بریگیڈیئر صولت رضا کے پیچ و تاب
بریگیڈیئر صاحب نے ان یاداشتوں پر نظر ثانی کی اور انھیں ' پیچ و تاب زندگی' کے عنوان سے شایع کر دیا
بریگیڈیئر صولت رضا کو ہماری عمر کے لوگوں نے تب جانا جب انھوں نے میٹرک کر لیا ہوتا ہے، مسیں بھیگ رہی ہوتی ہے اور پی ایم اے لانگ کورس اور پی ایم اے شارٹ کورس کے بارے میں کچھ پکی معلومات ملنی شروع ہوتی ہیں۔
کچھ ایسا ہی تجربہ ان سطور کے لکھنے والے کا بھی ہے۔ اسی زمانے میں کسی مہربان نے مشورہ دیا کہ ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بہتر ہے کہ صولت رضا کی ' کاکولیات' پڑھ لو۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے جیسے مڈل کلاس گھرانوں کے بچے جن کے والدین میں سے بھی کوئی ایک فوت بھی ہو چکا ہو، کتاب خریدنے کے لیے پورا ایک منصوبہ بنانا پڑتا تھا۔
منصوبہ کامیاب رہا یعنی کتاب بھی حاصل کر لی اور اسے بار بار پڑھ کر یہ بھی سمجھ لیا کہ کاکول کی دنیا گو بڑی منظم ہے، اس کی زندگی بہت سخت ہے، ذرا سی ایچ پیچ مستقبل تاریک کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود زندہ دلی کی وہاں نہ صرف گنجائش ہے بلکہ اسی سے زندگی ہے۔
کاکول کے اس تصور کے ساتھ اگر ہمیں زندہ دلی کا چلتا پھرتا کوئی نمونہ دکھائی دیا تو ہمارے یہ'کیپٹن ' صولت رضا تھے جو بعد میں جانے کب بریگیڈیئر ہوئے، ہماری ان سے ملاقات کی نوبت آئی تو وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے گو دھان پان سے تھے لیکن کلف لگی وردی میں پوری شان سے رہتے تھے۔
اونچا قہقہہ اور مزے کی گپ لگاتے تھے۔ مزے کی گپ لگاتے ہم نے انھیں صرف قبلہ سجاد میر کے ساتھ دیکھا اور ذرا سے حسد میں مبتلا ہوئے کہ گو ہم سجاد میر نہیں ہیں لیکن ان کے پیرو تو ہیں، اسی قافلے کے مسافر تو ہیں جس کے وہ سالار ہیں۔
مصنفین اور ان کے قارئین کے ساتھ ایک عجب حادثہ ہوتا ہے۔ آپ جسے پڑھیں اور پسند کریں، یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ اور آپ ہم مزاج ہیں، ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ جانتے ہیں نہیں ہیں، ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔ یہ راز تو بہت بعد میں جا کر آشکار ہوا کہ جسے آپ نے پڑھ رکھا ہوتا ہے، اس غریب کو کیا معلوم کہ وہ بے چارہ جو اس کے سامنے بیٹھا جل بھن رہا ہے، اس نے اسے پڑھ رکھا ہے، وہ اسے پسند کرتا ہے اور کوئی مانے نہ مانے ، قربت بھی محسوس کرتا ہے۔
کرنل صولت رضا سے جس زمانے میں ملاقات ہوئی، وہ زمانہ بھی ہمیشہ کی طرح نازک تھا کہ کراچی شہر سے بوری بند لاشیں ملا کرتیں، سیاسی کارکنوں کو اغوا کر لیا جاتا اور ان کے گھٹنے ڈرل کر کے انھیں یہاں وہاں پھینک دیا جاتا۔ یا پھر یوں ہوتا کہ فریقین اپنے اپنے ' قیدیوں ' کا تبادلہ ان کے دفتر میں کرتے۔ ان کے دفتر سے مراد یہ ہے کہ ان کے باس یعنی کور کمانڈر کراچی کے دفتر میں کرتے۔ گو ان 'تاریخی' اور عبرت ناک واقعات کے گواہ اور بہت سے لوگ بھی ہوں گے لیکن جیسا مشاہدہ اور جیسی گواہی دینے کا موقع اس زمانے کے کرنل صولت رضا کو ملا ، شاید ہی کسی کو ملا ہو۔
کرنل صولت رضا جب اس زمانے کا کراچی دیکھنے اور اس کی گواہی رقم کرنے پہنچے تو اس سے پہلے وہ فوج کو اور فوج کی رعایت سے اس ملک کے حالات کو کافی نیا پرانا کر چکے تھے۔
باتیں بہت سی ہیں اور واقعات بے شمار لیکن کیا اس بات کی کچھ کم اہمیت ہے کہ ہمارے اس پسندیدہ فوجی کی جان پہچان نہیں بلکہ ایک طرح کی دوستی جنرل ضیا الحق سے ہو چکی تھی۔ایک جونیئر افسر کا کسی جرنیل سے اس قسم کا تعلق یقینا خوبی کی بات ہے لیکن اس میں کچھ دخل کسی ایک کا نہیں، ہر دو فریقین کا ہوتا ہے۔
