ہم نے جو بھلا دیا
فاروق صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق‘ لوگوں کے سامنے رکھ ڈالے
ڈاکٹر فاروق عادل سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ملنا تو دور کی بات' معمولی سی شناسائی بھی نہیں ہے۔ مگر جب ان کی کتاب ''ہم نے جو بھلا دیا'' پڑھنے کا موقع ملا' تو ایک جہانِ حیرت نظروں کے سامنے کھل گیا۔
دراصل فاروق صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق' لوگوں کے سامنے رکھ ڈالے۔ ایسی ایسی نایاب باتیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ تمام حقائق وہ پہلے کیوں نہیں جانتا تھا۔ اس کتاب میں چند اسی طرز کے واقعات عام آدمی کے لیے لکھے گئے ہیں۔
سندھی مہاجر کشمکش کی پہلی اینٹ:لیاقت علی خان اور حکومت سندھ کے درمیان ایک ذاتی قسم کی کشمکش چل نکلی۔ لیاقت علی خان چاہتے تھے کہ ان کی سرکاری رہائش گاہ کے لان اور اس میں لگے آرائشی فواروں کو چلانے کے لیے اضافی پانی مہیا کیا جائے۔
وزیراعظم کی یہ خواہش میونسپل حکام کے ذریعے وزیراعلیٰ کھوڑو تک پہنچی جسے انھوں نے مسترد کر دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ شہر میں پانی کی کمی ہے جب کہ شہر میں مہاجرین کی ایک بڑی تعد اد کی آمد کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔
اس لیے آرائشی مقاصد کے لیے پانی کے مطالبات غیر مناسب ہیں۔اضافی پانی کی فراہمی سے انکار کی وجہ سے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے درمیان ذاتی رنجش پیدا ہو گئی جس پر لیاقت علی خان بہت برہم ہوئے اور انھوں نے ایک عوامی استقبالیے میں وزیراعلیٰ سندھ کو آڑے ہاتھوں لیا' انھوں نے اپنی تقریر میں کہا:
''کراچی شہر میں وزیراعظم پاکستان اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ وہ آپ(وزیراعلیٰ) کی اجازت کے بغیر ذرا سا پانی بھی حاصل کر سکے''۔اس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''میں ان کی کسی خواہش کو رد کرنے میں ذرا بھی خوشی محسوس نہیں کرتا لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس کے سوا میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا''۔
پرواز میں کوتاہی: جب امریکی غذائی امداد سے قبل راتوں رات پاکستان کی حکومت تبدیل ہوئی۔ (سوال تو اٹھتا ہے کہ) پاکستان کی داخلی صورت حال اور امریکی امداد کا باہم کوئی تال میل ہے یا نہیں' پاکستانی تاریخ و سیاست کے ضمن میں بنیادی کتاب ''اے بریف ہسٹری آف پاکستان'' میں اس کے مصنف جیمز وائن برانٹ نے اس سوال کا کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن ایک دلچسپ انکشاف ضرور کیا ہے' وہ لکھتے ہیں:
''محمد علی بوگرہ کو جس روز وزیراعظم پاکستان نامزد کیا گیا ہے' اس کے ٹھیک تین دن کے بعد امریکی صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاورنے پاکستان کو ہزاروں ٹن گندم کی فراہمی کی حکم نامے پر دستخط کر دیے''۔
انصاف کا قتل:آئین ساز اسمبلی کے صدر (اب اسپیکر) مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اس فیصلے کو چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ ) سندھ میں چیلنج کر دیا۔ چیف کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا اور آئین ساز اسمبلی کو بحال کر دیا۔
مرکزی حکومت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلی گئی۔ فیڈرل کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ ٹیکنیکل یعنی اکثریتی بنیاد پر گورنر جنرل کے حق میں کر دیا۔ یعنی قرار دیا کہ ان کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام درست تھا۔
