سندھ اسمبلی کا تاریخی فیصلہ
بچپن کی شادیوں کے بہت سے نقصانات واضح ہونے لگے۔۔۔
سندھ میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں منظور شدہ قانون کے تحت کم عمر بچوں کی شادی کے ذمے دار والدین اور سرپرستوں کو کم سے کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال سزا اور جرمانہ ہو سکے گا۔ اس قانون کی شقوں کے تحت یہ جرم بلا ضمانت سمجھا جائے گا اور متعلقہ مجسٹریٹ 90 دن میں اس قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں دی گئی درخواست کو نمٹائیں گے۔ سندھ اسمبلی ملک کی پہلی اسمبلی ہے جس نے سماجی تبدیلی کے حوالے سے قانون منظور کیا ہے۔ سندھ اسمبلی اس سے قبل گھریلو تشدد کے انسداد کا قانون بھی منظور کر چکی ہے۔ یہ قانون پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا تھا۔
اسمبلی کے اراکین متفقہ طور پر عائلی قوانین کی منسوخی کی سفارش کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں کم سن بچوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی منظوری کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم ہیڈز کے اراکین نے آگہی کی مہم شروع کی تھی۔ کچھ ارکان نے اس بل کا مسودہ نجی اراکین کے دن کے تحت ایوان میں پیش کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی اور وزیر قانون ڈاکٹر سکندر مندریو نے مشترکہ طور پر اس بل کو ایوان میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کے اتفاق رائے سے سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے ایک قانون منظور ہوا۔ Child Marriage Restrain Act 1929 نافذ ہوا۔
بچوں اور بچیوں کی شادی ہمیشہ ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ رہا ہے۔ ہندوستان میں بچوں کی شادی کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ عمومی طور پر والدین اور سرپرست بچوں کی شادی کو بنیادی فریضہ سمجھتے تھے، بچوں کی پیدائش سے لے کر سن بلوغت تک پہنچنے تک شادی کر دی جاتی تھی، بعض علاقوں میں تو بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی رشتے طے کر دیے جاتے تھے۔ انگریزوں کی آمد تک ابتدائی عمر میں شادی اسٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھی۔ اسلام میں عورت کو دوسری شادی کا حق دیا گیا ہے مگر قدیم سماج بیوہ عورت کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا تھا۔ وہ سسک سسک کر زندگی گزارتی تھی۔ جب کہ بیوی کی موت کی صورت میں شوہر کی دوسری شادی فوری طور پر طے کر دی جاتی تھی اور کم سن، زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
انگریز حکومت نے کم سن بچوں کی شادی کے نقصانات کا اندازہ لگاتے ہوئے ان شادیوں پر پابندی عائد کرنے کا قانون نافذ کیا۔ ہندوؤں کے مذہبی علما نے اس قانون کو ہندو دھرم میں مداخلت قرار دیا۔ مسلمان علما نے بھی اسی طرح کا موقف اختیار کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب گزشتہ صدی کے دوسرے عشرے میں کانگریس کی قیادت موہن داس گاندھی کو منتقل ہو چکی تھی۔ مہاتما گاندھی ہندو سماج میں تبدیلی کے امین تھے مگر وہ ہندو برادری کے دباؤ پر اس قانون کی حمایت کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ مسلم لیگی رہنماؤں نے اس بارے میں خاموشی اختیار کر لی۔ مگر محمد علی جناح وہ واحد رہنما تھے جنہوں نے کم سن بچوں کی شادی کے قانون کی حمایت کی۔ جناح صاحب کا کہنا تھا کہ کم سن بچیوں کی شادی ان کی صحت، سماجی اور معاشی حیثیت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس قانون کی بناء پر ان کی اور رتی ڈنشا کی شادی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ رتی کے والد اور پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر ڈنشا نے عدالت میں اس قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا کہ ان کی بیٹی نابالغ ہے، اس بنا پر محمد علی جناح کو شادی سے روکا جائے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ رتی 1 سال بعد شادی کے قابل ہو گی۔ محمد علی جناح نے ایک سال انتظار کیا اور اس پورے سال رتی سے رابطہ نہیں کیا۔ انھوں نے کم سن بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون کی در اصل پابندی کی۔ لڑکی کے بالغ ہونے تک شادی پر پابندی کا قانون ہندوستان بھر میں نافذ تھا اور پھر پاکستان کے قیام کے بعد یہ قانون انڈیپنڈنٹ ایکٹ کے تحت ملک بھر میں نافذ ہوا مگر جہالت اور فرسودہ سماجی روایات کی بنا پر اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
