مزدور کا حق …

مزدوروں کو ان کا حق دلانے کے لیے انھوں نے ٹریڈ یونین بھی قائم کی، ۔۔۔

کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدور کا کردار تو اہم مگر حق تلفی ازل ہی سے مقدر رہی ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے نے ہمیشہ ہی مزدور کا استحصال کیا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک مزدور کے لیے متعین کردہ حق سے آگہی، جدوجہد اور تفویض بھی غیروں ہی کے حصے میں آئی۔ مزدوروں کے مفاد اور ان کے حقوق کے لیے کمیونسٹ ہمیشہ ہی سرگرم رہے، جس کے لیے انھوںنے مزدوروں کا اتحاد قائم کیا اور آواز بلند کی۔

مزدوروں کو ان کا حق دلانے کے لیے انھوں نے ٹریڈ یونین بھی قائم کی، حالانکہ 18 مئی 1882 میں سینٹرل لیبر یونین آف نیویارک کے ایک اجلاس میں کمیونسٹ لیڈر پیٹر میگوار نے مزدور برادری کے جشن کے لیے ''یوم مزدور'' کی شکل میں ایک دن متعین کرنے کی تجویز رکھی تھی اور 1884 میں ''فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبر یونینز آف دی یو ایس اینڈ کینیڈا'' نے 1884 میں ہر سال ستمبر کے پہلے سوموار کو مزدوروں کے لیے قومی تعطیل کا فیصلہ کیا، لیکن جہاں تک مزدوروں میں بیداری اور اتحاد پیدا ہونے کی بات ہے تو امریکا و یورپ میں 17ویں صدی کے آخر میں اس کے آثار نظر آنے لگے تھے۔

یہی سبب ہے کہ نیو انگلینڈ کی ''ورکنگ مین ایسو سی ایشن'' نے 1832 میں کام کے گھنٹوں کو کم کر کے 10 گھنٹے کرنے کی کامیاب جدوجہد شروع کی۔ بعد ازاں 1882 میں امریکا میں مزدوروں نے ایک جلوس نکالا اور نعرہ دیا کہ ''8 گھنٹے کام لیا جائے، 8 گھنٹے آرام کے لیے اور 8 گھنٹے ہماری مرضی پر''۔ اس کے بعد امریکا میں مزدور یونینوں نے اس مطالبے پر زبردست مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے لیے یکم مئی 1886 کی تاریخ مقرر کی۔

آگے چل کر یہی یکم مئی پورے ملک میں ''یومِ مزدور'' کی شکل میں منایا جانے لگا اور دھیرے دھیرے دوسرے ممالک نے بھی یکم مئی کو ''یومِ مزدور'' کے طور پر منانا شروع کر دیا۔ جہاں تک ہندوستان میں مزدوروں کے اتحاد کی بات ہے، تو اس کی مثال 1862 میں اپریل مئی کے دوران 1200 مزدوروں کے ذریعے ہاوڑہ ریلوے اسٹیشن پر کی گئی ہڑتال ہے، اس ہڑتال میں بھی مزدوروں کا اصل مطالبہ کام کے اوقات کو گھٹا کر 8 گھنٹے کرنا تھا۔ ہندوستان میں باضابطہ یکم مئی کو ''یومِ مزدور'' کے طور پر1923 میں منایا گیا، جس کے بعد ہر سال یہ تہوار منایا جانے لگا اور اس موقعے پر اجلاسوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا جانے لگا جس میں مزدوروں کی ترقی اور ان کے مفاد سے متعلق اقدام کیے جانے لگے۔

