سیاسی منظر نامہ …صاف بھی اور دھندلا بھی
جس کیسز میں سزائیں ہو گئی ہیں، ان کے الگ الگ فیصلے ہو سکتے ہیں
ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ سب پوچھتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا کیا ہوگا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا؟
لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ پاک فوج کے ترجمان کی اتنی سخت پریس کانفرنس کے بعد بھی بڑی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ رکاوٹ کیا ہے؟ کیا نو مئی کے واقعات میں گرفتاری ہوگی یا نہیں؟ کیا وہ بچ گئے ہیں؟ کیا انھیں نہ پکڑنے کا فیصلہ ہوگیا ہے کیونکہ ضمانتیں تواتر سے ہی مل رہی ہیں۔ اس لیے منظر نامہ صاف ہونے کے باوجود دھندلا ہے۔ بہت سے سوالات اب تک موجود ہیں۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے قائد کمزور ہوئے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ مائنس نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ان کا کوئی بھی ٹرائل ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا ہے، پھر مائنس کیسے ہوںگے۔ ان کی قانونی ٹیم مقدمات کو التوا میں رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ ہر قسم کا تاخیری حربہ استعمال کیا جارہا ہے اور کوئی بھی ٹرائل شروع نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔
ایسے میں جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگلے عام انتخاباب سے قبل پی ٹی آئی قائد مائنس ہو جائیں گے یا وہ اگلے الیکشن میں امیدوار ہی نہیں ہوںگے، ان کی بات حالات کے مطابق تو درست لگتی ہے لیکن اس کے لیے جن قانونی مراحل کو طے کرنا ہے، وہ طے نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے مقدمات نہ چلنے میں جہاں ان کی قانونی ٹیم کی مہارت کا دخل ہے وہاں نظام انصاف کا نرم رویہ بھی نظر آتا ہے۔ ان کے مقدمات کے لیے کوئی مانیٹرنگ جج بھی نہ لگ سکا ہے جیسے نواز شریف کے لیے لگ گیا تھا۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے نوے فیصد لوگ پارٹی چھوڑ گئے ہیں۔ پنجاب اور کے پی کی حکومتیں انھوں نے خود توڑ دیں جب کہ کشمیر اور گلگت کی حکومتیں پی ٹی آئی سے چھین لی گئی ہیں یعنی کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اورکچھ ہمیں مرنے کا شوق بھی تھا۔ کچھ حکومتیں پارٹی قائد نے خود ختم کرلیں۔ کچھ ان سے چھین لی گئی ہیں۔
یوں ان کی سیاسی طاقت کم ہوتی گئی، اب جب ان کے پاس کوئی بھی حکومت نہیں رہی ہے، یقیناً وہ سسٹم سے باہر ہو گئے ہیں۔ ہم سب کو سمجھ ہے کہ حکومتی سسٹم سے باہر ہونے کے بعد دوبارہ داخل ہونا کافی مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح نکالا گیا ہے،ا س کے بعد واپسی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن واپسی کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے جاتے ہیں، وہ ابھی نظر نہیں آرہے ہیں۔
اب تو ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا نو مئی کے واقعات میں ملٹری کورٹ میں نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل کیا جائے گا۔ اگر ٹرائل اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں ہوتا ہے تو یہ ان کی سیاسی جیت ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی راہ میں قانونی رکاوٹیں ہو سکتی ہیں لیکن ان رکاوٹوں کی وجہ سے پیچھے ہٹنے کے بجائے ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر پیچھے ہٹنا درست نہیں ہے۔
کیا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اتنی تیزی سے ٹرائل مکمل ہوجائے جتنی تیزی سے ملٹری کورٹ میں ممکن ہے۔ کیا ہماری انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بھی مقدمات سالہا سال التوا کا شکار نہیں رہتے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت تیس دن میں ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ دے دے گی ۔ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی آجائے گا، ٹرائل رک جائے گا۔اس لیے اگر پی ٹی آئی چیئرمین اپنا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں لے جانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ان کی جیت ہوگی۔
