وقتی سمجھوتہ اور وقت کا تقاضا
گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات سنگین اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا تعلق ریاستی اور ملکی امور سے ہے
ہمیں بھول جانے کی عادت ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے بہت سے معاملات دیرینہ پیچیدگیوں کا شکار ہو کر آنے والے دنوں کو مشکل ترین بنا دیتے ہیں۔ وقتی طور پر مسائل سے جان چھڑا کر آگے کی بات کرنا ایک ایسا وتیرہ بن گیا ہے جس کو ہر کسی نے اپنا لیا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں سے ریاستی اداروں پر الزامات اور ان کی طرف سے اس میڈیا گروپ کے خلاف جوابی کارروائی دنیا بھر میں ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنی۔ اندرونی کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے چائے خانوں میں حکومت اور فوج کی لڑائی کی باتیں شروع ہو گئیں۔
پچھلے ہفتے کی خبروں کا اگر آج کل کے اخبارات سے موازنہ کریں تو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے وہ کسی اور سرزمین کا قصہ بیان کر رہے ہیں۔ میڈیا گروپ گلا پھاڑ کر ریاستی اداروں کو کوس رہا تھا۔ چلبلے اور نوخیز تجزیہ نگار قلم کو کم اور سیاہی کا زیادہ استعمال کرتے ہوئے اپنے سوا ہر کسی کے منہ پر کالک مل رہے تھے۔ ٹوئٹر پر بے ہودہ زبان اور نت نئے زاویوں کے سمیت عجیب و غریب تھیوریاں پیش کر رہے تھے۔ ہر ٹی وی ٹاک شو پر بیٹھ کر آزادی صحافت پر فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے حملوں کی تاریخ ایسے بیان کر رہے تھے جیسے انھوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ چھوٹے موٹے چینلوں پر بیٹھے ہوئے ان کے چیلے بد تمیز بچوں کی طرح اودھم مچا رہے تھے۔
یہ تاثر قائم کیا گیا تھا کہ جیسے حامد میر پر حملوں کے بعد انھوں نے ریاست کے ادارے کا جرم پکڑ لیا ہے۔ اب صرف گردن ناپنے کی دیر ہے۔ مگر اب؟ باسی کڑھی کا ابال بیٹھ گیا ہے۔ سب کی آواز بند ہے۔ پھدکنے والے دبکے بیٹھے ہیں۔ چائیں چائیں، ٹائیں ٹائیں فش میں تبدیل ہو گئی ہے۔ سات دنوں میں صحافت کی آزادی پر خطرناک حملہ اب آپکو ان اخبارات میں محدب عدسے کا استعمال کر کے ہی مل سکتا ہے۔ ریاست کے خلاف مقدمہ سنگل کالم میں چھاپا جا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑی تبدیلی انھی ریاستی اداروں کی تعریف اور توصیف ہے جو کل تک سازشی اور قاتل قرار دیے جا رہے تھے۔
یوم شہدا پر آرمی چیف راحیل شریف کی تقریر کو قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے بھی بلند درجہ دے کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ ان سے اچھا فوج کا سربراہ نہ کبھی آیا ہے اور نہ آئے گا۔ پچھلے ہفتے تک فوجیوں کو '' قوم کے ٹکڑوں پر پلنے والے'' کہا جا رہا تھا۔ آج وہ قوم کے سر کا تاج بنا دیے گئے ہیں۔ کل تک حامد میر ملک کو بچا رہا تھا اب نیک کام جنرل راحیل شریف کے حوالے دوبارہ کردیا گیا ہے۔ مانگے تانگے ہوئے ننجا ٹر ٹلز جو اس میڈیا گروپ پر تنقید کرنے والوں پر کود کود کر حملے کر رہے تھے۔ اب اپنی غاروں میں واپس بھیج دیے گئے ہیں۔ محبت اور ہم آہنگی کا ایک ایسا سماں باندھ دیا گیا ہے جیسے یہاں پر کبھی کچھ مسئلہ تھا ہی نہیں۔
