ترقی کرنی ہے تو اہلیت کو حد درجہ کم کیجیے
ایک بے وقوف ترین حکمران کو ارسطو اور سکندر اعظم کے ہم پلہ کہیں گے تو بچیں گے
پرانے شناسا ملنے تشریف لائے۔ تیس سال بعد ملاقات ہوئی۔ حد درجہ مالی کشادگی ظاہر ہو رہی تھی، ان کا سابقہ وقت یک دم ذہن میں آیا۔ ان کے پاس ایک پرانی موٹر سائیکل تھی۔
دراصل مشورہ کرنے آئے تھے کہ ٹی وی چینل کھولنا چاہتا ہوں۔ کافی طویل گفتگو ہوئی، اس دورانیہ میں موصوف نے صرف ایک کال سنی، باقی کالز پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جس ایک کال کو انھوںنے شرف سماعت بخشا، وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کی تھی ۔
بڑی بے تکلفی سے بات کرتے رہے اور وزیراعلیٰ کو ''بادشاہو'' کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ لمبی ملاقات کے بعد میں جب انھیں خدا حافظ کہنے گیا تو باہر دوگاڑیوں اور دو ڈالوں پر مشتمل محافظوںکا قافلہ موجود تھا۔ کہنے لگے کہ آپ کے ذہن میں اگر یہ سوال ہے کہ میں نے اتنی دولت کیسے اکٹھی کر لی؟ تو یہ بالکل جائز سوال ہو گا۔
بتانے لگا کہ میں ایک ناکام انسان تھا ۔ بی اے کیا ، پڑھائی میں اچھا تھا ، ہمیشہ امتیازی پوزیشن حاصل کرتا رہا۔ میں سوچتا کہ اﷲ نے میرے اندر حد درجہ اہلیت رکھ چھوڑی ہے۔ میں لوگوں کے عامیانہ رویے پر ہر دم کڑھتا رہتا تھا۔ سرکاری دفتروں میں کام سے جاتا تھا تو ہر بابوسے نوک جھونک ہوتی تھی۔
لگتا تھا کہ اونچے عہدے پر فائز بابو تو بالکل فارغ آدمی ہے۔ نتیجہ یہ کہ کام ہونا تو درکنار' اکثر افراد' مجھے دیکھ کر سیٹ سے اٹھ کر باہر چلے جاتے تھے۔ حالات یہاں تک خراب ہو گئے کہ موٹر سائیکل تک بیچنی پڑ ی۔ گھر کے نزدیک ایک بوڑھا ریٹائر کلرک رہتا تھا۔
ایک دن جمعہ پڑھ کر نکلا۔ تو مسجد کے باہر تھڑے پر بیٹھ گیا۔ وہ بزرگ کلرک میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ محلہ داری تھی، میرے حالات اچھی طرح جانتا تھا۔ بغیر کسی تمہید کے کہنے لگا کہ تمہارے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ میں چونک گیا۔ کیونکہ ایسا ممکن نہیں لگتا تھا۔ بیٹا! تمہارے ذہن میں ہے کہ تمہارے اندر خدا نے بڑی صلاحیت رکھی ہے لیکن غیر معمولی اہلیت رکھنے کے باوجود دھکے کھا رہے ہو۔ان بات بالکل سچ تھی ۔
بس بیٹا ایک چھوٹا سا کام کرو۔ معاملات کو الٹا کر دو۔ یہ ملک کسی بھی سطح پر صلاحیت کو فروغ نہیں دیتا۔ بس تم پوری طرح نالائق بن جاؤ۔ پھر دیکھو' یہ نظام کیسے تمہاری مدد کرتا ہے۔ بظاہر یہ عجیب مشورہ ہے، لیکن بوڑھے کلرک کا تجربہ بول رہا تھا، میں نے اس مشورے کو قبول کرلیا بلکہ اسے پلے باندھ ڈالا ۔ اگلے دن ایک ذاتی کام سے کسی دفتر جانا ہوا۔
وہاں سیٹ پر بیٹھا بابو' مجھے دیکھتے ہی غصے سے پہلو بدلنے لگا۔اس کی میز کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اجازت مانگی کہ کرسی پر بیٹھ جاؤں۔ بابو نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سرکاری کام کے لیے جارہا ہے۔ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ میںخاموشی سے واپس آ گیا۔ دو تین دن بعد دوبارہ گیا، مجھے دیکھ کر بابو طیش میں آ گیا۔
