اشرافیہ اور محنت کش
پاکستان کو شدید ترین چیلنجز کا سامنا ہے تو ایسی صورت میں اشرافیہ کو آگے بڑھنا ہوگا
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف ڈیل کے بعد اب دور دور تک ڈیفالٹ کا خدشہ نہیں ہے، تاہم اب بھی بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں جس کے لیے اشرافیہ کو آگے بڑھنا ہوگا۔
ہم مزید آگے بڑھنے سے قبل اس بات کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اشرافیہ کا کیا کردار رہا ہے۔
اشرافیہ کا ایک اہم طبقہ ان افراد پر مشتمل ہے جو کہیں کارخانہ دار ہوتے ہیں، کہیں مل اونرز ہوتے ہیں، کہیں بڑی بڑی کمپنیز کے مالک ہوتے ہیں اورکہیں نہ فیکٹریاں چلاتے ہیں نہ ہی کسی مل کے پارٹنر ہوتے ہیں بلکہ اپنے کثیر سرمائے کی بدولت سرمایہ کارکا روپ دھار لیتے ہیں اور ان کے سرمائے کے اضافے کا سبب مزدور، محنت کش ہوتے ہیں۔ ان مل اونرز کو وسیع تر منافع کما کر دینے والے بھی یہی مزدور اور محنت کش ہوتے ہیں۔
بعض محنت کش ان اشرافیہ کی خدمت میں اس وقت سے حاضر ہو جاتے ہیں جب یہ اٹھارہ برس کے ہی ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر لیبر سے ترقی کرتے ہوئے کاریگر بن جاتے ہیں۔ کوئی فیکٹری کا فورمین بن جاتا ہے کوئی سپروائزر بن جاتا ہے۔ پھر برسہا برس کی سخت ترین محنت لگن کے باعث اتنے ماہر و مشاق ہو جاتے ہیں کہ نئے آنے والے انجینئرزکے بھی استاد بن جاتے ہیں۔
یورپ میں صنعتی انقلاب آنے کے بعد مغربی دنیا کے بنائے ہوئے صنعتی قانون کے باعث ٹریڈ یونین قوانین اور دیگر لیبر قوانین نے ان محنت کشوں کے مفادات کا تحفظ کم کیا ہے اور مالکان آجران مل اونرز وغیرہ کے مفادات کا تحفظ زیادہ سے زیادہ کیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتی ترقی کے دورکا آغاز ہوا۔ نئے نئے کارخانے قائم ہونے لگے،گاؤں دیہاتوں دور دراز علاقوں سے افراد آتے اور ملک کے مختلف شہروں یا علاقوں میں قائم ان ملوں اورکارخانوں میں ملازم ہوتے رہے۔ حکومت نے جو بھی منصوبہ بنایا صنعتی ترقی کے جتنے بھی اقدامات کیے ان میں پہلی فوقیت کارخانہ داروں کے مفاد کو دی گئی۔
اس طرح یہ طبقہ جو ملکی آبادی کا ایک سے دو فیصد تک بہ مشکل ہے یہ لوگ بھاری بھرکم منافع کی بدولت بدستور اشرافیہ کی فہرست میں شامل ہوتے رہے۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ وزارت سے منسلک رہا اور اس کا ایک قلیل حصہ بڑے بڑے زمینداروں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ بھی بڑی بڑی حویلیاں رکھنے والے تھے۔ پھر پجیروکلچر آیا تو پجیرو اور اس کے ساتھ ایک یا دو چار باڈی گارڈ رکھ کر اشرافیہ کہلانے لگے۔
اس طرح ملکی دولت کا ایک بڑا حصہ اشرافیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ بدستور ملک میں تقسیم دولت میں عدم مساوات کارفرما ہونے لگا۔
غریب افراد کی آمدن اگر دو ڈالر سے کم ہو تو اقوام متحدہ بول پڑتا ہے کہ بندہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ دوسری طرف اشرافیہ کے بعض افراد جنھیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینا چاہیے تھا وہ محکمہ ٹیکس کی بعض کالی بھیڑوں کے ساتھ مل کر کچھ اپنا اور متعلقہ افراد کا پیٹ بھرتے اور مالکان کے منافع میں اضافے کا سبب بنتے تھے۔
اب جب کہ پاکستان کو شدید ترین چیلنجز کا سامنا ہے تو ایسی صورت میں اشرافیہ کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان کا اہم ترین مسئلہ آمدن، خرچ میں عدم موافقت کا ہے۔
آمدن کم اور اخراجات ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بہت سے فضول لایعنی فالتو اخراجات کو ختم کردیا جائے پھر بھی آمدن اور اخراجات کی خلیج وسیع تر ہی رہتی ہے۔ ملک کے ٹیکس نظام کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کے ٹیکس کے نظام میں بے شمار خامیاں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں لیبر قوانین کا جائزہ لے کر اس کی اصلاح بھی کی جائے۔
پاکستان میں پہلی لیبر پالیسی کا اعلان 15 اگست 1985 کو کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر محنت نورالحق چوہدری تھے جس کے لیے وزیر صاحب نے محنت بھی کی تھی اور پالیسی کے بارے میں وزیر موصوف نے کہا تھا کہ یہ مثالی پالیسی ہے جوکہ محنت کشوں کا معیار زندگی بلند کرے گی۔
اس قانون کے نفاذ کے بعد لیبر آفیسرز مقرر کیے گئے جن کا کام یہ تھا کہ وہ کارخانوں میں جا کر قانون میں دیے گئے محنت کشوں کے مفادات کا خیال رکھیں، لیکن اکثر لیبر آفیسرز نے مل اونرز کا خیال کرنا شروع کردیا جس کے جواب میں فیکٹری مالکان نے ان لیبر آفیسرزکا بھرپور خیال کیا اور محنت کشوں کا کسی نے بھی خیال نہیں کیا۔
اتنے زیادہ سبق آموز واقعات اور وقت پر حاضر شدید ترین مشکلات اور مسائل کے علاوہ دیگر بہت سے چیلنجز موجود ہیں۔
جن کا ایک اہم ترین حل یہ ہے کہ اشرافیہ آگے بڑھے اور محکمہ انکم ٹیکس اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس پاکستان کے لیے جمع کرے، لیبر قوانین، محنت کش اور آجر کے تعلقات محکمہ ٹیکس کی اصلاحات کے ساتھ سب سے اہم اشرافیہ کی مدد و تعاون کے ساتھ ہی ملک کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے یا دیگر مسائل سے بچا سکتے ہیں۔
ہم مزید آگے بڑھنے سے قبل اس بات کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اشرافیہ کا کیا کردار رہا ہے۔
اشرافیہ کا ایک اہم طبقہ ان افراد پر مشتمل ہے جو کہیں کارخانہ دار ہوتے ہیں، کہیں مل اونرز ہوتے ہیں، کہیں بڑی بڑی کمپنیز کے مالک ہوتے ہیں اورکہیں نہ فیکٹریاں چلاتے ہیں نہ ہی کسی مل کے پارٹنر ہوتے ہیں بلکہ اپنے کثیر سرمائے کی بدولت سرمایہ کارکا روپ دھار لیتے ہیں اور ان کے سرمائے کے اضافے کا سبب مزدور، محنت کش ہوتے ہیں۔ ان مل اونرز کو وسیع تر منافع کما کر دینے والے بھی یہی مزدور اور محنت کش ہوتے ہیں۔
بعض محنت کش ان اشرافیہ کی خدمت میں اس وقت سے حاضر ہو جاتے ہیں جب یہ اٹھارہ برس کے ہی ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر لیبر سے ترقی کرتے ہوئے کاریگر بن جاتے ہیں۔ کوئی فیکٹری کا فورمین بن جاتا ہے کوئی سپروائزر بن جاتا ہے۔ پھر برسہا برس کی سخت ترین محنت لگن کے باعث اتنے ماہر و مشاق ہو جاتے ہیں کہ نئے آنے والے انجینئرزکے بھی استاد بن جاتے ہیں۔
یورپ میں صنعتی انقلاب آنے کے بعد مغربی دنیا کے بنائے ہوئے صنعتی قانون کے باعث ٹریڈ یونین قوانین اور دیگر لیبر قوانین نے ان محنت کشوں کے مفادات کا تحفظ کم کیا ہے اور مالکان آجران مل اونرز وغیرہ کے مفادات کا تحفظ زیادہ سے زیادہ کیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتی ترقی کے دورکا آغاز ہوا۔ نئے نئے کارخانے قائم ہونے لگے،گاؤں دیہاتوں دور دراز علاقوں سے افراد آتے اور ملک کے مختلف شہروں یا علاقوں میں قائم ان ملوں اورکارخانوں میں ملازم ہوتے رہے۔ حکومت نے جو بھی منصوبہ بنایا صنعتی ترقی کے جتنے بھی اقدامات کیے ان میں پہلی فوقیت کارخانہ داروں کے مفاد کو دی گئی۔
