دہشت گردی… امریکا اور بھارت کا کردار
دہشت گردی کے خلاف جو جنگ امریکا نے شروع کی تھی، اسے برسوں گزر گئے ہیں
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور امریکا کے صدر جوبائیڈن کے درمیان ملاقات کے بعد 22 جون بروز جمعرات کو امریکا، بھارت مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔
اس اعلامیے میں پاکستان میں انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان میں کالعدم لشکر طیبہ اور جیش محمد کا ذکر ہوا۔ اس پر پاکستان کی دفتر خارجہ نے جمعے کو اپنے ردعمل میں کہا کہ ایک دن قبل امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی ملاقات کے بعد پاکستان کے خلاف جاری مشترکہ اعلامیہ گمراہ کن اور غیر ضروری ہے، اعلامیے میں پاکستان کا حوالہ سفارتی اصولوں کے منافی اور واضح سیاسی مقاصد کا حامل ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ 22 جون 2023 کو جاری کردہ امریکا بھارت مشترکہ بیان میں پاکستان کا حوالہ غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن ہے، یہ حوالہ سفارتی اصولوں کے منافی ہے اور اس کے سیاسی مقاصد واضح ہیں، ہم حیران ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے پاک امریکا قریبی تعاون کے باوجود اعلامیے میں مذکورہ حوالہ شامل کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے وحشیانہ جبر اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردی کا واویلا کرتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ مشترکہ اعلامیہ خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کی کلیدی وجوہات کی نشاندہی کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا نوٹس لینے میں ناکام رہا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی منتقلی پر بھی پاکستان کو گہری تشویش ہے، اس طرح کے اقدامات سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھ رہا ہے اور اسٹرٹیجک استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنے شدید تحفظات سے امریکا کو آگاہ کر دیا، شراکت دار ممالک جنوبی ایشیا کے امن و سلامتی سے متعلق معاملات کو معروضی حالات کے تناظر میں دیکھیں، عالمی برادری جانتی ہے کہ پاکستان سرحد پار سے بھارتی دہشت گردی سے شدید متاثر ہوا ہے، عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کو تسلیم کرتی ہے، پاکستان کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ جنوبی ایشیا کے امن واستحکام کو بی جے پی دور کی پالیسیوں اور اقدامات سے خطرہ ہے، عالمی برادری بھارت پر زور دے کہ وہ علاقائی امن و استحکام کے لیے نقصان دہ اقدامات سے باز رہے۔
ادھر قومی اسمبلی میں امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم ملاقات کے مشترکہ اعلامیے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکا بھارت بڑھتے تعلقات سے پاکستان غیر محفوظ نہیں ہو گا، پاکستان کے لیے ضروری ہے دنیا کی سیاست سے تھوڑا دور رہے اور اپنے اوپر توجہ دے، انھوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ امریکا اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے پاکستان غیر محفوظ ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اپنے معاشی مسائل حل ہوجائیں تو پھر دنیا میں اپنے اہداف حاصل کریں، ہم پہلے بھی اپنے بل بوتے پر کھڑے تھے، آگے بھی کھڑے رہیں گے، امریکا بھارت کے مشترکہ اعلامیے کی وجہ سے نہیں بلکہ ہم خود اپنے ملک کی خاطر دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہے ہیں، بلاول بھٹو نے اپنے ردعمل میں سفارتی انداز اپناتے ہوئے بات کی جب کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جارحانہ ردعمل دیا، انھوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کے خلاف بیان ایسے شخص کے دورے پر سامنے آیا جس پر امریکا میں داخلے پر پابندی تھی، جب اس نے بطور وزیر اعلیٰ گجرات مسلمانوں کے قتل عام سے جان بوجھ کر نظریں چرائی تھیں۔
ایک ٹویٹ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اقدامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ مودی مقبوضہ جموں کشمیر میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی ایک اور مہم کی قیادت کر رہے ہیں، جس میں مقامی آبادی کو معمول کے مطابق معذور اور اندھا کرنا شامل ہے۔
وزیر دفاع نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا ورثہ امریکا کی وجہ سے ملا، امریکا خطے میں خود دہشت گردی کا ناسور چھوڑ کرگیا، پاکستان آج بھی اس سے نبردآزما ہے، آج بھی ہمارے فوجی جوان شہید ہورہے ہیں، امریکی صدر یا وائٹ ہاؤس کو اعلامیہ جاری کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا، واشنگٹن نے ہی گجرات میں دہشت گردی پر مودی کا ویزا بند کردیا تھا، آج دہائیوں کے بعد اس کی درخواست پر انسداد دہشت گردی کی درخواست کی جارہی ہے۔
