ڈیموکریٹس کی ڈیم ڈیم ڈیموکریسی

اس ڈیم ڈیم ڈیموکریسی کے موجد یا بانی نے جو ڈیماکریسی پیش کی تھی وہ کتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہے

barq@email.com

ایک زمانے میں یونان دانشور پیداکرنے میں اتنا مشہورتھاجتنا آج کل پاکستان ہے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا، یونان میں عام آدمی کا پیداہونا بریکنگ نیوز ہوا کرتی تھی، لوگ عام آدمی کے دیکھنے کو ترس ترس جاتے تھے اور یونانی لوگ عام آدمی دیکھنے کے لیے باہر سے امپورٹ کرتے تھے، یوں سمجھ لیجیے کہ یونان میں عام آدمی اتنا ہی ناپید تھا جتنا پاکستان میں کوئی ایسا آدمی پیدا کرنا جو لیڈر یا دانشور نہ ہو۔

یہ دانشوردن رات سوچ سوچ کر ایسے فلسفے ایجاد کرتے تھے جو نوع انسان کوکسی نہ کسی طرح مبتلائے عذاب کرتے تھے ۔علمائے تاریخ نے ان دانشوروںکوقبیلہ (ق، ط) سے بتایا ہے جسے سقراط، بقراط، دمیقراط ،طمطراق ،دیوقراط وغیرہ لیکن پھر ان میں جو سب سے بڑا ''قراط'' تھا اورجس نے نوع انسانی کومبتلائے عذاب کرنے کے لیے بڑے تباہ کار فارمولے ایجاد کیے ہیں، اس کا نام ''دمیقراط'' تھا جسے خود یونان والے ''ڈیماکریٹس'' کہتے تھے۔

اس کا ایک فارمولا تو ''ایٹم''کاہے اوردوسرا جمہوریت کاجو پہلے پہل ''ڈیماکریسی'' کہلاتا تھا لیکن عربوں نے اسے مغرب کی جمہوریت بنادیا ہے،جو پہلی بلا یعنی ایٹم سے بھی زیادہ تباہ کار ہے ۔

وہ ایک لطیفہ ہے نا کہ ایک بدمعاش نے ایک شریف آدمی سے کہا، میری بات مان لو کیونکہ میں پہلے سمجھاتا ہوں، پھر مارتا ہوں ، ورنہ میرابھائی آگیا تو وہ پہلے مارتا ہے اور بعد میں سمجھاتا بھی نہیں۔ لہٰذا اس ڈیماکریٹس یا دمیقراط نامی دانشورکی پہلی بلا ایٹم سے، یہ دوسری والی بلاجمہوریت کئی گنا زیادہ تباہ کار ہے ۔

امریکا نے جاپان پر ایٹم بم مارے لیکن جاپان پر قبضہ نہ کرسکا لیکن یہ دوسرے والا بم جس ملک پر مارا جاتاہے، اس پر مکمل قبضہ کرکے اس کا ککھ نہیں چھوڑتا۔ اپنے پاکستان کو دیکھیے، جمہوریت کے بم نے اس کا کیا حشر کیاہوا ہے ۔اس دوسری بلا کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی ملا کر ایک نئی آفت بنائی جاسکتی ہے چنانچہ اس وقت دنیا میں ایک ہزار ایک سو ایک اقسام کی ''جمہورتیں'' چل رہی ہیں۔ شاہی جمہوریت، صدارتی جمہوریت، پارلیمانی جمہوریت، ناگہانی جمہوریت، ناگمانی جمہوریت، گھومانی جمہوریت، ہندوستانی جمہوریت ،افغانستانی مجاہدانی جمہوریت۔

پاکستان میں جو جمہویت رائج ہے، اسے ''سلیکٹڈ'' جمہوریت کہاجاتا ہے، اس میں ایسے لوگ الیکٹ ہوتے ہیں جو پہلے سلیکٹڈ ہوتے ہیں یعنی اس ''رادھا'' کو صرف وہی نچا سکتے ہیں جن کے پاس ''نومن'' تیل ہوتاہے۔

