سیاست اور وینا ملک
امریکا اور یورپ میں کئی برسوں کی تحقیق کے بعد ایک صنعت کا رواج پڑا ہے جسے Image Change کا نام دیا جاتا ہے
سیاست پر لکھتے چلے جانے سے میں یقینا اُکتا گیا ہوں۔ گابو جیسے لوگوں پر بھی لکھتا ہوں تو ان کی موت کے بعد۔ اور حان پامک تو ابھی زندہ ہے۔ خود سے وعدہ کیا ہے کہ اس کی اہم کتابیں اس بار تنقیدی نگاہ سے دوبارہ پڑھوں گا اور یہ دریافت کرنے کی کوشش کہ کیوں اور کس طرح صرف ترکی زبان میں لکھنے والے اس ادیب نے پوری دنیا کو اپنی تحریروں سے حیران کر رکھا ہے۔ پامک اور اس کا خاندان استنبول کے قدیمی رہائشی ہیں۔
پامک کو اس شہر کے علاوہ اور کسی جگہ قرار ہی نہیں آتا۔ اپنے شہر سے اس نے محبت ہی نہیں کی، بڑی لگن اور جستجو سے یہ جاننے کی کوشش بھی کی ہے کہ استنبول کی ساحرانہ کشش کا اصل راز کیا ہے۔ یہ تلاش کرتے ہوئے اس نے بالآخر یہ دریافت کر لیا کہ اس شہر کی کلید ''حُزن'' ہے۔ حزن اُردو زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر اس نے اس لفظ کو ملال تک محدود نہیں رکھا۔ ''حزن'' میں ''گداز'' بھی ڈھونڈا ہے اور زندگی کے بدترین لمحات میں ہر سو زندہ رہنے کی تڑپ بھی۔ پامک کا ''حُزن'' محض ایک رویہ نہیں، ایک مخصوص طرز زندگی کا بھرپور استعارہ ہے۔ اسے بیان کرنے کی طاقت جب مجھ میں آ گئی تو آپ کے گوش گزار کردوں گا۔
سیاست سے ہٹ کر موضوعات ڈھونڈتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھا کہ ہمارے لکھنے والے اپنے فن کاروں کی بابت کچھ نئے نکات ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ سعادت حسن منٹو میرے جیسا بس قلم گھسیٹنے والا نہیں تھا۔ بے پناہ تخلیقی ذہن کا مالک تھا۔ اس نے اپنے دور میں بہت مشہور ہوئے ادیبوں اور فن کاروں کے بارے میں ''گنجے فرشتے'' کے زیر عنوان بڑی جرأت اور توانائی سے جو لکھا اسے آج پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے منٹو ایک ادیب نہیں بلکہ بہت بڑا ماہر نفسیات دان تھا۔ وہ اپنے ملنے والوں کے سطحی تاثر سے بالاتر ہو کر ان کی شخصیت کی دبیز اور کئی صورتوں میں غلیظ ترین تہوں کو جیسے اپنے دل و دماغ میں فٹ کسی Ultrasound مشین کے ذریعے دیکھ کر پیشہ وارانہ بیگانگی کے ساتھ بیان کر دیتا تھا۔
میرے جیسے لوگ سیاست دانوں کا ذکر محض کچھ واقعات کے حوالے سے کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی شخصیت میں کچھ دیکھ نہیں پاتے۔ میرے چند بزرگ صحافیوں کو جن کی اکثریت اب اس دُنیا میں نہیں رہی ذوالفقار علی بھٹو کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا تھا۔ ان بزرگوں سے بڑی قربت کے باوجود بھٹو کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے مجھے Stanley Wolpert کی کتاب پڑھنا پڑھی۔ اس کتاب میں بیان کردہ چند واقعات میری ذاتی تحقیق کے بعد غلط بھی ثابت ہوئے۔ مگر ایک بھرپور خاکہ تو ملا جس سے بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ذکر کے فوری بعد اگر میں یہ اعتراف کروں کہ میں وینا ملک کے بارے میں بہت کچھ جان کر کچھ لکھنا چاہتا ہوں تو حیران یا ناراض نہ ہو جائیے گا۔ میں وینا سے کبھی نہیں ملا۔ لیکن اس نے جب ایک ٹی وی چینل کے مزاحیہ پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا تو میں اس کے فن کا گرویدہ ہو گیا۔ Mimicry جسے ہم نقل کہتے ہیں بجائے خود ایک بہت بڑا آرٹ ہے۔ انگوٹھے کے نشان کی طرح ہر فرد کا ایک مخصوص اندازِ بیاں اور بدن بولی ہوتی ہے۔ ڈرامائی زبان میں اسے Posture اور Mannerism کہتے ہیں۔ شارٹ ہینڈ کی طرح ان دونوں کو صرف شدید مشاہدے سے ہی دریافت کیا جا سکتا ہے۔
انھیں دریافت کرنے کے بعد اپنی آواز اور چال ڈھال کو بدل کر بیان کرنے کے لیے مخصوص مہارت الگ سے درکار ہوتی ہے اور پھر مزاح کا سارا انحصار Timing پر ہے۔ منور ظریف کے بعد وینا ملک ہی مجھے اس Timing کا موثر استعمال کرتی نظر آئی۔ مگر نقالی کے ذریعے اپنے فن کو معراج تک پہنچانے کے امکانات کو سفاکی سے نظر انداز کرنے کے بعد وہ ایک دن بھارت چلی گئی۔ وہاں اس نے ایک Reality Show میں حصہ لیا اور ہمارے کئی پارسائی فروشوں کی چیخیں نکلوا دیں۔ بات یہاں تک محدود نہ رہی۔ پھر ایک فوٹو شوٹ بھی ہوا اور ''مفتی صاحب یہ کیا بات ہوئی'' والے معرکے بھی۔
امریکا اور یورپ میں کئی برسوں کی تحقیق کے بعد ایک صنعت کا رواج پڑا ہے جسے Image Change کا نام دیا جاتا ہے۔ بھاری فیسیں لے کر اس کام کے ماہر ''بدنام'' ہوئے Celebrities کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے معاشرے میں ایک ''عزت دار'' اور ذمے دار شہری کی صورت Rehabilitate ہو سکیں۔ وینا نے چند ماہ پہلے ''اچانک'' شادی کر لی اور شادی کے بعد سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے پاکستانیوں کو بتدریج قائل کرنا شروع کر دیا کہ وہ اب بدل گئی ہے۔ پہلے جیسی نہیں رہی۔
اپنی جبلت میں موجود بے پناہ Sense of Timing کی بدولت ایک خاص وقت تک ملک سے دور رہنے کے بعد اب وہ وطن لوٹ آئی ہے اور کسی مجرمانہ خاموشی کے ساتھ نہیں بلکہ مناسب پبلسٹی کے ذریعے۔ اب سے چند ماہ قبل تک اسے ''بدی کی علامت'' بنا کر پیش کرنے والے پارسائی فروش مگر چپ ہیں۔ ان کی زبانوں کو یوں لگتا ہے جیسے تالے لگ چکے ہیں۔ ان کی وینا ملک کے وطن لوٹ آنے کے بعد خاموشی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انھوں نے اس فن کارہ کے Image Change کو دل سے قبول کر لیا ہے۔
پاکستان ایسے معاشرے میں جہاں غیبت اور دوسروں کی مسلسل ملامت کے علاوہ لوگوں کی اور کوئی مصروفیت ہی نظر نہیں آتی، وینا کے Image Change کی ایسی پذیرائی کوئی معمولی بات نہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ وطن لوٹ آنے کے بعد وینا ملک ایک ''گھریلو عورت'' بن کر گم نام نہیں ہو جائے گی۔ ایک نہ ایک دن کسی نے کسی ٹی وی اسکرین پر کھڑاک کے ساتھ ضرور نمودار ہو گی۔ وینا ملک کا ٹی وی اسکرین پر واپس آنا پتہ نہیں مگر کب ہوتا ہے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ اس درمیانی وقفے میں کسی صورت اس سے مل پائوں اور بڑے خلوص کے ساتھ اس سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ اس نے Image Change والا پیچیدہ ہنر کیوں اور کس طرح سیکھ لیا۔