اس طرح یہ طبقہ جو ملکی آبادی کا ایک سے دو فیصد تک بہ مشکل ہے یہ لوگ بھاری بھرکم منافع کی بدولت بدستور اشرافیہ کی فہرست میں شامل ہوتے رہے۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ وزارت سے منسلک رہا اور اس کا ایک قلیل حصہ بڑے بڑے زمینداروں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ بھی بڑی بڑی حویلیاں رکھنے والے تھے۔ پھر پجیروکلچر آیا تو پجیرو اور اس کے ساتھ ایک یا دو چار باڈی گارڈ رکھ کر اشرافیہ کہلانے لگے۔
اس طرح ملکی دولت کا ایک بڑا حصہ اشرافیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ بدستور ملک میں تقسیم دولت میں عدم مساوات کارفرما ہونے لگا۔
غریب افراد کی آمدن اگر دو ڈالر سے کم ہو تو اقوام متحدہ بول پڑتا ہے کہ بندہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ دوسری طرف اشرافیہ کے بعض افراد جنھیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینا چاہیے تھا وہ محکمہ ٹیکس کی بعض کالی بھیڑوں کے ساتھ مل کر کچھ اپنا اور متعلقہ افراد کا پیٹ بھرتے اور مالکان کے منافع میں اضافے کا سبب بنتے تھے۔
اب جب کہ پاکستان کو شدید ترین چیلنجز کا سامنا ہے تو ایسی صورت میں اشرافیہ کو آگے بڑھنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان کا اہم ترین مسئلہ آمدن، خرچ میں عدم موافقت کا ہے۔
آمدن کم اور اخراجات ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بہت سے فضول لایعنی فالتو اخراجات کو ختم کردیا جائے پھر بھی آمدن اور اخراجات کی خلیج وسیع تر ہی رہتی ہے۔ ملک کے ٹیکس نظام کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کے ٹیکس کے نظام میں بے شمار خامیاں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں لیبر قوانین کا جائزہ لے کر اس کی اصلاح بھی کی جائے۔
پاکستان میں پہلی لیبر پالیسی کا اعلان 15 اگست 1985 کو کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر محنت نورالحق چوہدری تھے جس کے لیے وزیر صاحب نے محنت بھی کی تھی اور پالیسی کے بارے میں وزیر موصوف نے کہا تھا کہ یہ مثالی پالیسی ہے جوکہ محنت کشوں کا معیار زندگی بلند کرے گی۔
اس قانون کے نفاذ کے بعد لیبر آفیسرز مقرر کیے گئے جن کا کام یہ تھا کہ وہ کارخانوں میں جا کر قانون میں دیے گئے محنت کشوں کے مفادات کا خیال رکھیں، لیکن اکثر لیبر آفیسرز نے مل اونرز کا خیال کرنا شروع کردیا جس کے جواب میں فیکٹری مالکان نے ان لیبر آفیسرزکا بھرپور خیال کیا اور محنت کشوں کا کسی نے بھی خیال نہیں کیا۔
اتنے زیادہ سبق آموز واقعات اور وقت پر حاضر شدید ترین مشکلات اور مسائل کے علاوہ دیگر بہت سے چیلنجز موجود ہیں۔
جن کا ایک اہم ترین حل یہ ہے کہ اشرافیہ آگے بڑھے اور محکمہ انکم ٹیکس اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس پاکستان کے لیے جمع کرے، لیبر قوانین، محنت کش اور آجر کے تعلقات محکمہ ٹیکس کی اصلاحات کے ساتھ سب سے اہم اشرافیہ کی مدد و تعاون کے ساتھ ہی ملک کو ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے یا دیگر مسائل سے بچا سکتے ہیں۔