مودی کو کشمیر کا کیا پتہ
فاروق عبداللہ نے انتباہ کیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کی صورت میں کشمیرکا بھارت کے ساتھ الحاق بھی خطرے میں پڑجائے گا
KARACHI:
مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ ملک میں دو تہائی ووٹنگ مکمل ہونے تک کشمیر کو انتخابی مسئلہ نہیں بنایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے انتخابی منشور میں یہ ضرور کہا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیں گے جس کے تحت کہ کشمیر کو بھارتی یونین یا وفاق میں خصوصی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں بی جے پی یہ مطالبہ کئی سال سے کر رہی ہے مگر اس کو کبھی بھی توجہ حاصل نہیں ہو سکی۔
بہار سے بی جے پی کے لیڈر گری راج سنگھ نے بِِھنّا کر کہا کہ جو نریندر مودی کو ووٹ نہیں دیں گے انھیں پاکستان چلے جانا چاہیے۔ اس بیان سے وقتی طور پر ماحول ضرور خراب ہوا لیکن جب بی جے پی نے اس بیان سے لاتعلقی اختیار کر لی تو صورتحال معمول پر آ گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے لیڈر کے اس تبصرے پر بھی کہ جنہوں نے مودی کو ووٹ دیا ہے انھیں اب سمندر میں ڈوب مرنا چاہیے زیادہ توجہ نہیں دی گئی کیونکہ وہ ماضی میں بھی اس قسم کے بے سود بیانات دیتے رہے ہیں لیکن اس کو سنجیدگی سے شاذ ہی لیا گیا ہے۔ اصل نقصان نریندرا مودی نے پہنچایا ہے جو ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر کسی حدود و قیود کا خیال نہیں رکھتا۔ انھوں نے ماحول کو اسقدر آلودہ کر دیا ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو گئی ہے۔
مودی نے کشمیر کے مقبول عوامی لیڈر شیخ عبداللہ پر الزام عاید کیا کہ کشمیر کی خراب صورت حال کی ذمے داری انھی پر آتی ہے۔ لیکن شیخ صاحب وہ واحد شخصیت تھے جو اسقدر بلند قامت اور مقبول عام تھے کہ وہ مسلم جموں کشمیر کی اکثریت کو ہندو بھارت کی اکثریت سے ہم آہنگ کر سکتے تھے۔شیخ کے بیٹے فاروق عبداللہ کا یہ بیان کہ کشمیر فرقہ پرست بھارت کا کبھی حصہ نہیں بنے گا اور یہ کہ تمام سیکولر قوتوں کو فرقہ وارانہ قوتوں سے لڑائی کرنی چاہیے اور فاروق اس لڑائی میں بنفس نفیس حصہ لیں گے۔ ہمیں ملک کو واپس سیکولرازم اور جمہوریت کی راہ پر لانا ہو گا۔ اس کا بیان صورت حال سے غیر متعلقہ نہیں لیکن پاکستان اور وہ لوگ جنہوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں دی ہیں وہ بھی تو غیر متعلقہ نہیں ہیں۔
جواہر لال نہرو کو پاکستان کی کشمیر سے دلچسپی کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا اور انھوں نے شیخ عبداللہ کو اسلام آباد بھیجا تھا تا کہ وہ مسئلے کا متفقہ حل تلاش کر سکیں۔ شیخ کی جنرل ایوب خان کے ساتھ ملاقات ہوئی جو کہ اس وقت پاکستان کے سربراہ تھے۔ اس تعطل کو دور کرنے کی خاطر آخری کوشش اس وقت کی گئی جب شیخ نے مئی 1964ء میں ایوب خان سے ملاقات کی۔ ایوب نے اپریل 1972ء میں خود مجھے بتایا تھا کہ نہرو نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ جب مذاکرات شروع ہوئے تو نہرو بستر مرگ پر لیٹ چکے تھے۔ پاکستان اس گنجلک صورت حال کو سلجھانے کے لیے بہت بے تاب تھا لیکن لال بہادر شاستری کی ایوب خان کے ساتھ ملاقات قطعاً بے نتیجہ رہی۔
شاستری کشمیر کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتا تھا حتی کہ اس نے دونوں ملکوں کے وزرائے داخلہ کی ملاقات کے بعد جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیے میں بھی کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کرنے دیا۔جہاں تک کشمیر کی آزادی کا تعلق ہے تو عسکریت پسندوں کو غالباً اس بات کا احساس نہیں کہ طالبان نے دنیا میں اسقدر خوف پیدا کر دیا ہے کہ کشمیر میں سرکشی کرنے والوں کو بھی بنیاد پرست سمجھا جانے لگا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی جیسے سخت موقف کے حامل لوگوں کی طرف سے ریاست کی آزادی کے مطالبے کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔پاکستان جو کہ کشمیر کی آزادی کے خیال کا سختی سے مخالف تھا اب وہ اس حوالے سے خاموش ہو چکا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ میں بعض عناصر آزادی کی حمایت میں آواز بھی اٹھاتے ہیں وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انھیں توقع ہے کہ کشمیر آزاد ہونے کے بعد لامحالہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائے گا۔