محکمہ آب رسانی برائے صیادان
ویسے ان شاطروں، نوسربازوں اورمداریوں کے ساتھ رہ کر عوام بھی کچھ کم نہیں رہے ہیں
کہتے ہیں ،اگلے زمانوں میں ایک بادشاہ شکار پر گیا، پھرتے پھراتے وہ ایک ایسے لق ودق صحرا میں پہنچا جہاں دوردور تک پانی کانام ونشان نہ تھا۔
بادشاہ کو شدت کی پیاس لگی تو کارندے چاروں طرف دوڑا دیے گئے، کافی انتظار اور تکلیف کے بعد کچھ کارندے بہت دور سے پانی لانے میں کامیاب ہوگئے۔
بادشاہ کی پیاس بجھ گئی لیکن تکلیف کافی ہوئی چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اس صحرا میں پانی کا سرکار ی انتظام کیاجائے، ماہرین کی کمیٹیاں بیٹھ گئیں اورآخر کار یہی حل نکالاگیا کہ اس صحرا میں بارہ مقامات پر مٹکے رکھے جائیں اوران مٹکوں کو روزانہ بھرنے کے لیے عملہ بھرتی کیاجائے اوران مٹکوں کی حفاظت کے لیے محافظ رکھے جائیں، پھر کچھ مدت بعد پانی پہنچانے والوں کی حفاظت کرنے والوں کی ضرورتوں کے پیش نظر وہاں پر رہائشی کوارٹر بھی تعمیر کیے گئے، بچوں کے لیے اسکول بھی کھل گئے ، ٹرانسپورٹ کاانتظام بھی کیاگیا، معائنہ کرنے والے افسروں کے ریسٹ ہائوس بھی تعمیر ہوگئے، یہاں عام لوگ بھی آکر آباد ہوگئے اور ان مٹکوں کے ارد گرد آبادیاں ابھرنے لگیں ، پانی پہنچانے والے ان لوگوں کو باقاعدہ تربیت دے کر ایک نیامحکمہ کھڑا کردیاگیا، محکمہ آب رسان برائے صیادان۔
محکمہ بڑھتا گیا، پھیلتاگیا حالانکہ اب ان مقامات پر کنوئیں بھی کھد گئے ، پھر پانی کی ضرورت نہیں رہی ، آبادیاں بھی اٹھ گئیں، شکاری بھی نہ رہے لیکن محکمہ تو محکمہ ہوتاہے وہ بدستورقائم رہا بلکہ اب بھی قائم ہے لیکن اس کامحل وقوع بدل گیاہے بمقام پاکستان۔ ایسے ہزاروں منصوبے ہیں جوختم ہوچکے ہیں لیکن عملہ، محکمہ اورتنخواہیں بدستور جاری ہیں، ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں آس پاس پچاس بڑے ٹیوب ویل زمین کاتھوروسیم ختم کرنے کے لیے لگائے گئے تھے،کچھ عرصے تک یہ ٹیوب ویل چلے تو زمین کو بڑا فائدہ ہوا، سیم وتھورکی ماری ہوئی بنجر زمین قابل کاشت ہوکر سونا اگلنے لگی۔
آج وہ زمین پھر سے بنجر ہوگئی ہے کیونکہ وہ ٹیوب ویل سب کے سب بند ہوچکے ہیں البتہ ان پر تعینات دو دو آدمی، ایک آپریٹر دوسرا چوکیدار تنخواہیں باقاعدہ وصول کررہے ہیں بلکہ باپ کی جگہ بیٹے یاپوتے لگے ہوئے ہیں، باقاعدہ دفتر بھی موجود ہے جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ لینے والے آتے ہیں، ٹیوب ویلوں کی مرمت کا عملہ بھی موجودہے ، انجینئر بھی موجود ہیں ، دن بھر کلرک بھی کام کرتے ہیں لیکن ٹیوب ویل ایک بھی نہیں چل رہاہے ،صرف تنخواہیں وصول کی جارہی ہیں۔