آج بھی کشمیری مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، پاکستان آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، امریکا کو دہشت گردی کا پس منظر یاد رکھنا چاہیے، خطے میں دہشت گردی کا بیج بونے میں امریکا کا بھی کردار ہے، بھارتی حکمران دہشت گردی کو پروان چڑھا رہے ہیں، امریکا، بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل عام کو نظر انداز کر رہا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ بھارت چین کے لیے اسٹرٹیجک مدمقابل بن جائے جب کہ مودی عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکا اور بھارت ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں تو اس پر پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دے اور اپنے اسٹرٹیجک اتحادی بنائے لیکن اگر دو ملکوں کے مفادات کسی تیسرے ملک کے بارے میں منفی نوعیت کے ہوں تو پھر اس پر متعلقہ ملک کو اپنے تحفظات بیان کرنے کا پورا حق ہے۔
امریکا اور بھارت نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے، اس میں پاکستان کا حوالہ اس انداز میں دیا ہے کہ جیسے دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور وہ پاکستان کی سرزمین پر نقل وحرکت کر رہی ہیں۔ اس پر پاکستان کا جوابی ردعمل بالکل درست ہے۔ امریکا اور بھارت جسے دہشت گردی قرار دے رہے ہیں، اس کے پس پردہ عوامل سے وہ بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع کا یہ کہنا درست ہے کہ امریکا کو دہشت گردی کا پس منظر یاد رکھنا چاہیے، اس خطے میں دہشت گردی کا بیج بونے میں امریکا کا بھی کردار ہے۔
افغانستان میں سرد جنگ کا فائنل راؤنڈ لڑا گیا ہے۔ یہ لڑائی دو متحارب عالمی نظاموں کے درمیان لڑی گئی۔ کیپٹل ازم اور سوشلزم کی علمبردار قوتوں کے درمیان لڑی گئی اس جنگ میں کیپٹل ازم فتح یاب ہوا۔ امریکا کی سربراہی میں نیٹو ممالک، امیر عرب ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان، کوریا کیپٹل ازم کو بچانے کے لیے متحد تھے تو دوسری جانب سابق سوویت یونین سوشلزم کو بچانے کے لیے میدان میں آیا۔
امریکا اور اتحادیوں نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے مذہبی نظریات اور گروہوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ ان کو مالی اور دیگر امداد اور سہولیات فراہم کی گئیں، یوں کیمونزم اور سوشلزم کے خلاف مذہبی اور معاشرتی بنیادوں پر اس نظام کو الحاد سے تعبیر کرایا گیا۔ مسلم ممالک سے افرادی قوت حاصل کی گئی اور اس افرادی قوت کو ٹریننگ دے کر افغانستان کے محاذ میں لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکا اور اتحادیوں نے یہ جنگ تو جیت لی لیکن اس جنگ کو جیتنے کے لیے جو نظریاتی گروہ تیار کیے تھے، ان کے لیے کوئی متبادل پلان نہیں بنایا گیا اور پھر وہی ہوا جو ایسے کاموں میں ہوتا ہے۔
پاکستان آج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، لیکن امریکا اور نیٹو یوکرائن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بھارت نے دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ جنگ نہیں لڑی لیکن آج وہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر رہا ہے۔ بہرحال امریکا اور بھارت کے مفادات کیونکہ اس وقت ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں، اس لیے انھیں کوسنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان کو اپنے معاملات اور اپنے مسائل اپنے زور بازو پر حل کرنے ہوں گے۔
دہشت گردی کے خلاف جو جنگ امریکا نے شروع کی تھی، اسے برسوں گزر گئے ہیں، لیکن دہشت گردی کی فصل اس سے بھی پہلے کاشت کی گئی تھی۔ آج کی دہشت گرد تنظیموں اور ان کے مددگاروں کے اپنے مالی اور کاروباری مفادات قائم ہو چکے ہیں۔ مذہبی دہشت گرد گروہوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد قائم ہو چکا ہے۔ پوری دنیا کی غیرقانونی تجارت انھی مافیاز کے ذریعے ہو رہی ہے اور ان مافیاز کے ہینڈلرز، پشت پناہ اور سہولت کار ریاستوں کے سسٹم میں گھس چکے ہیں۔ اس لیے یہ لڑائی بہت پیچیدہ ہو چکی ہے۔
امریکا اور بھارت کے پالیسی سازوں کو ان حقائق پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے۔ محض پاکستان پر الزامات عائد کر دینے سے وہ اپنی ذمے داریوں سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی سسٹم میں گھسے ہوئے انتہاپسندوں کو شناخت کر کے انجام تک پہنچانا ہو گا۔ تب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کامیاب ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔
اس اعلامیے میں پاکستان میں انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان میں کالعدم لشکر طیبہ اور جیش محمد کا ذکر ہوا۔ اس پر پاکستان کی دفتر خارجہ نے جمعے کو اپنے ردعمل میں کہا کہ ایک دن قبل امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی ملاقات کے بعد پاکستان کے خلاف جاری مشترکہ اعلامیہ گمراہ کن اور غیر ضروری ہے، اعلامیے میں پاکستان کا حوالہ سفارتی اصولوں کے منافی اور واضح سیاسی مقاصد کا حامل ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ 22 جون 2023 کو جاری کردہ امریکا بھارت مشترکہ بیان میں پاکستان کا حوالہ غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن ہے، یہ حوالہ سفارتی اصولوں کے منافی ہے اور اس کے سیاسی مقاصد واضح ہیں، ہم حیران ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے پاک امریکا قریبی تعاون کے باوجود اعلامیے میں مذکورہ حوالہ شامل کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے وحشیانہ جبر اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردی کا واویلا کرتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ مشترکہ اعلامیہ خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کی کلیدی وجوہات کی نشاندہی کرنے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کا نوٹس لینے میں ناکام رہا۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارت کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی منتقلی پر بھی پاکستان کو گہری تشویش ہے، اس طرح کے اقدامات سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھ رہا ہے اور اسٹرٹیجک استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنے شدید تحفظات سے امریکا کو آگاہ کر دیا، شراکت دار ممالک جنوبی ایشیا کے امن و سلامتی سے متعلق معاملات کو معروضی حالات کے تناظر میں دیکھیں، عالمی برادری جانتی ہے کہ پاکستان سرحد پار سے بھارتی دہشت گردی سے شدید متاثر ہوا ہے، عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کو تسلیم کرتی ہے، پاکستان کئی مرتبہ کہہ چکا ہے کہ جنوبی ایشیا کے امن واستحکام کو بی جے پی دور کی پالیسیوں اور اقدامات سے خطرہ ہے، عالمی برادری بھارت پر زور دے کہ وہ علاقائی امن و استحکام کے لیے نقصان دہ اقدامات سے باز رہے۔
ادھر قومی اسمبلی میں امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم ملاقات کے مشترکہ اعلامیے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ امریکا بھارت بڑھتے تعلقات سے پاکستان غیر محفوظ نہیں ہو گا، پاکستان کے لیے ضروری ہے دنیا کی سیاست سے تھوڑا دور رہے اور اپنے اوپر توجہ دے، انھوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ امریکا اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے پاکستان غیر محفوظ ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اپنے معاشی مسائل حل ہوجائیں تو پھر دنیا میں اپنے اہداف حاصل کریں، ہم پہلے بھی اپنے بل بوتے پر کھڑے تھے، آگے بھی کھڑے رہیں گے، امریکا بھارت کے مشترکہ اعلامیے کی وجہ سے نہیں بلکہ ہم خود اپنے ملک کی خاطر دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہے ہیں، بلاول بھٹو نے اپنے ردعمل میں سفارتی انداز اپناتے ہوئے بات کی جب کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جارحانہ ردعمل دیا، انھوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کے خلاف بیان ایسے شخص کے دورے پر سامنے آیا جس پر امریکا میں داخلے پر پابندی تھی، جب اس نے بطور وزیر اعلیٰ گجرات مسلمانوں کے قتل عام سے جان بوجھ کر نظریں چرائی تھیں۔
ایک ٹویٹ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اقدامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ مودی مقبوضہ جموں کشمیر میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی ایک اور مہم کی قیادت کر رہے ہیں، جس میں مقامی آبادی کو معمول کے مطابق معذور اور اندھا کرنا شامل ہے۔
وزیر دفاع نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا ورثہ امریکا کی وجہ سے ملا، امریکا خطے میں خود دہشت گردی کا ناسور چھوڑ کرگیا، پاکستان آج بھی اس سے نبردآزما ہے، آج بھی ہمارے فوجی جوان شہید ہورہے ہیں، امریکی صدر یا وائٹ ہاؤس کو اعلامیہ جاری کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا، واشنگٹن نے ہی گجرات میں دہشت گردی پر مودی کا ویزا بند کردیا تھا، آج دہائیوں کے بعد اس کی درخواست پر انسداد دہشت گردی کی درخواست کی جارہی ہے۔