دمیقراط نے تو اپنی جمہوریت کافلسفہ ایک جملے میں یوں پیش کیاتھا کہ عوام پر عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے ۔لیکن مجبوری یہ ہے کہ پاکستان میں عوام ہوتے ہی نہیں یہاں یا تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسان سے بہت اونچے اورآسمان سے تھوڑا کم ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو انسان سے بہت ہی کم اورجانور سے تھوڑا زیادہ ہوتے ہیں۔


ان کی صرف شکلیں انسانوں سے ملتی ہیں لیکن ہوتے نہیں، اسے لیے ان کو عوام کالانعام کہا جاتاہے، یہ ایک قسم کے انڈے دیتے ہیں جن کو ووٹ کہا جاتاہے لیکن ان کا یہ ''اکیلاچنا'' کوئی بھی بھاڑ جھونک نہیں سکتا، اس لیے ان کے انڈے کسی نہ کسی اشراف کی ٹوکری میں ہوتے ہیں اور وہ اشراف ان ٹوکریوں کو مناسب مارکیٹوں میں گراں قیمت پر بیچتے رہتے ہیں لیکن یہ ٹوکریاں بھی آسانی سے نہیں بھری جاسکتیں ،مطلب یہ کہ یہ کسی عوامی کے بس کی بات نہیں بلکہ صرف وہی لوگ اسے جمع کرسکتے ہیں جن کے پاس مال بھی ہو اورکمال بھی ہو۔

مطلب یہ کہ پہلے ہی جدی پشتی سلیکٹ لوگ ہی اس کاروبار میں چلتے ہیں۔ اس غرض سے کہ کوئی ہماشمااس میں الیکٹ نہ ہو، اس کے لیے پہلے سے سلیکشن ہوچکی ہوتی ہے ۔ ویسے یہ سلیکٹڈ کالفظ ابھی ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی منظر عام پر آیا ہے ورنہ یہ عمل ایک زمانے سے اورخاص طور پر پاکستانی جمہوریت کی ''جان'' اور بنیاد ہے ۔

بات وہی رادھا اورنومن تیل کی ہے جس کے پاس نومن تیل ہوگا وہی اس رادھا عرف جمہوریت کو اپنے آنگن میں نچا سکتاہے۔ چاہے یہ نو من تیل آباؤ اجداد کی وفاداریوں سے جمع کیاگیا ہو یا عوا م کالانعام کے وجود سے کشید کیاگیا ہو یا باپ دادا کی عبادتوں کو کیش کرکے جمع کیاگیاہو لیکن تیل ضروری ہے جو آج کے نرخوں کے حساب سے کروڑوں کا ہوتاہے ۔ظاہر ہے کہ جو خود تیل کے تل ہوں، وہ کیا تیل جمع کریں گے اور کیا رادھا نچائیں گے چنانچہ اس سلیکٹڈ جمہوریت میں صرف پہلے سے بلکہ صدیوں سے سلیکٹ شدہ لوگ اور خاندان ہی حصہ لے سکتے ہیں۔

اس لیے اس جمہوریت کا ایک نام خاندانی جمہوریت بھی ہے جس طرح خاندانی حکیم ہوتے ہیں، خاندانی عامل کامل ہوتے ہیں، خاندانی پیرومرشد ہوتے ہیں، خاندانی جراح ہوتے ہیں ،خاندانی ملا اور اخون ہوتے ہیں بلکہ خاندانی اہل رباب و رقص بھی ہوتے ہیں۔

ہمارے ریڈیو کے زمانے میں ایک ہارمونیم بجانے والا بھی خاندانی مشہور تھا کیوں کہ اس کا قول تھا کہ ہم چار پیڑیوں سے ہارمونیم بجارہے ہیں لیکن مجال ہے جو کبھی کسی پرائی رقاصہ کے ساتھ بجایا ہو، ہمیشہ اپنے خاندان کی رقصاؤں کے ساتھ بجایاہے ۔

بہرحال بتانا یہ ہے کہ اس ڈیم ڈیم ڈیموکریسی کے موجد یا بانی نے جو ڈیماکریسی پیش کی تھی وہ کتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہے۔

گھرسے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش

غم راہ میں کھڑے تھے وہی ساتھ ہولیے
Load Next Story