اگلے زمانوں میں بھوت اسکول، بھوت اسپتال وغیرہ کی اصطلاحات عام تھیں لیکن اب ان میں کچھ اور بھوت بھی شامل ہوچکے ہیں۔ دراصل ہوتا یوں ہے اورمیں اس پر کئی بار لکھ بھی چکاہوں کہ ہمارے اس ملک میں آج تک کوئی بھی حکومت نہیں بنی ہے، ایک مسلسل گینگ وار ہے جو چل رہی ہے اوراس ملک کاگینگ ریپ کیا جارہاہے ۔اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ''گینگ'' ایک ہی ہے، وہ پندرہ فی صد مقتدراشرافیہ ، اوراسی ایک گینگ کی شاخیں الگ ہوکر '' گینگسٹر پارٹیاں''بنتی رہی ہیں۔
ہر نئی شاخ ، ایک نیانعرہ ،ایک نیاجھنڈا لے کر اٹھتی ہے اوروہی لوگ اس میں شامل ہوجاتے ہیں جو بڑے گینگ اوراس سے نکلنے والی شاخوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ نعرہ چلتارہتاہے اورجب ازکاررفتہ ہوجاتاہے بلکہ جھوٹ ثابت ہوجاتاہے تو اس میں ایک نئی کونپل پھوٹتی ہے اوراس کے پاس بھی اسی پرانی بانسری پر نئی دھن ہوتی ہے چنانچہ جو بھی گینگ کامیاب ہوتاہے، وہ اپنے لوگوں کے لیے جنھیں کارکن کہا جاتاہے، کوئی نیا منصوبہ لانچ کردیاجاتاہے جس کی زبردست پبلسٹی ہوتی ہے، اس کی برکات بیان کی جاتی ہیں، فیتے کاٹے جاتے ہیں، آخر میں باقی سب کچھ غائب ہوجاتاہے، صرف دستر خوان پر نوالوں کے لیے منہ اور مونہوں کے لیے نوالے باقی رہ جاتے ہیں۔
جب اس گینگ کی باری ختم ہوتی ہے، دوسرا گینگ کوئی اور منصوبہ کوئی اوردسترخوان بچھا دیتاہے کیونکہ اپنی سواریاںکہیں نہ کہیں تو بٹھانا ہوتی ہیں ،اسے آیندہ الیکشن کے لیے سرکاری پیسے سے پیشگی ووٹ خریدنا یا بک کرنا بھی کہتے ہیں۔
کتنے منصوبے بنے، اسکول اسپتال بنے، تعمیر وطن پروگرام، پیپلزورکس پروگرام، بے نظیر پروگرام، صحت کارڈ ،انصاف کارڈ ، لنگر خانے ، نشئیوں کے آرام و سکون کے لیے پناہ گاہیں،احساس پروگرام، ہشاس بشاش، شاباش ستیاناس۔
ویسے ان شاطروں، نوسربازوں اورمداریوں کے ساتھ رہ کر عوام بھی کچھ کم نہیں رہے ہیں، یہ جو ہم لیڈروں کے گرد بھنگڑے ڈالتے ہیں، دھرنے دیتے ہیں اور ان کی حفاظت کے کٹ مرنے دیکھتے ہیں، یہ ان پر عاشق نہیں ہوتے، جیالے بھٹوکے حسن جہانتاب پر عاشق نہیں ہوئے تھے ، کپتان کے حسن بے پناہ پر بھی لوگ نہیں مرمٹے تھے ،مولانا فضل الرحمان کے عشاق بھی ان کے جمال پر فریفتہ نہیں ہیں ، نوازشریف ،شہبازشریف ،گجراتی چوہدری ،شیخ رشید ، یہ سب کوئی حسینان عالم نہیں ہیں لیکن عشاق ان کے گرد ناچ ناچ کر گاتے ہیں ۔
تری آنکھیں تری زلفیں ترے ابروترے لب
اب بھی مشہورہیںدنیا میں مثالوں کی طرح
بلکہ ان لوگوں نے دیکھا ہے کہ درخت ثمردار ہونے والا ہے ، پھل ملنے کا امکان ہے۔ ایک پشتو ٹپہ ہے۔ اردو میں بیان کرتا ہوں۔
