جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کا چڑیا گھرختم کرنے کا مطالبہ
جس ملک میں کوئی ایس او پیز نہیں وہاں جانوروں کو پنجروں میں قید کرنا ان کے لیے ایک اذیت ہے، ترجمان ’ نارا ‘
پاکستان میں جانوروں کے حقوق اوران کی بہبود کے لیے کام کرنے والے ادارے چڑیا گھروں کو مکمل طور پر ختم کرنے یا پھرجانوروں اورپرندوں کو پنجروں میں رکھنے کے طریقہ کارکو تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
یہ مطالبات اس وقت شدت اختیارکرجاتے ہیں جب کسی چڑیا گھرمیں کسی نایاب جانورکے مرنے کی خبرآتی ہے جس طرح کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی کی موت واقع ہوئی تھی۔
پاکستان میں جانوروں کی ویلفیئراوران کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے اتحاد ' نارا ' کی ترجمان عنیزہ خان عمرزئی کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں اورپرندوں کو پنجروں میں قید رکھنا کسی صورت درست نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں چڑیا گھروں کے لیے کوئی بین الاقوامی ایس اوپیزنہیں ہے یہاں جانوروں اورپرندوں کو پنجروں میں قید کرنا ان کے لیے ایک اذیت ہے۔
عنیزہ خان عمرزئی نے کہا کہ جنگلی حیات سے متعلق ایجوکیشن اورتفریح کے لیے دیگرطریقے اختیارکیے جاسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا، ہالوگرام ٹیکنالوجی کواستعمال کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روایتی چڑیا گھروں کی بجائے سفاری کے آئیڈیا کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جہاں بے شک جانور انکلوژرمیں رہتے ہیں لیکن وہ لوہے کے پنجروں کی نسبت زیادہ بہترہیں ۔
لاہورچڑیا گھر میں تفریح کے لیے آنے والی مقامی یونیورسٹی کی طالبات کی رائے میں جانوروں کو پنجروں میں نہیں رکھنا چاہیے لیکن چڑیا گھروں کو بند کرنے کا مطالبہ بھی درست نہیں ہے۔
ایم فل کی طالبہ حفصہ فیاض کا کہنا تھا یہ بات درست ہے کہ جانوروں خاص طورپر ببرشیروں، شیروں اوراسی نوع کے دیگرجانوروں کو پنجروں میں رکھنا ٹھیک نہیں ہے تاہم ان جانوروں کو قدرتی ماحول میں بھی نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ کئی جانور پہلے ہی ناپید ہوچکے ہیں۔
ایک دوسری طالبہ ایشا حجاب نے کہا کہ چڑیاگھر تفریح کے ساتھ ساتھ تحقیق کے لیے بھی ضروری ہیں، چڑیا گھروں میں رکھے جانے والے جانوروں کی عمریں عموماً جنگل میں پائے جانے والے جانوروں سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ طالبات نے تجویزدی کہ چڑیا گھروں میں نیم قدرتی ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
لاہورچڑیا گھرمیں بھی ہاتھی سمیت کئی قیمتی جانور نامناسب ماحول سمیت مختلف وجوہات کی بنا پرہلاک ہوچکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق قید میں رہنے والے جانورذہنی دباؤسمیت مختلف بیماریوں کاشکارہوجاتے ہیں تاہم ڈائریکٹرلاہورچڑیاگھر عظیم ظفر بٹرکہتے ہیں کہ چڑیا گھروں کے کئی فائدے بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہورچڑیاگھرمیں اگرایک ہزارجانورہیں تو800 جانوروں کی افزائش میں اضافہ ہوا ہے اوران کی صحت بہتر ہے۔ لیکن ہاتھی کی طرح چند بڑے جانوروں کی حفاظت کرنے میں چڑیا گھرناکام رہے ہیں۔ اس ایک ناکامی کی بنا پر یہ مطالبہ کرنا درست نہیں کہ چڑیا گھروں کو ہی بند کردینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہاتھی سمیت دیگرجانوروں کی دیکھ بھال میں ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ عملہ اوران جانوروں کو رکھنے کے لیے مناسب ماحول نہیں ہے،ا گر ہم جانوروں کے رکھوالوں اور دیگر عملے کی بیرون ملک سے تربیت کروائیں اور جانوروں کے انکلوژربہترکریں تویقیناً یہ جانوربھی چڑیا گھروں میں رکھے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے قدرتی ماحول میں ہرنوں کی کئی اقسام ناپید ہوچکی تھیں ،موروں کی تعداد کم ہورہی تھی لیکن چڑیا گھروں میں بریڈنگ کی وجہ سے اب چنکارہ، اڑیال ،کالا ہرن سمیت دیگرانواع کی بڑی تعداد قدرتی ماحول میں موجود ہے اور مور بھی نظرآتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بعض جانورخاص طورپرشیراوراس انواع کے دیگرجانوروں کے لیے پاکستان میں قدرتی ماحول موجود نہیں ہے، ہمارے یہاں اب صرف تیندوا پایاجاتا ہے جبکہ ماضی میں یہاں چیتے بھی پائے جاتے تھے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی چڑیا گھر،چڑیاگھروں کی عالمی تنظیم کا رکن نہیں ہے جبکہ چڑیا گھروں میں جانوروں کو رکھنے اوران کی دیکھ بھال کے لیے تمام صوبوں کے الگ الگ قوانین اور ضوابط ہیں۔