آپ پھر آ گئے ہیں، بتا تو دیا ہے کہ کام نہیں ہو سکتا، جب اس نے بات ختم کرلی تو لجاجت سے کہا، جناب میں تو کام کرانے آیا ہی نہیں ہوں۔ بابو حیران ہوا۔ پھر کس لیے آئے ہو۔ بس سلام کرنے۔ جواب سن کر پہلی بار بابو نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ ادب سے کرسی پر بیٹھنے کے بعد' اس بابو کو کہا میں تو آپ سے سیکھنے آیا ہوں۔
آپ کی کامیابی میرے لیے ایک سنہری مثال ہے۔ ایسے معلوم ہوا کہ بابو پگھلنے لگ گیا ہے۔ چائے منگوائی۔ حیرت سے دریافت کیا کہ کیا واقعی مجھ سے کامیابی کا گر سیکھنے آئے ہیں۔ اثبات پر دوستانہ لہجے میں بات شروع کر دی۔ دو چار ملاقاتوں کے بعد' میرا کام خود بخود ہو گیا۔
اب مجھے اس ملک میں کامیاب ہونے کا گر ہاتھ آ گیا تھا۔ اپنی صلاحیت کو ختم کرو، اپنے آپ کو دنیا کا بدھو ترین انسان ثابت کرو اور اگلے بندے کو زمین پر سب سے باصلاحیت اورعقل مند انسان ثابت کر ڈالو۔ بس اس چابی سے سارے بند دروازے کھلنے لگے۔
کاروباری دنیا میں آیا۔ تو معلوم ہواکہ سیٹھ کافی حد تک فارغ العقل ہے۔اب مجھے کامیابی کا فارمولا یاد تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں' کمپنی کا پارٹنر بن گیا۔ دولت اور شہرت ہاتھ باندھے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ اسی طرح دس برس گزر گئے۔ دو مرلے کے مکان سے لاہور کے پوش ترین علاقے میں چار کنال کے محل میں منتقل ہو گیا۔
ایک دن ذہن میں آیا کہ سیاست کے میدان میں بھی قسمت آزمائی کی جائے۔ میں صوبے کے وزیراعلیٰ سے ملا۔ ملاقات سے پہلے' اس کے ملازمین کو خوب پیسے دیے۔ وزیراعلیٰ کی ہر پسند و ناپسند معلوم کر لی۔ ملاقات پندرہ منٹ کی طے تھی، میں وزیراعلیٰ کے کپڑوں کے ذوق کی تعریف شروع کر دی۔ اس کے منصوبوں اور سیاسی بصیرت کو دنیا کے لیے مثال کہا، پندرہ منٹ کی یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ ا س کے بعد ہر ماہ یا پندرہ دن بعد' وزیراعلیٰ مجھے خود بلا لیتا تھا۔
ایک دن اس کے گھر گیا تو تحفے میں چند بیش قیمت اشیاء بھی لے گیا۔ وزیراعلیٰ موم کی طرح پگھل گیا۔ الیکشن نزدیک تھا۔ مجھے بلا کر ایم پی اے کی ٹکٹ ایک مخصوص حلقے سے تھما دی۔یوں میں حکومتی مدد سے ایم پی اے بن گیا۔ اسمبلی میں جا کر پہلی تقریر میں کہا کہ خدا کے بعد' جو کچھ بھی میرے پاس ہے، وہ وزیراعلیٰ کی مہربانیوں کی بدولت ہے۔
مجھے وزیر بنا دیا گیا۔ پھت ہر سیاسی عہدہ ملتا چلا گیا۔ کاروبار کو سیاست میں آ کر خوب بڑھایا۔ لوگوںکو ہر طرح سے خوش کرنے کا فن میرے ہاتھ میں تھا۔ خیر اب تو معاملات حد درجہ مثالی ہو چکے ہیں۔ کوئی فکر' غم اور کوئی دکھ نزدیک نزدیک بھی نہیں ہے۔
دوست نما شناسا مہمان واپس چلا گیا مگر اس ملک کی حقیقت اور اوقات بتا گیا۔ ہمارے جیسے دس نمبری نظام میں ترقی کا قرینہ بھی سمجھا گیا۔ یقین فرمائیے۔ سول سروس میں' طالب علم نے حد درجہ لائق' ایماندار اور محنتی لوگوں کو صرف اور صرف رلتے ہوئے دیکھا ہے۔
