وزیراعظم اور سرکاری نورتن
جمہوریت کی روح حکمران کا آسمان سے زمینی سطح پر آنے کے بعد عام لوگوں کی مشکلات کم کرنا ہے
رموز بادشاہی آج تک تبدیل نہیں ہو پائے۔ خاص طور پر ہماری مٹی میں تو خمیر ہی شہنشاہ اور رعایا کا ہے۔ یہ عنصر اوپر سے نیچے تک روح کی طرح ہمارے اندر رچ بس چکا ہے۔ مفر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! میں سائنس دانوں، محققین اور علماء سے طویل مکالمہ کر کے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آداب غلامی ہماری جبلت اور فطرت کا غیر شعوری حصہ بن چکے ہیں۔ مزید ہمارا کوئی بھی با اختیار شخص اپنے اندر سے ایک بادشاہ بننے کو نہیں روک پاتا۔
اگر آپ توجہ سے اپنے ملک کے نظام پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ووٹ کی طاقت سے آئے ہوئے حکمرانوں اور بندوق کے بل بوتے پر آئے ہوئے فوجی جنرلوں میں رتی برابر فرق نظر نہیں آئیگا۔ دونوں متضاد قافلوں کے سرخیل حیران کن حد تک ایک جیسا شخصی رویہ رکھتے ہیں۔ دونوں عوام کے مسائل کم کرنے کے لیے بہت محنت کرتے نظر آئینگے۔ ان کے اردگرد کے مصاحبین آپ کو فخر سے بتائیں گے کہ ہمارے ''صاحب'' تو صرف چار گھنٹے سوتے ہیں۔ باقی وقت تو صرف خدمت خلق کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ وہ آپکو اپنے ''صاحب''کی رحم دلی، انسان دوستی، غریب پروری اور حکمت کے نادر قصے سنائیں گے۔
آپ کا دل فوراً موم ہو جائے گا اور آپ اُس وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو فوراً عظمت کی مسند پر براجمان کر دینگے۔ مگر چند سال گزرنے کے بعد، ہر چیز ویسے کی ویسے رہے گی۔ دربار میں کوئی نیا بادشاہ تخت طائوس پر بیٹھا ہو گا اور اس کے متعلق بالکل ایسے ہی فسانے بیان کیے جائینگے جو تھوڑا عرصہ پہلے کے صاحب اقتدار کے متعلق بیان کیے جاتے ہیں۔ا سکندر مرزا سے شروع ہوا یہ شان و شوکت اور ظلِ الٰہی ہونے کا سفر آج تک جاری و ساری ہے۔ یاد رہے کہ میں شخصی رویے اور طرز حکمرانی کی بات کر رہا ہوں۔ اس احاطے سے باہر ہر حکمران ایک دوسرے سے مختلف طریقہ سے کام کرتا رہا ہے۔
جمہوریت کی روح حکمران کا آسمان سے زمینی سطح پر آنے کے بعد عام لوگوں کی مشکلات کم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز نظام جمہوریت کی عمارت کی اینٹیں ہیں، مگر بنیاد ہرگز نہیں۔ ہمارے ملک میں کسی بھی صدر، وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے پاس دو طرح کی ٹیمیں موجود ہوتیں ہیں۔ ایک ان کے سیاسی رفقاء کار اور دوسری سرکاری افسران کی۔ میں آج کی عرضداشت میں سیاسی رفقاء کار پر عرض نہیں کرونگا کیونکہ ان میں سے اکثر کی رسائی دربار میں مشروط ہوتی ہے۔
اور کئی بار وہ اس بگاڑ یا بحران کا حصہ ہی نہیں ہوتے، جو سرکاری ٹیم انتہائی محنت سے پیدا کرتی ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ اکثر سیاسی رفقاء کار یا سیاسی وزراء کو حقائق سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ بلکہ کئی بار تو ان سے حقیقت چھپانے کی ناکام کوشش تک کی جاتی ہے۔ ان کے ذمے صرف معاملات بگڑنے کے بعد ہر جگہ جا کر صفائیاں پیش کرنا ہوتا ہے اور وہ اس کار خاص کو کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