وہ لوگ جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں خواہ وہ اس مطالبے میں کتنے بھی حق بجانب کیوں نہ ہوں لیکن وادی کے اندر رہتے ہوئے وہ کشمیر کے دوسرے دو علاقوں یعنی جموں اور لداخ کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جموں تو کسی فیصلہ کن مرحلے پر بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرے گا جب کہ لداخ بھی بھارت کے وفاق کا حصہ بننے کو ترجیح دے گا۔ لہٰذا آزادی کا مطالبہ صرف وادی تک محدود ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ آیا خشکی میں گھری ہوئی (Land-Locked) وادی کشمیر اقتصادی طور پر خود کفیل ہوسکتی ہے یا نہیں۔
لیکن میں اس مطالبے کے حامیوں سے یہ جاننے کی کوشش ضرور کروں گا۔ کہ کیا ان کا آزادی کا مطالبہ جائز ہے جب کہ جموں اور لداخ میں اس مطالبے کی کوئی حمایت موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی کے باہر کوئی بھی آزادی کی آواز بلند نہیں کرتا۔ اعتدال پسند میر واعظ عمر فاروق نے نئی لوک سبھا کے اراکین سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے مطالبے کی حمایت کریں لیکن ملک سے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ میر واعظ کا کہنا ہے کہ ہم مل کر اس تاریخی اقدام کی کوئی راہ نکال لیں گے لیکن بھارت میں میر واعظ کی کوئی ساکھ نہیں۔ ان کے والد کہیں زیادہ حقیقت پسند تھے جو بھارتی یونین کے اندر ہی کوئی حل چاہتے ہیں تاہم یہ بھارتی آئین سے ماورا ہونا چاہیے۔ ان کو عسکریت پسندوں نے ہلاک کر دیا۔
مودی کی یا اس کی بی جے پی کی انتخابی فتح کے امکان پر پیدا ہونے والی تشویش قابل فہم ہے لیکن نئی دہلی میں اس سے پہلے بھی تو بی جے پی کی حکومت رہ چکی ہے۔ مودی ممکن ہے کہ ہندوتوا کا بہت کرخت چہرہ ہو لیکن آئین اس سے بالاتر ہے جو قانون کے سامنے سب کی برابری کی ضمانت دیتا ہے۔ ویسے بھی بھارت ہزاروں سال سے کثیر المذہبی معاشرہ ہے۔ مودی نے اپنی تقاریر میں کہا ہے اگر وہ منتخب ہو گیا تو وہ تمام طبقوں کو ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ساتھ لے کر چلے گا کہ یہی اس کا ایجنڈا ہے۔ اگر وہ بھارت کے تنوع اور رنگا رنگی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا تو ملک کی جمہوری اور آزاد خیال قوتیں اتنی مضبوط ضرور ہیں کہ وہ اجتماعیت کے نظریے کا تحفظ کر سکیں جو کہ تحریک آزادی کی بنیاد تھی۔آئین کا آرٹیکل 370 جموں کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دیتا ہے۔
مودی یا اس کی پارٹی اس کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی کیونکہ اس ریاست نے اس شرط پر یونین میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب یہ ریاست کا اختیار ہے کہ اگر وہ اس شرط کو تبدیل کرانا چاہے تو کرا سکتی ہے تاہم مسئلہ کشمیر اس کے تین فریقوں یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیر کے لیے الگ الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اب اس میں اور زیادہ پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ بی جے پی نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن اس کی تنسیخ اس تصفیے کے خلاف غداری کے مترادف ہو گی جو نہرو اور شیخ عبداللہ میں ہو چکا تھا۔
