سکھ ’’را‘‘ سے ہوشیار
بھارتی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور سکھوں کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کر لینا چاہیے
کینیڈا کے شہر سرے میں گرودوارے کے اندر خالصتان تحریک کی ٹائیگر فورس کے سربراہ ہردیپ سنگھ نجارکو دو نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے، بھارتی حکومت نے انھیں دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔
کینیڈا کی حکومت سے بھارت کا ان کو وہاں سے نکالنے اور اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کافی پرانا تھا مگر جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے سکھوں کے تحفظ کا ہمیشہ خیال رکھا ہے اور انھیں اپنے ایک آزاد خود مختار ملک خالصتان کے حصول کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، اس لیے کہ ہر قوم کو اپنا وطن حاصل کرنے کا حق اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں دے رکھا ہے۔
سکھ وہ بدنصیب قوم ہے جو تقسیم ہند سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ سب سے زیادہ ہلاک ہوئے، اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے مگر گاندھی کے وعدے کے باوجود بھی ایک آزاد خود مختار ملک حاصل نہ کر سکے۔ دراصل بھارتی رہنماؤں نے سکھوں کے ساتھ کھلا دھوکا کیا۔ کانگریس نے تحریک آزادی میں اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے انھیں ایک آزاد ملک پنجاب کی سر زمین پر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
بھارت کی آزادی کے بعد انھیں کچھ نہ ملا۔ انھیں بھارت کا شہری قرار دے دیا گیا اور ان کے ساتھ یہ بھی ظلم کیا کہ انھیں ہندوؤں کی ایک ذات قرار دے دیا گیا جب کہ ان کا سکھ مذہب ہندو مت سے بالکل مختلف ہے۔ سکھ ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ کسی مورتی کو نہیں پوجتے وہ بت پرستی کے خلاف ہیں مگر اقلیت میں ہونے کی وجہ سے انھیں ہندوؤں کی ایک ذات قرار دے کر سراسر ظلم کیا گیا، حالانکہ خود گاندھی اور نہرو نے تقسیم کے وقت سکھ رہنماؤں سے سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر آزادی کے فوراً بعد ہی وہ اس سے مکر گئے۔ تب سے ہی سکھ اپنے لیے ایک آزاد وطن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر بھارتی حکومتیں ان کی آزادی کی تحریک کو بزور طاقت کچلتی رہی ہیں۔
کینیڈا میں سکھ خاصی بڑی تعداد میں آباد ہیں، وہ وہاں تقسیم ہند سے پہلے سے آباد ہیں لیکن تقسیم کے بعد بھی کافی تعداد میں سکھ وہاں آباد ہوئے ہیں۔ کینیڈا کے ایک صوبے کولمبیا میں ان کی اکثریت ہے۔ کینیڈا کی پارلیمنٹ کے کئی سکھ رہنما ممبر ہیں جو ہمیشہ عام انتخابات میں عوامی ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ کینیڈا کے معاشرے میں ان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
کینیڈا کی حکومتیں بھی انھیں خاص اہمیت دیتی ہیں کیونکہ وہ وہاں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت میں سکھوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی خستہ حالی ان کے خلاف نفرت، تعصب اور بھارتی حکومت کی بے مروتی کی وجہ سے اب سکھ یہ چاہتے ہیں کہ بھارتی حکومت اپنا وعدہ پورا کرے اور وعدے کے مطابق سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کو عملی شکل دے لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارت سے باہر کینیڈا امریکا اور آسٹریلیا میں رہائش پذیر سکھوں نے مل کر بھارت میں ایک آزاد خود مختار وطن کے قیام کے سلسلے میں ایک مشترکہ تنظیم قائم کی ہے جسے '' سکھ فار جسٹس'' کا نام دیا گیا ہے۔
اس تنظیم کا مقصد سکھوں کے لیے ایک آزاد وطن کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے اس سلسلے میں اس تنظیم نے سب سے پہلے کینیڈا اور بعد میں امریکا، یورپ اور آسٹریلیا میں خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈمز منعقد کرائے ہیں جن میں سکھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جس نے ثابت کردیا ہے کہ سکھ خالصتان کے قیام کے لیے بے چین و بے قرار ہیں۔