تھوڑی سی انا رکھنے والا افسر ہمیشہ دکھی نظر آیا ہے لیکن جو افسر اپنے سینئرز کے سامنے خود کواحمق ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا، ترقی اس کا سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہی۔ بس گریہی ہے کہ اپنا سر جھکا کر کام کرو اور جو بھی شخص آپ کے دنیاوی مقدر کا مالک ہے، اس سے ہلکا سا اختلاف تک نہ کرو۔
شاید آپ تسلیم نہ کریں، کسی بھی ادارے میں معمولی سا بھی فرق نہیں ہے۔ ہر ریاستی' غیرریاستی اور کاروباری ادارے کا حکمران اور افسر صرف اور صرف اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔ جو اسے تھوڑا سا بھی بہتر مشورہ دے، اس کے خون کا پیاسا ہو جاتاہے۔
آپ اگر ترقی کرنے کی چابی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں توہاں میں ہاں ملانا سیکھئے۔ نظام کو گہرائی سے سمجھئے۔ اصل میں اس بدبودار نظام میں سطحیت ہی سطحیت ہے۔ علم اور دلیل والی تو بات ہی نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رکھیے، اس ملک میں کوئی مستقل سچ یا مستقل جھوٹ نہیں ہے۔ یہاں چند برسوں کے بعد' ہر کلیے یا نظریے کی تعریف ہی تبدیل کر دی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے، آج جو آپ کو حقیقت بتائی جا رہی ہے' آنے والے دنوں میں اس کی بھرپور نفی کرنا زندگی کا شعار بن جائے۔ سمجھ جایئے۔ یہاں آپ کو خود ہی ترقی کرنی ہے۔
کوئی میرٹ وجود نہیں رکھتا۔ بس صرف ایک ہی میرٹ ہے اور وہ ہے ''اوپر والے لوگ'' آپ سے کتنے خوش ہیں۔ یہ واحد چلن ہے' جو آپ کو نفع دے سکتا ہے۔ جس ملک میں عدل کے بلند ترین منصب پر بیٹھنے والے قاضی' ایک دوسرے سے بات تک نہ کرتے ہوں۔
وہاں عدل کی اصلیت کیا ہو گی' سمجھ جائیے۔جہاں وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان لوگ' اپنے مد مقابل کو ملک دشمن سمجھیں، اپنے آپ کو مسیحا جانیں اور اپنے مخالفین کو غدار ۔ تو آپ فوراً جان جائیے کہ ملک کا نظام خطرناک حد تک بوسیدہ ہوچکا ہے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آپ یا میں یا ہم میں سے کوئی بھی' نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ہم نے اور ہماری اولاد نے اسی بربادی میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ آپ سے طاقتور اگر کوئے کو سفید کہہ دے تو آپ کوئے کو کالا نہیں کہہ سکتے۔ ایک بے وقوف ترین حکمران کو ارسطو اور سکندر اعظم کے ہم پلہ کہیں گے تو بچیں گے۔
اس ملک میں کوے بھی سفید ہیں اور تمام مقتدر لوگ بھی ''ارسطو'' ہیں۔ یہ لائق اور باصلاحیت لوگوں سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ اگر آپ ذرا سا بھی انھیں صائب مشورہ دیںگے ۔ تو یہ آپ سے ڈر جائیں گے، آپ پر سرخ رنگ کا نظر نہ آنے والا نشان لگ جائے گا۔ ترقی کے تمام جائز دروازے آپ پر بند کر دیے جائیں گے۔ملازم ہیں تو جس گریڈ میں بھرتی ہوں گے ، اسی میں ریٹائر ہوجائیں یا نوکری سے قبل ازوقت نکال دیا جائے گا۔