یہ وہی یوم مزدور ہے، یعنی اس مزدور کا دن جس کی پاکستان میں کم از کم تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے مقرر کی جانی تھی، جس کے لیے سیاسی جماعتیں کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کی رقم کے برابر کرنے کا لالچ دے کر ووٹ حاصل کررہی تھیں۔ خیر یہ تو سیاسی مکاریاں اور چاپلوسیاں تھیں جو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کوئی بھی مفاد پرست کسی کے ساتھ بھی کرسکتا ہے۔ اس سے ہٹ کر بعض کام ایسے بھی ہوتے جن کے وعدے بار بارکرکے جھوٹے سے جھوٹا اور مکار سے مکار شخص بھی آخر ایک روز اپنے آپ سے شرمندہ ہوکر انھیں پایہ تکمیل تک پہنچانے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کوئی تمام بنیادی حقوق نہیں بلکہ چند حقوق جو مزدورکوآسائشیں تو نہیں دے سکتے البتہ اسے بڑے ظلم سے ضرور بچا سکتے ہیں۔

وہ مزدورکے اوقات کار اور مقررکردہ کم ازکم تنخواہ، کہ طے پایا تھا کہ آٹھ گھنٹے کے اوقات کار ہوں گے،کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے گی۔ بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عالمی دبائو پر مزدورکوکچھ حقوق دیے گئے ہیں مگر یہ ملتے ایک فیصد کو بھی نہیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بڑی تعداد ہی اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہے جب کہ مقامی صنعتوں میں شاید ایک فیصد بھی ایسی نہ ہوں جو یہ حق بھی اپنے مزدوروںکو دینے پر آمادہ ہوں۔ رہی بات لیبر رائٹس کی تو تقریریں جھاڑنے کے لیے ایک اچھا ٹاپک ہے ورنہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں کی حکومتوں سے کسی غریب کے حق کی توقع لگانا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

کیوں کہ یہ ہمارا ہی قصور ہے کہ ہم اپنے اوپر حکمرانی کے لیے انھی کا انتخاب کرتے ہیں جو ہمیں سے کام لے کر چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں کو بڑی بڑی صنعتوں میں تبدیل کردیتے ہیں، عالیشان بنگلے اور محل تعمیر کراتے ہیں، پھر تھوڑی سی چاپلوسی سے ووٹ حاصل کرکے ہمارے ہی اوپر اقتدار کا رعب جھاڑنے لگتے ہیں، ایک صوبے کے رہنما بن کر دوسرے صوبے کے رہنے والے بھائیوں کو برا بھلا کہہ کر صوبائی منافرت پھیلاتے ہیں، اسی غریب مزدور کو بیروزگارکرنے کے لیے پرائیویٹائزیشن متعارف کراتے ہیں، کہیں چولہے بجھانے کے لیے گیس بند کرتے ہیں تو کہیں بجلی بحران پر قابو نہیں پاسکے۔ حکومت اور اس کے حواری کہیں جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے پر خوشی کے بگل بجا رہے ہیں تو کہیں تھری جی اور فور جی پر مبارکبادیں دیتے نظر آتے ہیں۔


ایسا لگتا ہے کہ اس کا سارا فائدہ بیچارے غریب کو ہی ملے گا،کہیں جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے سے دس لاکھ افراد کو روزگار کی طفل تسلی، تو کہیں تھری جی اور فورجی ٹیکنالوجی سے دس لاکھ لوگوں کو روزگار ملنے کی خوشخبریاں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت اپنی نہیں صرف غریبوں کی جیب بھرنے کی فکر میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ حالات یہ ہیں کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل کا شعبہ جو ملک کو پچپن فیصد ریونیو کماکر دینے کا دعویدار ہے اور اس شعبے کا دعویٰ ہے کہ ملک کا اڑتیس فیصد روزگار اسی سے وابستہ ہے مگر مزدور کا جتنا استحصال ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہورہا ہے ۔اس کی مثال دوسرے شعبوں میں کم ہی ملتی ہے۔