بریگیڈیئر صاحب کا کچھ تعلق اگر اپنے وقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ تھا تو اس میں کسی کو کیا دل چسپی ہو سکتی ہے، ہاں اگر کسی کو دلچسپی ہو سکتی ہے تو وہ کوئی محقق اور مدبر ہی ہو سکتا ہے جسے یہ جاننے کی خواہش ہو کہ وہ شخص جو آٹھ دس برس تک اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا، بعض لوگوں کے نزدیک سراپا اخلاص و مروت تھا اور بعض کے نزدیک ظلم اور جبر کی جیتی جاگتی مثال، وہ شخص اصل میں کیسا تھا۔
اگر وہ اخلاص اور مروت کا پتلا تھا تو کیوں تھا اور اگر اس کے جبر تلے خلقت کراہ رہی تھی اور اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی تو ایسا کیوں تھا۔ اس قسم کے معاملات نفسیات اور سیاسیات کے نازک اور دلچسپ مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ مطالعہ تو اسی صورت میں ممکن ہے نا کہ اگر ایسا فرد ہماری دسترس میں ہو اور ہم چاہے اس کی تحلیل نفسی کریں چاہے اسے اپنا معمول بنا کر حقیقت جاننے کی کوشش کریں لیکن اگر ایسے لوگ تاریخ کا رزق بن چکے ہوں تو کیا کریں؟
اس مشکل کا بس ایک ہی حل ہے کہ ان لوگوں سے ملیں جو اسے جانتے ہوں اور اگر خوش قسمتی سے بریگیڈیئر صاحب کی طرح کوئی اپنی گواہی قلم بند کر دے تو اس گواہی کا مطالعہ ایک قیمتی دستاویز کی طرح کریں۔ تو بات یہ ہے کہ بریگیڈیئر صاحب نے اپنی پسند اور نا پسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بڑا کام کر دیا ہے۔
ہماری ڈائجسٹ صحافت دو طرح کی رہی ہے۔ ایک سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ والی جس نے خود پر بری بھلی، ہر طرح کی تنقید کے باوجود ایک کارنامہ کیا، ملک میں مطالعے کا رجحان کسی نہ کسی طرح برقرار رکھا۔ دوسری روایت اس سے کہیں پہلے شروع ہوئی جس کے بانی مخدومی الطاف حسن قریشی اور ان کے برادر بزرگ اعجاز حسن قریشی تھے۔
قریشی برادران نے ساٹھ کی دہائی میں اردو ڈائجسٹ جاری کیا تو صرف مطالعے کو فروغ نہیں دیا، معیاری اور پاکیزہ ادب کے ساتھ ساتھ علمی روایت کو بھی مضبوط بنایا۔ مخدومی مجیب الرحمن شامی کا 'قومی ڈائجسٹ'اسی روایت کی ایک اور کڑی ہے۔ اسی کی دہائی میں قومی ڈائجسٹ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہترین علمی، ادبی اور سیاسی ماہنامے کی صورت اختیار کر گیا۔
یہ اسی قومی ڈائجسٹ کا کارنامہ ہے کہ اس کے لائق وقایع نگار عبد الستار اعوان نے بریگیڈیئر صاحب کی یاداشتیں قلم بند کر کے شایع کر دیں۔ میں نے انھیں پڑھا تو مجھے لگا کہ جیسے پاکستان کی کئی دہائیوں کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا خلاصہ (Synopsis) مرتب ہو گیا ہو۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ خلاصہ بھی اگرچہ ایک کارنامہ ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اب اس خاکے میں رنگ بھر کر اسے مبسوط آپ بیتی اور جگ بیتی بنا دیا جائے۔ ان دنوں بھابھی صاحبہ علیل تھیں، کہنے لگے کہ دیکھو کیا ہوتا ہے۔ بس، دعا کرو۔ لگتا ہے کہ یہ دعا مستجاب رہی۔
بریگیڈیئر صاحب نے ان یاداشتوں پر نظر ثانی کی اور انھیں ' پیچ و تاب زندگی' کے عنوان سے شایع کر دیا۔ کتاب مختصر ہے تو شاید اس کی ایک وجہ بریگیڈیئر صاحب کا یہ تجربہ بھی ہو کہ مختصر کتابیں جلد اور زیادہ پڑھیں جاتی ہیں۔ تو بتانے کی بات یہ ہے کہ ' ہیچ و تاب زندگی' شایع ہو چکی ہے، اب جسے جسے پاکستان کے مختلف ادوار کی حقیقت میں جھانک کر دیکھنا ہے، وہ ان ہی پیچ و تاب سے گزر کر سوچنے سمجھنے کی کوشش کرے۔
