کل جو ہمارا آج ہے
زیادہ محبت تو ان کو ماضی سے ہے لیکن رہتے مستقبل میں زیادہ ہیں البتہ ’’حال‘‘ سے ان کو خدا واسطے کا بیر ہے
یوں تو ہم پاکستانی امریکا کی آشیرباد سے آئی ایم ایف کی مہربانیوں سے اور اپنے لیڈروں کی دیانت ،امانت اورمحنت سے ہمہ صفت موصوف ہیں، چاند میری زمین پھول میرا وطن ، میری دھرتی سونا اگلے۔ اگلے ہیرے موتی۔
مطلب یہ کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است، لیکن ایک چھوٹی سی پرابلم یہ ہے کہ ہم تھوڑے سے ''بے ٹائم'' ہیں ، پشتو میں تو بے ٹائمہ کا مطلب وہی ہے جس کے دماغ کی گھڑی الٹی چل رہی ہو لیکن ہمارا مطلب وہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ یہ جب ''حال'' میں ہوتے ہیں تو ماضی میں رہتے ہیں اورماضی میں جب تھے تو مستقبل میں رہتے تھے بلکہ ایک دانائے راز کاکہنا ہے کہ یہ کبھی بھی نہ حال میں رہے ہیں نہ ماضی میں اورنہ ہی مستقبل میں ، جب بھی رہتے ہیں غلط زمانے اورغلط وقت میں رہ کر غلط اوورٹائم کو پاس کرتے رہتے ہیں۔
زیادہ محبت تو ان کو ماضی سے ہے لیکن رہتے مستقبل میں زیادہ ہیں البتہ ''حال'' سے ان کو خدا واسطے کا بیر ہے اگر کبھی بھولے بھٹکے ''حال''میں نکل بھی آتے ہیں تو فوراً پلٹ کر یاتو ماضی میں بھاگ جاتے ہیں یا دوڑ کر مستقبل میں جانکلتے ہیں ، ایک دانشور نے ہمیں بتایا جو نہ علامہ ہے نہ ڈاکٹر نہ پروفیسر ہے نہ عامل بلکہ ٹی وی یااخباری دانشور یا تجزیہ نگار بھی نہیں صرف معمولی سا محقق ہے کہ پاکستانی پچاس فی صد ماضی میں رہتے ہیں، چالیس فیصد مستقبل میں اورحال میں صرف دس فی صدرہتے ہیں حالانکہ نہ ماضی ان کے اختیار میں ہے اورنہ مستقبل میں پہنچنا یقینی ہے۔
اس کے پاس اس کے اختیار میں اوراس کے ہاتھ میں صرف اورصرف ''حال ''ہے۔جو رقم خر چ ہوچکی ہے، واپس آنے والی نہیں اورجو آنے والی ہے اس کے درمیان بھی بہت بڑا فاصلہ ہے ، صرف یہ رقم میری ہے جو میر ے ہاتھ میں ہے یا جیب میں یااختیار میں لیکن گئی ہوئی رقم اورآنے والی رقم کے لیے اسے ضایع کرتا ہوں، جو کچھ میرے سامنے اس وقت دسترخوان پر یاپلیٹ میں رکھا ہے، اسے میں کیوں کل کھائے ہوئے پلاؤ اور یا آنے والے کل کی بریانی پر قربان کروں، ہم نے بہت غور کیا بلکہ غور کے حوض میں بے شمار غوطے لگائے لیکن یہ پتہ نہیں لگا پائے کہ پاکستانیوں کے اس ''بے ٹائم''ہونے کا سبب کیا ہے کچھ زیادہ تو نہیں لیکن کچھ کچھ سراغ یہ ملا کہ اس مرض کو لگانے والے ایک تو وہ ہیں یا تھے جو طرح طرح کے ناول افسانے اور شعر لکھ کر اپنے شاندار ''ماضی''کے گن گاتے رہے، وہی شاعر و صورت گر و افسانہ نویس، جو ابھی تک گھوڑے سے نہیں اترے بلکہ تلوار لہراتے ہوئے ایران توران ہندوستان افریقہ اوراندلس میں بحرظلمات دریا اورصحرا ڈھونڈرہے ہیں کہ جاکر ان میں گھوڑے دوڑاسکیں ، کافرشہزادیوں کو مسلمان کرکے عقد میں لے آئیں ، گز مارمار کر بتوں کو چکنا چور کردیں اوردوسرے وہ جو چندروزاورمیری جان فقط چند ہی...
ایک دن پھر وہی پہلے سی بہاریں ہوں گی
اسی امید میں ہم دل کو ہیں بہلائے ہوئے
یعنی وہ جو ''امید'' بیچتے ہیں یایوں کہیے کہ آنے والا ''کل''بیچ کرآج کو لٹ رہے ہیں۔ ؎
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کاوعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھاہے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
جن بیچاروں کی جان ان دوقسم کے سوداگروں میں پھنسی ہوئی ہے، ایک جو گزری ہوئی کل بیچتے ہیں اوردوسرے جو آنے والی کل بیچ رہے ہیں اور آج کو لوٹ رہے ہیں،ان بیچاروں کو اتنا ہوش کہاں کہ اپنے لٹنے والے آج کی طرف توجہ دے پائیں چنانچہ وہ بھی آج میں بیٹھ کو گزرنے والی اورآنے والی کل میں رہائش پر مجبور ہیں ۔
ہم بے راہروں کا کیا ہے
ساتھ کسی کے ہولیں گے
چار چار بار اپنی باری لگانے والوں کو بھی ابھی تک وہ آنے والی کل نہیں ملی ہے جس کے وعدے میں چار چار پیڑیوں تک جمہوریت چلانے والے بھی ابھی روٹی کپڑا مکان کو نہیں پاسکے ہیں۔ نیا پاکستان والے بھی ''نوے دن'' کے بجائے ساڑھے تین سال گزارگئے اوران سالوں میں سب روا اورناروا کرنے کے بعد کہتے ہیں ہمیں اختیار حاصل نہیں تھا۔جب اس عرصے میں اختیارہی نہ پاسکے تو اس کے بعد کتنے سال میں کتنے تیر ماریں گے۔
سب کے پاس وہی کل ہے جو ہنوز دلی کی طرح دور ہے۔اوروہ جو گزرے ہوئے کل کے مدح خوان ہیں جو ایک بار پھر عوامی خواہشات کے مطابق اسلامی نظام نافذ کریں گے، ان کی شرط ہے کہ پہلے انھیں تخت پر بٹھایاجائے پھر ہم عوامی نظام نافذ کریں گے یعنی پہلے انھیں درخت کی چوٹی پر بٹھایاجائے پھر وہ درخت کی چوٹیوں سے آغاز کرکے جڑوں تک جائیں گے اوردرخت کے سارے امراض دورکر دیں گے اور سوکھا درخت چوٹی سے جڑتک دوبارہ سرسبزہوکر پھل دینے لگے گا۔
یہ دونوں ہی وہ لٹیرے ہیں جو کل کا جھانسہ دے کر ''آج''کو لوٹتے ہیں اورجن بیچاروں کا آج ان دونوں لٹیروں کی زد میں ہو وہ آج کے بارے میں سوچیں بھی تو کیاسوچیں کہ آج تو نہ کبھی ان کے ہاتھ میں تھا ،نہ ہے اورنہ کبھی ہوسکے گا اوراسی طرح کبھی اس کل اورکبھی اس کل کے جھانسے میں لٹتے رہیں گے۔
وہ نجومی پھر بھی اچھاتھا جس نے ایک بدبخت کو چالیس سال کی تاریخ تو دی تھی لیکن ہمارے یہ نجومی تاریخ بھی نہیں دیتے صرف کل بتاتے ہیں جب کہ کل نہ کبھی آئی تھی نہ آئے گی جب بھی آتی ہے کل کانقاب ہٹاکر آج بن چکی ہوتی ہے۔
مطلب یہ کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است، لیکن ایک چھوٹی سی پرابلم یہ ہے کہ ہم تھوڑے سے ''بے ٹائم'' ہیں ، پشتو میں تو بے ٹائمہ کا مطلب وہی ہے جس کے دماغ کی گھڑی الٹی چل رہی ہو لیکن ہمارا مطلب وہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ یہ جب ''حال'' میں ہوتے ہیں تو ماضی میں رہتے ہیں اورماضی میں جب تھے تو مستقبل میں رہتے تھے بلکہ ایک دانائے راز کاکہنا ہے کہ یہ کبھی بھی نہ حال میں رہے ہیں نہ ماضی میں اورنہ ہی مستقبل میں ، جب بھی رہتے ہیں غلط زمانے اورغلط وقت میں رہ کر غلط اوورٹائم کو پاس کرتے رہتے ہیں۔
زیادہ محبت تو ان کو ماضی سے ہے لیکن رہتے مستقبل میں زیادہ ہیں البتہ ''حال'' سے ان کو خدا واسطے کا بیر ہے اگر کبھی بھولے بھٹکے ''حال''میں نکل بھی آتے ہیں تو فوراً پلٹ کر یاتو ماضی میں بھاگ جاتے ہیں یا دوڑ کر مستقبل میں جانکلتے ہیں ، ایک دانشور نے ہمیں بتایا جو نہ علامہ ہے نہ ڈاکٹر نہ پروفیسر ہے نہ عامل بلکہ ٹی وی یااخباری دانشور یا تجزیہ نگار بھی نہیں صرف معمولی سا محقق ہے کہ پاکستانی پچاس فی صد ماضی میں رہتے ہیں، چالیس فیصد مستقبل میں اورحال میں صرف دس فی صدرہتے ہیں حالانکہ نہ ماضی ان کے اختیار میں ہے اورنہ مستقبل میں پہنچنا یقینی ہے۔
اس کے پاس اس کے اختیار میں اوراس کے ہاتھ میں صرف اورصرف ''حال ''ہے۔جو رقم خر چ ہوچکی ہے، واپس آنے والی نہیں اورجو آنے والی ہے اس کے درمیان بھی بہت بڑا فاصلہ ہے ، صرف یہ رقم میری ہے جو میر ے ہاتھ میں ہے یا جیب میں یااختیار میں لیکن گئی ہوئی رقم اورآنے والی رقم کے لیے اسے ضایع کرتا ہوں، جو کچھ میرے سامنے اس وقت دسترخوان پر یاپلیٹ میں رکھا ہے، اسے میں کیوں کل کھائے ہوئے پلاؤ اور یا آنے والے کل کی بریانی پر قربان کروں، ہم نے بہت غور کیا بلکہ غور کے حوض میں بے شمار غوطے لگائے لیکن یہ پتہ نہیں لگا پائے کہ پاکستانیوں کے اس ''بے ٹائم''ہونے کا سبب کیا ہے کچھ زیادہ تو نہیں لیکن کچھ کچھ سراغ یہ ملا کہ اس مرض کو لگانے والے ایک تو وہ ہیں یا تھے جو طرح طرح کے ناول افسانے اور شعر لکھ کر اپنے شاندار ''ماضی''کے گن گاتے رہے، وہی شاعر و صورت گر و افسانہ نویس، جو ابھی تک گھوڑے سے نہیں اترے بلکہ تلوار لہراتے ہوئے ایران توران ہندوستان افریقہ اوراندلس میں بحرظلمات دریا اورصحرا ڈھونڈرہے ہیں کہ جاکر ان میں گھوڑے دوڑاسکیں ، کافرشہزادیوں کو مسلمان کرکے عقد میں لے آئیں ، گز مارمار کر بتوں کو چکنا چور کردیں اوردوسرے وہ جو چندروزاورمیری جان فقط چند ہی...
ایک دن پھر وہی پہلے سی بہاریں ہوں گی
اسی امید میں ہم دل کو ہیں بہلائے ہوئے
یعنی وہ جو ''امید'' بیچتے ہیں یایوں کہیے کہ آنے والا ''کل''بیچ کرآج کو لٹ رہے ہیں۔ ؎
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کاوعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھاہے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
جن بیچاروں کی جان ان دوقسم کے سوداگروں میں پھنسی ہوئی ہے، ایک جو گزری ہوئی کل بیچتے ہیں اوردوسرے جو آنے والی کل بیچ رہے ہیں اور آج کو لوٹ رہے ہیں،ان بیچاروں کو اتنا ہوش کہاں کہ اپنے لٹنے والے آج کی طرف توجہ دے پائیں چنانچہ وہ بھی آج میں بیٹھ کو گزرنے والی اورآنے والی کل میں رہائش پر مجبور ہیں ۔
ہم بے راہروں کا کیا ہے
ساتھ کسی کے ہولیں گے
چار چار بار اپنی باری لگانے والوں کو بھی ابھی تک وہ آنے والی کل نہیں ملی ہے جس کے وعدے میں چار چار پیڑیوں تک جمہوریت چلانے والے بھی ابھی روٹی کپڑا مکان کو نہیں پاسکے ہیں۔ نیا پاکستان والے بھی ''نوے دن'' کے بجائے ساڑھے تین سال گزارگئے اوران سالوں میں سب روا اورناروا کرنے کے بعد کہتے ہیں ہمیں اختیار حاصل نہیں تھا۔جب اس عرصے میں اختیارہی نہ پاسکے تو اس کے بعد کتنے سال میں کتنے تیر ماریں گے۔
سب کے پاس وہی کل ہے جو ہنوز دلی کی طرح دور ہے۔اوروہ جو گزرے ہوئے کل کے مدح خوان ہیں جو ایک بار پھر عوامی خواہشات کے مطابق اسلامی نظام نافذ کریں گے، ان کی شرط ہے کہ پہلے انھیں تخت پر بٹھایاجائے پھر ہم عوامی نظام نافذ کریں گے یعنی پہلے انھیں درخت کی چوٹی پر بٹھایاجائے پھر وہ درخت کی چوٹیوں سے آغاز کرکے جڑوں تک جائیں گے اوردرخت کے سارے امراض دورکر دیں گے اور سوکھا درخت چوٹی سے جڑتک دوبارہ سرسبزہوکر پھل دینے لگے گا۔
یہ دونوں ہی وہ لٹیرے ہیں جو کل کا جھانسہ دے کر ''آج''کو لوٹتے ہیں اورجن بیچاروں کا آج ان دونوں لٹیروں کی زد میں ہو وہ آج کے بارے میں سوچیں بھی تو کیاسوچیں کہ آج تو نہ کبھی ان کے ہاتھ میں تھا ،نہ ہے اورنہ کبھی ہوسکے گا اوراسی طرح کبھی اس کل اورکبھی اس کل کے جھانسے میں لٹتے رہیں گے۔
وہ نجومی پھر بھی اچھاتھا جس نے ایک بدبخت کو چالیس سال کی تاریخ تو دی تھی لیکن ہمارے یہ نجومی تاریخ بھی نہیں دیتے صرف کل بتاتے ہیں جب کہ کل نہ کبھی آئی تھی نہ آئے گی جب بھی آتی ہے کل کانقاب ہٹاکر آج بن چکی ہوتی ہے۔