عام انتخابات اور جمہوریت کے تقاضے
مقررہ وقت پر عام انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے استحکام اور فروغ پانے کی کلید ہے
بر وقت غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات جمہوری نظام کا سب سے بنیادی تقاضہ ہے۔ ہمارے سب سے بڑے حریف اور ازلی دشمن پڑوسی ملک میں آزادانہ غیر جانبدارانہ اور شفاف عام انتخابات کا تسلسل اُس کے جمہوری نظام کی کنجی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نظام رائج نہیں ہوسکا۔
بعد ازاں جب سلطانی جمہور کا زمانہ آیا تو آس بندھی کہ شاید کچھ بہتری آئے گی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور قائدِ ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد عدم استحکام اور خلفشار کا شکار ہے۔
کسی نے بھی اِس ملک کی سمت متعین کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر حکمراں نے اپنے سیاسی مقاصد کو پیشِ نظر رکھا۔ حال یہ ہے کہ بقولِ شاعر:
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
جو بھی آیا اُس نے اپنا الو سیدھا کیا اور چلتا بنا۔ یہ تماشہ مدتِ دراز سے جاری ہے اور خدا جانے کب ختم ہوگا۔ قوم بیچاری مسلسل اِس انتظار میں ہے کہ اللہ تعالٰی کرم فرمائے گا اور کوئی نہ کوئی مسیحا کبھی نہ کبھی ضرور آئے گا۔
قوم بیچاری کے پاس اِس کے سوا اور ہے بھی کیا۔ شاید یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے یا بدقسمتی۔ حقیقت یہ ہے کہ مخلص اور اہل قیادت کے بغیر کسی ملک کی ترقی اور فلاح ممکن نہیں۔ وہ ممالک خوش قسمت ہیں کہ جنھیں مطلوبہ قیادت میسر ہے، ایسے ممالک میں ہمارا پڑوسی ملک بھی شامل ہے۔اُس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ فرنگی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اُسے ایک مخلص، اہل اور وطن دوست قیادت میسر آگئی جس کی وجہ سے وہاں نہ صرف جمہوریت کا تسلسل قائم ہے بلکہ جمہوری اقدار مستحکم ہو چکی ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مستحکم سے مستحکم تر ہوتی جا رہی ہیں۔
جمہوریت وہاں ایک گھنے اور تناور درخت کی صورت اختیار کرچکی ہے جس کے زیرِ سایہ وہاں کی عوام زندگی گزار رہے ہیں۔ جمہوری روایت کے استحکام کا ثمر یہ ہے کہ ہر قومی ادارے کا ایک دائرہ کار موجود ہے اور کوئی بھی ادارہ اپنے دائرہ سے نکل نہیں سکتا۔
آئین کی بالادستی نظام کی کامیابی کی جڑ ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمان کی قانون سازی کی حدود مقرر ہیں جب کہ عدلیہ کا ایک آزاد اور مستحکم کردار ہے جسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا مکمل تحفظ کرے اور اِس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے سامنے دخل اندازی تو نہیں کر رہا۔ اِس کے علاوہ عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ پارلیمان کے منظور شدہ کسی بھی قانون کا جائزہ لے اور اگر وہ آئین کی کسی بھی شِق کے خلاف یا متصادم ہے تو اُسے منسوخ کردے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک کی گاڑی کبھی پٹری سے نہیں اُتری۔ کامیابی کی کنجی یہ ہے کہ اپنی خامیوں کو تلاش کر کے اُن کی جگہ پر خوبیاں پیدا کی جائیں اور دوسروں کی خوبیوں کو اپنایا جائے اور دوسروں کے کامیاب تجربوں سے سبق حاصل کیا جائے کیونکہ آج کل ہمارے ملک میں عام انتخابات کا چرچا ہے تو اِس حوالہ سے بھارت کے انتخابی نظام پر بھی ایک سَرسِری سی نظر ڈال لی جائے اور اگر ہم اُس سے کچھ سیکھ سکتے ہیں تو اصلاح کی نیت سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔
مقررہ وقت پر عام انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے استحکام اور فروغ پانے کی کلید ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہو۔ ووٹروں کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنا حقِ رائے دہی اپنی مرضی کے بغیر اپنی پسند کے مطابق آزادانہ طور پر استعمال کریں۔ اِس کے لیے انتخابات کے لیے سازگار فضا اور ماحول درکار ہے۔اِس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں لیول پلئینگ فیلڈ مہیا ہو اور انتخابات کا انعقاد مکمل طور پر آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف ہو۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل اُن خطوط پر ہو جو قطعی غیر متنازعہ اور شکوک و شبہات سے مکمل طور پر بالاتر ہوں اور کسی کو اُن پر کوئی اعتراض نہ ہو۔