پاور لومز میں کام کرنے والے مزدور روزانہ اجرت پر کم از کم بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں، ان کی اجرت کپڑے کی پیمائش کے حساب سے ادا کی جاتی ہے، دن میں چھے سے آٹھ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث بارہ گھنٹے کام کرنیوالا مزدور تیس سے پچاس فیصد ہی کام کرپاتا ہے، غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث وہ بارہ گھنٹے میں سے چھ گھنٹے بجلی آنے کا انتظار کرنے میں صرف کردیتا ہے، بارہ گھنٹے کام کی اجرت بھی 5سو روپے یومیہ کے بجائے ڈیڑھ سے ڈھائی سو روپے ہی کما پاتا ہے۔اسی طرح پیمائش اور چیکنگ کا کام کرنیوالوں کا بھی یہی بلکہ اس سے بھی برا حال ہے کیوں کہ بیشتر فیکٹریوں میں آٹھ کے بجائے بارہ گھنٹے کام کرنے کی اجرت کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے سے بھی کہیں کم ہے اور وہ بھی ٹھیکے پر اور لوڈ شیڈنگ کے باعث جو مزدوری اسے ملتی ہوگی اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

اسی طرح بھٹہ مزدور، پھر کھیت مزدوری کرنیوالے اورکھیلوں کا سامان بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرنیوالے۔ اس کے علاوہ خواتین اور بچے سات سات ہزار روپے ماہانہ پر کام کرکے اپنی گزر اوقات کررہے ہیں، سات ہزار روپے ماہانہ میں بارہ گھنٹے روزانہ اور وہ بھی بغیر کسی ہفتہ وار چھٹی کے، کام کرنیوالی خاتون آج یوم مزدور پر بھی اپنی فیکٹری میں کام کررہی ہے، جب اسے بارہ گھنٹے کام کے بعد چھٹی ملے گی تو اسے گھر جاکر بچوں کے لیے کھانا بھی تیار کرنا ہے، جھاڑ پونچھ کے بعد برتن دھوتے ہوئے صابن کی ترشی اس کے ہاتھوں کے چھالوں میں لگنے کے بعد اسے احساس دلاسکتی ہے کہ اس کا ہر یوم ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کا ''یوم مزدور''، کیوں کہ اسے مزدوری کا حق ملنا تو درکنار ''مزدور ڈے'' کی کوئی تقریب بھی میسر نہیں، کہ کچھ دل ہی بہل جائے، بھڑاس ہی نکل جائے،کچھ کھانے پینے کا اہتمام ہی ہو جائے۔

اسی طرح گھریلو سطح پرکام کرنیوالی خواتین جو سارا سارا دن کی محنت کے عوض پچاس سے سو روپے کما پاتی ہیں، جب کہ ان سے کام لینے والے سرمایہ کار اور دلال ایک ایک دن میں دس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی بچت کرلیتے ہیں، جن پر کوئی سیلز ٹیکس ہے اور نہ انکم ٹیکس، وہ گیس سے جنریٹر چلائیں یا بجلی کے کنڈے لگائیں وہ ایک دن میں اتنا کمالیتے ہیں کہ کسی بھی سرکاری یا خود مختار ادارے کی چھاپہ مار ٹیم کو پانچ دس ہزار روپے دے کر جان چھڑالیں۔ ایسا صرف اسی سطح پر نہیں ہے بلکہ اعلیٰ حکومتی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک سبھی اپنا اپنا کام دکھانے میں مگن ہیں۔

یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی کا درجہ دے دیا ہے، جس کے لیے اقوام متحدہ کے ستائیس کنونشنز پر پورا اترنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ ستائیس کنونشنز کے تحت بنیادی انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کا خیال نہ رکھنے والے ممالک کو یہ درجہ نہیں دیا جاتا، مگر کرپشن صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں یورپی یونین میں بھی اسی طرح ہے، وہاں بھی راشی لوگ اسی شرح سے پائے جاتے ہیں جیسے ہمارے سرکاری اداروں میں، ورنہ کیا انھیں معلوم نہیں کہ جن صنعتکاروں سے وہ مصنوعات لے رہے ہیں ان کا رویہ ایک مزدور کے ساتھ کیسا ہے۔ مزدور کے بارے میں کسی شاعر نے کہا ہے کہ

سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
Load Next Story