آج بھی کشمیری مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، پاکستان آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، امریکا کو دہشت گردی کا پس منظر یاد رکھنا چاہیے، خطے میں دہشت گردی کا بیج بونے میں امریکا کا بھی کردار ہے، بھارتی حکمران دہشت گردی کو پروان چڑھا رہے ہیں، امریکا، بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قتل عام کو نظر انداز کر رہا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ بھارت چین کے لیے اسٹرٹیجک مدمقابل بن جائے جب کہ مودی عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکا اور بھارت ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں تو اس پر پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دے اور اپنے اسٹرٹیجک اتحادی بنائے لیکن اگر دو ملکوں کے مفادات کسی تیسرے ملک کے بارے میں منفی نوعیت کے ہوں تو پھر اس پر متعلقہ ملک کو اپنے تحفظات بیان کرنے کا پورا حق ہے۔
امریکا اور بھارت نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے، اس میں پاکستان کا حوالہ اس انداز میں دیا ہے کہ جیسے دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور وہ پاکستان کی سرزمین پر نقل وحرکت کر رہی ہیں۔ اس پر پاکستان کا جوابی ردعمل بالکل درست ہے۔ امریکا اور بھارت جسے دہشت گردی قرار دے رہے ہیں، اس کے پس پردہ عوامل سے وہ بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع کا یہ کہنا درست ہے کہ امریکا کو دہشت گردی کا پس منظر یاد رکھنا چاہیے، اس خطے میں دہشت گردی کا بیج بونے میں امریکا کا بھی کردار ہے۔
افغانستان میں سرد جنگ کا فائنل راؤنڈ لڑا گیا ہے۔ یہ لڑائی دو متحارب عالمی نظاموں کے درمیان لڑی گئی۔ کیپٹل ازم اور سوشلزم کی علمبردار قوتوں کے درمیان لڑی گئی اس جنگ میں کیپٹل ازم فتح یاب ہوا۔ امریکا کی سربراہی میں نیٹو ممالک، امیر عرب ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان، کوریا کیپٹل ازم کو بچانے کے لیے متحد تھے تو دوسری جانب سابق سوویت یونین سوشلزم کو بچانے کے لیے میدان میں آیا۔
امریکا اور اتحادیوں نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے مذہبی نظریات اور گروہوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ ان کو مالی اور دیگر امداد اور سہولیات فراہم کی گئیں، یوں کیمونزم اور سوشلزم کے خلاف مذہبی اور معاشرتی بنیادوں پر اس نظام کو الحاد سے تعبیر کرایا گیا۔ مسلم ممالک سے افرادی قوت حاصل کی گئی اور اس افرادی قوت کو ٹریننگ دے کر افغانستان کے محاذ میں لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکا اور اتحادیوں نے یہ جنگ تو جیت لی لیکن اس جنگ کو جیتنے کے لیے جو نظریاتی گروہ تیار کیے تھے، ان کے لیے کوئی متبادل پلان نہیں بنایا گیا اور پھر وہی ہوا جو ایسے کاموں میں ہوتا ہے۔
پاکستان آج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، لیکن امریکا اور نیٹو یوکرائن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بھارت نے دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ جنگ نہیں لڑی لیکن آج وہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر رہا ہے۔ بہرحال امریکا اور بھارت کے مفادات کیونکہ اس وقت ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں، اس لیے انھیں کوسنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پاکستان کو اپنے معاملات اور اپنے مسائل اپنے زور بازو پر حل کرنے ہوں گے۔
دہشت گردی کے خلاف جو جنگ امریکا نے شروع کی تھی، اسے برسوں گزر گئے ہیں، لیکن دہشت گردی کی فصل اس سے بھی پہلے کاشت کی گئی تھی۔ آج کی دہشت گرد تنظیموں اور ان کے مددگاروں کے اپنے مالی اور کاروباری مفادات قائم ہو چکے ہیں۔ مذہبی دہشت گرد گروہوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے حوالے سے ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد قائم ہو چکا ہے۔ پوری دنیا کی غیرقانونی تجارت انھی مافیاز کے ذریعے ہو رہی ہے اور ان مافیاز کے ہینڈلرز، پشت پناہ اور سہولت کار ریاستوں کے سسٹم میں گھس چکے ہیں۔ اس لیے یہ لڑائی بہت پیچیدہ ہو چکی ہے۔
امریکا اور بھارت کے پالیسی سازوں کو ان حقائق پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے۔ محض پاکستان پر الزامات عائد کر دینے سے وہ اپنی ذمے داریوں سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی سسٹم میں گھسے ہوئے انتہاپسندوں کو شناخت کر کے انجام تک پہنچانا ہو گا۔ تب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کامیاب ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