خالصتان کا قیام ان کا حق ہے جسے خود بھارتی تحریک آزادی کے رہنماؤں نے تسلیم کیا تھا۔ چنانچہ اب اگرچہ دیر ہو چکی ہے مگر اب بھی وقت ہے کہ اس پرانے وعدے کا بھارتی حکمران احترام کریں اور سکھوں کو ان کا جائز حق تفویض کریں۔
مودی حکومت جو فاشسٹ نظریات کی حامل ہے وہ تو پہلے ہی کشمیریوں کو سلامتی کونسل میں ان کے لیے منظور کردہ حق خود اختیاریت دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو بھلا وہ سکھوں کے مطالبے کو کیونکر تسلیم کر لے گی؟ مودی مانے یا نہ مانے مگر امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے اہم ممالک میں سکھوں کی آزادی کے لیے منعقدہ ریفرنڈمز نے ثابت کر دیا ہے کہ ان ممالک نے ضرور سکھوں کے مطالبے کو تسلیم کرلیا ہے۔
حالانکہ ان ممالک میں منعقد ہونے والے ریفرنڈم کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے پورا زور لگایا تھا اور وہاں کی حکومتوں کو انھیں روکنے کے لیے پرزور مطالبے کیے تھے مگر اس کے باوجود وہاں ریفرنڈمز منعقد ہوئے اور وہ سو فیصد کامیاب رہے۔
ان ریفرنڈمز نے ثابت کردیا ہے کہ سکھوں کا اپنے علیحدہ وطن کے لیے مطالبہ ایک حقیقت ہے اور بھارتی حکمران خالصتان کے قیام کو کسی صورت نہیں روک سکتے، تاہم اس وقت مودی سرکار خالصتان کے قیام کو ناکام بنانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک کافی جڑ پکڑ چکی ہے سکھ اسے کامیاب بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ اسی کی دہائی میں بھی خالصتان کے قیام کی تحریک پورے عروج پر تھی۔
جرنیل سنگھ بھنڈرا والا اس تحریک کا روح رواں تھا۔ سکھوں نے بھارتی فوج کو اس تحریک کو ناکام بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ جرنیل سنگھ نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کو اس تحریک کا مرکز بنا دیا تھا وہ خود بھی اسی ٹیمپل میں رہائش پذیر ہو گیا تھا اس وقت اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم تھیں وہ ہر قیمت پر بھارت کو متحد رکھنا چاہتی تھیں جب کہ وہ پاکستان کو دولخت کرکے بہت خوش تھیں۔
سکھوں کی تحریک کو کچلنے کے لیے انھوں نے گولڈن ٹیمپل کو بھی نہیں بخشا اور اس کے ایک حصے کو ٹینک کے گولے سے مسمار کر دیا ساتھ ہی وہاں موجود جرنیل سنگھ اور اس کے جاں نثاروں کو ہلاک کردیا گیا۔ گولڈن ٹیمپل پر حملہ اور جرنیل سنگھ کا قتل سکھ برداشت نہ کر سکے اور انھوں نے بھارتی حکومت کے خلاف تحریک عدم تعاون شروع کردی۔
گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کا بدلہ لینے کے لیے سکھ بے تاب ہوگئے اور پھر ایک دن اندرا گاندھی کے اپنے سکھ باڈی گارڈ نے اسے اتنی گولیاں ماریں کہ اس کا پورا بدن چھلنی ہو گیا۔ یوں اندرا گاندھی سے سکھوں نے اپنے مقدس مقام کی بے حرمتی اور اپنی آزادی کی تحریک کو روکنے کا بدلہ اسے قتل کرکے لے لیا۔ اس واقع کے بعد اندرا کے بیٹے راجیو گاندھی نے سکھوں کے قتل عام کا حکم دے دیا۔
پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا جو پورے ایک ہفتے تک جاری رہا جس میں ہزاروں سکھوں کو قتل کردیا گیا۔ تب سے سکھ بھارتی حکمرانوں سے ناراض چلے آ رہے ہیں اور وہ اب ہر قیمت پر اپنے لیے آزاد وطن خالصتان کو قائم کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔
بھارتی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور سکھوں کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کر لینا چاہیے اس لیے بھی کہ سکھوں سے خالصتان قائم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا اور پھر بھارتی فوج میں سکھوں کی خاصی تعداد شامل ہے اگر وہ اس تحریک کے حامی بن گئے تو پھر بھارت کے بکھرنے کو کوئی نہیں روک سکے گا، جہاں تک ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کا معاملہ ہے یہ ضرور بھارتی ''را'' کی کارروائی ہے۔ یہ انتقامی کارروائی آگے بھی بڑھ سکتی ہے چنانچہ سکھوں کو ''را'' سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
