کوئٹہ وکیل قتل چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف اے ٹی سی کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے فیصلے کو معطل نہیں کر سکتا، عدالت
کوئٹہ وکیل قتل کیس میں سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف انسداد دہشت گردی کورٹ کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔
کوئٹہ وکیل قتل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کے معاملے پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے فیصلے کو معطل نہیں کر سکتا۔
دوران سماعت وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ اور جسٹس اعجاز الاحسن کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو درخواست دیں، جس پر وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم ملاقات کرتے ہیں تو اخباروں میں خبریں چھپ جاتی ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ درخواست دائر کرنے کے لیے جب جائیں بلوچستان حکومت کے وکیل کو ساتھ لے کر جائیں، ایسا کرنے سے شفافیت پر سوال نہیں اٹھے گا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میرے موکل کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ ضمانت کے لیے متعلقہ ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میڈیا پر مہم چلائی گئی میرے موکل نے وکیل کو قتل کیا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی پر جو کچھ نشر ہوا اسے رہنے دیں، آپ ایف آئی آر پڑھیں۔
اسٹیٹ کونسل بلوچستان نے موقف دیا کہ ہمیں ابھی تک اس کیس کا نوٹس نہیں ملا، مجھے ابھی پتہ چلا کیس سماعت کے لیے مقرر ہوا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اخباری خبروں سے پتہ چلا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن تو آپ نے لگایا ہی نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے موکل نے آج بھی بہت سے کیسز میں عدالتوں میں پیش ہونا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے صرف یہی کیس ہے جسے سن رہے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت انسداد دہشت گردی عدالت کی کارروائی روکے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم بے بس ہیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ چیف جسٹس پاکستان کو لارجر بینچ کے لیے درخواست دیں، ممکن ہے آج ہی کیس سماعت کے لیے مقرر ہو جائے۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
علاوہ ازیں، چیئرمین تحریک انصاف نے ایڈوکیٹ لطیف کھوسہ کے ذریعے تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی درخواست دائر کر دی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ وکیل قتل کیس میں جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی لیکن دو رکنی بینچ نے کیس میں حکم امتناع جاری کرنے پر بے بسی کا اظہار کیا۔
درخواست گزار کا موقف ہے کہ دو رکنی بینچ نے تجویز دی کہ تین رکنی بینچ کے لیے چیف جسٹس کو درخواست دی جائے، معاملہ حساس اور فوری سماعت کا متقاضی ہے، میرے موکل کے خلاف سخت اقدامات اور گرفتاری کا خدشہ ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ معاملے پر فوری تین رکنی بینچ تشکیل دے کر آج ہی سماعت کی جائے۔
کوئٹہ وکیل قتل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کے معاملے پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا دو رکنی بینچ بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے فیصلے کو معطل نہیں کر سکتا۔
دوران سماعت وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ اور جسٹس اعجاز الاحسن کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو درخواست دیں، جس پر وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم ملاقات کرتے ہیں تو اخباروں میں خبریں چھپ جاتی ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ درخواست دائر کرنے کے لیے جب جائیں بلوچستان حکومت کے وکیل کو ساتھ لے کر جائیں، ایسا کرنے سے شفافیت پر سوال نہیں اٹھے گا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میرے موکل کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ ضمانت کے لیے متعلقہ ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میڈیا پر مہم چلائی گئی میرے موکل نے وکیل کو قتل کیا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی پر جو کچھ نشر ہوا اسے رہنے دیں، آپ ایف آئی آر پڑھیں۔
اسٹیٹ کونسل بلوچستان نے موقف دیا کہ ہمیں ابھی تک اس کیس کا نوٹس نہیں ملا، مجھے ابھی پتہ چلا کیس سماعت کے لیے مقرر ہوا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اخباری خبروں سے پتہ چلا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن تو آپ نے لگایا ہی نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے موکل نے آج بھی بہت سے کیسز میں عدالتوں میں پیش ہونا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے صرف یہی کیس ہے جسے سن رہے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت انسداد دہشت گردی عدالت کی کارروائی روکے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم بے بس ہیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ چیف جسٹس پاکستان کو لارجر بینچ کے لیے درخواست دیں، ممکن ہے آج ہی کیس سماعت کے لیے مقرر ہو جائے۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان اور پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
بینچ تشکیل دینے کی درخواست
علاوہ ازیں، چیئرمین تحریک انصاف نے ایڈوکیٹ لطیف کھوسہ کے ذریعے تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی درخواست دائر کر دی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ وکیل قتل کیس میں جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی لیکن دو رکنی بینچ نے کیس میں حکم امتناع جاری کرنے پر بے بسی کا اظہار کیا۔
درخواست گزار کا موقف ہے کہ دو رکنی بینچ نے تجویز دی کہ تین رکنی بینچ کے لیے چیف جسٹس کو درخواست دی جائے، معاملہ حساس اور فوری سماعت کا متقاضی ہے، میرے موکل کے خلاف سخت اقدامات اور گرفتاری کا خدشہ ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ معاملے پر فوری تین رکنی بینچ تشکیل دے کر آج ہی سماعت کی جائے۔