والدین خاص طور پر کم سن بچیوں کی شادی کو اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ بچپن کی شادیوں کے بہت سے نقصانات واضح ہونے لگے۔ لڑکے اور لڑکیاں بچپن میں شادی کے بندھن میں جکڑنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا معاملہ بھی التواء کا شکار ہو جاتا ہے۔ عمومی طور پر لڑکیاں سسرال جا کر گھریلو کام کاج اور بچے پیدا کرنے کی مشین میں تبدیل ہو جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پانچویں جماعت تک پہنچنے والی لڑکیوں کی اسکول چھوڑنے والی لڑکیوں کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ یہ شرح پڑوسی ممالک بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ پھر آبادی کی اکثریت کا تعلق نچلے طبقات سے ہوتا ہے، ماں کی خراب صحت کے اثرات نوزائیدہ بچوں پر پڑتے ہیں۔ اسی بنا پر 6 ماہ تک کے بچوں کے مرنے کی شرح خوفناک حد تک زیادہ ہے۔
پھر بچے بڑے ہوتے ہیں تو کم غذائیت کا شکار ہو جاتے ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کو گھروں میں کم کھانا دینے کی روایت خاصی مستحکم ہے۔ اسی طرح کمزور لڑکیوں کی ابتدائی عمر میں شادی ہو جاتی ہے تو زچگی کے دوران لڑکیاں اور پیدا ہونے والے بچوں کے مرنے کی شرح بھی خوفناک ہے۔ جب خاص طور پر لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گی تو وہ معاشی طور پر کمزور رہیں گی۔ ان کی زندگیوں کا دارومدار سسرال والوں کے رویہ پر منحصر ہوتا ہے۔ سسرال والے عورتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انھیں کاروکاری کے الزام میں ہلاک کر دیتے ہیں۔ مسلسل بچے پیدا کرنے اور کم غذائیت کی بنا پر عورتیں جلدی بوڑھی ہو جاتی ہیں، مردوں کے لیے ان میں کشش کم ہو جاتی ہے اور مرد دوسری شادیوں کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں۔ جن خاندانوں میں پہلی بیویوں کے نام جائیداد ہوتی ہے تو انھیں راستے سے ہٹانے کے لیے کاروکاری جیسی رسم کا شکار کیا جاتا ہے۔
اس معاملے کا ایک اہم پہلو اسلامی نظریاتی کونسل کی کم سن بچوں کی شادی اور پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کے بارے میں سفارشات کا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اہم سماجی، معاشی اور صحت عامہ کے پہلوؤں کو مدنظر رکھے بغیر سفارش کی کہ بچوں کی شادی کی اجازت دی جائے۔ کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی اس شادی کو فحاشی کے خاتمے سے منسلک کر رہے ہیں مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ لڑکے بچپن میں شادی کے بعد ادھیڑ عمر میں اپنی عورتوں سے بور ہو جاتے ہیں، یوں غیر قانونی تعلقات کو تقویت ملتی ہے۔ پھر آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے بھی شادی کی عمر کا تعین ضروری ہے۔ ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی ترقی کے تمام منصوبوں کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔
ماہر ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر آزادی برفت کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی نے یہ قانون منظور کر کے دوسری اسمبلیوں کو راستہ دکھایا ہے مگر اس قانون پر عملدرآمد ہی حقیقی امتحان ہے۔ سندھ اسمبلی نے ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قانون منظور کیا ہے۔ اب معاملہ اس قانون کے بارے میں آگہی اور عملدرآمد کا ہے۔ سندھ اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کا تعلق دیہی معاشرے سے ہے جہاں کم سن بچوں کی شادیاں عام ہیں۔ ان اراکین کو سب سے پہلے اپنے خاندان، برادری اور قبائل میں اس قانون پر عملدرآمد کرانا چاہیے۔ پھر قانون کی خلاف ورزی پر سزائیں ہونی چاہئیں۔ اگر اراکینِ اسمبلی نے اس قانون پر عملدرآمد کے لیے اقدامات نہیں کیے تو محض قانون منظور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اسمبلی کے اس اجلاس پر آنے والے اخراجات عوام پر بوجھ بن جائیں گے۔