حامد خان اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ 64صفحات کے فیصلے میں ایسی کوئی فائینڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔
ون یونٹ اور یونٹی: ''اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی' سندھی رہے گا نہ پٹھان' بلوچ ' نہ بہاول پوری نہ خیر پوری۔ اگر کوئی رہے گا تو وہ ہو گا پاکستانی اور صرف پاکستانی''۔پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس روز چہل پہل معمول سے زیادہ تھی' کسی خاص دن کی طرح۔ پھر یہ دن ایک یاد گار کیفیت اختیار کر گیا جب قائد ایوان محمد علی بوگرا اپنے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی شروع کی اور قائد ایوان کو خطاب کی دعوت دی۔ اس کے بعد ایوان میں وزیراعظم محمد علی بوگرا کی جانی پہچانی آواز گونجی جس پر ان کا بنگالی لہجہ غالب تھا۔
اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے پاکستان کے مختلف صوبوں کی علاقائی شناختوں کے خاتمے کا اعلان کر کے صرف ایک پاکستانی قومیت کے وجود اور اس کے پھلنے پھولنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تمام شناختیں آج سے ختم ہوئیں' آج سے ہماری ایک ہی شناخت ہے اور وہ ہے پاکستان۔
(اس کے بالکل متضاد)ون یونٹ کے خاتمے کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا گیا' اس سلسلے میں بلوچستان کی سابق ریاستوں کا رد عمل سب سے دلچسپ تھا۔ ون یونٹ کے خاتمے کے اعلان کے بعد ان ریاستوں کے وفاق کا ایک اجلاس خان آف قلات کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر یحییٰ خان کو ایک خط میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ خان آف قلات نے اس خط کا متن اپنی کتاب ''ان سائیڈ بلوچستان'' میں شامل کیا ہے' خط میں لکھا تھا:
''یور ایکسیلینسی!''
''ہمیں ہمارے گھروں اور چولہے چوکے سے بیک جنبش قلم محروم کر دیا گیا تھا' ون یونٹ کا خاتمہ کر کے آپ نے ہمارے دل جیت لیے''۔بلوچ ریاستوں کے وفاق نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ اس تاریخی موقع پر بلوچستان کی سابق ریاستوں کو ان کی سابق حیثیت میں بحال کر دیا جائے۔
ون یونٹ کی بحالی کے وقت سابق ریاست بہاول پور کو پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ ون یونٹ کے قیام کے وقت سابق ریاست بہاولپور کی حیثیت ایک مکمل صوبے کی تھی۔ جس کے وزیراعلیٰ مخدوم حسن محمود تھے۔ اس موقع پر بہاولپور کی علیحدہ صوبے کی حیثیت سے بحالی کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس پر توجہ نہ دی گئی۔
تازہ ہوا کا در' گوادر: گوادر کے حصول کے لیے پاکستان کی طرف سے پیش کی جانے والی دستاویزات میں ایک افغان حاجی عبدالغنی کی رپورٹ کا حوالہ بھی شامل ہے۔
اس معاملے میں حاجی عبدالغنی کی دلچسپی دراصل گوادر میں برطانوی حکومت کی غمازی کرتی ہے۔ 1939میں افغانستان جب اس علاقے پر حملہ آور ہوا تو برطانوی ریزیڈنٹ جنرل برائے قلات نے اس افغان شہری کی خدمات حاصل کر کے یہ رپورٹ مرتب کرائی۔ 1939 میں ایشیاٹک سوسائیٹی آف بنگال کی طرف سے شایع ہونے والی رپورٹ سے بھی یہ سراغ ملتا ہے کہ یہ علاقہ تاریخی طور پر مکران کا حصہ اور گچکی بلوچوں کی ملکیت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گوادر اور چاہ بہار بلوچوں کے دو علاقے مکران کا حصہ ہیں۔ یہ ایسا سمندری علاقہ ہے جس کے ذریعے خلیج فارس پر کنٹرول کے ذریعے خطے کے اسٹرٹیجک معاملات اور تجارت کی نگرانی کی جاسکتی ہے گویا یہی وہ غیر معمولی دستاویز ہے جس کے ذریعے گوادر کی افادیت برطانوی حکومت کی سمجھ میں آئی۔
ان کہی ہی رہ گئی جو بات: چھ نکات کس کی تصنیف تھے؟ چھ نکات کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے والے سیاسی قائدین کے خلاف ریاستی کارروائیوں سے عمومی توجہ حکومت کی طرف ہی گئی۔ چوہدری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی کے مرکزی راہ نما رانا نذر الرحمن نے اپنی سرگزشت ''صبح کرنا شام کا'' میں بھی کچھ ایسے انکشافات کیے ہیں جن سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے۔
رانا نذر الرحمن نے لکھا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی نیشنل کانفرنس میں شریک تھے اور شیخ مجیب کی آمد اور واپسی کے دونوں مناظر انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ان کے دعوے کے مطابق شیخ صاحب ایک بینک کی گاڑی میں آئے تھے اور ان کی واپسی محکمہ اطلاعات حکومت پاکستان کی گاڑی میں ہوئی تھی۔
ان کے مطابق کہا جاتا تھا کہ یہ چھ نکات ایواب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کے ذہن کی پیداوار تھے تاکہ حزب اختلاف کی صفوں میں شگاف ڈالا جاسکے۔
اعتماد کا ووٹ:لانگ مارچ کا وقت قریب آیا تو آرمی چیف اور پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی ملاقات ہوئی۔ بے نظیر بھٹو لانگ مارچ کے ذریعے ملک میں نئے انتخابات کے لیے دباؤ بڑھانا چاہتی تھیں۔ اس ملاقات کے بعد بے نظیر بھٹو نے لانگ مارچ ختم کر دیا۔
اس کے بعد ایک اور ملاقات میں وزیراعظم اور صدر مملکت دونوں استعفیٰ دینے پر آمادہ ہو گئے۔
کتاب میں محیرالعقول واقعات رقم ہیں جنھوں نے پاکستان کو بحرانوں کا مسلسل شکار بنا دیا ہے۔ ایسے طوفان جو آج تک جاری و ساری ہیں۔
دراصل فاروق صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق' لوگوں کے سامنے رکھ ڈالے۔ ایسی ایسی نایاب باتیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ تمام حقائق وہ پہلے کیوں نہیں جانتا تھا۔ اس کتاب میں چند اسی طرز کے واقعات عام آدمی کے لیے لکھے گئے ہیں۔
سندھی مہاجر کشمکش کی پہلی اینٹ:لیاقت علی خان اور حکومت سندھ کے درمیان ایک ذاتی قسم کی کشمکش چل نکلی۔ لیاقت علی خان چاہتے تھے کہ ان کی سرکاری رہائش گاہ کے لان اور اس میں لگے آرائشی فواروں کو چلانے کے لیے اضافی پانی مہیا کیا جائے۔
وزیراعظم کی یہ خواہش میونسپل حکام کے ذریعے وزیراعلیٰ کھوڑو تک پہنچی جسے انھوں نے مسترد کر دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ شہر میں پانی کی کمی ہے جب کہ شہر میں مہاجرین کی ایک بڑی تعد اد کی آمد کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔
اس لیے آرائشی مقاصد کے لیے پانی کے مطالبات غیر مناسب ہیں۔اضافی پانی کی فراہمی سے انکار کی وجہ سے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے درمیان ذاتی رنجش پیدا ہو گئی جس پر لیاقت علی خان بہت برہم ہوئے اور انھوں نے ایک عوامی استقبالیے میں وزیراعلیٰ سندھ کو آڑے ہاتھوں لیا' انھوں نے اپنی تقریر میں کہا:
''کراچی شہر میں وزیراعظم پاکستان اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ وہ آپ(وزیراعلیٰ) کی اجازت کے بغیر ذرا سا پانی بھی حاصل کر سکے''۔اس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''میں ان کی کسی خواہش کو رد کرنے میں ذرا بھی خوشی محسوس نہیں کرتا لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس کے سوا میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا''۔
پرواز میں کوتاہی: جب امریکی غذائی امداد سے قبل راتوں رات پاکستان کی حکومت تبدیل ہوئی۔ (سوال تو اٹھتا ہے کہ) پاکستان کی داخلی صورت حال اور امریکی امداد کا باہم کوئی تال میل ہے یا نہیں' پاکستانی تاریخ و سیاست کے ضمن میں بنیادی کتاب ''اے بریف ہسٹری آف پاکستان'' میں اس کے مصنف جیمز وائن برانٹ نے اس سوال کا کوئی واضح جواب تو نہیں دیا لیکن ایک دلچسپ انکشاف ضرور کیا ہے' وہ لکھتے ہیں:
''محمد علی بوگرہ کو جس روز وزیراعظم پاکستان نامزد کیا گیا ہے' اس کے ٹھیک تین دن کے بعد امریکی صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاورنے پاکستان کو ہزاروں ٹن گندم کی فراہمی کی حکم نامے پر دستخط کر دیے''۔
انصاف کا قتل:آئین ساز اسمبلی کے صدر (اب اسپیکر) مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اس فیصلے کو چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ ) سندھ میں چیلنج کر دیا۔ چیف کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا اور آئین ساز اسمبلی کو بحال کر دیا۔
مرکزی حکومت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلی گئی۔ فیڈرل کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ ٹیکنیکل یعنی اکثریتی بنیاد پر گورنر جنرل کے حق میں کر دیا۔ یعنی قرار دیا کہ ان کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام درست تھا۔
حامد خان اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا سب سے کمزور پہلو یہ تھا کہ 64صفحات کے فیصلے میں ایسی کوئی فائینڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔
ون یونٹ اور یونٹی: ''اب اس ملک میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی' سندھی رہے گا نہ پٹھان' بلوچ ' نہ بہاول پوری نہ خیر پوری۔ اگر کوئی رہے گا تو وہ ہو گا پاکستانی اور صرف پاکستانی''۔پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس روز چہل پہل معمول سے زیادہ تھی' کسی خاص دن کی طرح۔ پھر یہ دن ایک یاد گار کیفیت اختیار کر گیا جب قائد ایوان محمد علی بوگرا اپنے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی کارروائی شروع کی اور قائد ایوان کو خطاب کی دعوت دی۔ اس کے بعد ایوان میں وزیراعظم محمد علی بوگرا کی جانی پہچانی آواز گونجی جس پر ان کا بنگالی لہجہ غالب تھا۔
اپنے پرجوش خطاب میں انھوں نے پاکستان کے مختلف صوبوں کی علاقائی شناختوں کے خاتمے کا اعلان کر کے صرف ایک پاکستانی قومیت کے وجود اور اس کے پھلنے پھولنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تمام شناختیں آج سے ختم ہوئیں' آج سے ہماری ایک ہی شناخت ہے اور وہ ہے پاکستان۔
(اس کے بالکل متضاد)ون یونٹ کے خاتمے کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا گیا' اس سلسلے میں بلوچستان کی سابق ریاستوں کا رد عمل سب سے دلچسپ تھا۔ ون یونٹ کے خاتمے کے اعلان کے بعد ان ریاستوں کے وفاق کا ایک اجلاس خان آف قلات کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر یحییٰ خان کو ایک خط میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ خان آف قلات نے اس خط کا متن اپنی کتاب ''ان سائیڈ بلوچستان'' میں شامل کیا ہے' خط میں لکھا تھا:
''یور ایکسیلینسی!''
''ہمیں ہمارے گھروں اور چولہے چوکے سے بیک جنبش قلم محروم کر دیا گیا تھا' ون یونٹ کا خاتمہ کر کے آپ نے ہمارے دل جیت لیے''۔بلوچ ریاستوں کے وفاق نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ اس تاریخی موقع پر بلوچستان کی سابق ریاستوں کو ان کی سابق حیثیت میں بحال کر دیا جائے۔
ون یونٹ کی بحالی کے وقت سابق ریاست بہاول پور کو پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ ون یونٹ کے قیام کے وقت سابق ریاست بہاولپور کی حیثیت ایک مکمل صوبے کی تھی۔ جس کے وزیراعلیٰ مخدوم حسن محمود تھے۔ اس موقع پر بہاولپور کی علیحدہ صوبے کی حیثیت سے بحالی کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس پر توجہ نہ دی گئی۔
تازہ ہوا کا در' گوادر: گوادر کے حصول کے لیے پاکستان کی طرف سے پیش کی جانے والی دستاویزات میں ایک افغان حاجی عبدالغنی کی رپورٹ کا حوالہ بھی شامل ہے۔
اس معاملے میں حاجی عبدالغنی کی دلچسپی دراصل گوادر میں برطانوی حکومت کی غمازی کرتی ہے۔ 1939میں افغانستان جب اس علاقے پر حملہ آور ہوا تو برطانوی ریزیڈنٹ جنرل برائے قلات نے اس افغان شہری کی خدمات حاصل کر کے یہ رپورٹ مرتب کرائی۔ 1939 میں ایشیاٹک سوسائیٹی آف بنگال کی طرف سے شایع ہونے والی رپورٹ سے بھی یہ سراغ ملتا ہے کہ یہ علاقہ تاریخی طور پر مکران کا حصہ اور گچکی بلوچوں کی ملکیت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گوادر اور چاہ بہار بلوچوں کے دو علاقے مکران کا حصہ ہیں۔ یہ ایسا سمندری علاقہ ہے جس کے ذریعے خلیج فارس پر کنٹرول کے ذریعے خطے کے اسٹرٹیجک معاملات اور تجارت کی نگرانی کی جاسکتی ہے گویا یہی وہ غیر معمولی دستاویز ہے جس کے ذریعے گوادر کی افادیت برطانوی حکومت کی سمجھ میں آئی۔
ان کہی ہی رہ گئی جو بات: چھ نکات کس کی تصنیف تھے؟ چھ نکات کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے والے سیاسی قائدین کے خلاف ریاستی کارروائیوں سے عمومی توجہ حکومت کی طرف ہی گئی۔ چوہدری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی کے مرکزی راہ نما رانا نذر الرحمن نے اپنی سرگزشت ''صبح کرنا شام کا'' میں بھی کچھ ایسے انکشافات کیے ہیں جن سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے۔
رانا نذر الرحمن نے لکھا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی نیشنل کانفرنس میں شریک تھے اور شیخ مجیب کی آمد اور واپسی کے دونوں مناظر انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ان کے دعوے کے مطابق شیخ صاحب ایک بینک کی گاڑی میں آئے تھے اور ان کی واپسی محکمہ اطلاعات حکومت پاکستان کی گاڑی میں ہوئی تھی۔
ان کے مطابق کہا جاتا تھا کہ یہ چھ نکات ایواب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کے ذہن کی پیداوار تھے تاکہ حزب اختلاف کی صفوں میں شگاف ڈالا جاسکے۔
اعتماد کا ووٹ:لانگ مارچ کا وقت قریب آیا تو آرمی چیف اور پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی ملاقات ہوئی۔ بے نظیر بھٹو لانگ مارچ کے ذریعے ملک میں نئے انتخابات کے لیے دباؤ بڑھانا چاہتی تھیں۔ اس ملاقات کے بعد بے نظیر بھٹو نے لانگ مارچ ختم کر دیا۔
اس کے بعد ایک اور ملاقات میں وزیراعظم اور صدر مملکت دونوں استعفیٰ دینے پر آمادہ ہو گئے۔
کتاب میں محیرالعقول واقعات رقم ہیں جنھوں نے پاکستان کو بحرانوں کا مسلسل شکار بنا دیا ہے۔ ایسے طوفان جو آج تک جاری و ساری ہیں۔