منی لانڈرنگ کیس وزیراعظم کے صاحبزادے سلیمان شہباز بری

شہزاد اکبر کو ریکارڈ کون دیتا تھا جو پریس کانفرنس کرتے تھے، 100 بار تو اس نے پریس کانفرنس کی تھی، عدالت

شہزاد اکبر کو ریکارڈ کون دیتا تھا جو پریس کانفرنس کرتے تھے، 100 بار تو اس نے پریس کانفرنس کی تھی، عدالت

لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ مقدمے میں وزیر اعظم کے صاحبزادے سلیمان شہباز سمیت دیگر کی بریت کی درخواستیں منظورکرتے ہوئے ان سب کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

سلیمان شہباز عدالت کے روبرو پیش ہوئے. ایف آئی اے نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 27 سوالات کے جوابات جمع کرا دیے۔

فاضل جج نے استفسار کیا کہ منی لانڈرنگ کی انکوائری کس نے کی تھی ۔ایف آئی اے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جے آئی ٹی نے انکوائری کی تھی جس کی سربراہی ڈاکٹر رضوان نے کی تھی۔

فاضل عدالت نے سوال کیا کہ ایف آئی اے نے پوری تفتیش میں کسی ایک گواہ کا بیان لکھا ہے؟ جج کے سوال پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسرخاموش ہو گئے۔

عدالت نے مزید استفسار کیا کہ جو لوگ انکوائری اور انوسٹی گیشن میں اپنا موقف تبدیل کرتے رہے انکے خلاف کیا کارروائی کی ۔

تفتیشی افسر علی مردان نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ فاضل جج نے سوال کیا کہ ایف آئی اے کے 7 والیم میں کوئی ثبوت ہے ؟ ۔

جج بخت فخر بہزاد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ایف آئی اے والوں کو ابھی جیل بھیج دوں گا یہ بات یاد رکھیں مجھے جواب چاہیے کہ چالان کے ساتھ جرم کا کیا ثبوت تھا۔

جج اسپیشل کورٹ سینٹرل نے پوچھا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کدھر ہے جس نے یہ سب کیا ہے۔

وکیل ایف آئی اے نے عدالت کو ہم نے لیٹر لکھا تھا وہ نہیں آئے، ثنااللہ عباسی ڈی جی ایف آئی اے تھے۔

ایف آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ سلیمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کےکوئی ڈائریکٹ شواہد موجود نہیں ۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی ان ڈائریکٹ ہے تو وہ ہی بتا دیں ۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی شروع ہوئی تھی تفتیش میں ایف آئی اے نے سلیمان شہباز کے اکاؤنٹ کی تفصیلات لی تھیں لیکن انکا اکاؤنٹ استعمال نہیں ہوا۔


عدالت نے سوال کیا کہ تو پھر آپ نے انکے خلاف کیس کیوں بنایا جب انکا اکاؤنٹ ہی استعمال نہیں ہوا ۔ تفتیشی افسر کا موقف تھا کہ سلیمان شہباز کے اکاؤنٹس میں پیسے جمع ہوتے تھے اور کیش میں نکلتے تھے ۔عدالت نے استفسار کیا کہ پیسے جمع ہونا اور نکلنا یہ کون سا جرم ہے ۔

جج بخت فخر بہزاد نے ریمارکس دیئے کہ میں نے اسی لیے ایف آئی اے کو بلایا تھا کہ آکر بتائیں اتنے سال کیا یہ ڈرامہ چلتا رہا ہے

عدالت نے پوچھا کہ شہزاد اکبر کو ریکارڈ کون دیتا تھا جو پریس کانفرنس کرتے تھے ، 100 بار تو اس نے ادھر پریس کانفرنس کی تھی ۔

عدالت نے بریت کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سلیمان شہباز سمیت دیگر کو منی لانڈرنگ کیس سے بری کردیا.

واضح ہے کہ عدالت 12 اکتوبر 2022 کو وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اس کیس سے پہلے ہی بری کرچکی ہے.

عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلیمان شہباز کا کہنا تھا کہ یہ کیس 2018 سے شروع ہوا اس دوران ڈیلی میل کا کیس بھی آیا یہ جھوٹ کا پلندہ پانچ سال تیار کیا گیا پانچ سال کوئی کام نہیں کیا گیا صرف جھوٹے کیسز بنائے گئے۔

سلیمان شہباز شریف نے کہا کہ ڈیل میل نے معافی مانگی اور اس کیس سے بھی بری ہوئے یہ حقیقت ہے انکی اگر انہوں نے عوام کی خدمت کی ہوتی تو آج یہ نا ہوتا یہ سیاسی کیس بنائے گئے جو عدالتوں نے ثابت کیے پہلے شہباز شریف اور حمزہ صاحب بری ہوئے آج عدالت سے ہم سرخرو ہوئے ہیں۔

سلیمان شہباز کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری

اسپیشل سینٹرل عدالت لاہور نے سلیمان شہباز ودیگر کو بری کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس میں عدالت نے سلیمان شہباز اور طاہر نقوی کے خلاف حقائق کے برعکس الزامات عائد کرنے پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو شہزاد اکبر سمیت دیگر کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے جان بوجھ کر عدالتی سوالات کے جوابات پر دوری اختیار کی، ڈی جی ایف آئی اے جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ملزمان کے وکیل نے کہا کہ پراسکیوشن نے شہزاد اکبر کے پریشر میں تمام الزامات عائد کیے، قانون اور ایف آئی اے کی بالادستی کے لیے ایسے عناصر کے خلاف کاروائی عمل میں لانے کا وقت آگیا ہے۔

اسپیشل سینٹرل عدالت کے جج بخت فخر بہزاد نے 18 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، عدالت نے تحریری فیصلے کی کاپی وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ میں ارسال کردی، عدالت نے سلیمان شہباز سمیت دیگر کو بری کرنے اور شہزاد اکبر سمیت دیگر ایف آئی اے افسران کے خلاف کاروائی کا حکم دیا۔
Load Next Story