پامک کو اس شہر کے علاوہ اور کسی جگہ قرار ہی نہیں آتا۔ اپنے شہر سے اس نے محبت ہی نہیں کی، بڑی لگن اور جستجو سے یہ جاننے کی کوشش بھی کی ہے کہ استنبول کی ساحرانہ کشش کا اصل راز کیا ہے۔ یہ تلاش کرتے ہوئے اس نے بالآخر یہ دریافت کر لیا کہ اس شہر کی کلید ''حُزن'' ہے۔ حزن اُردو زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر اس نے اس لفظ کو ملال تک محدود نہیں رکھا۔ ''حزن'' میں ''گداز'' بھی ڈھونڈا ہے اور زندگی کے بدترین لمحات میں ہر سو زندہ رہنے کی تڑپ بھی۔ پامک کا ''حُزن'' محض ایک رویہ نہیں، ایک مخصوص طرز زندگی کا بھرپور استعارہ ہے۔ اسے بیان کرنے کی طاقت جب مجھ میں آ گئی تو آپ کے گوش گزار کردوں گا۔
سیاست سے ہٹ کر موضوعات ڈھونڈتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھا کہ ہمارے لکھنے والے اپنے فن کاروں کی بابت کچھ نئے نکات ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ سعادت حسن منٹو میرے جیسا بس قلم گھسیٹنے والا نہیں تھا۔ بے پناہ تخلیقی ذہن کا مالک تھا۔ اس نے اپنے دور میں بہت مشہور ہوئے ادیبوں اور فن کاروں کے بارے میں ''گنجے فرشتے'' کے زیر عنوان بڑی جرأت اور توانائی سے جو لکھا اسے آج پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے منٹو ایک ادیب نہیں بلکہ بہت بڑا ماہر نفسیات دان تھا۔ وہ اپنے ملنے والوں کے سطحی تاثر سے بالاتر ہو کر ان کی شخصیت کی دبیز اور کئی صورتوں میں غلیظ ترین تہوں کو جیسے اپنے دل و دماغ میں فٹ کسی Ultrasound مشین کے ذریعے دیکھ کر پیشہ وارانہ بیگانگی کے ساتھ بیان کر دیتا تھا۔
میرے جیسے لوگ سیاست دانوں کا ذکر محض کچھ واقعات کے حوالے سے کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی شخصیت میں کچھ دیکھ نہیں پاتے۔ میرے چند بزرگ صحافیوں کو جن کی اکثریت اب اس دُنیا میں نہیں رہی ذوالفقار علی بھٹو کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا تھا۔ ان بزرگوں سے بڑی قربت کے باوجود بھٹو کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے مجھے Stanley Wolpert کی کتاب پڑھنا پڑھی۔ اس کتاب میں بیان کردہ چند واقعات میری ذاتی تحقیق کے بعد غلط بھی ثابت ہوئے۔ مگر ایک بھرپور خاکہ تو ملا جس سے بات آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ذکر کے فوری بعد اگر میں یہ اعتراف کروں کہ میں وینا ملک کے بارے میں بہت کچھ جان کر کچھ لکھنا چاہتا ہوں تو حیران یا ناراض نہ ہو جائیے گا۔ میں وینا سے کبھی نہیں ملا۔ لیکن اس نے جب ایک ٹی وی چینل کے مزاحیہ پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا تو میں اس کے فن کا گرویدہ ہو گیا۔ Mimicry جسے ہم نقل کہتے ہیں بجائے خود ایک بہت بڑا آرٹ ہے۔ انگوٹھے کے نشان کی طرح ہر فرد کا ایک مخصوص اندازِ بیاں اور بدن بولی ہوتی ہے۔ ڈرامائی زبان میں اسے Posture اور Mannerism کہتے ہیں۔ شارٹ ہینڈ کی طرح ان دونوں کو صرف شدید مشاہدے سے ہی دریافت کیا جا سکتا ہے۔