وہ اسی لیے سپریم کورٹ گئے تھے، ساری لڑ ائی اپنے آپ کو ملٹری کورٹ میں جانے سے نچانے کی تھی، انھیں پارٹی کارکنوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ کارکنوں کے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو بھی جائیں تو انھیںکوئی فرق نہیں پڑتا، وہ صرف اپنا ٹرائل رکوانا چاہتے تھے۔ اب تک کے منظر نامے میں وہ اس میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل سے یہ پیغام جائے گا کہ چیئرمین صاحب بچ گئے ہیں، ان کو سیاسی زندگی مل گئی ہے۔ یہ بیانیہ ختم ہو جائے گا کہ ان کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ بلاشبہ سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے خلاف ایک ا ور پٹیشن دائر ہوئی ہے، اس پٹیشن میں پی ٹی آئی کی حکومت میں جن سویلینز کو ملٹر ی کورٹ میں سزائیں دی گئی ہیں، ان کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مطالبات تو اور بہت سے کیے گئے ہیں لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اصل پوائنٹ تو سویلینز کے ٹرائل کو ملٹری کورٹ میں جانے سے روکنا ہے۔
میری رائے میں ایک پٹیشن سے یہ فیصلہ ممکن نہیں۔ جس کیسز میں سزائیں ہو گئی ہیں، ان کے الگ الگ فیصلے ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک پٹیشن سے سب ختم نہیں ہو سکتے ۔ ویسے بھی 2019سے ان سویلین کی اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں، ان کو سنا نہیں جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دے کر معاملہ دفن کر دیا ہے۔ دوبارہ سماعت کے لیے اپیلیں مقرر ہی نہیں کی تو اب ایک پٹیشن پر کیسے فیصلے ہو سکتے ہیں۔
عجیب صورتحال ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن پی ٹی آئی چیئرمین کی بطور وزیر اعظم موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے جب کہ ایک پٹیشن میں وہ عدالت سے استدعا کر رہے ہیں کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہ کیا جائے۔ اب یہ سپریم کورٹ کی مرضی ہے کہ وہ کون سے سنی اور کون سی نہ سنے۔
یہی سوال سب اٹھا رہے ہیں کہ کون سی سنی جا رہی اور کون سے نہیں سنی جا رہی۔ کیا سب اکٹھی نہیں سنی جانی چاہیے اور پٹیشنر سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ ان کا کونسا موقف درست ہے۔ لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر نواز شریف نے اس طرح متضاد درخواستیں دائر کی ہوتیں تو سپریم کورٹ کا کیا رویہ ہوتا۔ کیا نواز شریف کو کٹہرے میں کھڑا نہ کر لیاجاتا۔
یہ نہ کہا جاتا کہ آپ تو خود سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے حق میں پٹیشن دائر کر چکے ہیں، آج اپنے ٹرائل کو روکنے کا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا محور اب نو مئی بن گیا ہے۔ نو مئی کے ملزمان کے حوالے سے جو بھی فیصلے ہوںگے سیاست کے ان پر گہرے اثرات ہوںگے۔ انتخابی نتائج بھی ویسے ہی آئیں گے۔ یہی حقیقت ہے۔
لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ پاک فوج کے ترجمان کی اتنی سخت پریس کانفرنس کے بعد بھی بڑی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ رکاوٹ کیا ہے؟ کیا نو مئی کے واقعات میں گرفتاری ہوگی یا نہیں؟ کیا وہ بچ گئے ہیں؟ کیا انھیں نہ پکڑنے کا فیصلہ ہوگیا ہے کیونکہ ضمانتیں تواتر سے ہی مل رہی ہیں۔ اس لیے منظر نامہ صاف ہونے کے باوجود دھندلا ہے۔ بہت سے سوالات اب تک موجود ہیں۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے قائد کمزور ہوئے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ مائنس نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ان کا کوئی بھی ٹرائل ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا ہے، پھر مائنس کیسے ہوںگے۔ ان کی قانونی ٹیم مقدمات کو التوا میں رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ ہر قسم کا تاخیری حربہ استعمال کیا جارہا ہے اور کوئی بھی ٹرائل شروع نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔
ایسے میں جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگلے عام انتخاباب سے قبل پی ٹی آئی قائد مائنس ہو جائیں گے یا وہ اگلے الیکشن میں امیدوار ہی نہیں ہوںگے، ان کی بات حالات کے مطابق تو درست لگتی ہے لیکن اس کے لیے جن قانونی مراحل کو طے کرنا ہے، وہ طے نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے مقدمات نہ چلنے میں جہاں ان کی قانونی ٹیم کی مہارت کا دخل ہے وہاں نظام انصاف کا نرم رویہ بھی نظر آتا ہے۔ ان کے مقدمات کے لیے کوئی مانیٹرنگ جج بھی نہ لگ سکا ہے جیسے نواز شریف کے لیے لگ گیا تھا۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے نوے فیصد لوگ پارٹی چھوڑ گئے ہیں۔ پنجاب اور کے پی کی حکومتیں انھوں نے خود توڑ دیں جب کہ کشمیر اور گلگت کی حکومتیں پی ٹی آئی سے چھین لی گئی ہیں یعنی کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اورکچھ ہمیں مرنے کا شوق بھی تھا۔ کچھ حکومتیں پارٹی قائد نے خود ختم کرلیں۔ کچھ ان سے چھین لی گئی ہیں۔
