معیشت بحالی کے امکانات روشن

آئی ایم ایف سے معاہدہ پاکستان کے لیے ضروری اور مجبوری بھی تھا

آئی ایم ایف کے ساتھ تین ارب ڈالر کے معاہدے کے بعد پاکستان کی معیشت پر چھائے گہرے سیاہ بادل چھٹ گئے۔ اسٹاک مارکیٹ میں گزرے آٹھ ماہ کی نسبت ریکارڈ تیزی دیکھنے میں آئی، ڈالر کی قیمت بھی خاصی نیچے آئی ہے۔

بلاشبہ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے اور اس بات کا وزیراعظم کو کریڈٹ دینا چاہیے، پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا اور اگلے تین سے 6 ماہ میں ڈیفالٹ ہوسکتے تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں 2 ہزار 231 پوائنٹس کے غیر معمولی اضافے کے ساتھ کاروبار کے آغاز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کی درست پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اب ملک دوبارہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔

پاکستان کے پاس 4 ارب ڈالرز سے زائد زرمبادلہ موجود ہے، اگلے 6ماہ میں یہ تعداد دگنا ہو سکتی ہے، یوں زرمبادلہ کے ذخائر پر جو دباؤ تھا وہ ختم ہوجائے گا اور مہنگائی کا کچھ بوجھ کم ہوجائے گا، روپے کو استحکام ملے گا، شرح سود اور ٹیکسز میں کمی آئے گی۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ پاکستان کے لیے ضروری اور مجبوری بھی تھا کیونکہ حکومت کے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ حکومت کے لیے بہت بہتر ہے، آئی ایم ایف کی شرائط نہیں ہوتیں ان کے اصول ہوتے ہیں جو طے کرنے پڑتے ہیں لیکن قرض لے کر اگر آئی ایم ایف کے اصول پر عمل نہیں کرتے تو مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔

ملکوں اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی ادارے موڈیز کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) معاہدہ پاکستان کی معیشت کو استحکام دے گا۔ قلیل مدت میں معاشی سرگرمیاں متاثر رہیں گی، لہٰذا پاکستان کو طول المدتی استحکام کے لیے اصلاحات لانا ہوں گی۔

پاکستان کو اپنی آمدنی بڑھانا ہوگی جب کہ پاکستان کو ٹیکس اصلاحات لانے کی بھی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے میکرو اکنامک کو سپورٹ کرے گا، پاکستان کو آمدنی بڑھانے کے لیے اقدامات اور اصلاحات کرنا ہوں گی۔

کاروباری برادری نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نو ماہ کے 3ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے پر دستخط کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاہدہ بے یقینی کو ختم اور مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے گا جس کی معیشت کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تاہم یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام سے پیداواری لاگت بڑھ سکتی ہے جس سے پوری تاجر برادری خوفزدہ ہے اور حکومت کو اس تشویش کو دور کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کے حصول میں معاہدے میں تاخیر کے سبب اوپن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتوں میں ایک ڈالر کی قیمت 300 روپے سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ حکومت کی کوششوں کے باوجود پاکستانی روپیہ مستحکم نہ ہو سکا۔ البتہ اب آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن قرض کی قسط کا اجرا گزشتہ سال نومبر سے تاخیر کا شکار تھا۔ عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان کو قرض کی آیندہ قسط کے حصول سے قبل معاشی اصلاحات کا کہا گیا تھا۔

جس کے بارے میں حکومت پاکستان کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں بتایا گیا کہ وہ تمام اقدامات کر دیے گئے ہیں جن کا آئی ایم ایف کی طرف سے کہا گیا ہے۔ اب پاکستان کے لیے دوست ممالک کی جانب سے مدد کی راہ کھل گئی ہے، جب کہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے پالیسی اور پروجیکٹس لونز کے اجراء میں تیزی آئے گی اور سکوک بانڈ اور یورو بانڈز کا اجراء بھی کم شرح سود پر ممکن ہو جائے گا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا جس کے پیش نظر بجٹ 2023-24کو منظور کرتے ہوئے 215ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے گئے، بجٹ کے ا علان کے وقت223 ارب روپے کے ٹیکس لگے تھے، جب کہ 170ارب روپے کے منی بجٹ کے اقدامات کو جاری رکھا گیا ہے۔

پٹرولیم لیوی کو 5روپے فی لیٹر یکم جولائی سے بڑھایا گیا ہے۔ اس نئے معاہدہ کے پیش نظر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی آجائے گا اور بورڈ کے اجلاس سے پہلے ان اضافوں کے بارے میں نوٹیفکشن جاری کر کے اس بارے میں آئی ایم ایف کو آگاہ کیا جائے گا۔

