کرکٹ ٹیم کا بھارت جانا
کرکٹ ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے پاکستانی ٹیم کو بھارت بھیجنا ہے کہ نہیں۔ اس بات کو طے کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے ایک اعلیٰ سطح حکومتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کا موقف ہے کہ تعلقات جیسے بھی ہوں کرکٹ جاری رہنی چاہیے۔ جب کہ بھارت کا موقف ہے کہ جب تعلقات بہتر ہوںگے تو کرکٹ بھی ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ جن ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہوں، وہ بھی کھیل کے تعلقات کو معطل نہیں کرتے۔ اس لیے کرکٹ اور دیگر کھیل چلتے رہنے چاہیے۔ بھارت کا موقف ہے کہ کرکٹ اب کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ بھارت کرکٹ میں بہت زیادہ پیسے کی وجہ سے اسے تجارت کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس میں بہت سے مالی معاملات شامل ہیں۔ اس لیے جب پاک بھارت تجارت معطل ہے تو کرکٹ بھی معطل ہے۔ کرکٹ بھی تجارت ہے۔ پاکستان بھارت کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا۔
یہ درست ہے کہ پاک بھارت اسی تنازعہ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ معطل ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کوئی سیریز نہیں ہوتی۔ صرف عالمی مقابلوں میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ عالمی ممالک کی میزبانی بھی پاکستان اور بھارت میں آگئی ہے۔ ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کے پاس ہے۔ جب کہ عالمی کپ کی میزبانی بھارت کے پاس ہے۔
بھارت نے ایشیا کپ کھیلنے کے لیے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی لیے پاکستان کی میزبانی میں ہونے والا ایشیا کپ عملی طورپر سری لنکا منتقل ہوگیا ہے۔ ہائبرڈ ماڈل ایک فراڈ ہے۔ ہم صرف اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صرف تین میچ پاکستان میں ہونے ہیں۔ باقی سب میچ سری لنکا میں ہونے ہیں۔ کیونکہ بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔
جواب میں ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان کو عالمی کپ کھیلنے کے لیے بھارت جانے سے انکار کر دینا چاہیے۔جب بھارت ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آرہا تو ہمیں جانے کی کیا بے تابی ہے۔ لیکن حکومت پاکستان نے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی بنا دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سفارتی آداب برابری کے تعلقات کی بنیا دپر ہوتے ہیں۔ دو ممالک کے درمیان کوئی یک طرفہ تعلقات نہیں ہوتے۔ اگر بھارت کھیلنے کے لیے تیار نہیں اور ہم کھیلنے کے لیے تیار ہیں تو اسے کیا کہا جائے۔
ایک دوست کا موقف ہے کہ نہ کھیلنے کی شرط بھارت کی ہے۔ ہم نے تو نہیں لگائی۔ جب پاکستان کھیلنے سے انکار کرے گا تو بھارت کے موقف کی تائید کرے گا۔ اس لیے پاکستان کا موقف ہے کہ کرکٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ ہم کھیلنے کے حق میں ہیں۔ اس لیے ہمیں کھیلنا چاہیے۔
دوست کا موقف ہے کہ سفارتکاری کی کامیابی اپنے موقف پر قائم رہنا ہے دوسرے کے موقف کی حمایت کرنا کوئی کامیاب سفارتکاری نہیں۔ اس لیے دوست کا موقف ہے پاکستان کو جانا چاہیے، ڈنکے کی چوٹ پر بھارت میں کھیلنا چاہیے۔ دوست کا موقف ہے کہ پاکستان کا بھارت میں جا کر کھیلنا مودی کی جیت نہیں ہے بلکہ پاکستان کے موقف کی جیت ہے۔
