آس
بجٹ 2023 میں بھی حسب سابق عوام کے لیے کوئی خاص و قابل ذکر ریلیف نہیں دیا گیا
ایران کا بادشاہ دارا جنگل میں اپنے لشکر سے بچھڑکر بھٹک گیا، اسے اچانک ایک شخص دور سے اپنی طرف دوڑ کر آتا ہوا نظر آیا، وہ آنے والے کو دشمن سمجھا اور جلدی سے تیر کو کمان پر چڑھا لیا، آنے والا ایک چرواہا تھا۔
جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ نے اس سے خوفزدہ ہو کر اس کی طرف تیر کی نشست باندھ لی ہے تو وہ گھبرا گیا اور چلا کر بولا: '' مجھے نہ مارو میں دشمن نہیں دوست ہوں۔ میں تو آپ کا خادم ہوں جو آپ کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔''
اب تک تو بادشاہ اس چرواہے کو دشمن سمجھ کر خوفزدہ تھا، تاہم اس کی بات سن کر بادشاہ کا خوف دور ہو گیا پھر وہ ہنس کر چرواہے سے مخاطب ہوا۔ '' اگر غیبی فرشتے نے تیری مدد نہ کی ہوتی تو اب تک تُو میرے تیر سے ہلاک ہو چکا ہوتا، کیونکہ میں تو بس تیر چھوڑنے ہی والا تھا۔''
بادشاہ کی یہ بات سن کر چرواہا بھی ہنس پڑا۔ پھر کہنے لگا '' اے بادشاہ سلامت ! میری ایک نصیحت سن لیجیے، جو بادشاہ دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرسکتا، وہ بھی بھلا کوئی بادشاہ ہے؟ ''
پھر بولا '' بڑا تو حقیقت میں وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے کو پہنچاتا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہو۔ میں آپ کے لیے کوئی نووارد تو نہیں ہوں۔ اکثر سائل کے دور پر آپ کے دربار میں حاضر ہوتا رہا ہوں، آپ مجھ سے گھوڑوں اور چراگاہوں کی بابت اکثر پوچھ گچھ کرتے رہے ہیں، تعجب ہے آپ نے پھر بھی مجھے دشمن تصورکیا۔ حالاں کہ میرا تو یہ حال ہے کہ اگر آپ کہیں تو میں لاکھ گھوڑوں میں سے آپ کا مطلوبہ گھوڑا نکال سکتا ہوں۔ اے بادشاہ ! جس طرح میں اپنا فرض ادا کرتا ہوں اور عقل مندی سے آپ کے گھوڑوں کی گلہ بانی کرتا ہوں۔ آپ کو بھی حکومت اسی طرح کرنی چاہیے اور اپنی رعایا کے ایک ایک فرد کا خیال رکھنا چاہیے ورنہ جس بادشاہ کا انتظام چرواہوں سے بھی بدتر ہو اس کا تاج و تخت بھلا کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔''
حضرت شیخ سعدیؒ کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے سربراہ کا منصب انتہائی ذمے داری کا متقاضی ہے۔ اپنی ریاست کے ایک ایک کونے میں رہنے والے ہر فرد کی داد رسی کرنا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ سربراہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کی مشکلات و مسائل سے آگاہی حاصل کرے اور ان کی خوراک، رہائش، لباس اور دیگر ضروریات زندگی بہم پہنچانے کا اپنا فرض ادا کرے۔
حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ '' اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک پیاس سے مرے گا تو میں اس کا ذمے دار ہوں۔'' گویا حکومت کا سربراہ اگر اپنے فرائض سے غفلت اور کوتاہی برتے گا اور اپنے عوام کا خیال نہیں رکھے گا یہاں تک کہ اس کی ریاست میں جانور بھی اگر بھوک و پیاس سے مرنے لگیں گے تو ان کی موت کا ذمے دار بھی وہی ہوگا اور روز قیامت اس سے بازپرس ہوگی۔