فاروق عبداللہ نے انتباہ کیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کی صورت میں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اس آرٹیکل کے تحت بھارت کو دفاع' امور خارجہ اور مواصلات کے محکمے دیے گئے بعد ازاں بھارت کے بہت سارے قوانین کی کشمیر تک بھی توسیع کر دی گئی جن میں سے بعض کی ریاستی قانون سازی نے منظوری بھی نہیں دی تھی۔ یہ سب اب واپس لیے جانے چاہئیں اگر ریاست کی وہ حیثیت بحال کر دی جائے جو اسے بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد حاصل ہوئی تھی تو ممکن ہے کہ اس طرح اس مسئلہ کا کوئی حل نکل سکے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ ملک میں دو تہائی ووٹنگ مکمل ہونے تک کشمیر کو انتخابی مسئلہ نہیں بنایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے انتخابی منشور میں یہ ضرور کہا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیں گے جس کے تحت کہ کشمیر کو بھارتی یونین یا وفاق میں خصوصی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں بی جے پی یہ مطالبہ کئی سال سے کر رہی ہے مگر اس کو کبھی بھی توجہ حاصل نہیں ہو سکی۔
بہار سے بی جے پی کے لیڈر گری راج سنگھ نے بِِھنّا کر کہا کہ جو نریندر مودی کو ووٹ نہیں دیں گے انھیں پاکستان چلے جانا چاہیے۔ اس بیان سے وقتی طور پر ماحول ضرور خراب ہوا لیکن جب بی جے پی نے اس بیان سے لاتعلقی اختیار کر لی تو صورتحال معمول پر آ گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے لیڈر کے اس تبصرے پر بھی کہ جنہوں نے مودی کو ووٹ دیا ہے انھیں اب سمندر میں ڈوب مرنا چاہیے زیادہ توجہ نہیں دی گئی کیونکہ وہ ماضی میں بھی اس قسم کے بے سود بیانات دیتے رہے ہیں لیکن اس کو سنجیدگی سے شاذ ہی لیا گیا ہے۔ اصل نقصان نریندرا مودی نے پہنچایا ہے جو ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی خاطر کسی حدود و قیود کا خیال نہیں رکھتا۔ انھوں نے ماحول کو اسقدر آلودہ کر دیا ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو گئی ہے۔
مودی نے کشمیر کے مقبول عوامی لیڈر شیخ عبداللہ پر الزام عاید کیا کہ کشمیر کی خراب صورت حال کی ذمے داری انھی پر آتی ہے۔ لیکن شیخ صاحب وہ واحد شخصیت تھے جو اسقدر بلند قامت اور مقبول عام تھے کہ وہ مسلم جموں کشمیر کی اکثریت کو ہندو بھارت کی اکثریت سے ہم آہنگ کر سکتے تھے۔شیخ کے بیٹے فاروق عبداللہ کا یہ بیان کہ کشمیر فرقہ پرست بھارت کا کبھی حصہ نہیں بنے گا اور یہ کہ تمام سیکولر قوتوں کو فرقہ وارانہ قوتوں سے لڑائی کرنی چاہیے اور فاروق اس لڑائی میں بنفس نفیس حصہ لیں گے۔ ہمیں ملک کو واپس سیکولرازم اور جمہوریت کی راہ پر لانا ہو گا۔ اس کا بیان صورت حال سے غیر متعلقہ نہیں لیکن پاکستان اور وہ لوگ جنہوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں دی ہیں وہ بھی تو غیر متعلقہ نہیں ہیں۔
جواہر لال نہرو کو پاکستان کی کشمیر سے دلچسپی کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا اور انھوں نے شیخ عبداللہ کو اسلام آباد بھیجا تھا تا کہ وہ مسئلے کا متفقہ حل تلاش کر سکیں۔ شیخ کی جنرل ایوب خان کے ساتھ ملاقات ہوئی جو کہ اس وقت پاکستان کے سربراہ تھے۔ اس تعطل کو دور کرنے کی خاطر آخری کوشش اس وقت کی گئی جب شیخ نے مئی 1964ء میں ایوب خان سے ملاقات کی۔ ایوب نے اپریل 1972ء میں خود مجھے بتایا تھا کہ نہرو نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ جب مذاکرات شروع ہوئے تو نہرو بستر مرگ پر لیٹ چکے تھے۔ پاکستان اس گنجلک صورت حال کو سلجھانے کے لیے بہت بے تاب تھا لیکن لال بہادر شاستری کی ایوب خان کے ساتھ ملاقات قطعاً بے نتیجہ رہی۔
شاستری کشمیر کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتا تھا حتی کہ اس نے دونوں ملکوں کے وزرائے داخلہ کی ملاقات کے بعد جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیے میں بھی کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کرنے دیا۔جہاں تک کشمیر کی آزادی کا تعلق ہے تو عسکریت پسندوں کو غالباً اس بات کا احساس نہیں کہ طالبان نے دنیا میں اسقدر خوف پیدا کر دیا ہے کہ کشمیر میں سرکشی کرنے والوں کو بھی بنیاد پرست سمجھا جانے لگا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی جیسے سخت موقف کے حامل لوگوں کی طرف سے ریاست کی آزادی کے مطالبے کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔پاکستان جو کہ کشمیر کی آزادی کے خیال کا سختی سے مخالف تھا اب وہ اس حوالے سے خاموش ہو چکا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ میں بعض عناصر آزادی کی حمایت میں آواز بھی اٹھاتے ہیں وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انھیں توقع ہے کہ کشمیر آزاد ہونے کے بعد لامحالہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائے گا۔