی سطح پر ضرورت کے مطابق حمایت کرنا شروع کر دیتی ہے۔
آپ کی پارٹی ایک ملکی سطح کی سیاسی پارٹی ہے اس میں محنت کشوں کی آواز موثر انداز میں نہ ہونا محنت کشوں کے لیے باعث تشویش ہے اس پر انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر عوام نے مجھے ایک بار پھر موقع فراہم کیا تو میں محنت کشوں کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ محنت کشوں کی قیادت کے مشورے کے ساتھ کروں گا۔ ان کو اقتدار میں آئے ہوئے تقریباً سال ہونے والا ہے لیکن ان کی طرف سے محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ تاہم نج کاری کی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس پر ایک بار پھر محنت کشوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف نے بھی ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا لیکن ان کی قیادت کی طرف سے محنت کشوں کے بنیادی مسائل پر ابھی تک کوئی سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی اسی طرح کا کردار مسلم لیگ (ف) کا ہے۔ مسلم لیگ (ق) اور متحدہ تو پرویز مشرف کے تمام کاموں میں برابر کی شریک رہی ہیں ان کے دور میں محنت کشوں کو ملازمتوں سے جبری برطرف کیا جاتا تھا، سیاہ لیبر قوانین رات کے اندھیروں میں آرڈیننس کے ذریعے جاری کرکے بعد میں ربڑ اسٹیمپ اسمبلی سے اس کی منظوری حاصل کی جاتی تھی ۔ جہاں تک ٹریڈ یونین کے نمایندوں کی کارکردگی کا سوال ہے اس میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ ہمارے درمیان میں بھی چند کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ٹریڈ یونین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے جس کا فائدہ نہ صرف اداروں کی انتظامیہ نے بھرپور اٹھایا ہے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ریاست کے اداروں کی پالیسیاں دستور کی روشنی میں مرتب کی جاتی ہیں لیکن محنت کشوں کی ان فورم میں نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے تمام پالیسیاں یکطرفہ مرتب ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ملکی سطح پر بیوروکریسی اور سرمایہ دار طبقے نے ریاست کے تمام اداروں میں تھرڈ کنٹریکٹ کے نظام کو پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں متعارف کروا کے ٹریڈ یونین کے مستقبل کو تاریک کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے بعد میں آنے والی تمام حکومتوں نے کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی یہی وجہ ہے کہ محنت کشوں، کسانوں اور متوسط طبقے کے بچوں کو پبلک سیکٹر کے اداروں میں روزگار دینے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے کلیریکل اور نان کلیریکل ملازمین کی مستقل بنیادوں پر بھرتیاں کرنے کے بجائے تھرڈ کنٹریکٹ کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے جو کہ پسے ہوئے عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔
اس اقدام سے یقیناً ٹریڈ یونین کو پبلک سیکٹر میں نئے لوگ نہیں مل سکیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ ٹریڈ یونین کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے ان کے پاس ممبر شپ ہی نہیں ہو گی اس طرح ملک کے پبلک سیکٹر میں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹریڈ یونین کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اداروں میں ٹریڈ یونین کے وجود کے نہ ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی جس طرح پامالی ہوتی ہے وہ کسی بھی طرح 1886ء کے حالات سے مختلف نہیں ہے جس کی واضح مثال بینکنگ انڈسٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ہے شکاگو کی طرح ان کا بھی صبح آنے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن شام کو ادارے کے مالکان کی مرضی کے بغیر نہیں جا سکتے اگر کسی نے حوصلہ کر کے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز کو بلند کیا تو اسے دوسرے روز ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔
چند بینکوں کے علاوہ پوری بینکنگ انڈسٹری محنت کشوں کا استحصال شکاگو سے بھی بدتر کیا جا رہا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ریاست کے تمام ادارے ان سرمایہ داروں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، محنت کش طویل عرصے سے کراچی پریس کلب پر اپنے جائز مطالبوں کو تسلیم کروانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی نے ان کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کی بلکہ اب تو یونین کا سربراہ سینیٹر بھی بن چکا ہے لیکن ادارے کے محنت کشوں کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا اسی طرح پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں محنت کشوں پر جھوٹے مقدمے قائم کر کے جبری ملازمتوں سے برطرف کیا گیا تھا۔
