شیخ عبداللہ کی آتشِ چنار

وہ ایک آن بان سے بات کرتے تھے اور بہت کم مسکراتے تھے

zulfiqarcheema55@gmail.com

وہ سیاسی رہنما جنھوں نے غلام اور مظلوم کشمیریوں کے دلوں میں حریت اور آزادی کی شمع جلائی، شیخ عبداللہ ان میں ایک معتبر نام ہے۔

جس نے گھر میں غربت اور تنگدستی دیکھی، والدہ کو سوتیلے بیٹوں کے طعنوں اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنتے دیکھا، جو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے سرکاری وظیفے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا مگر ناکام رہا اور بالآخر جسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول باغ دلاور خان میں ساٹھ روپے ماہوار پر سائنس ٹیچر کی نوکری مل سکی۔

یہ نوجوان ماسٹر عبداللہ سے شیر کشمیر بنا اور پھر مقبوضہ کشمیر کی حکمرانی حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا اور پھر اسی ماسٹر عبداللہ کابیٹا(ڈاکٹر فاروق عبداللہ) وزیر اعلیٰ بنا اور پھر پوتا (عمر عبداللہ) بھی وزیر اعلیٰ بنا۔

یہ جاننے اور بہت سے اہم سوالوں کے جواب جاننے کے لیے میں نے شیخ عبداللہ کی خودنوشت ''آتش چنار'' بڑی دلچسپی سے پڑھی۔ جلسوں میں پُرسوز آواز میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والا اور کلامِ اقبال سے کشمیریوں کو آزادی کے جذبوں سے سرشار کرنے والا لیڈر تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر کانگریس کی گود میں کیسے جا بیٹھا۔ ''آتش چنار'' کے مطالعے سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ شیخ عبداللہ کو اگر کسی نے متاثر کیا تو وہ مشرق کے بے مثل شاعر علامہ اقبالؒ کا کلام ہے، حتٰی کہ انھوں نے اپنی خودنوشت کا عنوان بھی کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں کہے گئے اقبالؒ کے اس شعر سے لیا ہے :

جس خاک کے ضمیرمیں ہو آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

کتاب کا ابتدائیہ 'پیش گفتار' کے نام سے ان کی بیگم اکبر جہاں عبداللہ نے لکھا ہے۔ انھوں نے بھی اس کا اختتام اقبال ہی کے ایک شعر سے کیا ہے۔

بیسویں صدی کے نصف تک کشمیر پر راجہ ہری سنگھ حکمران تھا، جس کے مظالم کی چکی میں کشمیری کئی دھائیوں سے پِس رہے تھے۔ مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر نوجوان عبداللہ پکار اُٹھا کہ ''آخر ہم مسلمانوں نے ایسا کیا گناہ کیا ہے کہ ہمارے ساتھ اس قسم کا دل آزار سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

ریاست میں سب سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی، سرکاری خزانے کو بھرنے والے بھی وہی، پھر ان پر مظالم کی یہ تابڑ توڑ یلغار کیوں اور کب تک؟'' وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علاوہ اسلامیہ کالج لاہور میں بھی زیرِ تعلیم رہے اور اس دوران ریواز گارڈن ہوسٹل میں قیام پذیر رہے۔

قیامِ لاہور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے وہ پروفیسر دل محمد، شیخ عبدالقادر، سر محمد شفیع، بیگم شاہنواز اور میاں امیرالدّین وغیرہ کا بڑی عزت و احترام کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور پھر وہ اُس ہستی کا ذکر کرتے ہیں جس سے وہ سب سے زیادہ inspire ہوئے ۔ انھی کی زبانی سنیئے''لاہور میں اپنے زمانۂ قیام میں ، میں نے ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی شہرت بھی سنی۔ ان کے کلام سے میں پہلے ہی آشنا ہوچکا تھا اور کئی نظمیں تو مجھے ازبر تھیں۔

میں نے لاہور میں کشمیری دوستوں سے سناکہ علّامہ اقبال کشمیر کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور کشمیری مسلمانوں کی حالتِ زار سے وہ شدید ذہنی اضطراب میں مبتلا ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے علّامہ اقبالؒ کو پہلی بار انجمنِ حمایتِ اسلام کے ایک جلسے میں دیکھا جہاں انھوں نے اپنی نظم بڑے اثر آفرین لحن میں سنائی۔

ان کے کلام کا مفہوم اور پھر ان کی آواز کا جادو، میرا وجود موم کی شمع کی طرح ٹپ ٹپ پگھلنے لگا اور میں تاثیر کی کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا۔ اس وقت مجھے موہوم سا اندازہ ہوا کہ میٹھا لحن کس طرح سوئے ہوئے دلوں کو بیدار کر سکتا ہے اور کس طرح پتھروں کو موم بنا سکتا ہے۔ بعد میں کچھ دوستوں کے ساتھ علّامہ کے حضور حاضری دینے لگا، لیکن ہم سب ان کی پُر وقار شخصیّت سے اس قدر متاثر تھے کہ بہت عرصے تک صرف سنتے رہے اور اپنی طرف سے مجالِ سخن نہ لاسکے۔'' شیخ عبداللہ نے عملی سیاست کا آغاز لاہور کے ایک اخبار 'مسلم آؤٹ لک' میں خط لکھ کر کیا۔