کارخانہ دار ہیں توفیکٹریوں کو تالا لگا دیا جائے گا۔ کاروبار ختم کر دیے جائیں گے۔ لہٰذا اگر اس بدقسمت ملک میں سانس لینی ہے تو صرف ایک کام کیجیے۔ اپنے آپ کو نااہل بنائیے۔ اپنی اہلیت کو ختم کر ڈالیے یا اس کو حد درجہ کم کر دیجیے۔ پھر دیکھیے، آپ کس تیزی سے پروان چڑھتے ہیں۔
دراصل مشورہ کرنے آئے تھے کہ ٹی وی چینل کھولنا چاہتا ہوں۔ کافی طویل گفتگو ہوئی، اس دورانیہ میں موصوف نے صرف ایک کال سنی، باقی کالز پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جس ایک کال کو انھوںنے شرف سماعت بخشا، وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کی تھی ۔
بڑی بے تکلفی سے بات کرتے رہے اور وزیراعلیٰ کو ''بادشاہو'' کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ لمبی ملاقات کے بعد میں جب انھیں خدا حافظ کہنے گیا تو باہر دوگاڑیوں اور دو ڈالوں پر مشتمل محافظوںکا قافلہ موجود تھا۔ کہنے لگے کہ آپ کے ذہن میں اگر یہ سوال ہے کہ میں نے اتنی دولت کیسے اکٹھی کر لی؟ تو یہ بالکل جائز سوال ہو گا۔
بتانے لگا کہ میں ایک ناکام انسان تھا ۔ بی اے کیا ، پڑھائی میں اچھا تھا ، ہمیشہ امتیازی پوزیشن حاصل کرتا رہا۔ میں سوچتا کہ اﷲ نے میرے اندر حد درجہ اہلیت رکھ چھوڑی ہے۔ میں لوگوں کے عامیانہ رویے پر ہر دم کڑھتا رہتا تھا۔ سرکاری دفتروں میں کام سے جاتا تھا تو ہر بابوسے نوک جھونک ہوتی تھی۔
لگتا تھا کہ اونچے عہدے پر فائز بابو تو بالکل فارغ آدمی ہے۔ نتیجہ یہ کہ کام ہونا تو درکنار' اکثر افراد' مجھے دیکھ کر سیٹ سے اٹھ کر باہر چلے جاتے تھے۔ حالات یہاں تک خراب ہو گئے کہ موٹر سائیکل تک بیچنی پڑ ی۔ گھر کے نزدیک ایک بوڑھا ریٹائر کلرک رہتا تھا۔
ایک دن جمعہ پڑھ کر نکلا۔ تو مسجد کے باہر تھڑے پر بیٹھ گیا۔ وہ بزرگ کلرک میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ محلہ داری تھی، میرے حالات اچھی طرح جانتا تھا۔ بغیر کسی تمہید کے کہنے لگا کہ تمہارے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ میں چونک گیا۔ کیونکہ ایسا ممکن نہیں لگتا تھا۔ بیٹا! تمہارے ذہن میں ہے کہ تمہارے اندر خدا نے بڑی صلاحیت رکھی ہے لیکن غیر معمولی اہلیت رکھنے کے باوجود دھکے کھا رہے ہو۔ان بات بالکل سچ تھی ۔
بس بیٹا ایک چھوٹا سا کام کرو۔ معاملات کو الٹا کر دو۔ یہ ملک کسی بھی سطح پر صلاحیت کو فروغ نہیں دیتا۔ بس تم پوری طرح نالائق بن جاؤ۔ پھر دیکھو' یہ نظام کیسے تمہاری مدد کرتا ہے۔ بظاہر یہ عجیب مشورہ ہے، لیکن بوڑھے کلرک کا تجربہ بول رہا تھا، میں نے اس مشورے کو قبول کرلیا بلکہ اسے پلے باندھ ڈالا ۔ اگلے دن ایک ذاتی کام سے کسی دفتر جانا ہوا۔
وہاں سیٹ پر بیٹھا بابو' مجھے دیکھتے ہی غصے سے پہلو بدلنے لگا۔اس کی میز کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اجازت مانگی کہ کرسی پر بیٹھ جاؤں۔ بابو نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سرکاری کام کے لیے جارہا ہے۔ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ میںخاموشی سے واپس آ گیا۔ دو تین دن بعد دوبارہ گیا، مجھے دیکھ کر بابو طیش میں آ گیا۔