میں نے پوچھا جب جانا ہی ہے تو یہ کمیٹی کیوں بنائی گئی ہے۔ تو مجھے بتایا گیا ہے کہ جانے پر کوئی ابہام نہیں۔ صرف کھیلنے کی جگہ پر ابہام ہے۔ بھارت نے پاک بھارت میچ گجرات کے شہر احمد آباد میں رکھا ہے۔ احمد آباد کا مودی اسٹیڈیم بھارت کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے۔ وہاں ایک لاکھ سے زائد شائقین کے آنے کی گنجائش موجود ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسٹیڈیم میں یہ میچ دیکھیں۔ اس لیے سب سے بڑے اسٹیڈیم کا انتخاب کیا گیا ہے۔
لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ گجرات کے احمد آباد اسٹیڈیم میں کھیلنا محفوظ نہیں۔ گجرات میں پہلے ہی مسلم کش فساد ہو چکے ہیں۔ وہاں انتہا پسند ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ وہاں کا ماحول ہندوا نتہا پسند ہے۔ اس لیے وہاں کھیلنا محفوظ نہیں۔ اگر پاکستان جیت رہا ہوگا تو فسا دہو جائیں گے اور ہار رہا ہوگا تب بھی فساد ہو سکتے ہیں۔ پاکستان شائقین بھی وہاں نہیں جا سکیں گے۔پاکستانی صحافیوں کا بھی وہاں جانا محفوظ نہیں۔
اس لیے پاکستان کی خواہش ہے کہ پاک بھارت میچ کا شہر تبدیل کر دیا جائے۔ پاکستان کلکتہ دہلی کے حق میں ہے۔ لیکن بھارت احمد آباد کے لیے بضد ہے۔ کیا بھارت پاکستان کے مطالبے پر جگہ تبدیل کرے گا۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ کیا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی چاہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم بھارت آئے۔
اگر مودی نہیں چاہتے تو وہ وینیو تبدیل نہیں کریں گے۔ اگر وہ چاہتے ہوںگے کہ ٹیم آئے تو فوری تبدیل کر دیں گے۔ لیکن پاکستان کے تحفظات کا علم ہونے کے باوجود بھی وینیو تبدیل نہیں کیا گیا۔ اب پاکستان کی اعلیٰ سطح سیکیورٹی ٹیم بھارت جائے گی، پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ پاکستان کو چنائی میں افغانستان کے ساتھ میچ پر بھی اعتراض ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ چنائی میں آسٹریلیا سے کھیلے۔ تا ہم یہاں بھی اب تک تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کرکٹ کا عالمی ادارہ آئی سی سی ایک کمزور تنظیم ہے۔ فٹ بال کی تنظیم کے پاس یہ اختیار ہے، اگر کوئی ٹیم کہیں کھیلنے سے انکار کر ے تو فیفا اس کی ممبر شپ معطل کر دی جاتی ہے اور پھر وہ ملک کوئی ٹورنامنٹ نہیں کھیل سکتا۔ آئی سی سی کے آئین میں ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔
بھارت اگر ایشیا کپ کھیلنے سے انکار بھی کر دے تو اس کی ممبر شپ معطل نہیں ہو سکتی، پاکستان بھی ورلڈ کپ کھیلنے سے انکار کر دے تب بھی پاکستان کی ممبر شپ معطل نہیں ہوگی۔ آئی سی سی کسی بھی رکن ملک اور ٹیم کو کھیلنے پر مجبور نہیں کر سکتی، اس کمزوری نے کرکٹ کو بھی کمزور کیا ہے۔
بہر حال میں سمجھتا ہوں جن ممالک کے درمیان جنگ جاری ہو، وہ بھی سفارتی تعلقات معطل نہیں کرتے۔ جنگوں میں بھی سفارتی تعلقات رہتے ہیں۔ ہم نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقا ت تقریباً ختم ہی کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے دلی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا، اس لیے بھارت نے بھی اسلام آباد سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ اگر ٹیم بھارت بھیجنی ہے تو سفیر بھی بھیجا جائے، بغیر سفیر کے ٹیم نہیں بھیجنی چاہیے۔