اب آپ ہمارے ملک کے کسی بھی حکمران کی سرکاری ٹیم کی طرف آئیے۔ یہ لوگ چوبیس گھنٹے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ ان کے مزاج کو مکمل سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کی ذاتی عادات، پسند اور ناپسند پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ ہر فیصلہ کروانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ یہ حکمران کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے میں ماہر ہوتے ہیں، تو یہ بات بالکل سچ ہو گی۔ اسطرح کی بے شمار مثالیں ماضی میں بھی موجود تھیں اور آج کے دور میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان میں ایک حیران کن قدر مشترک ہے اور وہ ہے ذاتی اور صرف ذاتی مفاد۔ لیکن یہ اپنے ذاتی مفادات کی مسلسل نگرانی کو میرٹ کا نام دے کر تمام لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اکثر کامیاب رہتے ہیں۔
ذہین یا کامیاب بادشاہ یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کون ہیں۔ اس کا جواب بالکل سادہ سا ہے۔ جو اپنے سرکاری مصاحبین کو کلیدی فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرتا یا وہ ان کی رائے کا مرہون منت نہیں ہوتا۔ ہمارے خطہ میں اکبر اعظم ایک زیرک ترین، کامیاب اور افسانوی حد سے بھی زیادہ طاقت ور حکمران تھا۔ مکمل اَن پڑھ ہونے کے باوجود، وہ رموز سلطنت میں مصاحبین کا کلیدی کردار پہچان چکا تھا۔ اسکو بخوبی علم تھا کہ یہ لوگ اپنے صحیح مشوروں سے اس کی سلطنت میں اسے کامیاب کروا سکتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر ان کے غلط مشوروں پر عملدرامد ہو گیا تو اس کا تخت اور حکومت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ آپ اکبر کے نو رتنوں کو بغور دیکھیے۔ آپ انکو تاریخ کی بے رحم کسوٹی پر پرکھیے۔
آپ ایک نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ نو شخص اُس بادشاہ کو بر وقت اور صحیح مشورہ دینے سے اسے بادشاہ سے شہنشاہ بنوا گئے اور وہ اکبر سے اکبر اعظم بن گیا۔ آپ راجہ ٹوڈر مل کی شخصیت پر نظر دوڑائیے۔ آپ اس کی صلاحیتیں اور کام دیکھ کر حیران رہ جائینگے۔ ٹوڈر مل لاہور یا قصور کا ہندو کھتری تھا۔ وہ بائیس صوبوں کا دیوان قرار دیا گیا تھا۔ اس کی طبیعت میں غور و فکر تھا۔ اُس میں قواعد و ضوابط بنانے اور ان پر عمل کروانے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ اس سے پہلے مالیات کے نظام کو مختلف زبانوں میں لکھا جاتا تھا۔ ہندو منشی ہندی میں لکھتے تھے اور فارسی جاننے والے فارسی میں لکھتے تھے۔ ان کاغذوں میں ربط نہ ہونے کے برابر تھا۔ ٹوڈر مل نے تمام حساب فارسی میں لکھنے کا ضابطہ بنا دیا۔ پھر اُس نے یہ قانون بھی ترتیب دیا کہ دفتر اور حساب کو کس طرح لکھا جائے گا۔