انھیں دریافت کرنے کے بعد اپنی آواز اور چال ڈھال کو بدل کر بیان کرنے کے لیے مخصوص مہارت الگ سے درکار ہوتی ہے اور پھر مزاح کا سارا انحصار Timing پر ہے۔ منور ظریف کے بعد وینا ملک ہی مجھے اس Timing کا موثر استعمال کرتی نظر آئی۔ مگر نقالی کے ذریعے اپنے فن کو معراج تک پہنچانے کے امکانات کو سفاکی سے نظر انداز کرنے کے بعد وہ ایک دن بھارت چلی گئی۔ وہاں اس نے ایک Reality Show میں حصہ لیا اور ہمارے کئی پارسائی فروشوں کی چیخیں نکلوا دیں۔ بات یہاں تک محدود نہ رہی۔ پھر ایک فوٹو شوٹ بھی ہوا اور ''مفتی صاحب یہ کیا بات ہوئی'' والے معرکے بھی۔
امریکا اور یورپ میں کئی برسوں کی تحقیق کے بعد ایک صنعت کا رواج پڑا ہے جسے Image Change کا نام دیا جاتا ہے۔ بھاری فیسیں لے کر اس کام کے ماہر ''بدنام'' ہوئے Celebrities کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے معاشرے میں ایک ''عزت دار'' اور ذمے دار شہری کی صورت Rehabilitate ہو سکیں۔ وینا نے چند ماہ پہلے ''اچانک'' شادی کر لی اور شادی کے بعد سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے پاکستانیوں کو بتدریج قائل کرنا شروع کر دیا کہ وہ اب بدل گئی ہے۔ پہلے جیسی نہیں رہی۔
اپنی جبلت میں موجود بے پناہ Sense of Timing کی بدولت ایک خاص وقت تک ملک سے دور رہنے کے بعد اب وہ وطن لوٹ آئی ہے اور کسی مجرمانہ خاموشی کے ساتھ نہیں بلکہ مناسب پبلسٹی کے ذریعے۔ اب سے چند ماہ قبل تک اسے ''بدی کی علامت'' بنا کر پیش کرنے والے پارسائی فروش مگر چپ ہیں۔ ان کی زبانوں کو یوں لگتا ہے جیسے تالے لگ چکے ہیں۔ ان کی وینا ملک کے وطن لوٹ آنے کے بعد خاموشی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انھوں نے اس فن کارہ کے Image Change کو دل سے قبول کر لیا ہے۔
پاکستان ایسے معاشرے میں جہاں غیبت اور دوسروں کی مسلسل ملامت کے علاوہ لوگوں کی اور کوئی مصروفیت ہی نظر نہیں آتی، وینا کے Image Change کی ایسی پذیرائی کوئی معمولی بات نہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ وطن لوٹ آنے کے بعد وینا ملک ایک ''گھریلو عورت'' بن کر گم نام نہیں ہو جائے گی۔ ایک نہ ایک دن کسی نے کسی ٹی وی اسکرین پر کھڑاک کے ساتھ ضرور نمودار ہو گی۔ وینا ملک کا ٹی وی اسکرین پر واپس آنا پتہ نہیں مگر کب ہوتا ہے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ اس درمیانی وقفے میں کسی صورت اس سے مل پائوں اور بڑے خلوص کے ساتھ اس سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ اس نے Image Change والا پیچیدہ ہنر کیوں اور کس طرح سیکھ لیا۔