قلا بازی حکومت کی بھی کم نہیں۔ پرویز رشید جو ہر سوال کے جواب میں سیاسی فلسفے کی کتابیں کھولتے ہیں ۔اب آج کل جنرل راحیل شریف کی تقریر کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ ان کو ایک دم یہ احساس ہوا ہے کہ جمہوریت کی توانائی اور عدلیہ اور صحافت کی آزادی سب کچھ فوج کی قربانیوں کے صدقے میں ملا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل کلاں وہ بہار کی آمد اور قوس قزح کے رنگوں کو بھی راولپنڈی کی نسبت سے بیان کرنا شروع کر دیں۔ وزیر اطلاعات ہیں کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ خواجہ آصف جو کسی کو دو جملے مکمل کرنے سے پہلے جواب دے کر خاموش کرا دیتے ہیں۔ ایک طویل خاموشی کے بعد خم ٹھونک کر یہ کہہ رہے ہیں کہ جیو کے خلاف پیمرا کو جانے والی درخواست انھوں نے خود اپنے دستخط سے بھجوائی ہے۔
اس عمل کو انھوں نے کچھ ایسے بیان کیا ہے کہ جیسے یہ دستخط کرنے کے بعد ان کو تمغہ حسن کارکردگی ملنا چاہیے۔ اور ان سے متعلق وہ تمام شکوک و شبہات اور بیانات جو پچھلے ہفتوں میں خبروں کی زینت بنتے تھے قومی حافظے سے حذف کر دینے چاہئیں۔ اس حد تک تو میں تبدیلی کا حامی ہوں کہ اس سے تنائو کی وہ کیفیت جو بڑے بحران میں تبدیل ہو سکتی تھی اب کم ہو گئی ہے۔ صحافیوں، فوجیوں اور سیاست دانوں کے پاس بہت سے دوسرے اہم کام کرنے کو ہیں۔ جس سے نظر ہٹا کر ہم سب اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو صحیح طریقے سے سر انجام نہیں دے سکتے۔ اگر حکومت اور اس میڈیا گروپ نے خاموشی سے اپنے محاذ پر لدی ہوئی توپوں کو ہٹا لیا ہے تو اچھا ہے۔ ویسے بھی پھینکے جانے والے گولے واپس آ کر انھی کی صفوں کو تباہ کر رہے تھے۔ صلح صفائی، عقلمندی کا تقاضا تھا جو پورا ہوتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔
لیکن قوم کو خواہ مخواہ ایک عصاب شکن کیفیت میں ڈالنے کا کوئی تو احتساب ہونا چاہیے۔ اور اگر احتساب نہیں ہو سکتا، جو نہیں ہو گا تو اس کھیل تماشے کے نقصانات کو ریکارڈ کا حصہ رہنا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب دل چاہے ملک میں صفیں بنا کر جنگ کا آغاز کردیں اور پھر حالات کو خراب ہوتے ہوئے دیکھ کر مائیک اور لائوڈ اسپیکر سے امن اور بھائی چارے کے گیت گانے لگیں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ گرم جوش مصافحوں کے ہوتے ہوئے بھی دوسرے ہاتھ میں الزامات کی پچ کاری جوں کی توں موجود ہے۔ عامر میر نے اپنے الزامات واپس نہیں لیے۔ حامد میر ابھی بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ ریاستی عناصر اس پر حملے کا باعث بنے۔ ایک خبر کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی کی موجودگی کی وجہ سے حامد میر نے اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا ہے۔
اپنی تحریروں میں وہ کیا لکھ رہے ہیں ہم سب پڑھ سکتے ہیں۔ آئی ایس آئی کی طرف سے پیمرا کو دی جانے والی درخواست پر کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ عدالتی کمیشن اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوم شہداء پر جنرل راحیل شریف کی تقریر کے سائے میں جی او سی حیدر آباد کا بیان چھپ گیا۔ جس میں انھوں نے فوج ، پاکستان اور اسلام کے خلاف آزادی صحافت کے نام پر ہونے والی سازشوں پر کھلا تبصرہ کیا۔ اس زاویے سے دیکھیں تو پچھلے دنوں چلنے والی مہم سے ریاستی اداروں میں جو غصہ پیدا ہوا تھا وہ ابھی تک بھڑک رہا ہے۔