قواعد و ضوابط، اصول اور انتہائی ایمانداری سے قوانین پر عمل درامد کرنا بتایا۔ آپ حیران ہونگے کہ راجہ ٹوڈر مل ایک بہادر سپہ سالار اور قابل جنگی منتظم بھی تھا۔ ہر مشکل جنگ میں اکبر اعظم اُس کو ضرور بھیجتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹوڈر مل جنگ کا تمام انتظام اور ہر حکمت عملی تیار کرنے کے بعد ہمیشہ سپہ سالار کے ماتحت کام کرتا تھا۔ اُس نے کبھی بھی کسی صورت میں بھی بادشاہ کے مقرر کردہ سپہ سالار سے اپنا موازنہ نہیں کیا۔ اس کی حیرت انگیز حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اس وقت کے سپہ سالاروں نے بہت کامیابیاں حاصل کیں۔
مگر ٹوڈر مل نے کبھی بھی بادشاہ کے سامنے کامیابی اور فتح کو اپنا کارنامہ ظاہر نہیں کیا۔ اس نے فوج میں سب سے زیادہ سہولت "سپاہی" کو دی۔ وہ ان کی کئی غلطیاں معاف کر دیتا تھا۔ آپ ٹوڈر مل کو محض مالیہ، بندوبست اور زمین کے ناپنے کا روح رواں جانتے ہونگے، مگر اس نے امور سلطنت کے ہر شعبہ میں اصلاحات کیں۔ پَرگنہ، سرکار اور صوبوں کی تمام ترتیب اس نے مرتب کی تھی۔ اس نے گھوڑوں پر نشان داغ کر ان کا حساب رکھنے کا نظام ترتیب دیا۔ اس نے ہزاروں غلاموں اور جنگی قیدیوں کو آزاد کیا۔ اس نے اپنی کتاب "خازن اسرار" میں علم موسیقی اور پرندوں کی آوازوں تک کو قلمبند کیا۔
مرزا عبدالرحیم خان خاناں کو تین سال کی عمر میں انتہائی خستہ حالت میں دربار اکبری میں پیش کیا گیا۔ اکبر اسے گود میں اٹھا کر رو پڑا۔ وظیفہ مقرر کیا۔ تیرہ برس کی عمر میں وہ بادشاہ کے ساتھ ہر جنگ میں شرکت کرتا تھا۔ ترکی، فارسی، عربی اور سنسکرت پر مکمل عبور تھا۔ جوانی ہی میں بادشاہ کے نورتنوں میں شامل ہو گیا۔ بلند پایہ شاعر اور خوش گفتار شخص تھا۔ وہ ستائیس برس کا ہی تھا کہ بادشاہ نے اسکو اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کا اتالیق مقرر کر دیا۔ کئی مشکل مہمات میں اکبر اعظم نے اسے سپہ سالار بنا کر روانہ کیا۔ اس کی پوری زندگی اکبر کے لیے جنگیں لڑتے گزری۔ لیکن اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی فیاضی اور دریا دلی تھی۔ اگر اسے کسی شاعر کا کلام پسند آ جاتا تھا تو وہ اسے سونے میں تلوا کر بھیجتا تھا۔
وہ افسانوی حد تک اپنی سخاوت کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور ہو چکا تھا۔ وہ امداد کرتے وقت اس اَمر کا خصوصی خیال کرتا تھا کہ مدد لینے والے کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ایک دن برہان پور کی جانب روانہ ہوا۔ شام کے وقت پڑائو ڈالا۔ تمام امراء موجود تھے۔ ایک طرف سے ایک مرد آزاد آیا اور خان خاناں کے سامنے ایک شعر پڑھا اور روانہ ہوگیا۔ وہ شعر تھا:
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت
خان خاناں کا خطاب منعم خان بھی تھا۔ اس نے حکم دیا کہ اس فقیر کو ایک لاکھ روپے دیا جائے۔ اگلے دن وہ فقیر دوبارہ آیا اور وہی شعر پڑھا۔ دوسرے دن خان خاناں نے اس کو ایک لاکھ دوبارہ دے دیا۔ یہ سلسلہ سات دن چلتا رہا۔ آٹھویں دن اس فقیر کے ذہن میں آیا کہ وہ اپنی بساط سے بہت بڑھ کر تقاضا کر رہا ہے۔ لہذٰا وہ نہ آیا۔ خان خاناں نے اس کے نہ آنے پر کہا کہ آگرہ سے برہان پور ستائیس منزلوں کے فاصلے پر ہے۔