اسمبلی کے اراکین متفقہ طور پر عائلی قوانین کی منسوخی کی سفارش کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں کم سن بچوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی منظوری کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم ہیڈز کے اراکین نے آگہی کی مہم شروع کی تھی۔ کچھ ارکان نے اس بل کا مسودہ نجی اراکین کے دن کے تحت ایوان میں پیش کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی اور وزیر قانون ڈاکٹر سکندر مندریو نے مشترکہ طور پر اس بل کو ایوان میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کے اتفاق رائے سے سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے ایک قانون منظور ہوا۔ Child Marriage Restrain Act 1929 نافذ ہوا۔
بچوں اور بچیوں کی شادی ہمیشہ ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ رہا ہے۔ ہندوستان میں بچوں کی شادی کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ عمومی طور پر والدین اور سرپرست بچوں کی شادی کو بنیادی فریضہ سمجھتے تھے، بچوں کی پیدائش سے لے کر سن بلوغت تک پہنچنے تک شادی کر دی جاتی تھی، بعض علاقوں میں تو بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی رشتے طے کر دیے جاتے تھے۔ انگریزوں کی آمد تک ابتدائی عمر میں شادی اسٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھی۔ اسلام میں عورت کو دوسری شادی کا حق دیا گیا ہے مگر قدیم سماج بیوہ عورت کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا تھا۔ وہ سسک سسک کر زندگی گزارتی تھی۔ جب کہ بیوی کی موت کی صورت میں شوہر کی دوسری شادی فوری طور پر طے کر دی جاتی تھی اور کم سن، زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
انگریز حکومت نے کم سن بچوں کی شادی کے نقصانات کا اندازہ لگاتے ہوئے ان شادیوں پر پابندی عائد کرنے کا قانون نافذ کیا۔ ہندوؤں کے مذہبی علما نے اس قانون کو ہندو دھرم میں مداخلت قرار دیا۔ مسلمان علما نے بھی اسی طرح کا موقف اختیار کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب گزشتہ صدی کے دوسرے عشرے میں کانگریس کی قیادت موہن داس گاندھی کو منتقل ہو چکی تھی۔ مہاتما گاندھی ہندو سماج میں تبدیلی کے امین تھے مگر وہ ہندو برادری کے دباؤ پر اس قانون کی حمایت کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ مسلم لیگی رہنماؤں نے اس بارے میں خاموشی اختیار کر لی۔ مگر محمد علی جناح وہ واحد رہنما تھے جنہوں نے کم سن بچوں کی شادی کے قانون کی حمایت کی۔ جناح صاحب کا کہنا تھا کہ کم سن بچیوں کی شادی ان کی صحت، سماجی اور معاشی حیثیت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس قانون کی بناء پر ان کی اور رتی ڈنشا کی شادی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ رتی کے والد اور پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر ڈنشا نے عدالت میں اس قانون کے تحت مقدمہ دائر کیا کہ ان کی بیٹی نابالغ ہے، اس بنا پر محمد علی جناح کو شادی سے روکا جائے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ رتی 1 سال بعد شادی کے قابل ہو گی۔ محمد علی جناح نے ایک سال انتظار کیا اور اس پورے سال رتی سے رابطہ نہیں کیا۔ انھوں نے کم سن بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون کی در اصل پابندی کی۔ لڑکی کے بالغ ہونے تک شادی پر پابندی کا قانون ہندوستان بھر میں نافذ تھا اور پھر پاکستان کے قیام کے بعد یہ قانون انڈیپنڈنٹ ایکٹ کے تحت ملک بھر میں نافذ ہوا مگر جہالت اور فرسودہ سماجی روایات کی بنا پر اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