یہ مطالبات اس وقت شدت اختیارکرجاتے ہیں جب کسی چڑیا گھرمیں کسی نایاب جانورکے مرنے کی خبرآتی ہے جس طرح کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی کی موت واقع ہوئی تھی۔
پاکستان میں جانوروں کی ویلفیئراوران کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے اتحاد ' نارا ' کی ترجمان عنیزہ خان عمرزئی کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں اورپرندوں کو پنجروں میں قید رکھنا کسی صورت درست نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں چڑیا گھروں کے لیے کوئی بین الاقوامی ایس اوپیزنہیں ہے یہاں جانوروں اورپرندوں کو پنجروں میں قید کرنا ان کے لیے ایک اذیت ہے۔
عنیزہ خان عمرزئی نے کہا کہ جنگلی حیات سے متعلق ایجوکیشن اورتفریح کے لیے دیگرطریقے اختیارکیے جاسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا، ہالوگرام ٹیکنالوجی کواستعمال کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روایتی چڑیا گھروں کی بجائے سفاری کے آئیڈیا کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جہاں بے شک جانور انکلوژرمیں رہتے ہیں لیکن وہ لوہے کے پنجروں کی نسبت زیادہ بہترہیں ۔
لاہورچڑیا گھر میں تفریح کے لیے آنے والی مقامی یونیورسٹی کی طالبات کی رائے میں جانوروں کو پنجروں میں نہیں رکھنا چاہیے لیکن چڑیا گھروں کو بند کرنے کا مطالبہ بھی درست نہیں ہے۔
ایم فل کی طالبہ حفصہ فیاض کا کہنا تھا یہ بات درست ہے کہ جانوروں خاص طورپر ببرشیروں، شیروں اوراسی نوع کے دیگرجانوروں کو پنجروں میں رکھنا ٹھیک نہیں ہے تاہم ان جانوروں کو قدرتی ماحول میں بھی نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ کئی جانور پہلے ہی ناپید ہوچکے ہیں۔
ایک دوسری طالبہ ایشا حجاب نے کہا کہ چڑیاگھر تفریح کے ساتھ ساتھ تحقیق کے لیے بھی ضروری ہیں، چڑیا گھروں میں رکھے جانے والے جانوروں کی عمریں عموماً جنگل میں پائے جانے والے جانوروں سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ طالبات نے تجویزدی کہ چڑیا گھروں میں نیم قدرتی ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
لاہورچڑیا گھرمیں بھی ہاتھی سمیت کئی قیمتی جانور نامناسب ماحول سمیت مختلف وجوہات کی بنا پرہلاک ہوچکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق قید میں رہنے والے جانورذہنی دباؤسمیت مختلف بیماریوں کاشکارہوجاتے ہیں تاہم ڈائریکٹرلاہورچڑیاگھر عظیم ظفر بٹرکہتے ہیں کہ چڑیا گھروں کے کئی فائدے بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہورچڑیاگھرمیں اگرایک ہزارجانورہیں تو800 جانوروں کی افزائش میں اضافہ ہوا ہے اوران کی صحت بہتر ہے۔ لیکن ہاتھی کی طرح چند بڑے جانوروں کی حفاظت کرنے میں چڑیا گھرناکام رہے ہیں۔ اس ایک ناکامی کی بنا پر یہ مطالبہ کرنا درست نہیں کہ چڑیا گھروں کو ہی بند کردینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہاتھی سمیت دیگرجانوروں کی دیکھ بھال میں ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تربیت یافتہ عملہ اوران جانوروں کو رکھنے کے لیے مناسب ماحول نہیں ہے،ا گر ہم جانوروں کے رکھوالوں اور دیگر عملے کی بیرون ملک سے تربیت کروائیں اور جانوروں کے انکلوژربہترکریں تویقیناً یہ جانوربھی چڑیا گھروں میں رکھے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے قدرتی ماحول میں ہرنوں کی کئی اقسام ناپید ہوچکی تھیں ،موروں کی تعداد کم ہورہی تھی لیکن چڑیا گھروں میں بریڈنگ کی وجہ سے اب چنکارہ، اڑیال ،کالا ہرن سمیت دیگرانواع کی بڑی تعداد قدرتی ماحول میں موجود ہے اور مور بھی نظرآتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بعض جانورخاص طورپرشیراوراس انواع کے دیگرجانوروں کے لیے پاکستان میں قدرتی ماحول موجود نہیں ہے، ہمارے یہاں اب صرف تیندوا پایاجاتا ہے جبکہ ماضی میں یہاں چیتے بھی پائے جاتے تھے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی چڑیا گھر،چڑیاگھروں کی عالمی تنظیم کا رکن نہیں ہے جبکہ چڑیا گھروں میں جانوروں کو رکھنے اوران کی دیکھ بھال کے لیے تمام صوبوں کے الگ الگ قوانین اور ضوابط ہیں۔