زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے آخری حصہ
انھوں نے دنیا نوردی کے بعد بھی اپنا رشتہ اپنی زمین سے رکھا اور اپنی یاد داشتیں ہمارے لیے چھوڑ گئے
امیر حیدر خان اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ برٹش راج ختم ہوگا تو آزادی ملے گی، وہ نہیں جانتے تھے کہ خود غرض اور زر پرست سیاست دانوں کو فرقہ واریت اور مذہب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرنے والوں اور زبان و نسل کی بنیاد پر فسادات کرانے والوں کو آزادی ملے گی۔
برطانوی جیلر قیدیوں کا راشن نہیں بیچتے تھے اور سیاسی قیدیوں کو عموماً '' اے '' کلاس میں رکھتے تھے لیکن آزادی کے بعد ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل جو اتفاق سے حاجی بھی تھے، انھوں نے قیدیوں کے لیے سرکاری خزانے سے خریدا جانے والا آٹا، چاول، دالیں اور گھی بلیک میں بیچنا شروع کیا۔
دادا نے جب تمام قیدیوں کی طرف سے ان کی شکایت کی تو ان کے اس اقدام کو '' بغاوت'' اور سرکار کے خلاف نفرت بھڑکانے سے تعبیر کیا گیا اور سزا کے طور پر ڈپٹی کمشنر نے دادا کو '' اے'' سے '' سی'' کلاس میں بھیجنے کے احکامات دے دیے۔
یہ وہی ڈپٹی کمشنر ہے جسے جنرل ضیا الحق کے زمانے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائزکیا گیا ۔ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں جتنا بڑا ظالم ، جابر اور ناانصافی کرنے والا ہے وہ عموما عدل محل میں اتنی بلندیوں پر پہنچتا ہے۔
بیالیس برس کا وہ عرصہ جو دادا نے پاکستان میں بسرکیا، اس کی داستان دلدوز ہے۔ یہاں اس شخص کو اپنا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے چودہ برس کی قانونی لڑائی لڑنی پڑی، جو برٹش راج میں آزاد پنچھی کی طرح سات سمندروں کا سفر کرتا تھا اور پانچ براعظموں کی زمینوں پر سیاسی جدوجہد میں مصروف رہا تھا۔ گزرتے ہوئے وقت، خراب ہوتی ہوئی صحت اور ایک بے رحم نظام نے انھیں توڑنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ آخر تک سر بلند اور فتح مند رہے۔
دادا نے ایک آدرش وادی کی زندگی گزاری، ان کے ارد گرد بیشتر ایسے ہی لوگوں کا ہجوم رہا جنھوں نے اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے سب کچھ تج دیا۔ دادا امیر حیدرکی خود نوشت پڑھتے ہوئے مجھے قرۃ العین حیدرکا ناول '' آخر شب کے ہم سفر'' یاد آیا جس میں بنگال کے نوجوانوں کی پر شور انقلابی تحریک ہے۔ دیپالی سرکار، روزی بنر جی، اومارائے اور ناول کا مرکزی کردار ریحان الدین احمد ہے۔
سیلِ زمانہ کی لہروں پر بہتے ہوئے یہ کردار اپنے زمانے کی انقلابی تحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ سندر بن کے گھنے اور پراسرار جنگل سے اس تحریک کی رہنمائی کرنے والا کیسا کمال انقلابی ہے۔ اس تحریک میں شامل لڑکیاں اور لڑکے ریحان دادا کے اشارے پر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ ریحان دادا کی اپنے آدرش سے گہری وفاداری ہمارا دل موہ لیتی ہے۔
پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ مصالحت، مفاہمت اور دنیاداری کی ڈھلان پراس طرح پھسلتا ہے کہ وزارت اور سفارت کی سرسبز وادیوں میں نظر آتا ہے ۔ اس کے برعکس پوٹھوہار کی سنگلاخ زمین پر پیدا ہونیوالے کسان اور مزدور امیر حیدر خان اول وآخر آدرش وادی رہتے ہیں اور زندگی کے آخری لمحوں میں بھی ان کے تمام خواب اور تمام عزائم ان کے وجود میں زندہ رہتے ہیں۔
یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دادا ایک جیتے جاگتے اور حقیقی فرد تھے جب کہ ریحان الدین احمد ایک افسانوی کردار۔ ان دونوں کے درمیان اصل فرق اس بات کا تھا کہ ان میں سے ایک بورژوازی سے تعلق رکھتا تھا اور دوسرا پرولتاری تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں دادا جیسے خواب دیکھنے والے، اس کی تعبیر کے لیے جان سے گزر جانے والے اتنے کم ہیں کہ انگلیوں پر بھی نہیں گنے جاسکتے جب کہ مفاہمت کرنے والے، جھک جانے والے ہمارے یہاں قطار در قطار ، ہزاروں ہزار ہیں۔
ان یاد داشتوں میں ایک بہت واضح فرق آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کی سیاسی فضا کا نظر آتا ہے۔ آزادی سے پہلے دادا کی زندگی ایک بندۂ آزاد کا افسانۂ حیات ہے اس میں ڈانگے، ادھیکاری، پی سی جوشی ، بھگت سنگھ ، سوہن سنگھ جوش ، ایم این رائے اور دوسرے سیکڑوں افراد ہیں۔
برٹش راج کی جیل ہے جس کی تمام کٹھنائیوں کے باوجود سیاسی قیدیوں اور اخلاقی مجرموں میں رکھا جانے والا فرق صاف نظر آتا ہے جب کہ آزادی کے بعد اس بندۂ آزاد کو اسلامی جمہوریہ پاکستانی حکمرانوں کے مقررکردہ تھانیداروں ، مجسٹریٹوں اور محکمہ خفیہ کی جھوٹی رپورٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان یاد داشتوں میں دادا کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ نظر آتے ہیں جو محنت کشوں کی جدوجہد کو بین الاقوامی جدوجہد سمجھتے تھے، سوبھوگیان چندانی، فیض، سبط حسن، حیدر بخش جتوئی احمد ندیم قاسمی سب ہی نظر آتے ہیں۔ ہمیں برصغیر اور دنیا میں بیسیویں صدی کے دوران ایک شاندار عالمی تحریک کوسمجھنا ہوتو اس کے لیے دادا کی یادداشتیں ایک اہم دستاویز ہیں۔
ان یاد داشتوں کے آخر میں اپنی بینائی سے محروم ہوتا ہوا ایک ایسا شخص ہے جو ابتدا سے دیدۂ بینا رکھتا تھا۔ پاکستان کی حکومتوں نے اس شخص کو بار بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا، اسے قید تنہائی میں رکھا۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں بند کیا اور آخر کار اسے پوٹھوہارکے اس دور افتادہ علاقے میں رہنے کا پابند کر دیا جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ جہاں سے ہر ہفتے میلوں پیدل چل کر اسے تھانے میں حاضری دینی ہوتی تھی تاکہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے والوں کو یقین ہوسکے کہ اتنا بڑا '' دہشت گرد'' کسی نئی '' سازش'' میں مصروف نہیں ہے۔
وہ خطرناک تھے کیونکہ وہ عوام کی حکمرانی کی بات کرتے تھے۔ ایسا سیاسی رہنما جو نسل ، زبان، تہذیب اور فرقے سے بالا تر ہو کر سیاست کرے ہمارے حکمرانوں کے لیے کس قدر '' دہشت ناک '' ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ہم سب کرسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں لشکروں اور انتہا پسند تنظیموں کے سربراہ معتبر ہیں۔ حکمران ان کی پذیرائی اور سپہ سالار ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
پابلونرودا نے کہا تھا کہ جدوجہد کرنے والوں کو طے کرنا پڑیگا کہ وہ ننگے پیر والوں کے ساتھ ہیں یا کیڈ لاک کار والوں کے ساتھ۔ پوٹھوہار سے اٹھنے والے امیر حیدر خان ننگے پیر والوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے دنیا نوردی کے بعد بھی اپنا رشتہ اپنی زمین سے رکھا اور اپنی یاد داشتیں ہمارے لیے چھوڑ گئے جو بہت سے نوجوانوں کو راستہ دکھائیں گی۔ دادا امیر حیدر ایک بڑے انسان اور عوامی رہنما تھے ان کی یادداشتیں پڑھ جائیے تو مخدوم کے یہ مصرعے یاد آتے ہیں کہ