کینیڈا کی حکومت سے بھارت کا ان کو وہاں سے نکالنے اور اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کافی پرانا تھا مگر جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے سکھوں کے تحفظ کا ہمیشہ خیال رکھا ہے اور انھیں اپنے ایک آزاد خود مختار ملک خالصتان کے حصول کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، اس لیے کہ ہر قوم کو اپنا وطن حاصل کرنے کا حق اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں دے رکھا ہے۔
سکھ وہ بدنصیب قوم ہے جو تقسیم ہند سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ سب سے زیادہ ہلاک ہوئے، اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے مگر گاندھی کے وعدے کے باوجود بھی ایک آزاد خود مختار ملک حاصل نہ کر سکے۔ دراصل بھارتی رہنماؤں نے سکھوں کے ساتھ کھلا دھوکا کیا۔ کانگریس نے تحریک آزادی میں اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے انھیں ایک آزاد ملک پنجاب کی سر زمین پر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
بھارت کی آزادی کے بعد انھیں کچھ نہ ملا۔ انھیں بھارت کا شہری قرار دے دیا گیا اور ان کے ساتھ یہ بھی ظلم کیا کہ انھیں ہندوؤں کی ایک ذات قرار دے دیا گیا جب کہ ان کا سکھ مذہب ہندو مت سے بالکل مختلف ہے۔ سکھ ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ کسی مورتی کو نہیں پوجتے وہ بت پرستی کے خلاف ہیں مگر اقلیت میں ہونے کی وجہ سے انھیں ہندوؤں کی ایک ذات قرار دے کر سراسر ظلم کیا گیا، حالانکہ خود گاندھی اور نہرو نے تقسیم کے وقت سکھ رہنماؤں سے سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر آزادی کے فوراً بعد ہی وہ اس سے مکر گئے۔ تب سے ہی سکھ اپنے لیے ایک آزاد وطن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر بھارتی حکومتیں ان کی آزادی کی تحریک کو بزور طاقت کچلتی رہی ہیں۔
کینیڈا میں سکھ خاصی بڑی تعداد میں آباد ہیں، وہ وہاں تقسیم ہند سے پہلے سے آباد ہیں لیکن تقسیم کے بعد بھی کافی تعداد میں سکھ وہاں آباد ہوئے ہیں۔ کینیڈا کے ایک صوبے کولمبیا میں ان کی اکثریت ہے۔ کینیڈا کی پارلیمنٹ کے کئی سکھ رہنما ممبر ہیں جو ہمیشہ عام انتخابات میں عوامی ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں۔ کینیڈا کے معاشرے میں ان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
کینیڈا کی حکومتیں بھی انھیں خاص اہمیت دیتی ہیں کیونکہ وہ وہاں کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت میں سکھوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی خستہ حالی ان کے خلاف نفرت، تعصب اور بھارتی حکومت کی بے مروتی کی وجہ سے اب سکھ یہ چاہتے ہیں کہ بھارتی حکومت اپنا وعدہ پورا کرے اور وعدے کے مطابق سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کو عملی شکل دے لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارت سے باہر کینیڈا امریکا اور آسٹریلیا میں رہائش پذیر سکھوں نے مل کر بھارت میں ایک آزاد خود مختار وطن کے قیام کے سلسلے میں ایک مشترکہ تنظیم قائم کی ہے جسے '' سکھ فار جسٹس'' کا نام دیا گیا ہے۔
اس تنظیم کا مقصد سکھوں کے لیے ایک آزاد وطن کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے اس سلسلے میں اس تنظیم نے سب سے پہلے کینیڈا اور بعد میں امریکا، یورپ اور آسٹریلیا میں خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈمز منعقد کرائے ہیں جن میں سکھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جس نے ثابت کردیا ہے کہ سکھ خالصتان کے قیام کے لیے بے چین و بے قرار ہیں۔