اس امر کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ چند دنوں کے بعد یہ سب کچھ پھر دہرایا جائے۔ حالات کے تحت خاموش کی ہوئی توپیں کسی بھی وقت دوبارہ سے گولہ باری شروع کر سکتی ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات سنگین اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا تعلق ریاستی اور ملکی امور سے ہے۔ اس کو بھول چوک یا وقتی معاملہ قرار دیتے ہوئے حیلوں بہانوں سے نظر انداز کرنا شاید اس وقت عقلمندی کا تقاضا لگ رہا ہو۔ مگر مستقبل میں یہ پھر سے گلے ضرور پڑے گا۔ نہ الزام بدلا ہے، نہ عادت۔ وقتی سمجھوتہ ہے وقت آنے پر ختم ہو جائے گا۔
پچھلے ہفتے کی خبروں کا اگر آج کل کے اخبارات سے موازنہ کریں تو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے وہ کسی اور سرزمین کا قصہ بیان کر رہے ہیں۔ میڈیا گروپ گلا پھاڑ کر ریاستی اداروں کو کوس رہا تھا۔ چلبلے اور نوخیز تجزیہ نگار قلم کو کم اور سیاہی کا زیادہ استعمال کرتے ہوئے اپنے سوا ہر کسی کے منہ پر کالک مل رہے تھے۔ ٹوئٹر پر بے ہودہ زبان اور نت نئے زاویوں کے سمیت عجیب و غریب تھیوریاں پیش کر رہے تھے۔ ہر ٹی وی ٹاک شو پر بیٹھ کر آزادی صحافت پر فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے حملوں کی تاریخ ایسے بیان کر رہے تھے جیسے انھوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ چھوٹے موٹے چینلوں پر بیٹھے ہوئے ان کے چیلے بد تمیز بچوں کی طرح اودھم مچا رہے تھے۔
یہ تاثر قائم کیا گیا تھا کہ جیسے حامد میر پر حملوں کے بعد انھوں نے ریاست کے ادارے کا جرم پکڑ لیا ہے۔ اب صرف گردن ناپنے کی دیر ہے۔ مگر اب؟ باسی کڑھی کا ابال بیٹھ گیا ہے۔ سب کی آواز بند ہے۔ پھدکنے والے دبکے بیٹھے ہیں۔ چائیں چائیں، ٹائیں ٹائیں فش میں تبدیل ہو گئی ہے۔ سات دنوں میں صحافت کی آزادی پر خطرناک حملہ اب آپکو ان اخبارات میں محدب عدسے کا استعمال کر کے ہی مل سکتا ہے۔ ریاست کے خلاف مقدمہ سنگل کالم میں چھاپا جا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑی تبدیلی انھی ریاستی اداروں کی تعریف اور توصیف ہے جو کل تک سازشی اور قاتل قرار دیے جا رہے تھے۔
یوم شہدا پر آرمی چیف راحیل شریف کی تقریر کو قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے بھی بلند درجہ دے کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ ان سے اچھا فوج کا سربراہ نہ کبھی آیا ہے اور نہ آئے گا۔ پچھلے ہفتے تک فوجیوں کو '' قوم کے ٹکڑوں پر پلنے والے'' کہا جا رہا تھا۔ آج وہ قوم کے سر کا تاج بنا دیے گئے ہیں۔ کل تک حامد میر ملک کو بچا رہا تھا اب نیک کام جنرل راحیل شریف کے حوالے دوبارہ کردیا گیا ہے۔ مانگے تانگے ہوئے ننجا ٹر ٹلز جو اس میڈیا گروپ پر تنقید کرنے والوں پر کود کود کر حملے کر رہے تھے۔ اب اپنی غاروں میں واپس بھیج دیے گئے ہیں۔ محبت اور ہم آہنگی کا ایک ایسا سماں باندھ دیا گیا ہے جیسے یہاں پر کبھی کچھ مسئلہ تھا ہی نہیں۔
قلا بازی حکومت کی بھی کم نہیں۔ پرویز رشید جو ہر سوال کے جواب میں سیاسی فلسفے کی کتابیں کھولتے ہیں ۔اب آج کل جنرل راحیل شریف کی تقریر کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ ان کو ایک دم یہ احساس ہوا ہے کہ جمہوریت کی توانائی اور عدلیہ اور صحافت کی آزادی سب کچھ فوج کی قربانیوں کے صدقے میں ملا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل کلاں وہ بہار کی آمد اور قوس قزح کے رنگوں کو بھی راولپنڈی کی نسبت سے بیان کرنا شروع کر دیں۔ وزیر اطلاعات ہیں کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ خواجہ آصف جو کسی کو دو جملے مکمل کرنے سے پہلے جواب دے کر خاموش کرا دیتے ہیں۔ ایک طویل خاموشی کے بعد خم ٹھونک کر یہ کہہ رہے ہیں کہ جیو کے خلاف پیمرا کو جانے والی درخواست انھوں نے خود اپنے دستخط سے بھجوائی ہے۔