درآمدات سے تمام پابندیاں بھی اٹھانا پڑی ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اس نئے معاہدے سے پہلے شرح سود کو ریکارڈ22 فیصد پر لے جانا پڑی ہے، جب کہ ملک کے اند افراط زر 38فی صد کی سطح کو چھو رہا ہے۔


معاہدہ ہونے سے پاکستان کے بیرونی ملک جاری کیے گئے یورو بانڈز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہ اکتوبر 2022سے پاکستانی بانڈز کی قیمت میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان نئے معاہدے کے باعث اسٹاک مارکیٹ کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہو سکتی ہیں۔

کاروباری ہفتے میں 100 انڈیکس 2 ہزار پوائنٹس تک بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ماہرین نے یہ بھی امکان ظاہر کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ملک میں ڈالر کی قیمت میں کم از کم 20روپے تک کی کمی متوقع ہے۔

اس نئے انتظام سے پاکستان کی معیشت کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے، میکرو اکنامک استحکام برقرار رکھنے اور دوطرفہ اور کثیر الاقومی پارٹنرز سے فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے فریم ورک دستیاب ہو جائے گا۔

اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ سے ملکی سطح پر ریونیو میں اضافہ اور عوام کی بہتری کے لیے اخراجات کو محتاط انداز سے خرچ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے ترقیاتی اور سماجی ترقی کے لیے گنجائش پیدا ہوگی۔

اسٹیٹ بینک کو افراط زر میں کمی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے، پاکستان کے حکام کی کوشش ہے کہ وہ نئی فائنانسنگ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کے رول اوور کے لیے کام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ انرجی سیکٹر کو بھی بہتر بنایا جائے، سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں میں گورننس کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔

اقتصادی بحالی کے منصوبے سے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور چالیس لاکھ افراد کے لیے روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے تاہم انھوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل سفر ہو گا۔ پاکستان کو بڑے پیمانے پر درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسلامی ترقیاتی فنڈ، دیگر دوست ممالک اور شراکت داروں نے بھی خصوصی تعاون کیا ہے۔

آئی ایم ایف کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر آدمی ٹیکس دے گا۔ اس معاہدے سے ڈیفالٹ کا خطرہ تو ٹل گیا لیکن آئی ایم ایف پروگرام آسان نہیں ہوگا، عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر حکومت نے عوام پر مزید اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاریاں کر لی ہیں۔

پروگرام کی شرائط کے تحت پاکستان پہلے ہی بجلی و گیس نرخ بڑھا چکا ہے جب کہ اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی مد میں زیادہ ٹیکس وصول کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ شرح سود میں مزید اضافہ بھی ہو گا اور اس کا مجموعی اثر عوام پر مزید مہنگائی کی بوجھ میں پڑے گا جو اس وقت مہنگائی کی بلند شرح میں پس رہے ہیں۔

پاکستان میں مئی کے مہینے کے اختتام پر 38 فیصد کی بلند شرح مہنگائی تھی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک مہینے میں مہنگائی کی بلند شرح ہے۔

اس وقت پٹرول اور ڈیزل پر لیوی 50 روپے ہے اور حکومت کو 60 روپے فی لیٹر تک لگانے کا اختیار ہے۔پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت پہلے ہی بجلی اور گیس صارفین پر 1300 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال چکی ہے۔ اتحادی حکومت نے بجلی صارفین پر ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا جب کہ گیس صارفین پر 310 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔

اس کے علاوہ صارفین پر 3 روپے 39 پیسے فی یونٹ بجلی کا اضافی سر چارج بھی عائد کیا گیا تھا جب کہ صارفین نے سہ ماہی اور ماہانہ ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا بوجھ الگ برداشت کیا۔

اتحادی حکومت اب تک گیس کے نرخوں میں 112 فیصد تک اضافہ کر چکی ہیگو تین ارب ڈالرز یکمشت نہیں آئیں گے البتہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اسلامی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے بھی پیسے مل جائیں گے۔

آنیوالے دنوں میں مہنگائی کی شرح میں کمی آنا شروع ہوگی، ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی کوشش رکھنی چاہیے اور امپورٹ کھولنا ہوگا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کی بحالی بلاشبہ آئی ایم ایف پروگرام سے ممکن ہوجائے گی، لیکن حکومت کو غریب اور متوسط طبقات پر تمام ٹیکسوں کا بوجھ منتقل کرنے کے بجائے طبقہ امراء کی مراعات میں کمی کرنی چاہیے، تاکہ معیشت کی بحالی کے حقیقی ثمرات قوم کو مل سکیں۔
Load Next Story