شاخ آج کل ہی میں پھول دار ہوجائے گا
میں نے اس کے سروں پر ''شگوفے ''دیکھے ہیں
بادشاہ کو شدت کی پیاس لگی تو کارندے چاروں طرف دوڑا دیے گئے، کافی انتظار اور تکلیف کے بعد کچھ کارندے بہت دور سے پانی لانے میں کامیاب ہوگئے۔
بادشاہ کی پیاس بجھ گئی لیکن تکلیف کافی ہوئی چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اس صحرا میں پانی کا سرکار ی انتظام کیاجائے، ماہرین کی کمیٹیاں بیٹھ گئیں اورآخر کار یہی حل نکالاگیا کہ اس صحرا میں بارہ مقامات پر مٹکے رکھے جائیں اوران مٹکوں کو روزانہ بھرنے کے لیے عملہ بھرتی کیاجائے اوران مٹکوں کی حفاظت کے لیے محافظ رکھے جائیں، پھر کچھ مدت بعد پانی پہنچانے والوں کی حفاظت کرنے والوں کی ضرورتوں کے پیش نظر وہاں پر رہائشی کوارٹر بھی تعمیر کیے گئے، بچوں کے لیے اسکول بھی کھل گئے ، ٹرانسپورٹ کاانتظام بھی کیاگیا، معائنہ کرنے والے افسروں کے ریسٹ ہائوس بھی تعمیر ہوگئے، یہاں عام لوگ بھی آکر آباد ہوگئے اور ان مٹکوں کے ارد گرد آبادیاں ابھرنے لگیں ، پانی پہنچانے والے ان لوگوں کو باقاعدہ تربیت دے کر ایک نیامحکمہ کھڑا کردیاگیا، محکمہ آب رسان برائے صیادان۔
محکمہ بڑھتا گیا، پھیلتاگیا حالانکہ اب ان مقامات پر کنوئیں بھی کھد گئے ، پھر پانی کی ضرورت نہیں رہی ، آبادیاں بھی اٹھ گئیں، شکاری بھی نہ رہے لیکن محکمہ تو محکمہ ہوتاہے وہ بدستورقائم رہا بلکہ اب بھی قائم ہے لیکن اس کامحل وقوع بدل گیاہے بمقام پاکستان۔ ایسے ہزاروں منصوبے ہیں جوختم ہوچکے ہیں لیکن عملہ، محکمہ اورتنخواہیں بدستور جاری ہیں، ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں آس پاس پچاس بڑے ٹیوب ویل زمین کاتھوروسیم ختم کرنے کے لیے لگائے گئے تھے،کچھ عرصے تک یہ ٹیوب ویل چلے تو زمین کو بڑا فائدہ ہوا، سیم وتھورکی ماری ہوئی بنجر زمین قابل کاشت ہوکر سونا اگلنے لگی۔
آج وہ زمین پھر سے بنجر ہوگئی ہے کیونکہ وہ ٹیوب ویل سب کے سب بند ہوچکے ہیں البتہ ان پر تعینات دو دو آدمی، ایک آپریٹر دوسرا چوکیدار تنخواہیں باقاعدہ وصول کررہے ہیں بلکہ باپ کی جگہ بیٹے یاپوتے لگے ہوئے ہیں، باقاعدہ دفتر بھی موجود ہے جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ لینے والے آتے ہیں، ٹیوب ویلوں کی مرمت کا عملہ بھی موجودہے ، انجینئر بھی موجود ہیں ، دن بھر کلرک بھی کام کرتے ہیں لیکن ٹیوب ویل ایک بھی نہیں چل رہاہے ،صرف تنخواہیں وصول کی جارہی ہیں۔