یوں ان کی سیاسی طاقت کم ہوتی گئی، اب جب ان کے پاس کوئی بھی حکومت نہیں رہی ہے، یقیناً وہ سسٹم سے باہر ہو گئے ہیں۔ ہم سب کو سمجھ ہے کہ حکومتی سسٹم سے باہر ہونے کے بعد دوبارہ داخل ہونا کافی مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح نکالا گیا ہے،ا س کے بعد واپسی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن واپسی کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے جاتے ہیں، وہ ابھی نظر نہیں آرہے ہیں۔
اب تو ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین کا نو مئی کے واقعات میں ملٹری کورٹ میں نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل کیا جائے گا۔ اگر ٹرائل اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں ہوتا ہے تو یہ ان کی سیاسی جیت ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی راہ میں قانونی رکاوٹیں ہو سکتی ہیں لیکن ان رکاوٹوں کی وجہ سے پیچھے ہٹنے کے بجائے ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر پیچھے ہٹنا درست نہیں ہے۔
کیا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اتنی تیزی سے ٹرائل مکمل ہوجائے جتنی تیزی سے ملٹری کورٹ میں ممکن ہے۔ کیا ہماری انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بھی مقدمات سالہا سال التوا کا شکار نہیں رہتے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت تیس دن میں ٹرائل مکمل کرکے فیصلہ دے دے گی ۔ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی آجائے گا، ٹرائل رک جائے گا۔اس لیے اگر پی ٹی آئی چیئرمین اپنا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں لے جانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ان کی جیت ہوگی۔
وہ اسی لیے سپریم کورٹ گئے تھے، ساری لڑ ائی اپنے آپ کو ملٹری کورٹ میں جانے سے نچانے کی تھی، انھیں پارٹی کارکنوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ کارکنوں کے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو بھی جائیں تو انھیںکوئی فرق نہیں پڑتا، وہ صرف اپنا ٹرائل رکوانا چاہتے تھے۔ اب تک کے منظر نامے میں وہ اس میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل سے یہ پیغام جائے گا کہ چیئرمین صاحب بچ گئے ہیں، ان کو سیاسی زندگی مل گئی ہے۔ یہ بیانیہ ختم ہو جائے گا کہ ان کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ بلاشبہ سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے خلاف ایک ا ور پٹیشن دائر ہوئی ہے، اس پٹیشن میں پی ٹی آئی کی حکومت میں جن سویلینز کو ملٹر ی کورٹ میں سزائیں دی گئی ہیں، ان کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مطالبات تو اور بہت سے کیے گئے ہیں لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اصل پوائنٹ تو سویلینز کے ٹرائل کو ملٹری کورٹ میں جانے سے روکنا ہے۔
میری رائے میں ایک پٹیشن سے یہ فیصلہ ممکن نہیں۔ جس کیسز میں سزائیں ہو گئی ہیں، ان کے الگ الگ فیصلے ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک پٹیشن سے سب ختم نہیں ہو سکتے ۔ ویسے بھی 2019سے ان سویلین کی اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں، ان کو سنا نہیں جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دے کر معاملہ دفن کر دیا ہے۔ دوبارہ سماعت کے لیے اپیلیں مقرر ہی نہیں کی تو اب ایک پٹیشن پر کیسے فیصلے ہو سکتے ہیں۔
عجیب صورتحال ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن پی ٹی آئی چیئرمین کی بطور وزیر اعظم موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے جب کہ ایک پٹیشن میں وہ عدالت سے استدعا کر رہے ہیں کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہ کیا جائے۔ اب یہ سپریم کورٹ کی مرضی ہے کہ وہ کون سے سنی اور کون سی نہ سنے۔
یہی سوال سب اٹھا رہے ہیں کہ کون سی سنی جا رہی اور کون سے نہیں سنی جا رہی۔ کیا سب اکٹھی نہیں سنی جانی چاہیے اور پٹیشنر سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ ان کا کونسا موقف درست ہے۔ لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر نواز شریف نے اس طرح متضاد درخواستیں دائر کی ہوتیں تو سپریم کورٹ کا کیا رویہ ہوتا۔ کیا نواز شریف کو کٹہرے میں کھڑا نہ کر لیاجاتا۔
یہ نہ کہا جاتا کہ آپ تو خود سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے حق میں پٹیشن دائر کر چکے ہیں، آج اپنے ٹرائل کو روکنے کا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا محور اب نو مئی بن گیا ہے۔ نو مئی کے ملزمان کے حوالے سے جو بھی فیصلے ہوںگے سیاست کے ان پر گہرے اثرات ہوںگے۔ انتخابی نتائج بھی ویسے ہی آئیں گے۔ یہی حقیقت ہے۔