اس عمل کو انھوں نے کچھ ایسے بیان کیا ہے کہ جیسے یہ دستخط کرنے کے بعد ان کو تمغہ حسن کارکردگی ملنا چاہیے۔ اور ان سے متعلق وہ تمام شکوک و شبہات اور بیانات جو پچھلے ہفتوں میں خبروں کی زینت بنتے تھے قومی حافظے سے حذف کر دینے چاہئیں۔ اس حد تک تو میں تبدیلی کا حامی ہوں کہ اس سے تنائو کی وہ کیفیت جو بڑے بحران میں تبدیل ہو سکتی تھی اب کم ہو گئی ہے۔ صحافیوں، فوجیوں اور سیاست دانوں کے پاس بہت سے دوسرے اہم کام کرنے کو ہیں۔ جس سے نظر ہٹا کر ہم سب اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو صحیح طریقے سے سر انجام نہیں دے سکتے۔ اگر حکومت اور اس میڈیا گروپ نے خاموشی سے اپنے محاذ پر لدی ہوئی توپوں کو ہٹا لیا ہے تو اچھا ہے۔ ویسے بھی پھینکے جانے والے گولے واپس آ کر انھی کی صفوں کو تباہ کر رہے تھے۔ صلح صفائی، عقلمندی کا تقاضا تھا جو پورا ہوتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔
لیکن قوم کو خواہ مخواہ ایک عصاب شکن کیفیت میں ڈالنے کا کوئی تو احتساب ہونا چاہیے۔ اور اگر احتساب نہیں ہو سکتا، جو نہیں ہو گا تو اس کھیل تماشے کے نقصانات کو ریکارڈ کا حصہ رہنا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب دل چاہے ملک میں صفیں بنا کر جنگ کا آغاز کردیں اور پھر حالات کو خراب ہوتے ہوئے دیکھ کر مائیک اور لائوڈ اسپیکر سے امن اور بھائی چارے کے گیت گانے لگیں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ گرم جوش مصافحوں کے ہوتے ہوئے بھی دوسرے ہاتھ میں الزامات کی پچ کاری جوں کی توں موجود ہے۔ عامر میر نے اپنے الزامات واپس نہیں لیے۔ حامد میر ابھی بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ ریاستی عناصر اس پر حملے کا باعث بنے۔ ایک خبر کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی کی موجودگی کی وجہ سے حامد میر نے اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا ہے۔
اپنی تحریروں میں وہ کیا لکھ رہے ہیں ہم سب پڑھ سکتے ہیں۔ آئی ایس آئی کی طرف سے پیمرا کو دی جانے والی درخواست پر کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ عدالتی کمیشن اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوم شہداء پر جنرل راحیل شریف کی تقریر کے سائے میں جی او سی حیدر آباد کا بیان چھپ گیا۔ جس میں انھوں نے فوج ، پاکستان اور اسلام کے خلاف آزادی صحافت کے نام پر ہونے والی سازشوں پر کھلا تبصرہ کیا۔ اس زاویے سے دیکھیں تو پچھلے دنوں چلنے والی مہم سے ریاستی اداروں میں جو غصہ پیدا ہوا تھا وہ ابھی تک بھڑک رہا ہے۔
اس امر کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ چند دنوں کے بعد یہ سب کچھ پھر دہرایا جائے۔ حالات کے تحت خاموش کی ہوئی توپیں کسی بھی وقت دوبارہ سے گولہ باری شروع کر سکتی ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات سنگین اور انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا تعلق ریاستی اور ملکی امور سے ہے۔ اس کو بھول چوک یا وقتی معاملہ قرار دیتے ہوئے حیلوں بہانوں سے نظر انداز کرنا شاید اس وقت عقلمندی کا تقاضا لگ رہا ہو۔ مگر مستقبل میں یہ پھر سے گلے ضرور پڑے گا۔ نہ الزام بدلا ہے، نہ عادت۔ وقتی سمجھوتہ ہے وقت آنے پر ختم ہو جائے گا۔