اور میں نے پہلے ہی دن ستائیس لاکھ روپیہ اس فقیر کے لیے مختص کر دیا تھا۔ اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ درویش تنگ حوصلہ تھا، اسے مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اپنے اس طرح کے بے مثال ساتھیوں کی وجہ سے اکبر برصغیر کا سب سے کامیاب اور بلند پایہ شہنشاہ قرار پایا۔ سیکڑوں سال گزر گئے مگر اس کے بعد اس کے برابر کا بادشاہ دوبارہ پیدا نہ ہو سکا۔ آخر اس کامیابی کا راز کیا تھا۔ بالکل عام فہم اور سادہ سا اصول تھا۔ اس کے نزدیک ترین لوگ اپنی اپنی جگہ باوصف اور نایاب لوگ تھے۔ ان لوگوں نے ایک اَن پڑھ بادشاہ کو وقت کا شہنشاہ بنا ڈالا۔
اب آپ پاکستان کی طرف نظر دوڑائیے۔ ہم اس وقت ہر طرح کے خوفناک خطروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس نازک وقت میں قیادت وزیر اعظم نواز شریف کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ میاں صاحب کو سوچنا چاہیے کہ سو یا دو سال کے بعد انکو کس طرح یاد کیا جائے گا۔ تاریخ میں ان کا کیا مقام ہو گا۔ یہ سب کچھ ان کے اور صرف ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ان کے سرکاری نورتنوں میں سے کوئی بھی لیاقت میں راجہ ٹوڈر مل کی گرد کو بھی نہیں پاسکتا ۔ ان میں کوئی راجہ مان سنگھ جیسا جری اور بہادر نہیں۔ کوئی بھی خان خاناں جیسے بڑے دل کا مالک نہیں۔ ان کا حقیقی کمال ہر ایک کے خلاف سازش کرنا ہے۔
ہاں دوسرا، لائق اور دیانت دار افسروں سے وزیر اعظم کو دور رکھنا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے سرکاری مصاحبین نے ان کے ارد گرد ایک اونچی دیوار چن دی ہے جس سے انھیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں ہو رہا! کہیں یہ تو نہیں کہ ان کے ارد گرد سرکاری نورتن انکو سیاسی رفقاء سے دور کر چکے ہیں! کہیں یہ سرکاری درباری ان کا نام غلط طریقے سے استعمال کر کے میرٹ کی دھجیاں تو نہیں اڑا رہے! مگر یہ سب کچھ کیسے ہو گا؟ یہ صرف اُس وقت ممکن ہے جب وزیر اعظم میاں نواز شریف بالکل تنہائی میں خود اپنے آپ سے یعنی نواز شریف سے ملاقات کریں! تدبر کریں! ہو سکتا ہے کہ ان کی اس ملاقات کے بعد ہر چیز تبدیل ہو جائے، شاید سرکاری نورتن بھی؟
اگر آپ توجہ سے اپنے ملک کے نظام پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ووٹ کی طاقت سے آئے ہوئے حکمرانوں اور بندوق کے بل بوتے پر آئے ہوئے فوجی جنرلوں میں رتی برابر فرق نظر نہیں آئیگا۔ دونوں متضاد قافلوں کے سرخیل حیران کن حد تک ایک جیسا شخصی رویہ رکھتے ہیں۔ دونوں عوام کے مسائل کم کرنے کے لیے بہت محنت کرتے نظر آئینگے۔ ان کے اردگرد کے مصاحبین آپ کو فخر سے بتائیں گے کہ ہمارے ''صاحب'' تو صرف چار گھنٹے سوتے ہیں۔ باقی وقت تو صرف خدمت خلق کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ وہ آپکو اپنے ''صاحب''کی رحم دلی، انسان دوستی، غریب پروری اور حکمت کے نادر قصے سنائیں گے۔
آپ کا دل فوراً موم ہو جائے گا اور آپ اُس وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو فوراً عظمت کی مسند پر براجمان کر دینگے۔ مگر چند سال گزرنے کے بعد، ہر چیز ویسے کی ویسے رہے گی۔ دربار میں کوئی نیا بادشاہ تخت طائوس پر بیٹھا ہو گا اور اس کے متعلق بالکل ایسے ہی فسانے بیان کیے جائینگے جو تھوڑا عرصہ پہلے کے صاحب اقتدار کے متعلق بیان کیے جاتے ہیں۔ا سکندر مرزا سے شروع ہوا یہ شان و شوکت اور ظلِ الٰہی ہونے کا سفر آج تک جاری و ساری ہے۔ یاد رہے کہ میں شخصی رویے اور طرز حکمرانی کی بات کر رہا ہوں۔ اس احاطے سے باہر ہر حکمران ایک دوسرے سے مختلف طریقہ سے کام کرتا رہا ہے۔