آپ پھر آ گئے ہیں، بتا تو دیا ہے کہ کام نہیں ہو سکتا، جب اس نے بات ختم کرلی تو لجاجت سے کہا، جناب میں تو کام کرانے آیا ہی نہیں ہوں۔ بابو حیران ہوا۔ پھر کس لیے آئے ہو۔ بس سلام کرنے۔ جواب سن کر پہلی بار بابو نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ ادب سے کرسی پر بیٹھنے کے بعد' اس بابو کو کہا میں تو آپ سے سیکھنے آیا ہوں۔
آپ کی کامیابی میرے لیے ایک سنہری مثال ہے۔ ایسے معلوم ہوا کہ بابو پگھلنے لگ گیا ہے۔ چائے منگوائی۔ حیرت سے دریافت کیا کہ کیا واقعی مجھ سے کامیابی کا گر سیکھنے آئے ہیں۔ اثبات پر دوستانہ لہجے میں بات شروع کر دی۔ دو چار ملاقاتوں کے بعد' میرا کام خود بخود ہو گیا۔
اب مجھے اس ملک میں کامیاب ہونے کا گر ہاتھ آ گیا تھا۔ اپنی صلاحیت کو ختم کرو، اپنے آپ کو دنیا کا بدھو ترین انسان ثابت کرو اور اگلے بندے کو زمین پر سب سے باصلاحیت اورعقل مند انسان ثابت کر ڈالو۔ بس اس چابی سے سارے بند دروازے کھلنے لگے۔
کاروباری دنیا میں آیا۔ تو معلوم ہواکہ سیٹھ کافی حد تک فارغ العقل ہے۔اب مجھے کامیابی کا فارمولا یاد تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں' کمپنی کا پارٹنر بن گیا۔ دولت اور شہرت ہاتھ باندھے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ اسی طرح دس برس گزر گئے۔ دو مرلے کے مکان سے لاہور کے پوش ترین علاقے میں چار کنال کے محل میں منتقل ہو گیا۔
ایک دن ذہن میں آیا کہ سیاست کے میدان میں بھی قسمت آزمائی کی جائے۔ میں صوبے کے وزیراعلیٰ سے ملا۔ ملاقات سے پہلے' اس کے ملازمین کو خوب پیسے دیے۔ وزیراعلیٰ کی ہر پسند و ناپسند معلوم کر لی۔ ملاقات پندرہ منٹ کی طے تھی، میں وزیراعلیٰ کے کپڑوں کے ذوق کی تعریف شروع کر دی۔ اس کے منصوبوں اور سیاسی بصیرت کو دنیا کے لیے مثال کہا، پندرہ منٹ کی یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ ا س کے بعد ہر ماہ یا پندرہ دن بعد' وزیراعلیٰ مجھے خود بلا لیتا تھا۔
ایک دن اس کے گھر گیا تو تحفے میں چند بیش قیمت اشیاء بھی لے گیا۔ وزیراعلیٰ موم کی طرح پگھل گیا۔ الیکشن نزدیک تھا۔ مجھے بلا کر ایم پی اے کی ٹکٹ ایک مخصوص حلقے سے تھما دی۔یوں میں حکومتی مدد سے ایم پی اے بن گیا۔ اسمبلی میں جا کر پہلی تقریر میں کہا کہ خدا کے بعد' جو کچھ بھی میرے پاس ہے، وہ وزیراعلیٰ کی مہربانیوں کی بدولت ہے۔
مجھے وزیر بنا دیا گیا۔ پھت ہر سیاسی عہدہ ملتا چلا گیا۔ کاروبار کو سیاست میں آ کر خوب بڑھایا۔ لوگوںکو ہر طرح سے خوش کرنے کا فن میرے ہاتھ میں تھا۔ خیر اب تو معاملات حد درجہ مثالی ہو چکے ہیں۔ کوئی فکر' غم اور کوئی دکھ نزدیک نزدیک بھی نہیں ہے۔
دوست نما شناسا مہمان واپس چلا گیا مگر اس ملک کی حقیقت اور اوقات بتا گیا۔ ہمارے جیسے دس نمبری نظام میں ترقی کا قرینہ بھی سمجھا گیا۔ یقین فرمائیے۔ سول سروس میں' طالب علم نے حد درجہ لائق' ایماندار اور محنتی لوگوں کو صرف اور صرف رلتے ہوئے دیکھا ہے۔
تھوڑی سی انا رکھنے والا افسر ہمیشہ دکھی نظر آیا ہے لیکن جو افسر اپنے سینئرز کے سامنے خود کواحمق ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا، ترقی اس کا سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہی۔ بس گریہی ہے کہ اپنا سر جھکا کر کام کرو اور جو بھی شخص آپ کے دنیاوی مقدر کا مالک ہے، اس سے ہلکا سا اختلاف تک نہ کرو۔
