ہم پاکستانی

کھاتے کھاتے مر جائیں گے لیکن کبھی یہ نہیں کہیں گے، اﷲ تیرا شکر ہے، میرا پیٹ بھر گیا

latifch@express.com.pk

عید قرباں اختتام کو پہنچ گئی ہے اور میرے جیسے کئی ''بدھو'' لوٹ کر دفتر بھی آ گئے ہیں اور جو باقی ہیں، وہ بھی واپس لوٹنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

ویسے پاکستان بھی کیا نرالا ملک ہے، جو یہاں رہ رہا ہے، وہ بھاگ کر پردیس جانا چاہتا ہے اور جو پردیس بھگت رہا ہے، وہ پاکستان کے گھامڑ ماحول میں واپس آنا چاہتا ہے۔ہماری سیاست میں اوور سیز پاکستانیوں نے جو گرد اڑائی، وہ اب تک نہیں چھٹی۔میرا ایک دوست یورپی ملک میں برسوں سے رہ رہا ہے۔ خوشحال کاروباری ہے، فون پر اس سے گپ شپ بھی ہوتی رہتی ہے۔

وہ یورپیملک کے بارے میں اچھی اچھی باتیں بتاتا رہتا ہے، مثلاً وہاں بہترین انفراسٹرکچر ہے، امن وامان مثالی ہے، علاج اور تعلیم کی سہولتیں اعلیٰ معیار کی ہیں، بجلی جاتی ہے نہ گیس،گٹر بند ہوتے ہیں نہ ابلتے ہیں، بارش کے پانی سے گلیاں تالاب نہیں بنتیں اور نہ کرنٹ لگنے سے اموات سننے میں آتی ہیں۔

یہ باتیں سن کر میں اسے تو نہیں بتاتا لیکن دل ہی دل میں چاہتا ہوں، کاش! میں بھی اس ملک میں جاؤں اور زندگی کے آخری ایام سکون سے گزاروں، کم ازکم موت تو پرسکون ماحول میں ہونی چاہیے۔ لیکن میرا یہ دوست جب اپنی ساری باتیں کر لیتا ہے تو آخر میں ٹھنڈی آہ بھر کر کہتا ہے، یار! جو مزہ پاکستان میں ہے، وہ یہاں نہیں ہے۔

تمہارے مزے ہیں یار!... ہم تو یہاں کسی کو پیار سے گالی دینے کو بھی ترس گئے ہیں۔ سڑک پر جلیبیاں کھا کر لفافہ وہیں پھینکنے سے ڈر لگتا ہے، کہیں جرمانہ نہ ہوجائے۔ لاہور میں کیا مزہ ہے، دوستوں کی محفلیں، دھڑلے سے ٹریفک سگنل توڑ دینا، جدھر چاہو گندگی پھینک دو، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

اپنے دوست کے دکھڑے سننے کے بعد میں نے محسوس کیا، پرامن زندگی سے بھی انسان اکتا جاتاہے، وہ بدامنی، ماردھاڑ،چھینا جھپٹی کے ماحول کو نوسٹیلجلیا میں جا امن و سکون کا متبادل بنا لیتا ہے۔ پاکستان میں تو ایک دن بھی کسی خوفناک، المناک، دردناک اور تشویشناک خبر کے بغیر نہیں گزرتا۔ عید الاضحیٰ کی آمد سے قبل کے ایام دیکھ لیں۔ ایک جانب قربانی کے جذبے سے سرشار مسلمان قربانی کے جانور خرید رہے ہیں تو دوسری جانب چور اچکے اور اٹھائی گیرے پورے ''جذبۂ ایمانی'' سے جانور چوری کرنے اور اٹھانے کے لیے متحرک ہیں۔

میرے علاقے میں ایک صاحب نے قربانی کے لیے عید سے ہفتہ پہلے بیل خریدا۔ اب جو چوری کی اطلاعات آنے لگیں ، اردگرد ایک دو وارداتیں بھی ہو گئیں تو وہ پریشان ہوگیا۔ موصوف نے گلی میں ہی چارپائی ڈال لی اور جانور کی چوکیداری پر مامور ہو گیا، پورا گھرانہ دن رات جاگ کر گزارنے لگا۔ یہ کام شفٹوں میں ہوتا رہا۔ آٹھ آٹھ گھنٹے کی شفٹ کے دوران وہ صاحب خود، اس کا بیٹا اور داماد باری باری شفٹ سنبھالتے۔ اوپر سے شدید گرمی اور بارشیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اسے کہتے ہیں ''قربانی کا جذبہ''۔

اﷲ اﷲ کر کے عید کا دن آیا، بیل کو قصائی کے سپرد کیا گیا، پورے گھرانے نے گوشت بنوانے تک قصائیوں کا پہرہ دیا ، کہیں قصائی بھی اپنا ''کام'' نہ دکھا دیں۔ اس کے بعدچوری اور ڈکیتی کا خوف دل سے اترا۔ اس بار تو جانباز رہزنوں نے چلتی ویگنوں سے بکرے چوری کرکے نئے ورلڈ ریکارڈ قائم کردیے۔ ایسی دلیری، چابکدستی اور مہارت تو شاید امریکا کے میرین فوجیوں میں نہیں ہوگی ۔ پاکستان اس کھیل میں پہلی پوزیشن پر رہا ہے۔ علامہ اقبال کا شعر یاد آ رہا ہے:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے


ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

یہ تو عید قرباں سے پہلے کے تھریلر ایام کی روداد ہے۔ عید قرباں کا دن بھی کسی ایڈونچر سے کم نہیں ہوتا ہے۔ قصائیوں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرنا، یہ بھی ایک آرٹ ہے۔ بعض پاکستانی اس آرٹ کے بہت ماہر ہیں،کچھ تو پیسے بچانے کے لیے چھرا اور بغدا لے کر خود ہی جانور کے ساتھ الجھ جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ خودساختہ قصائی جانور کی ٹکر سے زخمی بھی ہوجاتے ہیں، لیکن مہم جوئی سے باز نہیں آتے،کہیں اناڑی قصائی قربانی کے جانور کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ نہ پتہ چلتا ہے کہ ہڈی کہاں سے کاٹی گئی ہے اور نہ ہی یہ علم ہوتا ہے کہ بوٹی کس جگہ کی ہے۔

بس یوں سمجھ لیں کہ جانور کو کاٹنا تھا، سو وہ کام انجام دے دیا ہے۔ اب اگلا ایڈونچر قربانی کا گوشت تقسیم کرنا، پکانا اور کھانا ہوتا ہے۔ تقریباً ہر گھر سے کلیجی اور گوشت پکنے کی ''خوشبو'' آتی ہے۔ تندوروں پر نان لینے والوں کا رش اس طرح ہوتا ہے جیسے مفٹ آٹا اسکیم کے دوران آٹا لینے والوں کا ہوا کرتا ہے۔ پاکستانی مسلمان کھانے کے آرٹ میں بھی ماہر مانے جاتے ہیں۔ کسی منچلے نے ٹوٹے پھوٹے شعر میں اس کی منظرکشی کرنے کی کوشش کی ہے:

بڑی عید نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجیے

گوشت کا پتیلا ہے اور کھا کر سونا ہے

خبروں میں آیا ہے کہ صرف لاہور میں ایام عید میں تقریباً 20 ہزار ''گوشت خور مجاہدین'' بیمار ہو کر اسپتالوں میں پہنچے۔ جہاں ان کا ''معدۂ مبارک'' گوشت سے خالی کیا گیا، تب کہیں جا کر انھیں افاقہ ہوا۔ خاطر جمع رکھئے! اتنی درگت بننے کے باوجود یہ ''گوشت خور مجاہدین'' اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جیسے ہی بستر سے اٹھے، دوبارہ گوشت پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس وقت تک کھاتے رہیں گے جب تک آخری بوٹی ختم نہیں ہو جاتی یا ''مجاہد'' خود بے دم نہیں ہو جاتا۔ اس موقع پر مجھے ایک چٹکلا یاد آ گیا ہے۔

کسی شہر میں پانچ پہلوان بسیار خوری کے لیے مشہور تھے، کہا جاتا تھا کہ ان کا کھانا کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ لوگ انھیں شادی بیاہ کی تقاریب میں تو درکنار، قل اور ختم شریف پر بھی نہیں بلاتے تھے۔ ان کی مشہوری ایک امیر کبیر شخص تک پہنچی، اس نے سوچا، آخر یہ پہلوان کتنا کھا لیں گے؟ میں انھیں اپنے گھر کھانے کی دعوت پر بلاؤں گا۔ اگلے روز وہ پانچوں دعوت پر پہنچ گئے، اب کھانا ان کے سامنے تھا، وہ کھانے پر ٹوٹ پڑے۔

کھانا آتا اور وہ اسے ختم کر دیتے، ایک کے بعد دوسری ٹرے، تیسری، چوتھی، غرض کھانا آتا رہا اور وہ اسے ختم کرتے جاتے، مالک بھی تھوڑا پریشان ہوا، کہیں کھانا ختم نہ ہو جائے اور اس کی شہر بھر میں بے عزتی ہو جائے ۔ کھاتے کھاتے ایک پہلوان فرش پر گرا اور بے ہوش ہوگیا، باقی چار کھانے میں مگن رہے، پھر دوسرا گرا ، تیسرا، اور پھر چوتھا بھی گر گیا جب کہ پانچواں ابھی کھانا کھا رہا تھا ، مالک نے گھبرا کر اس سے پوچھ ہی لیا، پہلوان جی! ''تسی رج گئے او'' ۔ اس پر پہلوان بولا، ''نہیں جی، جیہڑے رج گئے نیں، او تے لمے پئے ہوئے نیں۔''

پاکستان میں امیر سے امیر اور غریب سے غریب کا چلن ایک جیسا ہے، کھاتے کھاتے مر جائیں گے لیکن کبھی یہ نہیں کہیں گے، اﷲ تیرا شکر ہے، میرا پیٹ بھر گیا۔ ہم ایک ہی منشور پر عمل پیرا ہیں، ہم نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن یاد رکھنا ہمارا کوئی اصول نہیں ہے۔ بات بیرون ملک مقیم اپنے دوست کی ہو رہی تھی جو ایک مہذب ملک میں رہ کر بھی خوش اور مطمئن نہیں، کیونکہ بے اصولی اور قانون شکنی ہماری فطرت بن گئی ہے۔ عام معمولات زندگی کی تو بات ہی الگ ہے، مقدس ایام میںبھی ہم اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔
Load Next Story