زندگی لطف بھی ہے ، زندگی آزار بھی ہے
ساز و آہنگ بھی ، زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زہر بھی، آبِ حیات لب و رخسار بھی ہے
زندگی دار بھی ہے، زندگی دلدار بھی ہے
برطانوی جیلر قیدیوں کا راشن نہیں بیچتے تھے اور سیاسی قیدیوں کو عموماً '' اے '' کلاس میں رکھتے تھے لیکن آزادی کے بعد ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل جو اتفاق سے حاجی بھی تھے، انھوں نے قیدیوں کے لیے سرکاری خزانے سے خریدا جانے والا آٹا، چاول، دالیں اور گھی بلیک میں بیچنا شروع کیا۔
دادا نے جب تمام قیدیوں کی طرف سے ان کی شکایت کی تو ان کے اس اقدام کو '' بغاوت'' اور سرکار کے خلاف نفرت بھڑکانے سے تعبیر کیا گیا اور سزا کے طور پر ڈپٹی کمشنر نے دادا کو '' اے'' سے '' سی'' کلاس میں بھیجنے کے احکامات دے دیے۔
یہ وہی ڈپٹی کمشنر ہے جسے جنرل ضیا الحق کے زمانے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائزکیا گیا ۔ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں جتنا بڑا ظالم ، جابر اور ناانصافی کرنے والا ہے وہ عموما عدل محل میں اتنی بلندیوں پر پہنچتا ہے۔
بیالیس برس کا وہ عرصہ جو دادا نے پاکستان میں بسرکیا، اس کی داستان دلدوز ہے۔ یہاں اس شخص کو اپنا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے چودہ برس کی قانونی لڑائی لڑنی پڑی، جو برٹش راج میں آزاد پنچھی کی طرح سات سمندروں کا سفر کرتا تھا اور پانچ براعظموں کی زمینوں پر سیاسی جدوجہد میں مصروف رہا تھا۔ گزرتے ہوئے وقت، خراب ہوتی ہوئی صحت اور ایک بے رحم نظام نے انھیں توڑنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ آخر تک سر بلند اور فتح مند رہے۔
دادا نے ایک آدرش وادی کی زندگی گزاری، ان کے ارد گرد بیشتر ایسے ہی لوگوں کا ہجوم رہا جنھوں نے اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے سب کچھ تج دیا۔ دادا امیر حیدرکی خود نوشت پڑھتے ہوئے مجھے قرۃ العین حیدرکا ناول '' آخر شب کے ہم سفر'' یاد آیا جس میں بنگال کے نوجوانوں کی پر شور انقلابی تحریک ہے۔ دیپالی سرکار، روزی بنر جی، اومارائے اور ناول کا مرکزی کردار ریحان الدین احمد ہے۔
سیلِ زمانہ کی لہروں پر بہتے ہوئے یہ کردار اپنے زمانے کی انقلابی تحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ سندر بن کے گھنے اور پراسرار جنگل سے اس تحریک کی رہنمائی کرنے والا کیسا کمال انقلابی ہے۔ اس تحریک میں شامل لڑکیاں اور لڑکے ریحان دادا کے اشارے پر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ ریحان دادا کی اپنے آدرش سے گہری وفاداری ہمارا دل موہ لیتی ہے۔
پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ مصالحت، مفاہمت اور دنیاداری کی ڈھلان پراس طرح پھسلتا ہے کہ وزارت اور سفارت کی سرسبز وادیوں میں نظر آتا ہے ۔ اس کے برعکس پوٹھوہار کی سنگلاخ زمین پر پیدا ہونیوالے کسان اور مزدور امیر حیدر خان اول وآخر آدرش وادی رہتے ہیں اور زندگی کے آخری لمحوں میں بھی ان کے تمام خواب اور تمام عزائم ان کے وجود میں زندہ رہتے ہیں۔
یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دادا ایک جیتے جاگتے اور حقیقی فرد تھے جب کہ ریحان الدین احمد ایک افسانوی کردار۔ ان دونوں کے درمیان اصل فرق اس بات کا تھا کہ ان میں سے ایک بورژوازی سے تعلق رکھتا تھا اور دوسرا پرولتاری تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں دادا جیسے خواب دیکھنے والے، اس کی تعبیر کے لیے جان سے گزر جانے والے اتنے کم ہیں کہ انگلیوں پر بھی نہیں گنے جاسکتے جب کہ مفاہمت کرنے والے، جھک جانے والے ہمارے یہاں قطار در قطار ، ہزاروں ہزار ہیں۔