والدین خاص طور پر کم سن بچیوں کی شادی کو اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ بچپن کی شادیوں کے بہت سے نقصانات واضح ہونے لگے۔ لڑکے اور لڑکیاں بچپن میں شادی کے بندھن میں جکڑنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا معاملہ بھی التواء کا شکار ہو جاتا ہے۔ عمومی طور پر لڑکیاں سسرال جا کر گھریلو کام کاج اور بچے پیدا کرنے کی مشین میں تبدیل ہو جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پانچویں جماعت تک پہنچنے والی لڑکیوں کی اسکول چھوڑنے والی لڑکیوں کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ یہ شرح پڑوسی ممالک بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ پھر آبادی کی اکثریت کا تعلق نچلے طبقات سے ہوتا ہے، ماں کی خراب صحت کے اثرات نوزائیدہ بچوں پر پڑتے ہیں۔ اسی بنا پر 6 ماہ تک کے بچوں کے مرنے کی شرح خوفناک حد تک زیادہ ہے۔
پھر بچے بڑے ہوتے ہیں تو کم غذائیت کا شکار ہو جاتے ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کو گھروں میں کم کھانا دینے کی روایت خاصی مستحکم ہے۔ اسی طرح کمزور لڑکیوں کی ابتدائی عمر میں شادی ہو جاتی ہے تو زچگی کے دوران لڑکیاں اور پیدا ہونے والے بچوں کے مرنے کی شرح بھی خوفناک ہے۔ جب خاص طور پر لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گی تو وہ معاشی طور پر کمزور رہیں گی۔ ان کی زندگیوں کا دارومدار سسرال والوں کے رویہ پر منحصر ہوتا ہے۔ سسرال والے عورتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انھیں کاروکاری کے الزام میں ہلاک کر دیتے ہیں۔ مسلسل بچے پیدا کرنے اور کم غذائیت کی بنا پر عورتیں جلدی بوڑھی ہو جاتی ہیں، مردوں کے لیے ان میں کشش کم ہو جاتی ہے اور مرد دوسری شادیوں کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں۔ جن خاندانوں میں پہلی بیویوں کے نام جائیداد ہوتی ہے تو انھیں راستے سے ہٹانے کے لیے کاروکاری جیسی رسم کا شکار کیا جاتا ہے۔
اس معاملے کا ایک اہم پہلو اسلامی نظریاتی کونسل کی کم سن بچوں کی شادی اور پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کے بارے میں سفارشات کا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اہم سماجی، معاشی اور صحت عامہ کے پہلوؤں کو مدنظر رکھے بغیر سفارش کی کہ بچوں کی شادی کی اجازت دی جائے۔ کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی اس شادی کو فحاشی کے خاتمے سے منسلک کر رہے ہیں مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ لڑکے بچپن میں شادی کے بعد ادھیڑ عمر میں اپنی عورتوں سے بور ہو جاتے ہیں، یوں غیر قانونی تعلقات کو تقویت ملتی ہے۔ پھر آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے بھی شادی کی عمر کا تعین ضروری ہے۔ ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی ترقی کے تمام منصوبوں کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔
ماہر ابلاغیات پروفیسر ڈاکٹر آزادی برفت کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی نے یہ قانون منظور کر کے دوسری اسمبلیوں کو راستہ دکھایا ہے مگر اس قانون پر عملدرآمد ہی حقیقی امتحان ہے۔ سندھ اسمبلی نے ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قانون منظور کیا ہے۔ اب معاملہ اس قانون کے بارے میں آگہی اور عملدرآمد کا ہے۔ سندھ اسمبلی کے اراکین کی اکثریت کا تعلق دیہی معاشرے سے ہے جہاں کم سن بچوں کی شادیاں عام ہیں۔ ان اراکین کو سب سے پہلے اپنے خاندان، برادری اور قبائل میں اس قانون پر عملدرآمد کرانا چاہیے۔ پھر قانون کی خلاف ورزی پر سزائیں ہونی چاہئیں۔ اگر اراکینِ اسمبلی نے اس قانون پر عملدرآمد کے لیے اقدامات نہیں کیے تو محض قانون منظور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اسمبلی کے اس اجلاس پر آنے والے اخراجات عوام پر بوجھ بن جائیں گے۔