اگر وہ لوگوں کی دکھ تکالیف کا احساس نہیں کرے گا، ان کا خیال نہیں رکھے گا اور ان کے مسائل حل نہیں کرے گا تو اس کے خلاف عوام الناس میں غصہ، نفرت اور انتقام کے جذبات پروان چڑھیں گے تو لوگ اس کے اقتدار کے خلاف سراپا احتجاج ہوں گے اور اس کی حکومت کے خلاف مہم جوئی کر کے اس کا تختہ الٹ دیں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے زعم اور طاقت کے نشے میں آ کر عوامی مسائل کے حل سے روگردانی کی، انھیں نظر انداز کیا اور ان کے بنیادی آئینی حقوق سلب کیے تو ان کا زوال شروع ہو گیا اور ایک دن اقتدار کے ایوانوں سے عوام نے انھیں نکال باہر کیا۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار نے گزشتہ 75 سالوں میں عوام کے مسائل و مشکلات کا کبھی گہرائی سے نہ جائزہ لیا نہ انھیں حقائق کی روشنی میں درست طریقے سے سمجھا گیا اور نہ ہی ان کے حل کے لیے دوررس نتائج کی حامل، ٹھوس، جامع، مربوط اور قابل عمل پالیسیاں بنائیں کہ جن پر عمل درآمد سے عوام الناس کے دیرینہ، جائز اور بنیادی مسائل کا قابل قبول حل تلاش کیا جاتا اور عوام اپنے حکمرانوں سے مطمئن ہوتے کہ انھوں نے اپنے دعوؤں اور وعدوں کا پاس کیا لہٰذا آیندہ مدت کے لیے بھی اقتدار میں رہنا ان کا حق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں کوئی بھی جماعت اور اس کا لیڈر لگا تار ایک سے زائد مرتبہ مسند اقتدار پر بیٹھنے سے محروم رہا ہے اور اپنی ناقص کارکردگی کے باعث بار بار اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی اقتدار سے بے دخل کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ جو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی اس کا ایک دھڑا مسلم لیگ (ن) کے نام سے معروف اور سیاست میں سرگرم عمل ہے جس کے قائد میاں محمد نواز شریف کو تین بار اقتدار ملا لیکن تینوں مرتبہ وہ اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل ہی ایوان اقتدار سے بے دخل کر دیے گئے۔ اب ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن کے منفرد ریکارڈ قائم کریں گے۔
ان کی جماعت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں شامل ہے اور جماعت کے صدر شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کے سوا سالہ دور حکومت کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی اقدامات، پالیسیوں اور فیصلوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ملک معاشی زبوں حالی کا مزید شکار ہوا بلکہ مہنگائی و گرانی کا گراف ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے اور ڈالر کی پرواز بلند ترین سطح پر ہے، قرضوں کا بار بڑھ رہا ہے، آئی ایم ایف کا شکنجہ کس رہا ہے، لوگوں کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے، بے روزگاری اور ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے، گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں، لوگ مجبور ہو کر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھا رہے ہیں یا ناجائز و غیر قانونی ذرایع سے اچھے مستقبل کی تلاش میں انسانی اسمگلروں کو لاکھوں روپے دے کر بیرون ملک جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے حادثات کا شکار ہو کر اپنی جانیں گنوا رہے ہیں جیسا کہ تازہ ترین سانحہ یونان میں کشتی ڈوبنے کا رونما ہوا جس میں سیکڑوں پاکستانی ہلاک و لاپتہ ہوگئے۔ حکمران تعزیتی بیانات دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکے۔
بجٹ 2023 میں بھی حسب سابق عوام کے لیے کوئی خاص و قابل ذکر ریلیف نہیں دیا گیا۔ نتیجتاً مہنگائی کا گراف مزید بلند ہو گیا اور عوام کے مسائل و مشکلات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے مخدوش حالات میں مسلم لیگ ن سمیت حکمران جماعتیں الیکشن میں کیسے فتحیاب ہوں گی؟ وہ لوگوں کے پاس کون سا بیانیہ لے کر جائیں گے؟ اسی طرح پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اب عوام کے پاس کیا بیانیہ لے کر جائیں گے؟ کون سے وعدے اور دعوے کریں گے کہ جن پر عوام کو اعتبار آجائے۔ بقول شاعر:
