بھارت میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں مزید 10 مسلمان جاں بحق ہلاکتوں کی تعداد 32 ہوگئی
ریاستی حکومت نے علاقے میں گشت کےلئے فوج اور نیم فوجی دستوں کی 10کمپنیاں بھی طلب کی ہیں جبکہ علاقے میں کرفیونافذ ہے۔
بھارتی ریاست آسام میں مقامی قبائل کی مسلح تنظیم نے حامی جماعت کو ووٹ نہ دینے پر مزید 10 مسلمانوں کو قتل کردیا جس کے نتیجے میں گزشتہ 3 روز میں جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 32 ہوگئی ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ریاست آسام کے ضلع کوکراجھاراور باسکا میں آباد مسلمانوں کے خلاف گزشتہ 3 روز سے مسلح کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، آج بھی باسکا کے علاقے نارائن گڑی سے مزید 8 لاشیں ملی ہیں جن میں 6 بچے اور 2 خواتین شامل ہیں جبکہ کاگراباری سے 2 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں، یہ تمام کے تمام افراد مسلمان ہیں، جس کے بعد گزشتہ 3 روز کے دوران دونوں اضلاع میں ہلاک کئے گئے مسلمانوں کی تعداد 32 ہوگئی ہے۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مسلسل کارروائیوں کے بعد نارائن گڑی کے مکین مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے جبکہ حکومت نے متاثرہ علاقے میں گشت کے لئے فوج کی مدد حاصل کرلی اور مرکز سے نیم فوجی دستوں کی 10 کمپنیاں بھی طلب کی گئی ہیں جبکہ علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
آسام کے وزیر برائے ترقی و سرحدی امور صدیق احمد کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی ہلاکتوں میں انتہاسند باغی گروپ بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ ملوث ہے جو ریاست میں برسراقتدار حکومت کی اتحادی ہے، انہوں نے کہا کہ 30 اپریل کو اس جماعت کی رہنما پرامیلا رانی براہنما نے کہا تھا کہ بھارتی میں جاری پارلیمانی انتخابات کے دوران علاقے کے مسلمانوں نے ان کے حامی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ دوسری جانب بی پی ایف کے سربراہ ہنگراما موہیلا ری نے ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے لوگوں کو پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
واضح رہے کہ دو برس قبل بھی مقامی قبائل اور وہاں مقیم مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے جن میں درجنوں مسلمان جاں بحق ہوگئے تھے۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ریاست آسام کے ضلع کوکراجھاراور باسکا میں آباد مسلمانوں کے خلاف گزشتہ 3 روز سے مسلح کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، آج بھی باسکا کے علاقے نارائن گڑی سے مزید 8 لاشیں ملی ہیں جن میں 6 بچے اور 2 خواتین شامل ہیں جبکہ کاگراباری سے 2 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں، یہ تمام کے تمام افراد مسلمان ہیں، جس کے بعد گزشتہ 3 روز کے دوران دونوں اضلاع میں ہلاک کئے گئے مسلمانوں کی تعداد 32 ہوگئی ہے۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مسلسل کارروائیوں کے بعد نارائن گڑی کے مکین مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے جبکہ حکومت نے متاثرہ علاقے میں گشت کے لئے فوج کی مدد حاصل کرلی اور مرکز سے نیم فوجی دستوں کی 10 کمپنیاں بھی طلب کی گئی ہیں جبکہ علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
آسام کے وزیر برائے ترقی و سرحدی امور صدیق احمد کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی ہلاکتوں میں انتہاسند باغی گروپ بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ ملوث ہے جو ریاست میں برسراقتدار حکومت کی اتحادی ہے، انہوں نے کہا کہ 30 اپریل کو اس جماعت کی رہنما پرامیلا رانی براہنما نے کہا تھا کہ بھارتی میں جاری پارلیمانی انتخابات کے دوران علاقے کے مسلمانوں نے ان کے حامی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ دوسری جانب بی پی ایف کے سربراہ ہنگراما موہیلا ری نے ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے لوگوں کو پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
واضح رہے کہ دو برس قبل بھی مقامی قبائل اور وہاں مقیم مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے جن میں درجنوں مسلمان جاں بحق ہوگئے تھے۔