اگلے زمانوں میں بھوت اسکول، بھوت اسپتال وغیرہ کی اصطلاحات عام تھیں لیکن اب ان میں کچھ اور بھوت بھی شامل ہوچکے ہیں۔ دراصل ہوتا یوں ہے اورمیں اس پر کئی بار لکھ بھی چکاہوں کہ ہمارے اس ملک میں آج تک کوئی بھی حکومت نہیں بنی ہے، ایک مسلسل گینگ وار ہے جو چل رہی ہے اوراس ملک کاگینگ ریپ کیا جارہاہے ۔اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ''گینگ'' ایک ہی ہے، وہ پندرہ فی صد مقتدراشرافیہ ، اوراسی ایک گینگ کی شاخیں الگ ہوکر '' گینگسٹر پارٹیاں''بنتی رہی ہیں۔
ہر نئی شاخ ، ایک نیانعرہ ،ایک نیاجھنڈا لے کر اٹھتی ہے اوروہی لوگ اس میں شامل ہوجاتے ہیں جو بڑے گینگ اوراس سے نکلنے والی شاخوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ نعرہ چلتارہتاہے اورجب ازکاررفتہ ہوجاتاہے بلکہ جھوٹ ثابت ہوجاتاہے تو اس میں ایک نئی کونپل پھوٹتی ہے اوراس کے پاس بھی اسی پرانی بانسری پر نئی دھن ہوتی ہے چنانچہ جو بھی گینگ کامیاب ہوتاہے، وہ اپنے لوگوں کے لیے جنھیں کارکن کہا جاتاہے، کوئی نیا منصوبہ لانچ کردیاجاتاہے جس کی زبردست پبلسٹی ہوتی ہے، اس کی برکات بیان کی جاتی ہیں، فیتے کاٹے جاتے ہیں، آخر میں باقی سب کچھ غائب ہوجاتاہے، صرف دستر خوان پر نوالوں کے لیے منہ اور مونہوں کے لیے نوالے باقی رہ جاتے ہیں۔
جب اس گینگ کی باری ختم ہوتی ہے، دوسرا گینگ کوئی اور منصوبہ کوئی اوردسترخوان بچھا دیتاہے کیونکہ اپنی سواریاںکہیں نہ کہیں تو بٹھانا ہوتی ہیں ،اسے آیندہ الیکشن کے لیے سرکاری پیسے سے پیشگی ووٹ خریدنا یا بک کرنا بھی کہتے ہیں۔
کتنے منصوبے بنے، اسکول اسپتال بنے، تعمیر وطن پروگرام، پیپلزورکس پروگرام، بے نظیر پروگرام، صحت کارڈ ،انصاف کارڈ ، لنگر خانے ، نشئیوں کے آرام و سکون کے لیے پناہ گاہیں،احساس پروگرام، ہشاس بشاش، شاباش ستیاناس۔
ویسے ان شاطروں، نوسربازوں اورمداریوں کے ساتھ رہ کر عوام بھی کچھ کم نہیں رہے ہیں، یہ جو ہم لیڈروں کے گرد بھنگڑے ڈالتے ہیں، دھرنے دیتے ہیں اور ان کی حفاظت کے کٹ مرنے دیکھتے ہیں، یہ ان پر عاشق نہیں ہوتے، جیالے بھٹوکے حسن جہانتاب پر عاشق نہیں ہوئے تھے ، کپتان کے حسن بے پناہ پر بھی لوگ نہیں مرمٹے تھے ،مولانا فضل الرحمان کے عشاق بھی ان کے جمال پر فریفتہ نہیں ہیں ، نوازشریف ،شہبازشریف ،گجراتی چوہدری ،شیخ رشید ، یہ سب کوئی حسینان عالم نہیں ہیں لیکن عشاق ان کے گرد ناچ ناچ کر گاتے ہیں ۔
تری آنکھیں تری زلفیں ترے ابروترے لب
اب بھی مشہورہیںدنیا میں مثالوں کی طرح
بلکہ ان لوگوں نے دیکھا ہے کہ درخت ثمردار ہونے والا ہے ، پھل ملنے کا امکان ہے۔ ایک پشتو ٹپہ ہے۔ اردو میں بیان کرتا ہوں۔
شاخ آج کل ہی میں پھول دار ہوجائے گا
میں نے اس کے سروں پر ''شگوفے ''دیکھے ہیں