تیرے وعدوں پہ کہاں تک میرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ نے اس سے خوفزدہ ہو کر اس کی طرف تیر کی نشست باندھ لی ہے تو وہ گھبرا گیا اور چلا کر بولا: '' مجھے نہ مارو میں دشمن نہیں دوست ہوں۔ میں تو آپ کا خادم ہوں جو آپ کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔''
اب تک تو بادشاہ اس چرواہے کو دشمن سمجھ کر خوفزدہ تھا، تاہم اس کی بات سن کر بادشاہ کا خوف دور ہو گیا پھر وہ ہنس کر چرواہے سے مخاطب ہوا۔ '' اگر غیبی فرشتے نے تیری مدد نہ کی ہوتی تو اب تک تُو میرے تیر سے ہلاک ہو چکا ہوتا، کیونکہ میں تو بس تیر چھوڑنے ہی والا تھا۔''
بادشاہ کی یہ بات سن کر چرواہا بھی ہنس پڑا۔ پھر کہنے لگا '' اے بادشاہ سلامت ! میری ایک نصیحت سن لیجیے، جو بادشاہ دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرسکتا، وہ بھی بھلا کوئی بادشاہ ہے؟ ''
پھر بولا '' بڑا تو حقیقت میں وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے کو پہنچاتا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہو۔ میں آپ کے لیے کوئی نووارد تو نہیں ہوں۔ اکثر سائل کے دور پر آپ کے دربار میں حاضر ہوتا رہا ہوں، آپ مجھ سے گھوڑوں اور چراگاہوں کی بابت اکثر پوچھ گچھ کرتے رہے ہیں، تعجب ہے آپ نے پھر بھی مجھے دشمن تصورکیا۔ حالاں کہ میرا تو یہ حال ہے کہ اگر آپ کہیں تو میں لاکھ گھوڑوں میں سے آپ کا مطلوبہ گھوڑا نکال سکتا ہوں۔ اے بادشاہ ! جس طرح میں اپنا فرض ادا کرتا ہوں اور عقل مندی سے آپ کے گھوڑوں کی گلہ بانی کرتا ہوں۔ آپ کو بھی حکومت اسی طرح کرنی چاہیے اور اپنی رعایا کے ایک ایک فرد کا خیال رکھنا چاہیے ورنہ جس بادشاہ کا انتظام چرواہوں سے بھی بدتر ہو اس کا تاج و تخت بھلا کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔''
حضرت شیخ سعدیؒ کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے سربراہ کا منصب انتہائی ذمے داری کا متقاضی ہے۔ اپنی ریاست کے ایک ایک کونے میں رہنے والے ہر فرد کی داد رسی کرنا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ سربراہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کی مشکلات و مسائل سے آگاہی حاصل کرے اور ان کی خوراک، رہائش، لباس اور دیگر ضروریات زندگی بہم پہنچانے کا اپنا فرض ادا کرے۔
حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ '' اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک پیاس سے مرے گا تو میں اس کا ذمے دار ہوں۔'' گویا حکومت کا سربراہ اگر اپنے فرائض سے غفلت اور کوتاہی برتے گا اور اپنے عوام کا خیال نہیں رکھے گا یہاں تک کہ اس کی ریاست میں جانور بھی اگر بھوک و پیاس سے مرنے لگیں گے تو ان کی موت کا ذمے دار بھی وہی ہوگا اور روز قیامت اس سے بازپرس ہوگی۔
اگر وہ لوگوں کی دکھ تکالیف کا احساس نہیں کرے گا، ان کا خیال نہیں رکھے گا اور ان کے مسائل حل نہیں کرے گا تو اس کے خلاف عوام الناس میں غصہ، نفرت اور انتقام کے جذبات پروان چڑھیں گے تو لوگ اس کے اقتدار کے خلاف سراپا احتجاج ہوں گے اور اس کی حکومت کے خلاف مہم جوئی کر کے اس کا تختہ الٹ دیں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے زعم اور طاقت کے نشے میں آ کر عوامی مسائل کے حل سے روگردانی کی، انھیں نظر انداز کیا اور ان کے بنیادی آئینی حقوق سلب کیے تو ان کا زوال شروع ہو گیا اور ایک دن اقتدار کے ایوانوں سے عوام نے انھیں نکال باہر