خالصتان کا قیام ان کا حق ہے جسے خود بھارتی تحریک آزادی کے رہنماؤں نے تسلیم کیا تھا۔ چنانچہ اب اگرچہ دیر ہو چکی ہے مگر اب بھی وقت ہے کہ اس پرانے وعدے کا بھارتی حکمران احترام کریں اور سکھوں کو ان کا جائز حق تفویض کریں۔
مودی حکومت جو فاشسٹ نظریات کی حامل ہے وہ تو پہلے ہی کشمیریوں کو سلامتی کونسل میں ان کے لیے منظور کردہ حق خود اختیاریت دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو بھلا وہ سکھوں کے مطالبے کو کیونکر تسلیم کر لے گی؟ مودی مانے یا نہ مانے مگر امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے اہم ممالک میں سکھوں کی آزادی کے لیے منعقدہ ریفرنڈمز نے ثابت کر دیا ہے کہ ان ممالک نے ضرور سکھوں کے مطالبے کو تسلیم کرلیا ہے۔
حالانکہ ان ممالک میں منعقد ہونے والے ریفرنڈم کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت نے پورا زور لگایا تھا اور وہاں کی حکومتوں کو انھیں روکنے کے لیے پرزور مطالبے کیے تھے مگر اس کے باوجود وہاں ریفرنڈمز منعقد ہوئے اور وہ سو فیصد کامیاب رہے۔
ان ریفرنڈمز نے ثابت کردیا ہے کہ سکھوں کا اپنے علیحدہ وطن کے لیے مطالبہ ایک حقیقت ہے اور بھارتی حکمران خالصتان کے قیام کو کسی صورت نہیں روک سکتے، تاہم اس وقت مودی سرکار خالصتان کے قیام کو ناکام بنانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک کافی جڑ پکڑ چکی ہے سکھ اسے کامیاب بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ اسی کی دہائی میں بھی خالصتان کے قیام کی تحریک پورے عروج پر تھی۔
جرنیل سنگھ بھنڈرا والا اس تحریک کا روح رواں تھا۔ سکھوں نے بھارتی فوج کو اس تحریک کو ناکام بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ جرنیل سنگھ نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کو اس تحریک کا مرکز بنا دیا تھا وہ خود بھی اسی ٹیمپل میں رہائش پذیر ہو گیا تھا اس وقت اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم تھیں وہ ہر قیمت پر بھارت کو متحد رکھنا چاہتی تھیں جب کہ وہ پاکستان کو دولخت کرکے بہت خوش تھیں۔
سکھوں کی تحریک کو کچلنے کے لیے انھوں نے گولڈن ٹیمپل کو بھی نہیں بخشا اور اس کے ایک حصے کو ٹینک کے گولے سے مسمار کر دیا ساتھ ہی وہاں موجود جرنیل سنگھ اور اس کے جاں نثاروں کو ہلاک کردیا گیا۔ گولڈن ٹیمپل پر حملہ اور جرنیل سنگھ کا قتل سکھ برداشت نہ کر سکے اور انھوں نے بھارتی حکومت کے خلاف تحریک عدم تعاون شروع کردی۔
گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کا بدلہ لینے کے لیے سکھ بے تاب ہوگئے اور پھر ایک دن اندرا گاندھی کے اپنے سکھ باڈی گارڈ نے اسے اتنی گولیاں ماریں کہ اس کا پورا بدن چھلنی ہو گیا۔ یوں اندرا گاندھی سے سکھوں نے اپنے مقدس مقام کی بے حرمتی اور اپنی آزادی کی تحریک کو روکنے کا بدلہ اسے قتل کرکے لے لیا۔ اس واقع کے بعد اندرا کے بیٹے راجیو گاندھی نے سکھوں کے قتل عام کا حکم دے دیا۔
پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا جو پورے ایک ہفتے تک جاری رہا جس میں ہزاروں سکھوں کو قتل کردیا گیا۔ تب سے سکھ بھارتی حکمرانوں سے ناراض چلے آ رہے ہیں اور وہ اب ہر قیمت پر اپنے لیے آزاد وطن خالصتان کو قائم کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔
بھارتی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور سکھوں کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کر لینا چاہیے اس لیے بھی کہ سکھوں سے خالصتان قائم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا اور پھر بھارتی فوج میں سکھوں کی خاصی تعداد شامل ہے اگر وہ اس تحریک کے حامی بن گئے تو پھر بھارت کے بکھرنے کو کوئی نہیں روک سکے گا، جہاں تک ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کا معاملہ ہے یہ ضرور بھارتی ''را'' کی کارروائی ہے۔ یہ انتقامی کارروائی آگے بھی بڑھ سکتی ہے چنانچہ سکھوں کو ''را'' سے ہوشیار رہنا چاہیے۔