ان یاد داشتوں میں ایک بہت واضح فرق آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کی سیاسی فضا کا نظر آتا ہے۔ آزادی سے پہلے دادا کی زندگی ایک بندۂ آزاد کا افسانۂ حیات ہے اس میں ڈانگے، ادھیکاری، پی سی جوشی ، بھگت سنگھ ، سوہن سنگھ جوش ، ایم این رائے اور دوسرے سیکڑوں افراد ہیں۔
برٹش راج کی جیل ہے جس کی تمام کٹھنائیوں کے باوجود سیاسی قیدیوں اور اخلاقی مجرموں میں رکھا جانے والا فرق صاف نظر آتا ہے جب کہ آزادی کے بعد اس بندۂ آزاد کو اسلامی جمہوریہ پاکستانی حکمرانوں کے مقررکردہ تھانیداروں ، مجسٹریٹوں اور محکمہ خفیہ کی جھوٹی رپورٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان یاد داشتوں میں دادا کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ نظر آتے ہیں جو محنت کشوں کی جدوجہد کو بین الاقوامی جدوجہد سمجھتے تھے، سوبھوگیان چندانی، فیض، سبط حسن، حیدر بخش جتوئی احمد ندیم قاسمی سب ہی نظر آتے ہیں۔ ہمیں برصغیر اور دنیا میں بیسیویں صدی کے دوران ایک شاندار عالمی تحریک کوسمجھنا ہوتو اس کے لیے دادا کی یادداشتیں ایک اہم دستاویز ہیں۔
ان یاد داشتوں کے آخر میں اپنی بینائی سے محروم ہوتا ہوا ایک ایسا شخص ہے جو ابتدا سے دیدۂ بینا رکھتا تھا۔ پاکستان کی حکومتوں نے اس شخص کو بار بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا، اسے قید تنہائی میں رکھا۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں بند کیا اور آخر کار اسے پوٹھوہارکے اس دور افتادہ علاقے میں رہنے کا پابند کر دیا جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ جہاں سے ہر ہفتے میلوں پیدل چل کر اسے تھانے میں حاضری دینی ہوتی تھی تاکہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے والوں کو یقین ہوسکے کہ اتنا بڑا '' دہشت گرد'' کسی نئی '' سازش'' میں مصروف نہیں ہے۔
وہ خطرناک تھے کیونکہ وہ عوام کی حکمرانی کی بات کرتے تھے۔ ایسا سیاسی رہنما جو نسل ، زبان، تہذیب اور فرقے سے بالا تر ہو کر سیاست کرے ہمارے حکمرانوں کے لیے کس قدر '' دہشت ناک '' ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ہم سب کرسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں لشکروں اور انتہا پسند تنظیموں کے سربراہ معتبر ہیں۔ حکمران ان کی پذیرائی اور سپہ سالار ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
پابلونرودا نے کہا تھا کہ جدوجہد کرنے والوں کو طے کرنا پڑیگا کہ وہ ننگے پیر والوں کے ساتھ ہیں یا کیڈ لاک کار والوں کے ساتھ۔ پوٹھوہار سے اٹھنے والے امیر حیدر خان ننگے پیر والوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے دنیا نوردی کے بعد بھی اپنا رشتہ اپنی زمین سے رکھا اور اپنی یاد داشتیں ہمارے لیے چھوڑ گئے جو بہت سے نوجوانوں کو راستہ دکھائیں گی۔ دادا امیر حیدر ایک بڑے انسان اور عوامی رہنما تھے ان کی یادداشتیں پڑھ جائیے تو مخدوم کے یہ مصرعے یاد آتے ہیں کہ
زندگی لطف بھی ہے ، زندگی آزار بھی ہے
ساز و آہنگ بھی ، زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زہر بھی، آبِ حیات لب و رخسار بھی ہے
زندگی دار بھی ہے، زندگی دلدار بھی ہے