ایک قانون کی دو تشریح سے مسائل پیدا ہوتے ہیں چیف جسٹس
ماہرین کو قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے، جسٹس عمر عطا بندیال کا تقریب سے خطاب
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 25 منصفانہ وسائل کی تقسیم کا ہے، سبسڈی حکومت دیتی ہے سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ سبسڈی بلا امتیاز ہے یا نہیں۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ہم قانون کو آئین کے مطابق دیکھتے ہیں، کیا ہمارا قانون کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ہے کہ نہیں، کاروبار کے مواقع اور صنعتی ترقی سے ملکی ترقی ممکن ہے اس لیے کاروبار دوست اقدامات ضروری ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 25 منصفانہ وسائل کی تقسیم کا ہے، ہر شعبہ سبسڈی مانگ رہا ہے اور سبسڈی حکومت دیتی ہے سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ سبسڈی بلا امتیاز ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمرشل سالمیت اور ریگولیٹری اقدامات درست ہونے چاہئیں، ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو پتا نہیں ہوتا، حکومت کو چاہیے کاروباری افراد کی مشاورت سے معاملات چلائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئی پی پیز کو طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے یقین دہانی کرائی گئی تھی، طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کو سہولیات دی جائیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ماہر نہیں ہوں، ملک میں کاروبار کی ترقی کے لیے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے، سپریم کورٹ میں صرف قانون کی عمل داری کی بات ہوتی ہے، قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، ماہرین کو قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے، ایک قانون کی دو تشریحات مسائل پیدا کرتی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ججز آسانی سے مارکیٹ میں میسر نہیں ہیں اور کئی امتحانات دینے پڑتے ہیں، ٹریبونل کے نہ بننے سے عدالتوں پر بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، جو بھی ریگولیٹر ہے اس کو ایک ٹریبونل بنانا چاہیے، سروس کے معاملات پر سروس ٹریبونل بنے ہوئے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ ملک میں پرائیویٹ بزنس کو سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، بزنس کی گروتھ سے معاشی ترقی کو فروغ ملتا ہے، ہمیں بہتر ریگولیٹری سسٹم کی ضرورت ہے، کمرشل اداروں کا وقار بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو ایسی ہاؤسنگ اسٹیٹ کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے جن کے پاس زمین نہیں، عوام کے لیے ریگولیشنز کو آسان بنانا ضروری ہے، ہائی کورٹس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ہائی کورٹس پر بوجھ کم کرنا ہوگا۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ہم قانون کو آئین کے مطابق دیکھتے ہیں، کیا ہمارا قانون کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ہے کہ نہیں، کاروبار کے مواقع اور صنعتی ترقی سے ملکی ترقی ممکن ہے اس لیے کاروبار دوست اقدامات ضروری ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 25 منصفانہ وسائل کی تقسیم کا ہے، ہر شعبہ سبسڈی مانگ رہا ہے اور سبسڈی حکومت دیتی ہے سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ سبسڈی بلا امتیاز ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمرشل سالمیت اور ریگولیٹری اقدامات درست ہونے چاہئیں، ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو پتا نہیں ہوتا، حکومت کو چاہیے کاروباری افراد کی مشاورت سے معاملات چلائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئی پی پیز کو طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے یقین دہانی کرائی گئی تھی، طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاروں کو سہولیات دی جائیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ماہر نہیں ہوں، ملک میں کاروبار کی ترقی کے لیے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے، سپریم کورٹ میں صرف قانون کی عمل داری کی بات ہوتی ہے، قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، ماہرین کو قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے، ایک قانون کی دو تشریحات مسائل پیدا کرتی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ججز آسانی سے مارکیٹ میں میسر نہیں ہیں اور کئی امتحانات دینے پڑتے ہیں، ٹریبونل کے نہ بننے سے عدالتوں پر بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، جو بھی ریگولیٹر ہے اس کو ایک ٹریبونل بنانا چاہیے، سروس کے معاملات پر سروس ٹریبونل بنے ہوئے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ ملک میں پرائیویٹ بزنس کو سپورٹ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، بزنس کی گروتھ سے معاشی ترقی کو فروغ ملتا ہے، ہمیں بہتر ریگولیٹری سسٹم کی ضرورت ہے، کمرشل اداروں کا وقار بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو ایسی ہاؤسنگ اسٹیٹ کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے جن کے پاس زمین نہیں، عوام کے لیے ریگولیشنز کو آسان بنانا ضروری ہے، ہائی کورٹس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ہائی کورٹس پر بوجھ کم کرنا ہوگا۔