عید قرباں

عوام کے بڑے دل کی بھی داد دینی پڑے گی جو ہر حکمران کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں

atharqhasan@gmail.com

کل عید قربان ہے موجودہ نامساعد اور دگرگوں معاشی حالات میںقارئین کو عید مبارک کہنا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے کیونکہ عوام حکومتی ایوانوں کی مہربانی سے ہر روز قربانی دے رہے ہیں اور نہ جانے کب تک قربانی دیتے رہیں گے۔

ہر حکمران عوام سے ہی قربانی مانگتا ہے اور عوام کے بڑے دل کی بھی داد دینی پڑے گی جو ہر حکمران کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، چاہے وہ انھیں پسند ہو یا نہ ہو ۔ ہر حکمران کو عوام کے اس جذبہ قربانی کا بخوبی علم ہے، اس لیے وہ قربانی کا بکرا عوام کو ہی بناتا ہے ۔

عید کے موقع پر میں حکمرانوں کی بدخوئی اور ان کے عوام پر مظالم کا ذکر کر کے، اس بابرکت تہوار کو بد مزہ ہر گز نہیں کرنا چاہتا کیونکہ پاکستان کی عوامی زندگی میں خوشی کے مواقع کم ہی آتے ہیںلیکن کیا کیا جائے کہ جب بھی کوئی خوشی کا موقع میسر آتا ہے، حکومت کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور دیتی ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہر جگہ قربانی کے جانوروں کی بہتات ہے لیکن مویشی منڈیوں میں بیوپاری گاہکوں کے منتظر ہیں لیکن عوام جو سنت ابراہیمی ادا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، وہ اس عید قربان سے پہلے ہی حکمرانوں کی مہربانیوں سے کئی قربانیاں دے چکے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

آئی ایم ایف جب بھی حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے ، حکمران عوام سے قربانی دینے کی اپیل کردیتے ہیں اور عوام حکومت کو مایوس نہیں کرتے۔ عوام کو یہ خبر ہو کہ عید قربان کے بعد مزید قربانیاں بھی دینی ہیں لہٰذا ملکی مفاد میں مزید قربانیوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیں۔

عید قربان کے موقع پر کئی برس کے بعد گاؤں میں عید گزارنے کا موقع ملا ہے ۔ ہم دیہاتی جو شہروں میں پردیسوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں، ہر وقت گاؤں واپسی کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور گاؤں کے کسی حد تک پر سکون اور پر فضاء ماحول میں پہنچ جاتے ہیں۔

شہر کی زندگی ہم دیہاتیوں کے روزی روزگار کے لیے اشد ضروری ہے کیونکہ ہماری حکومتوں نے دیہات میں کوئی ایسے اسباب پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی کہ دیہاتی اپنے گھر میں ہی روزی روٹی کا بندو بست کر سکیں ۔


یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ شہروں کی آبادی میںروز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے شہری زندگی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

دیہات سے شہروں کو نقل مکانی کی وجہ سے شہری سہولیات بھی ناکافی ہو رہی ہے اور ہمارے بڑے شہروں کی حدود بھی بڑھتی جارہی ہے ، نت نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جارہی ہیں ۔ بہر حال شہری زندگی کی سہولتیں بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہیں جو دیہات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں لیکن لاہور میں مقیم ہم پردیسی اپنے گاؤں کو چھجو کا چوبارہ سمجھتے ہیں۔

جہاں پہنچ کر ہی ہمیں سکون کی چند گھڑیاں نصیب ہوتی ہیں ۔لاہور میں ایک ضرب المثل بہت مشہور ہے کہ ''جو مزہ چھجو دے چوبارے، وہ بلخ نہ بخارے '' مغلیہ دور میں اندرون لاہور میں چھجو نامی ہندوسنار ایک چوبارے میں رہتا تھا جس کی محفل میں صوفی اور بزرگ شامل تھے، انھی محفلوں میں حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل ہوتے تھے۔

ان کی روحانیت کی برکت سے چھجو کے دل میں مخلوق خد اکی خدمت کا جذبہ پیدا ہواور وہ دنیا اللہ کے بندوں کی خدمت میں مگن ہو گیا ، اسی وجہ سے یہ بات مشہور ہو گئی کہ جو سکون چھجو کے چوبارے میں محفل میں ہوتا ہے وہ بلخ اور بخارے میں نہیں ہو سکتا ۔اس زمانے میںوسط ایشیاء میں بلخ اور بخارا دو ایسے علمی اور ادبی شہر تھے جن کی روحانی محفلوں کی اس خطے میں دھوم تھی لیکن اسی زمانے میں لاہور کے فقیر یہ کہتے پائے جاتے کہ چھجو کے چوبارے کی محفل زیادہ پر سکون ہے ۔

اس لیے ہم دیہاتی بھی کہتے ہیں کہ جو سکون اپنے گاؤں میںملتا ہے وہ شہر کی سہولتوں میں نہیں ہے اسی لیے ہر دیہاتی موقع پاتے ہی گاؤں لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ قربانی خاص طور پر اللہ اور بندے کا معاملہ ہے، اسی لیے سورۃ حج میں کہہ دیا گیا ہے کہ ''اﷲ کو نہ ان کا (جانوروں) گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون ، بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیز گاری پہنچتی ہے''۔

سنت ابراہیمی کی ادائیگی خالصتاً اﷲ کی خوشنودی کے حصول اور اس بابرکت قربانی کی یاد میں کی جاتی ہے جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی عزیز ترین شئے کی قربانی کا حکم دیاتو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے فرزند حضرت اسماعیل کو بتایا، اور کہا کہ مجھے تم سے زیادہ عزیز کوئی اور نہیں ہے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا ، بابا جان آپ اﷲ کے حکم پر لبیک کہیں، میں حاضر ہوں اور پھر عین قربانی کے وقت اللہ تعالیٰ نے جنت سے مینڈھا قربانی کے لیے بھیج دیا ۔

اسی عظیم واقعہ کی یاد میں ہم مسلمان قربانی کرتے ہیں۔ ہم آپ سب مسلمان ہیں لیکن بعض اوقات اﷲ تعالیٰ کے واضح فیصلوں سے بھی روگردانی کر جاتے ہیں ۔اﷲ کی راہ میں قربانی کا مطلب یہی ہے کہ قربانی کے گوشت میں اپنے عزیزوں کے علاوہ غرباء اور مساکین کو شامل کریں ۔قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے کے بجائے اسی دن تقسیم کر دینا چاہیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو صاحب حیثیت ہیں اور قربانی کرتے ہیں، وہ سال بھر گوشت کھا سکتے ہیں۔

ان کو چاہیے کہ وہ عید قربان کے موقع پراپنے گھر کے افراد کے لیے صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے قربانی کا گوشت استعمال کریں اور باقی گوشت ان ضرور ت مندوں میں تقسیم کر دیں جو اس کے اصل حقدار اور مستحق ہیں، یہی افضل طریقہ ہے اور یہی قربانی کی اصل روح ہے ۔
Load Next Story