پاکستان کی سماجی و معاشی بحالی کا منصوبہ

سلامتی، سالمیت، خود مختاری، آزادی اور دفاعی صلاحیت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گِروی رکھ دیے گئے

shabbirarman@yahoo.com

یہ امر باعث طمانیت ہے کہ پاکستان کی معاشی بحالی کا قومی پلان تیار کرلیا گیا ہے اس ضمن میں، اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل قائم کردی گئی ہے، یہ کونسل غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرے گی۔

اعلامیے کے مطابق پاکستان کی معاشی بحالی کے قومی پلان کا مقصد ملک کو موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا ہے، پلان کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی جائے گی، زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات، کان کنی، آئی ٹی اور توانائی جیسے شعبوں کی صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا۔

منصوبے کے تحت سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حائل تمام رکاوٹیں دورکی جائیں گی،کونسل سنگل ونڈو کی سہولت کا کردار ادا کرے گی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اشتراک عمل پیدا کیا جائے گا۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کو ورثے میں تباہی کے دہانے پرکھڑی معیشت ملی، حکومت کی مشکل اور دلیرانہ فیصلوں سے معیشت کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی طرف واپس لایا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ متوقع سرمایہ کاری سے روزگارکے نئے مواقع پیدا ہوں گے، نوجوانوں اور خواتین کو روزگار ملے گا۔

خوش آیند بات یہ بھی ہے کہ پاک فوج نے معاشی بحالی کے حکومتی پلان کی بھرپور حمایت کی ہے۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ 1950 تک پاکستانی معیشت ایک مستحکم درجہ اختیارکرچکی تھی، لیکن ملکی معیشت میں تبدیلی1958 کے بعد آئی۔ پاکستان کا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1965 میں ختم ہوا۔ اس وقت پاکستانی معیشت کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت حاصل تھی۔

ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کرسکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد معیشت میں خرابی پیدا ہوئی لیکن جلد ہی اس پر قابو پا لیا گیا اور1968 تک ترقی کی شرح دوبارہ سات فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ معاشی حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔1972 میں جب نئی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو اس نے ملک میں بہت سی اصلاحات نافذکرنے کی کوشش کی لیکن ان کا ردِ عمل منفی ہوا۔ بڑی صنعتوں کو قومیا لیا گیا۔ اس طرح پاکستان میں موجود کئی ایک بڑے صنعت کاروں کو ملک چھوڑنا پڑا۔

اس عمل سے ملک میں صنعتوں کی ترقی کی شرح بہت کم ہوگئی اور اس کا اثر عمومی قومی پیداوار پر بھی پڑا۔ روپیہ کی قدرکم کرنے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ البتہ بہت سے لوگوں کو مڈل ایسٹ جانے کا موقع ملا۔ اس طرح ملک میں مصنوعی خوشحالی نظر آنے لگی۔1980 کے عشرے میں ملک میں سیاسی استحکام رہا، اس لیے دوبارہ ترقی کی شرح بڑھنے لگی لیکن افغان بحران کی وجہ سے ملک میں اندرونی بحران پیدا ہوتا رہا۔

1988کے بعد سے آنے والی حکومتوں نے پائیدار ترقی کے بجائے وقتی اقدامات سے عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد پھرکبھی بھی پاکستانی معیشت مستحکم نہ ہوسکی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کو مسلسل کم کیا جاتا رہا۔ ملک میں ڈیم نہ بنائے گئے اور سستی بجلی نہ مل سکی۔ ملک آئی پی پیز کے چنگل میں پھنس گیا جس کی وجہ سے نہ صرف توانائی مہنگی ہوئی بلکہ گردشی قرضہ بھی بڑھتا رہا۔


9/11 کے بعد پاکستان پر بین الاقوامی پابندیاں ختم ہوئیں بلکہ بہتر ہوئیں،2008 تک برسر اقتدار رہنے والی حکومت نے معاشی مسائل کو بہت سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس عرصے میں ترقی کی شرح بڑھ گئی۔ سابقہ حکومت نے برآمدات پر کوئی توجہ نہ دی جو کہ 2013 کے بعد مسلسل گررہی تھیں۔

2013 میں ہماری برآمدات 25ارب ڈالر تھیں جوکہ 2017 میں کم ہوکر صرف21 ارب ڈالر رہ گئیں۔ اس طرح بجائے اس کے کہ برآمدات بڑھتیں وہ کم ہوگئیں، اگر ہماری برآمدات صرف15فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھتیں تو2018 تک یہ کم از کم 55 ارب ڈالر ہونی چاہیے تھیں۔ اس طرح ہم خسارے کے بجائے منافعے میں ہوتے۔

2018 کا سال آدھا سال اچھا اور آدھا برا رہا۔ جون 18 20 میں ختم ہونے والے مالی سال جولائی 17 تا جون 18 میں شرح نمو ایک دہائی کی بلند ترین سطح پر رہی لیکن 2018 جولائی سے دسمبرکی کارکردگی نے پریشان کردیا تھا۔ نومبر 2018 تک ہم نے دنیا بھر سے 52 ارب ڈالر کی اشیا خریدیں اس کے برعکس ہم نے جو دنیا بھر محض 23 ارب ڈالرکی اشیا فروخت کیا۔ باالفاظ دیگرکمایا کم اور خرچہ زیادہ کیا۔ اس جمع خرچ کوکرنٹ اکائونٹ ڈیفیسٹ یا جاری مالی خسارہ کہتے ہیں۔ 2018 میں پی ٹی آئی حکومت بن گئی۔

انتخابات دھاندلی زدہ اور متنازعہ تھے لیکن عوام نے نئی حکومت کو برداشت کرلیا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے کے مژدہِ جاں فزاء نے عوام کی توقعات بہت بڑھادیں۔ تبدیلی، سونامی اور ریاستِ مدینہ نظام کے نعروں نے عوام میں توقعات کے بلند مینارکھڑے کردیے، لیکن پی ٹی آئی کے اِن چار سالوں میں حکومتی کارکردگی کی ناکامیاں عروج پر رہیں، جن کا خمیازہ آج بھی قوم بھگت رہی ہے ۔ برسرِ اقتدار آنے سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی الیکشن مہم کے دوران لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں ریاستِ مدینہ کی طرز پر نظام قائم کریں گے۔

عوام کے لیے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بناکر دیں گے۔ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں آدھی کر دیں گے، مہنگائی کم کریں گے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ایسا '' نیا پاکستان '' بناکردیں گے جس میں کوئی شخص بے روزگار نہیں ہوگا،کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، وغیرہ وغیرہ۔

اقتصادی تباہ حالی، سود، قرضوں، کرپشن، رشوت، بدانتظامی، بجلی،گیس، پٹرول، آٹا، چینی، خوردنی تیل، پٹرولیم مصنوعات، کھاد، ادویات وغیرہ کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر، ہر بڑے معاشی بحران کے پیچھے خود حکومتی وزراء، چینی کے مصنوعی بحران کے ذریعے حکومتی وزراء سمیت چینی مافیا کا عوام کی جیبوں پر 184ارب روپے کا ڈاکا، آٹا مافیا نے 220 ارب روپے لوٹے۔

مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ کے باعث معاشی ترقی کی رفتار منفی ہوگئی، جوکہ1950 کے منفی گروتھ ریٹ کے بعد پاکستانی معیشت کی بد ترین معاشی حالت کی نشاندہی ہے۔ تبدیلی سرکارکی بد ترین طرز حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کی بدولت پاکستان عملاً عالمی ساہوکار مالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا غلام بن کر رہ گیا۔ ملکی اثاثے (موٹر ویز، ایئر پورٹس وغیرہ) اِن عالمی ساہوکار اداروں کے ہاں رہن رکھ دیے گئے۔

اس طرح پاکستان کی معیشت ہی نہیں بلکہ اِس کی سلامتی، سالمیت، خود مختاری، آزادی اور دفاعی صلاحیت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گِروی رکھ دیے گئے۔ عالمی دبائو پر اسٹیٹ بینک کو عملاً عالمی مالیاتی اداروں کی تحویل میں دے دیا گیا ہے اور اب 9 مئی کو ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کے بعد پی ٹی آئی چیئر مین ملک میں خانہ جنگی کرانے پر تلے نظر آتے ہیں جو عوامی قوت کے ساتھ ناکام بنا دی گئی ہے۔
Load Next Story