پاکستان اور مارکیٹ فورسز

ہم نے اپنی ریاست کو کبھی فلاحی ریاست نہیں سمجھا، لہٰذا ان مارکیٹ فورسز نے بھی ہمارے لیے کوئی خاطر خواہ فیصلے نہیں کیے

Jvqazi@gmail.com

آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد کاروباری تبدیلیاں نظر آنے لگی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں ایک دن میں ڈھائی ہزار پوائنٹس کی بلندی، ڈالرکی تین سو پندرہ روپے سے دو سو ستر روپے تک کی پستی۔ یہ ملک جہاں دیوالیہ ہو نے کے قریب تھا، اب ہماری بین الاقوامی مارکیٹ ریٹنگ تقریبا ستر فیصد کے قریب بہتری کی طرف آ چکی ہے۔

یہ تمام مارکیٹ فورسز تھیں جو اس بات کی observation رکھ رہی تھیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول پر معاہدہ ہوگیا ہے، وگرنہ روپے کی قدرروزانہ کم ہو رہی تھی، جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاہدہ طے نہیں پایا تھا ، ڈالر مارکیٹ سے غائب ہو چکا تھا۔ اسٹاک مارکیٹ ڈوبی ہوئی تھی، کاروبار مفلوج تھا اور بے روزگاری عروج پر تھی۔

سندھ کا کاروبار اس زمانے میں سمندری راستوں سے شروع ہوا جب یہاں شاہ عبداللطیف بھٹائی شاعری کیا کرتے تھے۔ ٹھٹھہ کے پاس کیٹی بندر پر، پرتگیزی جہاز لنگر انداز ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں ایڈم اسمتھ اپنی شہرۂ آفاق کتاب Wealth of Nation تحریر فرما رہے تھے، وہ یہ دیکھ رہے تھے، اب اقوام کی قسمت کے فیصلے مارکیٹ فورسزکریں گی جس کو وہ laissez-faire کہتے تھے۔ یہ معیشت کی بہت بے رحم حرکیات ہیں۔

یہاں محبتیں، ہمدردیاں اور انسانی حقوق بہت کم تھے یعنی جو چست ہوگا، ہنرمند ہوگا، باشعور دماغ ہوگا وہ بہتر کارکردگی دے سکے گا جسے انگریزی میں Division of labour کہا جاتا ہے، ہمارے شاہ عبداللطیف بھی اسی زمانے کے شاعر تھے۔ ایک دن مارکیٹ میں مندی آگئی، سناٹا چھا گیا، ان کے اس وقت کے ایک شعرکی ایک ستر یہ تھی جس کا ترجمہ یہ ہے۔

''دیکھ کہ بازار میں میرا دل بیٹھا جائے''

ہم نے اپنی ریاست کو کبھی فلاحی ریاست نہیں سمجھا، لہٰذا ان مارکیٹ فورسز نے بھی ہمارے لیے کوئی خاطر خواہ فیصلے نہیں کیے، جب کہ مشرق کی جمہوریت جوکہ مارکیٹ فورسز کے متوازی چلتی تھی جسےaltruism کہا جاتا ہے، اس نے مارکیٹ فورسز کے بے رحمانہ فیصلوں اور انسانی حقوق کے بیچ توازن پیدا کیا، لیکن جب یہ توازن مارکیٹ فورسزکے بنیادی ڈھانچے پر اثرانداز ہو تو پھر انسانی حقوق پیچھے رہ جاتے ہیں اور مارکیٹ فورسز کے ظالمانہ اور فیصلہ کن قانون چلتے ہیں۔ مثلاً جب کسی Consumer Production کی demand کم ہوجاتی ہے تو فورا لیبر بھی کم کردی جاتی ہے، مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے،یوں بے روزگاری و افلاس میں اضافہ ہوتا ہے، افراطِ زر بڑھتی ہے۔

اس کے برعکس جیسا کہ سوویت یونین میںہوتا تھا ، چاہے جو بھی افتاد ہو، مارکیٹ میں مندی ہو، قدرتی آفات ہوں مزدور بے روزگار نہیں ہوسکتا۔ اس کی تفصیل میں تو نہیں جاتے کہ کال مارکس کی شہرٔآفاق کتاب DAS CAPITAL کی کیا تشریح ہے اور تھیوری SURPLUS VALUE کا کیا تصور ہے لیکن یہ کمیونسٹ لوگ کال مارکس کے اس نظریے کو سمجھ ہی نہ سکے کہ پرولتاریہ ڈکٹیٹرشپ کیا ہوتی ہے؟

بس انھوں نے کمیونزم کو اپنا مذہب بنا لیا اور گھسے پٹے انداز میں کال مارکس کے اس نظریے کی تشریح کی ، پھرسوشلسٹ سماج کو مارکیٹ فورسز نے دھڑلے سے گرا دیا۔ چین نے ماؤزے تنگ کے نظریے کی تشریح ڈینگ زیاؤ پینگ نے کی، انھوں نے مارکیٹ فورسزکو قبول کیا لیکن انھیں کنٹرول میں رکھنے کا میکنزم بنا کر ۔ تب کہیں جاکر چینی کمیونسٹ پارٹی نے مارکیٹ اکانومی کو متعارف کرایا۔