شاید آپ تسلیم نہ کریں، کسی بھی ادارے میں معمولی سا بھی فرق نہیں ہے۔ ہر ریاستی' غیرریاستی اور کاروباری ادارے کا حکمران اور افسر صرف اور صرف اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔ جو اسے تھوڑا سا بھی بہتر مشورہ دے، اس کے خون کا پیاسا ہو جاتاہے۔
آپ اگر ترقی کرنے کی چابی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں توہاں میں ہاں ملانا سیکھئے۔ نظام کو گہرائی سے سمجھئے۔ اصل میں اس بدبودار نظام میں سطحیت ہی سطحیت ہے۔ علم اور دلیل والی تو بات ہی نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رکھیے، اس ملک میں کوئی مستقل سچ یا مستقل جھوٹ نہیں ہے۔ یہاں چند برسوں کے بعد' ہر کلیے یا نظریے کی تعریف ہی تبدیل کر دی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے، آج جو آپ کو حقیقت بتائی جا رہی ہے' آنے والے دنوں میں اس کی بھرپور نفی کرنا زندگی کا شعار بن جائے۔ سمجھ جایئے۔ یہاں آپ کو خود ہی ترقی کرنی ہے۔
کوئی میرٹ وجود نہیں رکھتا۔ بس صرف ایک ہی میرٹ ہے اور وہ ہے ''اوپر والے لوگ'' آپ سے کتنے خوش ہیں۔ یہ واحد چلن ہے' جو آپ کو نفع دے سکتا ہے۔ جس ملک میں عدل کے بلند ترین منصب پر بیٹھنے والے قاضی' ایک دوسرے سے بات تک نہ کرتے ہوں۔
وہاں عدل کی اصلیت کیا ہو گی' سمجھ جائیے۔جہاں وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان لوگ' اپنے مد مقابل کو ملک دشمن سمجھیں، اپنے آپ کو مسیحا جانیں اور اپنے مخالفین کو غدار ۔ تو آپ فوراً جان جائیے کہ ملک کا نظام خطرناک حد تک بوسیدہ ہوچکا ہے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آپ یا میں یا ہم میں سے کوئی بھی' نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ہم نے اور ہماری اولاد نے اسی بربادی میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ آپ سے طاقتور اگر کوئے کو سفید کہہ دے تو آپ کوئے کو کالا نہیں کہہ سکتے۔ ایک بے وقوف ترین حکمران کو ارسطو اور سکندر اعظم کے ہم پلہ کہیں گے تو بچیں گے۔
اس ملک میں کوے بھی سفید ہیں اور تمام مقتدر لوگ بھی ''ارسطو'' ہیں۔ یہ لائق اور باصلاحیت لوگوں سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ اگر آپ ذرا سا بھی انھیں صائب مشورہ دیںگے ۔ تو یہ آپ سے ڈر جائیں گے، آپ پر سرخ رنگ کا نظر نہ آنے والا نشان لگ جائے گا۔ ترقی کے تمام جائز دروازے آپ پر بند کر دیے جائیں گے۔ملازم ہیں تو جس گریڈ میں بھرتی ہوں گے ، اسی میں ریٹائر ہوجائیں یا نوکری سے قبل ازوقت نکال دیا جائے گا۔
کارخانہ دار ہیں توفیکٹریوں کو تالا لگا دیا جائے گا۔ کاروبار ختم کر دیے جائیں گے۔ لہٰذا اگر اس بدقسمت ملک میں سانس لینی ہے تو صرف ایک کام کیجیے۔ اپنے آپ کو نااہل بنائیے۔ اپنی اہلیت کو ختم کر ڈالیے یا اس کو حد درجہ کم کر دیجیے۔ پھر دیکھیے، آپ کس تیزی سے پروان چڑھتے ہیں۔