کیا۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار نے گزشتہ 75 سالوں میں عوام کے مسائل و مشکلات کا کبھی گہرائی سے نہ جائزہ لیا نہ انھیں حقائق کی روشنی میں درست طریقے سے سمجھا گیا اور نہ ہی ان کے حل کے لیے دوررس نتائج کی حامل، ٹھوس، جامع، مربوط اور قابل عمل پالیسیاں بنائیں کہ جن پر عمل درآمد سے عوام الناس کے دیرینہ، جائز اور بنیادی مسائل کا قابل قبول حل تلاش کیا جاتا اور عوام اپنے حکمرانوں سے مطمئن ہوتے کہ انھوں نے اپنے دعوؤں اور وعدوں کا پاس کیا لہٰذا آیندہ مدت کے لیے بھی اقتدار میں رہنا ان کا حق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں کوئی بھی جماعت اور اس کا لیڈر لگا تار ایک سے زائد مرتبہ مسند اقتدار پر بیٹھنے سے محروم رہا ہے اور اپنی ناقص کارکردگی کے باعث بار بار اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی اقتدار سے بے دخل کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ جو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی اس کا ایک دھڑا مسلم لیگ (ن) کے نام سے معروف اور سیاست میں سرگرم عمل ہے جس کے قائد میاں محمد نواز شریف کو تین بار اقتدار ملا لیکن تینوں مرتبہ وہ اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل ہی ایوان اقتدار سے بے دخل کر دیے گئے۔ اب ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن کے منفرد ریکارڈ قائم کریں گے۔
ان کی جماعت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں شامل ہے اور جماعت کے صدر شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کے سوا سالہ دور حکومت کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی اقدامات، پالیسیوں اور فیصلوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ملک معاشی زبوں حالی کا مزید شکار ہوا بلکہ مہنگائی و گرانی کا گراف ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے اور ڈالر کی پرواز بلند ترین سطح پر ہے، قرضوں کا بار بڑھ رہا ہے، آئی ایم ایف کا شکنجہ کس رہا ہے، لوگوں کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے، بے روزگاری اور ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے، گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں، لوگ مجبور ہو کر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھا رہے ہیں یا ناجائز و غیر قانونی ذرایع سے اچھے مستقبل کی تلاش میں انسانی اسمگلروں کو لاکھوں روپے دے کر بیرون ملک جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے حادثات کا شکار ہو کر اپنی جانیں گنوا رہے ہیں جیسا کہ تازہ ترین سانحہ یونان میں کشتی ڈوبنے کا رونما ہوا جس میں سیکڑوں پاکستانی ہلاک و لاپتہ ہوگئے۔ حکمران تعزیتی بیانات دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکے۔
بجٹ 2023 میں بھی حسب سابق عوام کے لیے کوئی خاص و قابل ذکر ریلیف نہیں دیا گیا۔ نتیجتاً مہنگائی کا گراف مزید بلند ہو گیا اور عوام کے مسائل و مشکلات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے مخدوش حالات میں مسلم لیگ ن سمیت حکمران جماعتیں الیکشن میں کیسے فتحیاب ہوں گی؟ وہ لوگوں کے پاس کون سا بیانیہ لے کر جائیں گے؟ اسی طرح پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اب عوام کے پاس کیا بیانیہ لے کر جائیں گے؟ کون سے وعدے اور دعوے کریں گے کہ جن پر عوام کو اعتبار آجائے۔ بقول شاعر:
تیرے وعدوں پہ کہاں تک میرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے