سیاست میں فرقہ واریت
1927سے لے کر1939تک ہندوستان کے ہر حصے میں مجموعی طور پر سیکڑوں ہندو مسلم فسادات ہوئے
دنیا میں مسلمانوں کی آبادی دو ارب سے تجاوز کر رہی ہے۔ مسلمان ملکوں کی تعداد 57 ہے، یہ تمام ملک مجموعی طور پر پسماندہ ہیں۔ کچھ ملک تیل اور گیس کے ذخائر کی وجہ سے امیر نظر آتے ہیں لیکن سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق و ترقی اور سماجی علوم کے شعبوں میں وہ ایک کروڑ کی آبادی والے ملک اسرائیل سے کہیں پیچھے ہیں۔
معاشی پسماندگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام مسلمان ملکوں کی کل جی ڈی پی امریکا کی چند ریاستوں کی مجموعی جی ڈی پی سے بھی کم ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کا سامنا دیگر مسلمان ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی ہے۔
پہلے مرحلے پر ہمیں ماضی میں جا کر بنیادی اسباب کو سمجھنا ہوگا اور دوسرے مرحلے پر یہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک روشن خیال اور ترقی پسند جمہوری ملک کیوں نہ بن سکا اور کم از کم گزشتہ چار دہائیوں سے نہ ختم ہونے والی انتہا پسندی کی لپیٹ میں ہے۔
وہ مسلمان عالم اور دانشور جنھوں نے عوام کے دکھوں کا علاج ڈھونڈنے اور ان کا غم بانٹنے کی کوشش کی، وہ اپنے اپنے دور کے بادشاہوں اور سلاطین کے پہلو میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔
بے شمار علماء نے اپنے اثرورسوخ میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیے دربار کو وہ تمام فتوے فراہم کیے جو عوام، صاحب نظر اور عوام دوست عالموں، اماموں اور صوفیوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ امام ابوحنیفہ، امام حنبل، امام مالک، امام شافعی کی تازیانوں سے ادھڑی ہوئی پشتیں ہمیں بادشاہوں کی ہوسِ اقتدار اور مطلق العنانیت کا قصہ سناتی ہیں۔
یہی وہ رویہ تھا جس نے ڈیڑھ ہزار برس میں روشن خیالی، آزاد فکر اور سائنسی سوچ کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ حکمران طبقے نے مسلم عوام کے حقوق کو روندنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بہت سے صوفیا نے تصوف کے پردے میں خلفا، بادشاہوں اور سلاطین کے زر خرید علما کے راستے سے ہٹ کر راستہ نکالنے کی کوشش کی لیکن بیشتر اس کوشش میں جان سے گئے۔ ملحد، زندیق اور کافر کہلائے گئے۔ ابو المنصور حلاج اس کی سامنے کی مثال ہے، جسے خلیفہ کے حکم سے قتل کیا گیا۔ امام بن حزم کا مکتب خانہ جلا دیا گیا۔
ان کی کتابیں نذر آتش ہوئیں، امام ابن تیمیہ کے ایک ہم عصر فقیہ ان کی شہرت اور مقبولیت سے اس قدر خائف ہوئے کہ انھوں نے خلیفہ وقت کو ان کے خلاف بھڑ کانا شروع کیا، وہ زندان میں ڈالے گئے۔
ہسپانیہ کا قاضی القضاۃ ابن رشد پانچ پشتوں سے جس کے خاندان میں یہ عہدہ چلا آتا تھا، وہ ایک علمی مسئلے پر خلیفہ وقت سے اختلاف کے جرم میں ملاحدہ اور زندقہ میں شمار کیا گیا۔ اپنے عہدے سے معزول کیا گیا، مسجد قرطبہ کی سیڑھیوں پر اسے نمازیوں کے جوتے صاف کرنے کی خدمت پر مامور کیا گیا۔ نمازیوں کو حکم تھا کہ اس پر تھوکتے ہوئے مسجد میں داخل ہوں اور جب واپس جائیں تب بھی تھوکتے ہوئے جائیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس کی کتابیں چوک میں نذر آتش ہوئیں تاہم ابن رشد کے انتقال کے پچاس برس پورے ہونے سے پہلے ان کی اہم کتابیں عبرانی اور لاطینی میں ترجمہ ہوئیں اور یورپ میں نشاۃ الثانیہ کے چراغ روشن ہوئے۔
محمود غزنوی کے پے درپے حملے ہندوستان کو روندتے رہے۔ اس کے بعد خلجیوں ، غوریوں، لودھیوں نے ہندوستان میں اپنی اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ مغل سب سے آخر میں آئے لیکن وہ لٹیرے نہیں تھے۔ ہندوستان کی سر زمین پر وہ رچ بس گئے۔
ہندوستان پر مسلمانوں نے سیکڑوں سال حکمرانی کی۔ ایک متنوع اور رنگا رنگ معاشرے میں بسا اوقات تنازعات کا پیدا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔
ان تنازعات میں نسلی، لسانی، علاقائی اور طبقاتی رنگ ضرور جھلکتا تھا لیکن انھوں نے کبھی باضابطہ مذہبی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی شکل اختیار نہیں کی۔ ہندوستان کو اپنی نو آبادی بنانے کے بعد برطانیہ نے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے برصغیر کو سیاسی طور پر تقسیم کیا۔
ان کے نزدیک یورپ مسیحی، ہندوستان ہندو، مشرقی وسطیٰ مسلمان، مشرق بعید بودھ خطے تھے۔ اپنی اسی سوچ اور سیاسی حکمت عملی کے تحت انھوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے لوگوں کو سیاسی طور پر بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا شروع کر دیا۔
1865 میں شمالی مغربی صوبوں میں مردم شماری کرائی گئی تھی جس میں ذات، مذہب، پیشہ اور عمر کے زمرے شامل تھے۔ اس کے بعد 1872 میں برطانوی حکومت کے تحت پہلی مردم شماری کرائی گئی تھی۔
1882 میں تامل ناڈو میں ہندو مسلم فساد ہوا۔1920 اور 1921میں مالا بار، 1921-22میں بنگال اور بہار، 1924 میں کوہاٹ میں ہندو مسلم فسادات ہوئے لیکن اس کے بعد مذہبی کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور اپریل1924اور مارچ 1925کے دوران ہندوستان کے 11مختلف شہروں جب کہ اپریل 1925اور مارچ1926کے درمیان بنگال، یو پی، سی پی، بمبئی، برار، گجرات ، شعلہ پور اور پھر تقریباً ہر آنے والے سال فسادات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
1927سے لے کر1939تک ہندوستان کے ہر حصے میں مجموعی طور پر سیکڑوں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ان میں نومبر1939میں سندھ کے شہر سکھر میں ہونے والے فسادات بھی شامل ہیں جن میں بھاری جانی نقصان ہوا۔ بعد ازاں ،1946میں کلکتہ، نوا کھالی فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آئے۔
برطانوی پارلیمنٹ نے انڈین کونسل ایکٹ 1909منظور کیا جس میں تمام شہریوں کے بجائے مخصوص طبقات کے لوگوں کو حقِ رائے دہی دیا گیا تھا۔ ان میں زمیندار، سرمایہ دار اور چند دیگر پیشوں کے سرکردہ افراد شامل تھے۔ اس ایکٹ کے تحت لیجسلیٹو کونسلو ں کی نشستیں جداگانہ طرز انتخابات کے ذریعے مذہبی بنیاد پر مخصوص کردی گئی تھیں۔
بعد ازاں، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 لایا گیا جو 1909 کے ایکٹ سے قدرے بہتر تھا لیکن اس میں جداگانہ انتخاب کے دائرے کو مزید وسیع کر دیا گیا تھا اور سکھوں کے لیے بھی الگ نشستیں مختص کردی گئی تھیں۔
اس قانون کے مطابق بھی حق رائے دہی کو محدود رکھا گیا تھا اور یہ حق جائیداد رکھنے والوں، مالدار زمینداروں، انکم یا میونسپل ٹیکسز ادا کرنے والوں اور بعض دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد کو دیا گیا تھا لیکن جب ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر بالغ رائے دہی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935میں منظور کیا گیا۔
اس قانون کے تحت بھی ہندوستان کے تمام شہریوں کو حق رائے دہی سے محروم رکھتے ہوئے محدود حق رائے دہی کو برقرار رکھا گیا تاہم وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی کا دائرہ زیادہ وسیع کر دیا گیا۔1937کے انتخابات میں مسلم لیگ کو مسلم ووٹروں کی حمایت نہیں ملی اور کانگریس کو بھاری کامیابی حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ 482 نشستوں میں سے صرف 109پر کامیابی حاصل کرسکی۔ اس وقت تک برطانیہ نے ہندوستان کی تقسیم کا حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا۔
1945-46کے انتخابات سے قبل، تقسیم کے حوالے سے صورت حال واضح ہوچکی تھی اور یہ امر یقینی تھا کہ ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہ وہ مرحلہ تھا کہ جب برطانیہ کے رائج کردہ جداگانہ طرز انتخاب نے ان کے منصوبے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔ محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں جن102نشستوں پر انتخابات ہوئے ان میں کانگریس کو 59، مسلم لیگ کو30 اور اکالی دل کو 2 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلم لیگ نے 87 فیصد نشستیں جیت لیں۔ ان انتخابات سے ثابت ہوا کہ مسلم لیگ کو ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگئی ہے مسلم لیگ کو تمام مسلم حلقوں میں کامیابی ضرور ملی لیکن وہ کوئی اور نشست لینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
برطانوی ہندوستان 1947میں تقسیم ہوگیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندو مسلم فرقہ وارانہ کشیدگی اور قتل عام میں10لاکھ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے اور پونے دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر در بدر ہونا پڑا۔
اس کے علاوہ اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئی۔ ایک وہ تقسیم تھی جو نظر آتی تھی لیکن ایک غیر مرئی تقسیم بھی رونما ہوچکی تھی، لاکھوں خاندان برباد ہوگئے تھے۔ جغرافیہ تبدیل ہوگیا اور تاریخ کو من مانے انداز میں بیان کیا جانے لگا۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں برٹش انڈین آرمی میں شامل لاکھوں ہندوستانی فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق دوسری جنگ عظیم میں برٹش انڈین آرمی میں25 لاکھ ہندوستانی فوجی شامل تھے جس میں تقریباً 38سے 40 فیصد فوجی مسلمان تھے جن کی اکثریت پنجاب اور سرحد سے تعلق رکھتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ برطانوی دور میں راولپنڈی نادرن کمانڈ کا ہیڈکوارٹر تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں موجودہ پاکستان ( ماضی کا مغربی پاکستان) زیادہ اہمیت رکھتا تھا اور مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) اس کے لیے غیر اہم تھا جس کی تصدیق 1971کی جنگ میں امریکا کی پالیسی سے بخوبی ہوتی ہے۔
پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں نے 1973 کا آئین بنا کر پاکستان کو آزاد خارجہ و معاشی پالیسی رکھنے والا ملک بنانے کی کوشش کی جسے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر ناکام بنا دیا گیا۔ امریکی مدد سے جنرل ضیا الحق اقتدار میں آئے اور انھوں نے امریکی مفادات کے لیے پاکستان کو افغان جنگ میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد سے ہم آج تک مسلسل دہشت گردی کا شکار ہیں۔
ہمارا بحران دیگر مسلمان ملکوں میں جاری بحرانوں کا ایک حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، آزاد فکر اور سائنسی سوچ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور ہر قسم کی انتہا پسندی ختم کی جائے۔
معاشی پسماندگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام مسلمان ملکوں کی کل جی ڈی پی امریکا کی چند ریاستوں کی مجموعی جی ڈی پی سے بھی کم ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کا سامنا دیگر مسلمان ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی ہے۔
پہلے مرحلے پر ہمیں ماضی میں جا کر بنیادی اسباب کو سمجھنا ہوگا اور دوسرے مرحلے پر یہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک روشن خیال اور ترقی پسند جمہوری ملک کیوں نہ بن سکا اور کم از کم گزشتہ چار دہائیوں سے نہ ختم ہونے والی انتہا پسندی کی لپیٹ میں ہے۔
وہ مسلمان عالم اور دانشور جنھوں نے عوام کے دکھوں کا علاج ڈھونڈنے اور ان کا غم بانٹنے کی کوشش کی، وہ اپنے اپنے دور کے بادشاہوں اور سلاطین کے پہلو میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔
بے شمار علماء نے اپنے اثرورسوخ میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیے دربار کو وہ تمام فتوے فراہم کیے جو عوام، صاحب نظر اور عوام دوست عالموں، اماموں اور صوفیوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ امام ابوحنیفہ، امام حنبل، امام مالک، امام شافعی کی تازیانوں سے ادھڑی ہوئی پشتیں ہمیں بادشاہوں کی ہوسِ اقتدار اور مطلق العنانیت کا قصہ سناتی ہیں۔
یہی وہ رویہ تھا جس نے ڈیڑھ ہزار برس میں روشن خیالی، آزاد فکر اور سائنسی سوچ کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ حکمران طبقے نے مسلم عوام کے حقوق کو روندنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بہت سے صوفیا نے تصوف کے پردے میں خلفا، بادشاہوں اور سلاطین کے زر خرید علما کے راستے سے ہٹ کر راستہ نکالنے کی کوشش کی لیکن بیشتر اس کوشش میں جان سے گئے۔ ملحد، زندیق اور کافر کہلائے گئے۔ ابو المنصور حلاج اس کی سامنے کی مثال ہے، جسے خلیفہ کے حکم سے قتل کیا گیا۔ امام بن حزم کا مکتب خانہ جلا دیا گیا۔
ان کی کتابیں نذر آتش ہوئیں، امام ابن تیمیہ کے ایک ہم عصر فقیہ ان کی شہرت اور مقبولیت سے اس قدر خائف ہوئے کہ انھوں نے خلیفہ وقت کو ان کے خلاف بھڑ کانا شروع کیا، وہ زندان میں ڈالے گئے۔
ہسپانیہ کا قاضی القضاۃ ابن رشد پانچ پشتوں سے جس کے خاندان میں یہ عہدہ چلا آتا تھا، وہ ایک علمی مسئلے پر خلیفہ وقت سے اختلاف کے جرم میں ملاحدہ اور زندقہ میں شمار کیا گیا۔ اپنے عہدے سے معزول کیا گیا، مسجد قرطبہ کی سیڑھیوں پر اسے نمازیوں کے جوتے صاف کرنے کی خدمت پر مامور کیا گیا۔ نمازیوں کو حکم تھا کہ اس پر تھوکتے ہوئے مسجد میں داخل ہوں اور جب واپس جائیں تب بھی تھوکتے ہوئے جائیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس کی کتابیں چوک میں نذر آتش ہوئیں تاہم ابن رشد کے انتقال کے پچاس برس پورے ہونے سے پہلے ان کی اہم کتابیں عبرانی اور لاطینی میں ترجمہ ہوئیں اور یورپ میں نشاۃ الثانیہ کے چراغ روشن ہوئے۔
محمود غزنوی کے پے درپے حملے ہندوستان کو روندتے رہے۔ اس کے بعد خلجیوں ، غوریوں، لودھیوں نے ہندوستان میں اپنی اپنی سلطنتیں قائم کیں۔ مغل سب سے آخر میں آئے لیکن وہ لٹیرے نہیں تھے۔ ہندوستان کی سر زمین پر وہ رچ بس گئے۔
ہندوستان پر مسلمانوں نے سیکڑوں سال حکمرانی کی۔ ایک متنوع اور رنگا رنگ معاشرے میں بسا اوقات تنازعات کا پیدا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔
ان تنازعات میں نسلی، لسانی، علاقائی اور طبقاتی رنگ ضرور جھلکتا تھا لیکن انھوں نے کبھی باضابطہ مذہبی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی شکل اختیار نہیں کی۔ ہندوستان کو اپنی نو آبادی بنانے کے بعد برطانیہ نے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے برصغیر کو سیاسی طور پر تقسیم کیا۔
ان کے نزدیک یورپ مسیحی، ہندوستان ہندو، مشرقی وسطیٰ مسلمان، مشرق بعید بودھ خطے تھے۔ اپنی اسی سوچ اور سیاسی حکمت عملی کے تحت انھوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے لوگوں کو سیاسی طور پر بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا شروع کر دیا۔
1865 میں شمالی مغربی صوبوں میں مردم شماری کرائی گئی تھی جس میں ذات، مذہب، پیشہ اور عمر کے زمرے شامل تھے۔ اس کے بعد 1872 میں برطانوی حکومت کے تحت پہلی مردم شماری کرائی گئی تھی۔
1882 میں تامل ناڈو میں ہندو مسلم فساد ہوا۔1920 اور 1921میں مالا بار، 1921-22میں بنگال اور بہار، 1924 میں کوہاٹ میں ہندو مسلم فسادات ہوئے لیکن اس کے بعد مذہبی کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور اپریل1924اور مارچ 1925کے دوران ہندوستان کے 11مختلف شہروں جب کہ اپریل 1925اور مارچ1926کے درمیان بنگال، یو پی، سی پی، بمبئی، برار، گجرات ، شعلہ پور اور پھر تقریباً ہر آنے والے سال فسادات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
1927سے لے کر1939تک ہندوستان کے ہر حصے میں مجموعی طور پر سیکڑوں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ان میں نومبر1939میں سندھ کے شہر سکھر میں ہونے والے فسادات بھی شامل ہیں جن میں بھاری جانی نقصان ہوا۔ بعد ازاں ،1946میں کلکتہ، نوا کھالی فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آئے۔
برطانوی پارلیمنٹ نے انڈین کونسل ایکٹ 1909منظور کیا جس میں تمام شہریوں کے بجائے مخصوص طبقات کے لوگوں کو حقِ رائے دہی دیا گیا تھا۔ ان میں زمیندار، سرمایہ دار اور چند دیگر پیشوں کے سرکردہ افراد شامل تھے۔ اس ایکٹ کے تحت لیجسلیٹو کونسلو ں کی نشستیں جداگانہ طرز انتخابات کے ذریعے مذہبی بنیاد پر مخصوص کردی گئی تھیں۔
بعد ازاں، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 لایا گیا جو 1909 کے ایکٹ سے قدرے بہتر تھا لیکن اس میں جداگانہ انتخاب کے دائرے کو مزید وسیع کر دیا گیا تھا اور سکھوں کے لیے بھی الگ نشستیں مختص کردی گئی تھیں۔
اس قانون کے مطابق بھی حق رائے دہی کو محدود رکھا گیا تھا اور یہ حق جائیداد رکھنے والوں، مالدار زمینداروں، انکم یا میونسپل ٹیکسز ادا کرنے والوں اور بعض دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد کو دیا گیا تھا لیکن جب ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر بالغ رائے دہی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935میں منظور کیا گیا۔
اس قانون کے تحت بھی ہندوستان کے تمام شہریوں کو حق رائے دہی سے محروم رکھتے ہوئے محدود حق رائے دہی کو برقرار رکھا گیا تاہم وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی کا دائرہ زیادہ وسیع کر دیا گیا۔1937کے انتخابات میں مسلم لیگ کو مسلم ووٹروں کی حمایت نہیں ملی اور کانگریس کو بھاری کامیابی حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ 482 نشستوں میں سے صرف 109پر کامیابی حاصل کرسکی۔ اس وقت تک برطانیہ نے ہندوستان کی تقسیم کا حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا۔
1945-46کے انتخابات سے قبل، تقسیم کے حوالے سے صورت حال واضح ہوچکی تھی اور یہ امر یقینی تھا کہ ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہ وہ مرحلہ تھا کہ جب برطانیہ کے رائج کردہ جداگانہ طرز انتخاب نے ان کے منصوبے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔ محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں جن102نشستوں پر انتخابات ہوئے ان میں کانگریس کو 59، مسلم لیگ کو30 اور اکالی دل کو 2 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلم لیگ نے 87 فیصد نشستیں جیت لیں۔ ان انتخابات سے ثابت ہوا کہ مسلم لیگ کو ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگئی ہے مسلم لیگ کو تمام مسلم حلقوں میں کامیابی ضرور ملی لیکن وہ کوئی اور نشست لینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
برطانوی ہندوستان 1947میں تقسیم ہوگیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندو مسلم فرقہ وارانہ کشیدگی اور قتل عام میں10لاکھ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے اور پونے دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر در بدر ہونا پڑا۔
اس کے علاوہ اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئی۔ ایک وہ تقسیم تھی جو نظر آتی تھی لیکن ایک غیر مرئی تقسیم بھی رونما ہوچکی تھی، لاکھوں خاندان برباد ہوگئے تھے۔ جغرافیہ تبدیل ہوگیا اور تاریخ کو من مانے انداز میں بیان کیا جانے لگا۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں برٹش انڈین آرمی میں شامل لاکھوں ہندوستانی فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق دوسری جنگ عظیم میں برٹش انڈین آرمی میں25 لاکھ ہندوستانی فوجی شامل تھے جس میں تقریباً 38سے 40 فیصد فوجی مسلمان تھے جن کی اکثریت پنجاب اور سرحد سے تعلق رکھتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ برطانوی دور میں راولپنڈی نادرن کمانڈ کا ہیڈکوارٹر تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں موجودہ پاکستان ( ماضی کا مغربی پاکستان) زیادہ اہمیت رکھتا تھا اور مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) اس کے لیے غیر اہم تھا جس کی تصدیق 1971کی جنگ میں امریکا کی پالیسی سے بخوبی ہوتی ہے۔
پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں نے 1973 کا آئین بنا کر پاکستان کو آزاد خارجہ و معاشی پالیسی رکھنے والا ملک بنانے کی کوشش کی جسے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر ناکام بنا دیا گیا۔ امریکی مدد سے جنرل ضیا الحق اقتدار میں آئے اور انھوں نے امریکی مفادات کے لیے پاکستان کو افغان جنگ میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد سے ہم آج تک مسلسل دہشت گردی کا شکار ہیں۔
ہمارا بحران دیگر مسلمان ملکوں میں جاری بحرانوں کا ایک حصہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، آزاد فکر اور سائنسی سوچ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور ہر قسم کی انتہا پسندی ختم کی جائے۔