ذوالفقار علی بھٹو نے ماؤزتنگ سے متاثر ہوکر نیشنلائزیشن کے اقدام اٹھائے۔ یقیناً سرمایہ داری نظام بہت ظالمانہ ہے، لیکن سرمایہ داری مارکیٹ فورسز پیداوارکو لے کر چلتی ہے، ان سے پیداوارکے عمل میں اضافہ ہوتا ہے اور مارکیٹ فورسز شرح نموکو اضافے کی طرف لے جاتی ہیں۔

1990کے بعد ہندوستان ڈاکٹر من موہن سنگھ کے فلسفے کو اپنا کر اپنی شرح نمو سالانہ اوسط 7 فیصد بڑھاتا چلا گیا۔ 1990سے چین اپنی شرح نمو قریبا گیارہ فیصد سالانہ کی اوسط سے بڑھاتا گیا۔ 1990 کی دہائی تک پاکستان کی کارکردگی بہت بہتر تھی، قریباچھ فیصد مگر اس کے بعد پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے، ہم اس امید پر تھے کہ سرد جنگ کی وجہ سے ہمیں امریکا کی امداد ایسے ہی ملتی رہے گی اور ہم فرنٹ لائن اسٹیٹ رہیں گے، مگر اب ہمارے سامنے صرف اور صرف انتہائی بے رحم مارکیٹ فورسز ہیں۔

خان صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں صرف باتیں کیں، ان کے پاس اس ملک کی معاشی پروگرا م نہ تھا۔ وہ اس مافیا کے ہتھے چڑھ گئے جو ذخیرہ اندوز، زمینیں ہتھیانے والے، میڈیسن وغیرہ کا کام کرتے تھے، گندم، چینی، اناج افغانستان اسمگل کرتے تھے اور وہاں سے منشیات، اسلحہ اور گاڑیاں اسمگل کرکے پاکستان لاتے تھے، یوں سمجھیں کہ پاکستان ایک نیلام گھر تھا۔ تقریبا تیس ارب ڈالر کے قرضے اپنے عزیزوں اور نورِ نظر لوگوں کو دلوائے۔ انھیں زمانوں میں بینکوں نے ڈالرکو مہنگا کیا، پٹرول کمپنیوں نے پٹرول مارکیٹ سے غائب کردیا، مارکیٹ کا حجم سکڑتا گیا، افراطِ زر میں اضافہ ہوا۔

مارکیٹ فورسز نے بے رحم فیصلے کیے۔ آخر کار وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس ہوا تو وہ لوگ اورمخصوص ٹولے جن کے مفادات سابق وزیر اعظم کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ان کو بحال کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ ملک میں ایک خانہ جنگی کی صورتحال تھی، یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی بگ گنز نے آئی ایم ایف سے رابطے بھی کیے کہ وہ اتحادی حکومت کو قرضہ نہ دے۔

پاکستان اس وقت ایک گہرے بھنور میں پھنسا ہوا تھا جب شہباز شریف نے بطور نگراں وزیراعظم حلف اٹھایا۔ اس لیے کہ اس وقت مغربی قوتوں کا یہ خیال تھا کہ پاکستان، چین کے بلاک میں شامل ہو کر ان کے خلاف استعمال ہوگا۔ یہ ہمارے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کی کاوشیں اورکامیاب ڈپلومیسی تھی جس نے ان کو باور کروایا کہ CPEC میں شمولیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کا استعمال امریکا چین سرد جنگ میں کیا جائے گا۔

ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد بلآخر پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پایا۔ شہباز شریف، اسحاق ڈار اور بلاول بھٹو بلآخر ان زنجیروں کوکھینچنے میں کامیاب ہوئے جن کی بنیادیں تو مختلف اداروں میں ہیں مگر وہ فیض سابق وزیراعظم سے پاتے ہیں۔ اب ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے ملک کے حالات کو آرڈر میں لے آئیں۔

اس وقت ہدف پینشن کے فنڈز میں کٹوتی کا نظر آرہا ہے۔ دیگر غیر ترقیاتی اخراجات میں کوئی کمی کی جائے گی یا نہیں اس بارے میں کوئی واضح موقف نظر نہیں آرہا ہے، مگر ہمارا اصل ہدف یہ ہے کہ ان لوگوں کی شدید مذمت کی جائے اور اس بیانیے کو جڑوں سے ختم کیا جائے جو اس ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

پاکستان کے لیے اب وہ ہی فیصلے بہتر ہیں جن فیصلوں کو مارکیٹ فورسز سمجھتی ہیں کہ بہتر ہوں گے۔ اب نظریاتی ریاست کی باتیں ختم ہونی چاہئیں، اگر نہ ہوئیں تو پاکستان کا وجود تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔
Load Next Story