بھارتی انتخابی دنگل
بھارت میں جاری عام انتخابات کے نتائج پاک بھارت تعلقات پرگہرے اثرات مرتب کریں گے۔
KARACHI:
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں انتخابی دنگل جاری ہے اور چھ ہفتوں پر محیط انتخابات میں اکیاسی کروڑ سے زائد رائے دہندگان اپنے ووٹ کا حق استعمال کر رہے ہیں۔مختلف سروے اور رائے عامہ سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار بھارتی جنتا پارٹی کے امیدوار نریندر مودی کی کامیابی کا عندیہ دے رہے ہیں جنہیں ایک سخت گیر ، ہندو انتہا پسند، قوم پرست اور قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔
نریندر مودی بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں اور اس حوالے سے وہ کئی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ تنازعات کابھی شکار رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ گجرات کی حیثیت سے ان کو ہندووں اور مسلمانوں کے بیچ فرقہ ورانہ فسادات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ ریاست گجرات میں معاشی استحکام اور اربوں ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری بھی انہی کے کارنامے تصور کئے جاتے ہیں۔
پاکستان بھارت میں ہونے والے انتخابات اور اس کے ممکنہ نتائج کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے اور اس حوالے سے عوام و خواص نریندر مودی کی ممکنہ کامیابی پر تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت اب تک چار جنگیں لڑ چکے ہیں جن کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف لاکھوں فوجیوں کی موجودگی اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آج بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔بھارت کے آئین کے مطابق جموں اور کشمیر کوبھارت میں ایک نیم خود مختار ریاست کی حیثیت حاصل ہے تاہم نریندر مودی آئینی ترمیم کے ذریعے اسکی نیم خودمختاری کی حیثیت ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ اقدام یقینی طور پر پاکستان میں اشتعال پیدا کریگا جس کے نتیجے میں چند ریاستی و غیر ریاستی ادارےرد عمل ظاہر کر سکتے ہیں۔
نریندر مودی ماضی میں کئی مواقعوں پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر چکے ہیں۔ اور اگر مودی اپنے خطرناک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آگے بڑھے تو یقینا یہ قدم خطے کے امن و استحکام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک گجراتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی نے داود ابراہیم کو پکڑنے کے لئے ایبٹ آباد طرز کے آپریشن کا عندیہ دیا، جس کے جواب میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے انہیں پاکستان کوڈرانے دھمکانے کے خواب سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور خصوصا مسلمان دشمنی میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ تاہم تجزیہ نگار نریندر موددی کے اس بیان کو بھارتی انتخابات کے تناظر میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ایک انتخابی بڑھک قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے قومی سلامتی کے امور کے مشیر سرتاج عزیز نے محتاط رد عمل دیا اور خطے میں امن و استحکام کے لئے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نریندر مودی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھارتی جنتا پارٹی کے سابق رہنما اور وزیر اعظم اٹل بیہاری واجپائی کے راستے کو اپنائیں گے اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرینگے۔
میرے خیال میں بھارت میں جاری عام انتخابات کے نتائج پاک بھارت تعلقات پرگہرے اثرات مرتب کرینگے۔ دونوں ممالک کو امن، استحکام، معاشی بہتری اور سماجی انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے لئے جنگ و جدل کی کیفیت سے باہر آنا ہوگا۔ عالمی تناظر میں بدلتے حالات اب دونوں ممالک سے ذمہ داری اور ہوش مندی دکھانے کے متقاضی ہیں۔کیا بھارت کے آئندہ وزیر اعظم معاشی ترقی کے راستے کو اپناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرینگے؟ یا انتہاپسند عناصر کو خوش کرنے کے لئے جنوبی ایشیاء کے امن کو داو پر لگا دینگے؟ اب اس سوال کا جواب تو آنے والے چند ہفتوں میں ہی حاصل ہو سکے گا۔ میں اور آپ تو صرف پاک بھارت تعلقات کے خوش آئند رہنے کی ہی دعا اور توقع کرسکتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں انتخابی دنگل جاری ہے اور چھ ہفتوں پر محیط انتخابات میں اکیاسی کروڑ سے زائد رائے دہندگان اپنے ووٹ کا حق استعمال کر رہے ہیں۔مختلف سروے اور رائے عامہ سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار بھارتی جنتا پارٹی کے امیدوار نریندر مودی کی کامیابی کا عندیہ دے رہے ہیں جنہیں ایک سخت گیر ، ہندو انتہا پسند، قوم پرست اور قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔
نریندر مودی بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں اور اس حوالے سے وہ کئی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ تنازعات کابھی شکار رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ گجرات کی حیثیت سے ان کو ہندووں اور مسلمانوں کے بیچ فرقہ ورانہ فسادات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ ریاست گجرات میں معاشی استحکام اور اربوں ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری بھی انہی کے کارنامے تصور کئے جاتے ہیں۔
پاکستان بھارت میں ہونے والے انتخابات اور اس کے ممکنہ نتائج کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے اور اس حوالے سے عوام و خواص نریندر مودی کی ممکنہ کامیابی پر تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت اب تک چار جنگیں لڑ چکے ہیں جن کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف لاکھوں فوجیوں کی موجودگی اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آج بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔بھارت کے آئین کے مطابق جموں اور کشمیر کوبھارت میں ایک نیم خود مختار ریاست کی حیثیت حاصل ہے تاہم نریندر مودی آئینی ترمیم کے ذریعے اسکی نیم خودمختاری کی حیثیت ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ اقدام یقینی طور پر پاکستان میں اشتعال پیدا کریگا جس کے نتیجے میں چند ریاستی و غیر ریاستی ادارےرد عمل ظاہر کر سکتے ہیں۔
نریندر مودی ماضی میں کئی مواقعوں پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر چکے ہیں۔ اور اگر مودی اپنے خطرناک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آگے بڑھے تو یقینا یہ قدم خطے کے امن و استحکام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک گجراتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی نے داود ابراہیم کو پکڑنے کے لئے ایبٹ آباد طرز کے آپریشن کا عندیہ دیا، جس کے جواب میں پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے انہیں پاکستان کوڈرانے دھمکانے کے خواب سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور خصوصا مسلمان دشمنی میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ تاہم تجزیہ نگار نریندر موددی کے اس بیان کو بھارتی انتخابات کے تناظر میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ایک انتخابی بڑھک قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے قومی سلامتی کے امور کے مشیر سرتاج عزیز نے محتاط رد عمل دیا اور خطے میں امن و استحکام کے لئے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نریندر مودی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھارتی جنتا پارٹی کے سابق رہنما اور وزیر اعظم اٹل بیہاری واجپائی کے راستے کو اپنائیں گے اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرینگے۔
میرے خیال میں بھارت میں جاری عام انتخابات کے نتائج پاک بھارت تعلقات پرگہرے اثرات مرتب کرینگے۔ دونوں ممالک کو امن، استحکام، معاشی بہتری اور سماجی انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے کے لئے جنگ و جدل کی کیفیت سے باہر آنا ہوگا۔ عالمی تناظر میں بدلتے حالات اب دونوں ممالک سے ذمہ داری اور ہوش مندی دکھانے کے متقاضی ہیں۔کیا بھارت کے آئندہ وزیر اعظم معاشی ترقی کے راستے کو اپناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرینگے؟ یا انتہاپسند عناصر کو خوش کرنے کے لئے جنوبی ایشیاء کے امن کو داو پر لگا دینگے؟ اب اس سوال کا جواب تو آنے والے چند ہفتوں میں ہی حاصل ہو سکے گا۔ میں اور آپ تو صرف پاک بھارت تعلقات کے خوش آئند رہنے کی ہی دعا اور توقع کرسکتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