جمہوریت کی روح حکمران کا آسمان سے زمینی سطح پر آنے کے بعد عام لوگوں کی مشکلات کم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز نظام جمہوریت کی عمارت کی اینٹیں ہیں، مگر بنیاد ہرگز نہیں۔ ہمارے ملک میں کسی بھی صدر، وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے پاس دو طرح کی ٹیمیں موجود ہوتیں ہیں۔ ایک ان کے سیاسی رفقاء کار اور دوسری سرکاری افسران کی۔ میں آج کی عرضداشت میں سیاسی رفقاء کار پر عرض نہیں کرونگا کیونکہ ان میں سے اکثر کی رسائی دربار میں مشروط ہوتی ہے۔
اور کئی بار وہ اس بگاڑ یا بحران کا حصہ ہی نہیں ہوتے، جو سرکاری ٹیم انتہائی محنت سے پیدا کرتی ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ اکثر سیاسی رفقاء کار یا سیاسی وزراء کو حقائق سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ بلکہ کئی بار تو ان سے حقیقت چھپانے کی ناکام کوشش تک کی جاتی ہے۔ ان کے ذمے صرف معاملات بگڑنے کے بعد ہر جگہ جا کر صفائیاں پیش کرنا ہوتا ہے اور وہ اس کار خاص کو کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
اب آپ ہمارے ملک کے کسی بھی حکمران کی سرکاری ٹیم کی طرف آئیے۔ یہ لوگ چوبیس گھنٹے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ ان کے مزاج کو مکمل سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کی ذاتی عادات، پسند اور ناپسند پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ ہر فیصلہ کروانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ یہ حکمران کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے میں ماہر ہوتے ہیں، تو یہ بات بالکل سچ ہو گی۔ اسطرح کی بے شمار مثالیں ماضی میں بھی موجود تھیں اور آج کے دور میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان میں ایک حیران کن قدر مشترک ہے اور وہ ہے ذاتی اور صرف ذاتی مفاد۔ لیکن یہ اپنے ذاتی مفادات کی مسلسل نگرانی کو میرٹ کا نام دے کر تمام لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اکثر کامیاب رہتے ہیں۔
ذہین یا کامیاب بادشاہ یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کون ہیں۔ اس کا جواب بالکل سادہ سا ہے۔ جو اپنے سرکاری مصاحبین کو کلیدی فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرتا یا وہ ان کی رائے کا مرہون منت نہیں ہوتا۔ ہمارے خطہ میں اکبر اعظم ایک زیرک ترین، کامیاب اور افسانوی حد سے بھی زیادہ طاقت ور حکمران تھا۔ مکمل اَن پڑھ ہونے کے باوجود، وہ رموز سلطنت میں مصاحبین کا کلیدی کردار پہچان چکا تھا۔ اسکو بخوبی علم تھا کہ یہ لوگ اپنے صحیح مشوروں سے اس کی سلطنت میں اسے کامیاب کروا سکتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر ان کے غلط مشوروں پر عملدرامد ہو گیا تو اس کا تخت اور حکومت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ آپ اکبر کے نو رتنوں کو بغور دیکھیے۔ آپ انکو تاریخ کی بے رحم کسوٹی پر پرکھیے۔