اس کے بعد وہ چھوٹے چھوٹے جلسوں میں خوش الحانی سے تلاوت کرنے لگے اور پھر آہستہ آہستہ انھوں نے تقریریں کرنی شروع کردیں، اس بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ''میری تلاوت عوامی مجمعوں میں بڑی پسند کی جاتی تھی اور سامعین پر کلام کی تاثیر سے رقّت طاری ہوجاتی تھی، یہیں میں نے علامہ اقبالؒ کے حیات پرور اور حیات آفرین کلام کو پیش کرنا شروع کردیا۔

یہ کلام سیدھا عوام کے دلوں میں ترازو ہوجاتا تھا اور جلسہ ایک متلاطم سمندر کی طرح موجیں مارنے لگتا تھا اسی نوعیّت کے ایک جلسے کی روداد بیان کرتے ہوئے لاہور کے اخبار ''انقلاب'' نے میرے نام کے ساتھ 'شیرکشمیر' کا لقب بھی جوڑ دیا جو بعد میں ہماری تحریکِ حریت کا شناختی پرچم بن گیا'' یعنی انھیں شیرِ کشمیر کا لقب کشمیریوں نے نہیں پنجاب کے ایک صحافی عبدالمجید سالک نے دیا تھا۔

اکتوبر1932 میں انھوں نے آل جمہوں وکشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے باقاعدہ سیاسی جماعت قائم کرلی، شیخ عبداللہ جس کے صدر اور جموں کے انتہائی اعلیٰ کردار کے حامل رہنما چوہدری غلام عباس سیکریٹری جنرل چنے گئے۔

سیاسی پارٹی کے قیام کے بعد ان کے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آگئی، اپنی تیزی سے بڑھتی مقبولیت کے بارے میں لکھتے ہیں،''اب ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہماری تقریریں سننے کے لیے آنے لگے۔ قدرت نے مجھے خوش گلونی کی نعمت سے مالا مال کیا تھا۔

میں قرآن مجید کی مقدّس آیات اور علامہ اقبالؒ کے دلکش اشعار بڑی خوش الحانی سے پیش کرتا تھا، میرا یہ طرز عوام کو بہت بھا گیا تھا۔'' پارٹی کے سالانہ اجلاس کی روداد اس طرح تحریر کرتے ہیں ''مسلم کانفرنس کا دوسرا سالانہ اجلاس 17- 16- 15 دسمبر 1933 کو میر پور میں ہوا۔ اجلاس میں شرکت کے لیے ہم نے کشمیریوں کے مربی اور محسن عظیم شاعر حضرت علامہ اقبال کو بھی دعوت دی تھی۔

دعوت کا جواب انھوں نے میرے نام جو خط لکھا تھا اس میں انھوں نے ایک ماہر نباض کی طرح ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر لکھا کہ جب تک آپ آپس کے اختلاف ختم نہ کرلیں اس وقت تک کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔'' کچھ عرصے کے بعد جب شیخ جی کی گاندھی، نہرو او مولانا ابوالکلام آزاد کی طرف رغبت بڑھنے لگی توچوہدری غلام عباس اور ان کے ہم خیال رہنماؤں سے ان کے اختلافات ہوگئے اور انھوں نے نیشنل کانفرنس کے نام سے علیحدہ پارٹی بنالی اور مسلم کانفرنس کی قیادت چوہدری غلام عباس کے پاس چلی گئی۔

کشمیر کے ایک مقبول لیڈر ہونے کے ناتے ان کے برصغیر میں مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر محمد علی جناح صاحب کے ساتھ تعلقات کی نوعیّت کیا تھی؟ اس بارے میں انھوں نے کتاب میں 'محمد علی جناح اور ہم' کے عنوان سے ایک پورا باب تحریر کیا ہے۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے اس کے چند اقتباس شیئر کر رہا ہوں، لکھتے ہیں '' 1935 میں جناب محمد علی جناح سرینگر سیروتفریح کے لیے تشریف لائے تو وہ ایک ہندوستان گیر شخصیت کے مالک بن چکے تھے اور ان کی سیاسی قابلیّت کے ساتھ ان کی قانون دانی کا لوہا سب ہی مان چکے تھے، ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں ۔

انھی دنوں چیف جسٹس کی عدالت میں ایک اہم مقدمہ زیرِ سماعت تھا اس کے لیے میں اور مرزا افضل بیگ جناح صاحب کے ساتھ ان کے بوٹ ہاؤس میں ملے۔ یہ میری جناح صاحب سے پہلی ملاقات تھی، وہ نہایت صاف ستھرے انگریزی سُوٹ میں ملبوس تھے اگرچہ وہ دبلے پتلے تھے مگر ان کی آنکھوں میں ذہانت اور چہرے پر ایک قدرتی تمکنت تھی۔

وہ ایک آن بان سے بات کرتے تھے اور بہت کم مسکراتے تھے۔ بیگ صاحب سے مقدمے کی نوعیّت سن کر انھوں نے ایک ہزار روپیہ فی پیشی فِیس طلب کی، ہم نے فیس کم کرنے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا 'یہ بات میری پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی ہوگی۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'میں خیراتی کاموں کے لیے چندہ دے سکتا ہوں لیکن پیشہ ورانہ اصولوں کوقربان نہیں کرسکتا' معاملہ طے کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا..... جناح صاحب کی فاضلانہ بحث سننے کے لیے کمرۂ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، میں بھی تماشائیوں میں تھا جناح صاحب کی وکیلانہ موشگافیاں رنگ لائیں اور ایک بڑے ہی باریک اور لطیف نقطے کی تشریح پر وہ مقدمہ جیت گئے۔''

(جاری ہے)
Load Next Story