وہ لوگ جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں خواہ وہ اس مطالبے میں کتنے بھی حق بجانب کیوں نہ ہوں لیکن وادی کے اندر رہتے ہوئے وہ کشمیر کے دوسرے دو علاقوں یعنی جموں اور لداخ کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جموں تو کسی فیصلہ کن مرحلے پر بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرے گا جب کہ لداخ بھی بھارت کے وفاق کا حصہ بننے کو ترجیح دے گا۔ لہٰذا آزادی کا مطالبہ صرف وادی تک محدود ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ آیا خشکی میں گھری ہوئی (Land-Locked) وادی کشمیر اقتصادی طور پر خود کفیل ہوسکتی ہے یا نہیں۔
لیکن میں اس مطالبے کے حامیوں سے یہ جاننے کی کوشش ضرور کروں گا۔ کہ کیا ان کا آزادی کا مطالبہ جائز ہے جب کہ جموں اور لداخ میں اس مطالبے کی کوئی حمایت موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی کے باہر کوئی بھی آزادی کی آواز بلند نہیں کرتا۔ اعتدال پسند میر واعظ عمر فاروق نے نئی لوک سبھا کے اراکین سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے مطالبے کی حمایت کریں لیکن ملک سے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ میر واعظ کا کہنا ہے کہ ہم مل کر اس تاریخی اقدام کی کوئی راہ نکال لیں گے لیکن بھارت میں میر واعظ کی کوئی ساکھ نہیں۔ ان کے والد کہیں زیادہ حقیقت پسند تھے جو بھارتی یونین کے اندر ہی کوئی حل چاہتے ہیں تاہم یہ بھارتی آئین سے ماورا ہونا چاہیے۔ ان کو عسکریت پسندوں نے ہلاک کر دیا۔
مودی کی یا اس کی بی جے پی کی انتخابی فتح کے امکان پر پیدا ہونے والی تشویش قابل فہم ہے لیکن نئی دہلی میں اس سے پہلے بھی تو بی جے پی کی حکومت رہ چکی ہے۔ مودی ممکن ہے کہ ہندوتوا کا بہت کرخت چہرہ ہو لیکن آئین اس سے بالاتر ہے جو قانون کے سامنے سب کی برابری کی ضمانت دیتا ہے۔ ویسے بھی بھارت ہزاروں سال سے کثیر المذہبی معاشرہ ہے۔ مودی نے اپنی تقاریر میں کہا ہے اگر وہ منتخب ہو گیا تو وہ تمام طبقوں کو ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ساتھ لے کر چلے گا کہ یہی اس کا ایجنڈا ہے۔ اگر وہ بھارت کے تنوع اور رنگا رنگی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا تو ملک کی جمہوری اور آزاد خیال قوتیں اتنی مضبوط ضرور ہیں کہ وہ اجتماعیت کے نظریے کا تحفظ کر سکیں جو کہ تحریک آزادی کی بنیاد تھی۔آئین کا آرٹیکل 370 جموں کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دیتا ہے۔
مودی یا اس کی پارٹی اس کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی کیونکہ اس ریاست نے اس شرط پر یونین میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب یہ ریاست کا اختیار ہے کہ اگر وہ اس شرط کو تبدیل کرانا چاہے تو کرا سکتی ہے تاہم مسئلہ کشمیر اس کے تین فریقوں یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیر کے لیے الگ الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اب اس میں اور زیادہ پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ بی جے پی نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن اس کی تنسیخ اس تصفیے کے خلاف غداری کے مترادف ہو گی جو نہرو اور شیخ عبداللہ میں ہو چکا تھا۔
فاروق عبداللہ نے انتباہ کیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کی صورت میں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اس آرٹیکل کے تحت بھارت کو دفاع' امور خارجہ اور مواصلات کے محکمے دیے گئے بعد ازاں بھارت کے بہت سارے قوانین کی کشمیر تک بھی توسیع کر دی گئی جن میں سے بعض کی ریاستی قانون سازی نے منظوری بھی نہیں دی تھی۔ یہ سب اب واپس لیے جانے چاہئیں اگر ریاست کی وہ حیثیت بحال کر دی جائے جو اسے بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد حاصل ہوئی تھی تو ممکن ہے کہ اس طرح اس مسئلہ کا کوئی حل نکل سکے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)