آپ ایک نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ نو شخص اُس بادشاہ کو بر وقت اور صحیح مشورہ دینے سے اسے بادشاہ سے شہنشاہ بنوا گئے اور وہ اکبر سے اکبر اعظم بن گیا۔ آپ راجہ ٹوڈر مل کی شخصیت پر نظر دوڑائیے۔ آپ اس کی صلاحیتیں اور کام دیکھ کر حیران رہ جائینگے۔ ٹوڈر مل لاہور یا قصور کا ہندو کھتری تھا۔ وہ بائیس صوبوں کا دیوان قرار دیا گیا تھا۔ اس کی طبیعت میں غور و فکر تھا۔ اُس میں قواعد و ضوابط بنانے اور ان پر عمل کروانے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ اس سے پہلے مالیات کے نظام کو مختلف زبانوں میں لکھا جاتا تھا۔ ہندو منشی ہندی میں لکھتے تھے اور فارسی جاننے والے فارسی میں لکھتے تھے۔ ان کاغذوں میں ربط نہ ہونے کے برابر تھا۔ ٹوڈر مل نے تمام حساب فارسی میں لکھنے کا ضابطہ بنا دیا۔ پھر اُس نے یہ قانون بھی ترتیب دیا کہ دفتر اور حساب کو کس طرح لکھا جائے گا۔
قواعد و ضوابط، اصول اور انتہائی ایمانداری سے قوانین پر عمل درامد کرنا بتایا۔ آپ حیران ہونگے کہ راجہ ٹوڈر مل ایک بہادر سپہ سالار اور قابل جنگی منتظم بھی تھا۔ ہر مشکل جنگ میں اکبر اعظم اُس کو ضرور بھیجتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹوڈر مل جنگ کا تمام انتظام اور ہر حکمت عملی تیار کرنے کے بعد ہمیشہ سپہ سالار کے ماتحت کام کرتا تھا۔ اُس نے کبھی بھی کسی صورت میں بھی بادشاہ کے مقرر کردہ سپہ سالار سے اپنا موازنہ نہیں کیا۔ اس کی حیرت انگیز حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اس وقت کے سپہ سالاروں نے بہت کامیابیاں حاصل کیں۔
مگر ٹوڈر مل نے کبھی بھی بادشاہ کے سامنے کامیابی اور فتح کو اپنا کارنامہ ظاہر نہیں کیا۔ اس نے فوج میں سب سے زیادہ سہولت "سپاہی" کو دی۔ وہ ان کی کئی غلطیاں معاف کر دیتا تھا۔ آپ ٹوڈر مل کو محض مالیہ، بندوبست اور زمین کے ناپنے کا روح رواں جانتے ہونگے، مگر اس نے امور سلطنت کے ہر شعبہ میں اصلاحات کیں۔ پَرگنہ، سرکار اور صوبوں کی تمام ترتیب اس نے مرتب کی تھی۔ اس نے گھوڑوں پر نشان داغ کر ان کا حساب رکھنے کا نظام ترتیب دیا۔ اس نے ہزاروں غلاموں اور جنگی قیدیوں کو آزاد کیا۔ اس نے اپنی کتاب "خازن اسرار" میں علم موسیقی اور پرندوں کی آوازوں تک کو قلمبند کیا۔
مرزا عبدالرحیم خان خاناں کو تین سال کی عمر میں انتہائی خستہ حالت میں دربار اکبری میں پیش کیا گیا۔ اکبر اسے گود میں اٹھا کر رو پڑا۔ وظیفہ مقرر کیا۔ تیرہ برس کی عمر میں وہ بادشاہ کے ساتھ ہر جنگ میں شرکت کرتا تھا۔ ترکی، فارسی، عربی اور سنسکرت پر مکمل عبور تھا۔ جوانی ہی میں بادشاہ کے نورتنوں میں شامل ہو گیا۔ بلند پایہ شاعر اور خوش گفتار شخص تھا۔ وہ ستائیس برس کا ہی تھا کہ بادشاہ نے اسکو اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کا اتالیق مقرر کر دیا۔ کئی مشکل مہمات میں اکبر اعظم نے اسے سپہ سالار بنا کر روانہ کیا۔ اس کی پوری زندگی اکبر کے لیے جنگیں لڑتے گزری۔ لیکن اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی فیاضی اور دریا دلی تھی۔ اگر اسے کسی شاعر کا کلام پسند آ جاتا تھا تو وہ اسے سونے میں تلوا کر بھیجتا تھا۔