بعد ازاں جب سلطانی جمہور کا زمانہ آیا تو آس بندھی کہ شاید کچھ بہتری آئے گی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا وطنِ عزیز بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور قائدِ ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد عدم استحکام اور خلفشار کا شکار ہے۔
کسی نے بھی اِس ملک کی سمت متعین کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر حکمراں نے اپنے سیاسی مقاصد کو پیشِ نظر رکھا۔ حال یہ ہے کہ بقولِ شاعر:
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
جو بھی آیا اُس نے اپنا الو سیدھا کیا اور چلتا بنا۔ یہ تماشہ مدتِ دراز سے جاری ہے اور خدا جانے کب ختم ہوگا۔ قوم بیچاری مسلسل اِس انتظار میں ہے کہ اللہ تعالٰی کرم فرمائے گا اور کوئی نہ کوئی مسیحا کبھی نہ کبھی ضرور آئے گا۔
قوم بیچاری کے پاس اِس کے سوا اور ہے بھی کیا۔ شاید یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے یا بدقسمتی۔ حقیقت یہ ہے کہ مخلص اور اہل قیادت کے بغیر کسی ملک کی ترقی اور فلاح ممکن نہیں۔ وہ ممالک خوش قسمت ہیں کہ جنھیں مطلوبہ قیادت میسر ہے، ایسے ممالک میں ہمارا پڑوسی ملک بھی شامل ہے۔اُس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ فرنگی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اُسے ایک مخلص، اہل اور وطن دوست قیادت میسر آگئی جس کی وجہ سے وہاں نہ صرف جمہوریت کا تسلسل قائم ہے بلکہ جمہوری اقدار مستحکم ہو چکی ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مستحکم سے مستحکم تر ہوتی جا رہی ہیں۔
جمہوریت وہاں ایک گھنے اور تناور درخت کی صورت اختیار کرچکی ہے جس کے زیرِ سایہ وہاں کی عوام زندگی گزار رہے ہیں۔ جمہوری روایت کے استحکام کا ثمر یہ ہے کہ ہر قومی ادارے کا ایک دائرہ کار موجود ہے اور کوئی بھی ادارہ اپنے دائرہ سے نکل نہیں سکتا۔
آئین کی بالادستی نظام کی کامیابی کی جڑ ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمان کی قانون سازی کی حدود مقرر ہیں جب کہ عدلیہ کا ایک آزاد اور مستحکم کردار ہے جسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا مکمل تحفظ کرے اور اِس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے سامنے دخل اندازی تو نہیں کر رہا۔ اِس کے علاوہ عدالتِ عظمیٰ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ پارلیمان کے منظور شدہ کسی بھی قانون کا جائزہ لے اور اگر وہ آئین کی کسی بھی شِق کے خلاف یا متصادم ہے تو اُسے منسوخ کردے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک کی گاڑی کبھی پٹری سے نہیں اُتری۔ کامیابی کی کنجی یہ ہے کہ اپنی خامیوں کو تلاش کر کے اُن کی جگہ پر خوبیاں پیدا کی جائیں اور دوسروں کی خوبیوں کو اپنایا جائے اور دوسروں کے کامیاب تجربوں سے سبق حاصل کیا جائے کیونکہ آج کل ہمارے ملک میں عام انتخابات کا چرچا ہے تو اِس حوالہ سے بھارت کے انتخابی نظام پر بھی ایک سَرسِری سی نظر ڈال لی جائے اور اگر ہم اُس سے کچھ سیکھ سکتے ہیں تو اصلاح کی نیت سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔
مقررہ وقت پر عام انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے استحکام اور فروغ پانے کی کلید ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں حصہ لینے کی مکمل آزادی ہو۔ ووٹروں کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنا حقِ رائے دہی اپنی مرضی کے بغیر اپنی پسند کے مطابق آزادانہ طور پر استعمال کریں۔ اِس کے لیے انتخابات کے لیے سازگار فضا اور ماحول درکار ہے۔اِس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں لیول پلئینگ فیلڈ مہیا ہو اور انتخابات کا انعقاد مکمل طور پر آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف ہو۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل اُن خطوط پر ہو جو قطعی غیر متنازعہ اور شکوک و شبہات سے مکمل طور پر بالاتر ہوں اور کسی کو اُن پر کوئی اعتراض نہ ہو۔