13 سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی ان کے ساتھ ہونے والے مظالم پر لب کشائی نہیں کی اس طرح کے حالات کو ہم کس طرح 1886ء سے بدتر قرار نہ دیں۔ آج بھی ہمارے ہاں لیبر قوانین کی نہ صرف پامالی کی جا رہی ہے بلکہ محنت کشوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا کسی بھی فورم پر نوٹس نہیں لیا جاتا ان رویوں کے خلاف محنت کشوں کو ان سیاسی پارٹیوں کے خلاف منظم ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی ۔
جس کی وجہ سے اب ان کے اشاروں پر محنت کشوں کے خلاف پالیسیاں مرتب کر کے تاریخ کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے جب کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے محنت کش، متوسط طبقے اور کسانوں کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے البتہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہید بھٹو نے محنت کشوں کو شعور دیا تھا کہ آپ لوگ و 1886ء میں جس طرح شکاگو کے محنت کشوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر تاریخ رقم کی ہے اس کی روشنی میں جدوجہد کرنی ہوگی۔
اس کی بدولت دنیا بھر کی تمام ریاستوں نے لیبر قوانین کو مرتب کر کے سرمایہ دار اور اداروں کی بیوروکریسی کو مجبور کیا کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے لیکن اس سلسلے میں حکومتی سطح پر لیبر قوانین کو بھی ٹریڈ یونین رہنماؤں کی مشاورت کے ساتھ مرتب کرنے کے یکطرفہ فیصلے سرمایہ دار اور بیوروکریسی کے اشاروں پر مرتب کیا جاتا ہے۔ ریاست کی چھتری کو استعمال کر کے انصاف کی بھی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ دعویٰ کیا ہے کہ محنت کشوں کی پارٹی ہے لیکن شہید بھٹو نے محنت کشوں اور کسانوں کو پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا تھا جسے شہید محترمہ بے نظیر نے بھی اس فلسفے کو اپنی زندگی میں آگے تو بڑھایا لیکن محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ مسلسل ہو رہا تھا اس کے باوجود مزدور پر امید تھے کہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے فلسفے پر عمل کرے گی لیکن محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت نے بالکل محنت کشوں کے ساتھ رشتہ تقریباً ختم کر لیا ہے اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پارٹی کے اندر محنت کشوں کی ترجمانی کا منصب سونپ دیا جو اپنی ذات کی حد تک معاملات کو ترجیح دیتے ہیں اور پارٹی کی حمایت کے لیے بات چیت کے لیے کوئی فورم تشکیل نہیں دیا جو نئے لوگوں کو پارٹی میں شمولیت کروائے۔
مسلم لیگ (ن) اس وقت حکومتی پارٹی ہے میاں محمد نواز شریف کی حکومت جب 1999ء میں جبری ایک آمر نے ختم کی تو انھیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کا اظہار کراچی پی سی ہوٹل میں ٹریڈ یونین لیڈروں سے ملاقات میں کیا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کو مستقبل میں نہیں دہرائیں گے۔ اس موقعے پر مجھ سمیت دیگر ٹریڈ یونین رہنماؤں نے ان کو نشاندہی کی کہ آپ کی پارٹی میں محنت کشوں کی کوئی جگہ نہیں نظر آتی لیکن جب آپ کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو بہت سے خوشامدی لوگ آپ کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں جن کی مسلم لیگ (ن) پارٹی کی سطح پر ضرورت کے مطابق حمایت کرنا شروع کر دیتی ہے۔
آپ کی پارٹی ایک ملکی سطح کی سیاسی پارٹی ہے اس میں محنت کشوں کی آواز موثر انداز میں نہ ہونا محنت کشوں کے لیے باعث تشویش ہے اس پر انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر عوام نے مجھے ایک بار پھر موقع فراہم کیا تو میں محنت کشوں کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ محنت کشوں کی قیادت کے مشورے کے ساتھ کروں گا۔ ان کو اقتدار میں آئے ہوئے تقریباً سال ہونے والا ہے لیکن ان کی طرف سے محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ تاہم نج کاری کی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس پر ایک بار پھر محنت کشوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف نے بھی ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا لیکن ان کی قیادت کی طرف سے محنت کشوں کے بنیادی مسائل پر ابھی تک کوئی سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی اسی طرح کا کردار مسلم لیگ (ف) کا ہے۔ مسلم لیگ (ق) اور متحدہ تو پرویز مشرف کے تمام کاموں میں برابر کی شریک رہی ہیں ان کے دور میں محنت کشوں کو ملازمتوں سے جبری برطرف کیا جاتا تھا، سیاہ لیبر قوانین رات کے اندھیروں میں آرڈیننس کے ذریعے جاری کرکے بعد میں ربڑ اسٹیمپ اسمبلی سے اس کی منظوری حاصل کی جاتی تھی ۔ جہاں تک ٹریڈ یونین کے نمایندوں کی کارکردگی کا سوال ہے اس میں بھی دو رائے نہیں ہیں کہ ہمارے درمیان میں بھی چند کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ٹریڈ یونین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے جس کا فائدہ نہ صرف اداروں کی انتظامیہ نے بھرپور اٹھایا ہے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ریاست کے اداروں کی پالیسیاں دستور کی روشنی میں مرتب کی جاتی ہیں لیکن محنت کشوں کی ان فورم میں نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے تمام پالیسیاں یکطرفہ مرتب ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ملکی سطح پر بیوروکریسی اور سرمایہ دار طبقے نے ریاست کے تمام اداروں میں تھرڈ کنٹریکٹ کے نظام کو پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں متعارف کروا کے ٹریڈ یونین کے مستقبل کو تاریک کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے بعد میں آنے والی تمام حکومتوں نے کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی یہی وجہ ہے کہ محنت کشوں، کسانوں اور متوسط طبقے کے بچوں کو پبلک سیکٹر کے اداروں میں روزگار دینے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے کلیریکل اور نان کلیریکل ملازمین کی مستقل بنیادوں پر بھرتیاں کرنے کے بجائے تھرڈ کنٹریکٹ کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے جو کہ پسے ہوئے عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔
اس اقدام سے یقیناً ٹریڈ یونین کو پبلک سیکٹر میں نئے لوگ نہیں مل سکیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ ٹریڈ یونین کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے ان کے پاس ممبر شپ ہی نہیں ہو گی اس طرح ملک کے پبلک سیکٹر میں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹریڈ یونین کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اداروں میں ٹریڈ یونین کے وجود کے نہ ہونے کی وجہ سے محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی جس طرح پامالی ہوتی ہے وہ کسی بھی طرح 1886ء کے حالات سے مختلف نہیں ہے جس کی واضح مثال بینکنگ انڈسٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ہے شکاگو کی طرح ان کا بھی صبح آنے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن شام کو ادارے کے مالکان کی مرضی کے بغیر نہیں جا سکتے اگر کسی نے حوصلہ کر کے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز کو بلند کیا تو اسے دوسرے روز ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔
چند بینکوں کے علاوہ پوری بینکنگ انڈسٹری محنت کشوں کا استحصال شکاگو سے بھی بدتر کیا جا رہا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ریاست کے تمام ادارے ان سرمایہ داروں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، محنت کش طویل عرصے سے کراچی پریس کلب پر اپنے جائز مطالبوں کو تسلیم کروانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی نے ان کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کی بلکہ اب تو یونین کا سربراہ سینیٹر بھی بن چکا ہے لیکن ادارے کے محنت کشوں کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا اسی طرح پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں محنت کشوں پر جھوٹے مقدمے قائم کر کے جبری ملازمتوں سے برطرف کیا گیا تھا۔
13 سالوں سے جدوجہد کر رہے ہیں اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی ان کے ساتھ ہونے والے مظالم پر لب کشائی نہیں کی اس طرح کے حالات کو ہم کس طرح 1886ء سے بدتر قرار نہ دیں۔ آج بھی ہمارے ہاں لیبر قوانین کی نہ صرف پامالی کی جا رہی ہے بلکہ محنت کشوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا کسی بھی فورم پر نوٹس نہیں لیا جاتا ان رویوں کے خلاف محنت کشوں کو ان سیاسی پارٹیوں کے خلاف منظم ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی ۔