وہ افسانوی حد تک اپنی سخاوت کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور ہو چکا تھا۔ وہ امداد کرتے وقت اس اَمر کا خصوصی خیال کرتا تھا کہ مدد لینے والے کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ایک دن برہان پور کی جانب روانہ ہوا۔ شام کے وقت پڑائو ڈالا۔ تمام امراء موجود تھے۔ ایک طرف سے ایک مرد آزاد آیا اور خان خاناں کے سامنے ایک شعر پڑھا اور روانہ ہوگیا۔ وہ شعر تھا:
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت
خان خاناں کا خطاب منعم خان بھی تھا۔ اس نے حکم دیا کہ اس فقیر کو ایک لاکھ روپے دیا جائے۔ اگلے دن وہ فقیر دوبارہ آیا اور وہی شعر پڑھا۔ دوسرے دن خان خاناں نے اس کو ایک لاکھ دوبارہ دے دیا۔ یہ سلسلہ سات دن چلتا رہا۔ آٹھویں دن اس فقیر کے ذہن میں آیا کہ وہ اپنی بساط سے بہت بڑھ کر تقاضا کر رہا ہے۔ لہذٰا وہ نہ آیا۔ خان خاناں نے اس کے نہ آنے پر کہا کہ آگرہ سے برہان پور ستائیس منزلوں کے فاصلے پر ہے۔
اور میں نے پہلے ہی دن ستائیس لاکھ روپیہ اس فقیر کے لیے مختص کر دیا تھا۔ اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ درویش تنگ حوصلہ تھا، اسے مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا۔ اپنے اس طرح کے بے مثال ساتھیوں کی وجہ سے اکبر برصغیر کا سب سے کامیاب اور بلند پایہ شہنشاہ قرار پایا۔ سیکڑوں سال گزر گئے مگر اس کے بعد اس کے برابر کا بادشاہ دوبارہ پیدا نہ ہو سکا۔ آخر اس کامیابی کا راز کیا تھا۔ بالکل عام فہم اور سادہ سا اصول تھا۔ اس کے نزدیک ترین لوگ اپنی اپنی جگہ باوصف اور نایاب لوگ تھے۔ ان لوگوں نے ایک اَن پڑھ بادشاہ کو وقت کا شہنشاہ بنا ڈالا۔
اب آپ پاکستان کی طرف نظر دوڑائیے۔ ہم اس وقت ہر طرح کے خوفناک خطروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس نازک وقت میں قیادت وزیر اعظم نواز شریف کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ میاں صاحب کو سوچنا چاہیے کہ سو یا دو سال کے بعد انکو کس طرح یاد کیا جائے گا۔ تاریخ میں ان کا کیا مقام ہو گا۔ یہ سب کچھ ان کے اور صرف ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ان کے سرکاری نورتنوں میں سے کوئی بھی لیاقت میں راجہ ٹوڈر مل کی گرد کو بھی نہیں پاسکتا ۔ ان میں کوئی راجہ مان سنگھ جیسا جری اور بہادر نہیں۔ کوئی بھی خان خاناں جیسے بڑے دل کا مالک نہیں۔ ان کا حقیقی کمال ہر ایک کے خلاف سازش کرنا ہے۔
ہاں دوسرا، لائق اور دیانت دار افسروں سے وزیر اعظم کو دور رکھنا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے سرکاری مصاحبین نے ان کے ارد گرد ایک اونچی دیوار چن دی ہے جس سے انھیں حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں ہو رہا! کہیں یہ تو نہیں کہ ان کے ارد گرد سرکاری نورتن انکو سیاسی رفقاء سے دور کر چکے ہیں! کہیں یہ سرکاری درباری ان کا نام غلط طریقے سے استعمال کر کے میرٹ کی دھجیاں تو نہیں اڑا رہے! مگر یہ سب کچھ کیسے ہو گا؟ یہ صرف اُس وقت ممکن ہے جب وزیر اعظم میاں نواز شریف بالکل تنہائی میں خود اپنے آپ سے یعنی نواز شریف سے ملاقات کریں! تدبر کریں! ہو سکتا ہے کہ ان کی اس ملاقات کے بعد ہر چیز تبدیل ہو جائے، شاید سرکاری نورتن بھی؟