آئی ایم ایف کی مزید کڑی شرائط

آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی

آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر خزانہ نے اعلان کردہ بجٹ میں 215 روپے کے مزید نئے ٹیکس اقدامات کا اعلان کردیا ہے۔

انھوں نے قومی اسمبلی سے خطاب میں مزید کہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے زیادہ تر مطالبات کو تسلیم کر لیا ہے، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی پچاس کے بجائے ساٹھ روپے کی جائے گی جب کہ جاری اخراجات میں پچاسی ارب روپے کی کٹوتی کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔

دراصل قومی بجٹ میں نظر ثانی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے معاہدے کی قسط حاصل کرنے کی غرض سے کی گئی ہے۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام 30 جون کو 2023 کو ختم ہونے جا رہا ہے۔

اس وقت امکان یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مزید مسئلہ یا تکنیکی دقت نہ ہوئی تو نواں جائزہ تکمیل کو پہنچ جائے گا، آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کی ٹیم نے نئے ڈرافٹ کو حتمی شکل دی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دورہ فرانس میں نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھی اور کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ قومی امید ہے کہ حکومتی سطح پر یہ کاوشیں بہت جلد ثمر آور ثابت ہونگی۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان پیشگی اقدامات کے تحت آئی ایم ایف کو مطمئن کر چکی ہے ، پیشگی اقدامات پر حکومت کو نہ صرف اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مہنگائی کے نئے اٹھتے طوفانوں کے باعث اسے سخت عوامی ردعمل بھی برداشت کرنا پڑا۔

اس کے باوجود اب آئی ایم ایف کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بیرونی مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد ہی قرض کی نئی قسط کی جانب قدم اٹھایا جائے گا جس سے یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے بد خواہ اس کے بعض رکن ممالک کی جانب سے باقاعدہ منفی رائے دی جا رہی ہے جس کی وجہ پاکستان اور آئی ایم ایف تاحال حتمی معاہدہ پر دستخط نہیں کرسکے ۔

پاکستان کو مطمئن کرنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کرے، اگر آئی ایم ایف مزید شرائط کے بغیر قسط جاری کرنے پر آمادہ ہوتا ہے تو بہتر ہے' ورنہ اسے ''بس بہت ہوچکا'' کہتے ہوئے ہمیں بھی کوئی واضح متبادل پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ اب تمام اقتصادی ماہرین سر جوڑ کر آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنے کی کوئی سبیل تلاش کریں۔

حکومت کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ملک میں بدترین مہنگائی کے طوفان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث ہی اٹھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی آئی ایم ایف کے لیے من مانی کرنے کی راہ ہموار کرر ہا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کوئی بین الاقوامی یا عالمی ادارہ پاکستان کو تنگ کررہا ہے، ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے واقعات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سب کی وجہ بہت صاف اور سیدھی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کا اپنا میکنزم اور ایجنڈا ہوتا ہے، یہاں ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، عالمی مالیاتی اداروں کا یہ رویہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ملکوں کے ساتھ ہے۔

اب پاکستان روس اور چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم بنارہا ہے اور خاص طور پر وہ ان دونوں ممالک کی مدد سے اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ادھر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سرمایہ کاری کا رخ بھارت اور بنگلہ دیش کی طرف ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا پاکستان کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کررہا ہے۔

آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر کڑی شرائط کا عائد کیا جانا اور تمام شرائط کو مان کر سخت اقدامات کرنے کے باوجود قرضے کی قسط کا جاری نہ کیا جانا، اسی سلسلے کا ایک پہلو ہے جسے پورے منظر نامے کو سامنے رکھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔


خیر، مسئلہ امریکا یا آئی ایم ایف سے بڑھ کر ہمارا اپنا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز قیادت بالغ نظری کی اس سطح پر ابھی تک پہنچی ہی نہیں جس سے قومی مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے ملک کو ماضی میں بھی بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس وقت بھی یہ ایک ایسی حد تک پہنچا ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک اور عوام کے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔

گزشتہ چار پانچ برس سے '' میثاقِ معیشت'' کا ذکر تواتر سے ہورہا ہے اور ہر سیاسی قائد یہ جانتا ہے کہ ایسا معاہدہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے اشد ضروری ہے لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہو پا رہی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیاسی قائدین کی انائیں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ وہ قومی مفاد کے پیش نظر بھی ان کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔

ایسی صورتحال میں اگر عوام سیاسی قیادت کے بجائے غیر جمہوری یا غیر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھتے ہیں تو اس کے لیے صرف اور صرف سیاسی قائدین ذمے دار ہیں جو معاملات کو سلجھانے کے لیے درکار بصیرت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

موجودہ حکمران اتحاد ہو یا کوئی بھی اور جماعت یا گروہ، یہ لوگ کبھی بھی قوم کو پوری بات نہیں بتاتے، لہٰذا قوم یہ جان ہی نہیں پاتی کہ اگر معاملات بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں تو ان کے پیچھے اصل اسباب کیا ہیں۔ توشہ خانہ کا 21 سالہ ریکارڈ منظر عام پر آنے سے یہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی حد تک متحد ہیں۔

استحقاق، صوابدیدی اختیارات کو قانونی بنا کر جو بدعنوانی کی جارہی ہے، اسے ختم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے، اسی لیے ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس سے سیاسی، کاروباری اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی و عدلیہ کے وابستگان کو فائدے پہنچیں۔ ملک اور عوام کے مسائل ان میں سے کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔

حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے ان میں سے ہر کوئی ایسے بیانات دیتا ہے جیسے اس سے زیادہ عوام کا ہمدرد اور کوئی نہیں ہے لیکن جیسے ہی یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں انھیں عوام بھول جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی توندیں اور تجوریاں بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

یہ سلسلہ ایک لمبے عرصے سے جاری ہے اور قابلِ قیاس مستقبل میں اس کے رکنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اسی بات کو سامنے رکھ کر آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے ایک جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرے اور انھیں دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں۔

پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ شاید اس وجہ سے بھی التوا کا شکار ہورہا ہے کہ اب عالمی ساہوکار کو یہ دکھائی دینے لگا کہ ہمارے مقتدر حلقے قرضہ تو ملکی معیشت میں سدھار لانے کے لیے حاصل کرتے ہیں لیکن پھر اس رقم کا بڑا حصہ یہ لوگ اپنے اوپر ہی خرچ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک اور عوام کے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔

بیروز گاری 'غربت میں کمی کے لیے حکومت کی مختلف کوششوں اور پالیسیوں کے باوجود، ملک میں غربت کی شرح میں کمی نہیں آ رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید بلند رہی ہے۔ایک تجزیہ کے مطابق اس وقت ملک میں 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ۔

ہر سال تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے مقابل ملازمتیں بہت کم ہیںجس کے باعث روشن مستقبل کی تلاش میں وہ کسی نہ کسی صورت بیرون ملک جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ افراط زر ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، جس میں ضروری اشیاء اور خدمات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس سے غریبوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔

اگر ہماری سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے واقعی اس ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو ممکن ہے ہمیں معیشت کو سنبھالنے کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مذکورہ طبقات کے پاس اتنی دولت موجود ہے کہ وہ اس کا چند فیصد دے کر ہی ملک کو بیرونی اور اندرونی قرضوں سے نجات دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جس ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے، وہ شاید ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔

یہ عوام سے ضرور کہتے ہیں کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے قربانی دیں لیکن آج تک طاقتور طبقات میں سے کسی نے بھی قربانی نہیں دی۔

اس غیر یقینی کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ہی آئی ایم ایف مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی من مانیوں پر اترا نظر آتا ہے۔ موجودہ بد ترین مہنگائی نے عوام کا پہلے ہی جینا محال کیا ہوا ہے، حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے سے بہر صورت گریز کرنا چاہیے۔
Load Next Story