کچھ ایسا ہی تجربہ ان سطور کے لکھنے والے کا بھی ہے۔ اسی زمانے میں کسی مہربان نے مشورہ دیا کہ ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بہتر ہے کہ صولت رضا کی ' کاکولیات' پڑھ لو۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے جیسے مڈل کلاس گھرانوں کے بچے جن کے والدین میں سے بھی کوئی ایک فوت بھی ہو چکا ہو، کتاب خریدنے کے لیے پورا ایک منصوبہ بنانا پڑتا تھا۔
منصوبہ کامیاب رہا یعنی کتاب بھی حاصل کر لی اور اسے بار بار پڑھ کر یہ بھی سمجھ لیا کہ کاکول کی دنیا گو بڑی منظم ہے، اس کی زندگی بہت سخت ہے، ذرا سی ایچ پیچ مستقبل تاریک کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود زندہ دلی کی وہاں نہ صرف گنجائش ہے بلکہ اسی سے زندگی ہے۔
کاکول کے اس تصور کے ساتھ اگر ہمیں زندہ دلی کا چلتا پھرتا کوئی نمونہ دکھائی دیا تو ہمارے یہ'کیپٹن ' صولت رضا تھے جو بعد میں جانے کب بریگیڈیئر ہوئے، ہماری ان سے ملاقات کی نوبت آئی تو وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے گو دھان پان سے تھے لیکن کلف لگی وردی میں پوری شان سے رہتے تھے۔
اونچا قہقہہ اور مزے کی گپ لگاتے تھے۔ مزے کی گپ لگاتے ہم نے انھیں صرف قبلہ سجاد میر کے ساتھ دیکھا اور ذرا سے حسد میں مبتلا ہوئے کہ گو ہم سجاد میر نہیں ہیں لیکن ان کے پیرو تو ہیں، اسی قافلے کے مسافر تو ہیں جس کے وہ سالار ہیں۔
مصنفین اور ان کے قارئین کے ساتھ ایک عجب حادثہ ہوتا ہے۔ آپ جسے پڑھیں اور پسند کریں، یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ اور آپ ہم مزاج ہیں، ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ جانتے ہیں نہیں ہیں، ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔ یہ راز تو بہت بعد میں جا کر آشکار ہوا کہ جسے آپ نے پڑھ رکھا ہوتا ہے، اس غریب کو کیا معلوم کہ وہ بے چارہ جو اس کے سامنے بیٹھا جل بھن رہا ہے، اس نے اسے پڑھ رکھا ہے، وہ اسے پسند کرتا ہے اور کوئی مانے نہ مانے ، قربت بھی محسوس کرتا ہے۔
کرنل صولت رضا سے جس زمانے میں ملاقات ہوئی، وہ زمانہ بھی ہمیشہ کی طرح نازک تھا کہ کراچی شہر سے بوری بند لاشیں ملا کرتیں، سیاسی کارکنوں کو اغوا کر لیا جاتا اور ان کے گھٹنے ڈرل کر کے انھیں یہاں وہاں پھینک دیا جاتا۔ یا پھر یوں ہوتا کہ فریقین اپنے اپنے ' قیدیوں ' کا تبادلہ ان کے دفتر میں کرتے۔ ان کے دفتر سے مراد یہ ہے کہ ان کے باس یعنی کور کمانڈر کراچی کے دفتر میں کرتے۔ گو ان 'تاریخی' اور عبرت ناک واقعات کے گواہ اور بہت سے لوگ بھی ہوں گے لیکن جیسا مشاہدہ اور جیسی گواہی دینے کا موقع اس زمانے کے کرنل صولت رضا کو ملا ، شاید ہی کسی کو ملا ہو۔
کرنل صولت رضا جب اس زمانے کا کراچی دیکھنے اور اس کی گواہی رقم کرنے پہنچے تو اس سے پہلے وہ فوج کو اور فوج کی رعایت سے اس ملک کے حالات کو کافی نیا پرانا کر چکے تھے۔
باتیں بہت سی ہیں اور واقعات بے شمار لیکن کیا اس بات کی کچھ کم اہمیت ہے کہ ہمارے اس پسندیدہ فوجی کی جان پہچان نہیں بلکہ ایک طرح کی دوستی جنرل ضیا الحق سے ہو چکی تھی۔ایک جونیئر افسر کا کسی جرنیل سے اس قسم کا تعلق یقینا خوبی کی بات ہے لیکن اس میں کچھ دخل کسی ایک کا نہیں، ہر دو فریقین کا ہوتا ہے۔
بریگیڈیئر صاحب کا کچھ تعلق اگر اپنے وقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ تھا تو اس میں کسی کو کیا دل چسپی ہو سکتی ہے، ہاں اگر کسی کو دلچسپی ہو سکتی ہے تو وہ کوئی محقق اور مدبر ہی ہو سکتا ہے جسے یہ جاننے کی خواہش ہو کہ وہ شخص جو آٹھ دس برس تک اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا، بعض لوگوں کے نزدیک سراپا اخلاص و مروت تھا اور بعض کے نزدیک ظلم اور جبر کی جیتی جاگتی مثال، وہ شخص اصل میں کیسا تھا۔
اگر وہ اخلاص اور مروت کا پتلا تھا تو کیوں تھا اور اگر اس کے جبر تلے خلقت کراہ رہی تھی اور اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی تو ایسا کیوں تھا۔ اس قسم کے معاملات نفسیات اور سیاسیات کے نازک اور دلچسپ مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ مطالعہ تو اسی صورت میں ممکن ہے نا کہ اگر ایسا فرد ہماری دسترس میں ہو اور ہم چاہے اس کی تحلیل نفسی کریں چاہے اسے اپنا معمول بنا کر حقیقت جاننے کی کوشش کریں لیکن اگر ایسے لوگ تاریخ کا رزق بن چکے ہوں تو کیا کریں؟
اس مشکل کا بس ایک ہی حل ہے کہ ان لوگوں سے ملیں جو اسے جانتے ہوں اور اگر خوش قسمتی سے بریگیڈیئر صاحب کی طرح کوئی اپنی گواہی قلم بند کر دے تو اس گواہی کا مطالعہ ایک قیمتی دستاویز کی طرح کریں۔ تو بات یہ ہے کہ بریگیڈیئر صاحب نے اپنی پسند اور نا پسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بڑا کام کر دیا ہے۔
ہماری ڈائجسٹ صحافت دو طرح کی رہی ہے۔ ایک سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ والی جس نے خود پر بری بھلی، ہر طرح کی تنقید کے باوجود ایک کارنامہ کیا، ملک میں مطالعے کا رجحان کسی نہ کسی طرح برقرار رکھا۔ دوسری روایت اس سے کہیں پہلے شروع ہوئی جس کے بانی مخدومی الطاف حسن قریشی اور ان کے برادر بزرگ اعجاز حسن قریشی تھے۔
قریشی برادران نے ساٹھ کی دہائی میں اردو ڈائجسٹ جاری کیا تو صرف مطالعے کو فروغ نہیں دیا، معیاری اور پاکیزہ ادب کے ساتھ ساتھ علمی روایت کو بھی مضبوط بنایا۔ مخدومی مجیب الرحمن شامی کا 'قومی ڈائجسٹ'اسی روایت کی ایک اور کڑی ہے۔ اسی کی دہائی میں قومی ڈائجسٹ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہترین علمی، ادبی اور سیاسی ماہنامے کی صورت اختیار کر گیا۔
یہ اسی قومی ڈائجسٹ کا کارنامہ ہے کہ اس کے لائق وقایع نگار عبد الستار اعوان نے بریگیڈیئر صاحب کی یاداشتیں قلم بند کر کے شایع کر دیں۔ میں نے انھیں پڑھا تو مجھے لگا کہ جیسے پاکستان کی کئی دہائیوں کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا خلاصہ (Synopsis) مرتب ہو گیا ہو۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ خلاصہ بھی اگرچہ ایک کارنامہ ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اب اس خاکے میں رنگ بھر کر اسے مبسوط آپ بیتی اور جگ بیتی بنا دیا جائے۔ ان دنوں بھابھی صاحبہ علیل تھیں، کہنے لگے کہ دیکھو کیا ہوتا ہے۔ بس، دعا کرو۔ لگتا ہے کہ یہ دعا مستجاب رہی۔
بریگیڈیئر صاحب نے ان یاداشتوں پر نظر ثانی کی اور انھیں ' پیچ و تاب زندگی' کے عنوان سے شایع کر دیا۔ کتاب مختصر ہے تو شاید اس کی ایک وجہ بریگیڈیئر صاحب کا یہ تجربہ بھی ہو کہ مختصر کتابیں جلد اور زیادہ پڑھیں جاتی ہیں۔ تو بتانے کی بات یہ ہے کہ ' ہیچ و تاب زندگی' شایع ہو چکی ہے، اب جسے جسے پاکستان کے مختلف ادوار کی حقیقت میں جھانک کر دیکھنا ہے، وہ ان ہی پیچ و تاب سے گزر کر سوچنے سمجھنے کی کوشش کرے۔