چینی اتنی بھی خطرناک غذا نہیں
جدید سائنسی تحقیق نے انکشاف کیا کہ گلوکوز کی عدم موجودگی میں ہمارا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے
آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ رواج چل نکلا ہے کہ ہر قسم کی ''شوگر'' (sugar) سے پرہیز کیا جائے، مثلاً شکر اور چینی! اس کی وجہ معالجین کا یہ دعوی ہے کہ شوگر کی سبھی اقسام خطرناک بیماریاں مثلاً ذیابیطس، امراض قلب، موٹاپا حتی کہ کینسر پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
مگر یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ دراصل شکر، چینی اور شوگر کی دیگر اقسام اسی وقت انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں جب انھیں حد سے زیادہ استعمال کیا جائے۔
تب یقیناوہ انسان کو متفرق بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں۔لیکن ان کا اعتدال سے استعمال انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتا ... بلکہ حال ہی میں یہ زبردست انکشاف ہوا ہے کہ جو انسان شوگر والی غذائیں بہت کم کھائے، اس کے سر پہ کسی بھی وقت مرنے کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔ جی ہاں، سائنسی نقطہ نظر سے یہ بات درست ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (National Academy of Sciences) سائنس و طب کے شعبوں میں تحقیق کرنے والا امریکا کا ممتاز سائنسی ادارہ ہے۔ یہ ایک ہفتہ وار رسالہ ''پی این اے ایس'' (PNAS) شائع کرتا ہے۔ چند ماہ قبل رسالے میں نیشنل اکیڈمی آف سائنسز سے وابستہ طبی سائنس دانوں کی ایک چشم کشا تحقیق شائع ہوئی۔
اس میں انکشاف کیا گیا کہ انسان کا مدافعتی نظام (immune system) اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرتا ہے جب اسے شوگر کی ایک قسم ''گلوکوز'' مطلوبہ مقدار میں ملتی رہے۔ یہ گلوکوز چینی یا شکر، دونوں میں موجود ہوتا ہے۔
سائنسی تحقیق کی رو سے انسان کے مدافعتی نظام کو اگر مطلوبہ گلوکوز نہ ملے تو وہ ناکارہ اور بیکار ہونے لگتا ہے۔
یہ نہایت خطرناک صورت حال ہے کیونکہ انسان کو یہی نظام ہر قسم کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔اگر یہ نظام کمزور ہو جائے تو انسان ترنت کسی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔یہی نہیں، بیماری اگر موذی ہو تو وہ بہت جلد انسان کو قبر میں اتار دیتی ہے کہ کمزور مدافعتی نظام اس کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔
شوگر کیا ہے؟
شوگر کی چند اقسام ہیں جن میں سب سے زیادہ ''چینی'' (White sugar) مشہور ہے جو گنے یا چقندر سے بنائی جاتی ہے۔ شوگر کی تمام قسمیں خود کاربوہائڈریٹ کا ایسا حصہ ہیں جو مٹھاس رکھتی ہیں۔ جبکہ کاربوہائڈریٹ میں شوگر کا خاندان ''سکہریڈی'' (saccharide) نامی قبیلے میں شامل ہے جس کے دیگر ارکان نشاستہ (starch) اور سیلولوز (cellulose)ہیں۔
یہ ''سکہریڈی'' ہی انسان سمیت دنیا کے تمام جانداروں (حیوانیات و نباتات) میں توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کے بعد پروٹین اور چکنائی (fat) جانداروں کو توانائی فراہم کرنے والے ایندھن ہیں۔
گلوکوز، فروکٹوز اور گلاکٹوز شوگر کی بنیادی اقسام ہیں۔ یہ تینوں اقسام پھر مل کر مذید نئی قسمیں تشکیل دیتی ہیں جن میں سکروز(گلوکوز اور فروکٹوز)، لیکٹوز (گلوکوز اور گلاکٹوز)اور مالٹوز(گلوکوز کے دو خامرے یعنی مالیکیول) مشہور ہیں۔ ''چینی'' سکروز کی ریفائنڈ شکل ہے، معنی یہ کہ کارخانے میں سکروز سے سارا ''راب'' نکال لیا جاتا ہے۔ جس سرکوز سے راب نہ نکالا جائے، اسے ہمارے ہاں ''شکر'' کہتے ہیں۔
چینی اور شکر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آخر الذکر میں بعض معدنیات مثلاً فولاد، میگنیشم اور کیلشیم پائی جاتی ہیں۔ چینی میں وٹامن اور معدن بالکل نہیں ہوتے، وہ صرف گلوکوز کی شکل میں توانائی (energy) فراہم کرتی ہے۔ مگر یہی توانائی تب انسان کی قیمتی زندگی بھی بچا سکتی ہے جب اس کے جسم میں گلوکوز شوگرکی شدید کمی واقع ہو جائے۔
انسانی خلیوں کو گلوکوز چاہیے
وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کے اربوں خلیے گلوکوز کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ تبھی وہ کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور انسان اپنی روزمرہ سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ انسانی خلیے پروٹین اور چکنائی سے بھی ایندھن پاتے ہیں۔ مگر انسان کاربوہائڈریٹ وافر کھاتے ہیں، اسی لیے انھیں گلوکوز بھی وافر ملتا ہے۔ اس باعث کروڑوں برس کے ارتقائی مراحل سے گذر کر انسانی خلیوں کا بنیادی ایندھن گلوکوز بن چکا جو آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔
خاص طور پہ ہمارے دماغ کے خلیوں (نیورونز)کو گلوکوز نہ ملے تو وہ ناکارہ ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے دماغ کو چاق و چوبند رکھنے میں گلوکوز مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ گلوکوز کو ہمارا جسم گلایکوجن کی شکل میں جگر اور عضلات میں ذخیرہ بھی کرتا ہے۔
گلوکوز چینی کا حصہ ہے۔ لہذا انسانی جسم میں گلوکوز کی شدید کمی واقع ہو جائے تو بظاہر غذائیات (nutrients) سے عاری چینی بھی انسان کی جان بچانے کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک تو وہ انسانی بدن کے بادشاہ، دماغ کو فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔ دوسرے وہ انسان کے محافظ، مدافعتی نظام کو بھی تقویت دینے کا سبب بن جاتی ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے طبی سائنس دانوں کی تحقیق نے اسی دوسرے امر کو زیادہ نمایاں کر دیا۔ یہ مگر یاد رہے، چینی صرف اسی وقت استعمال کی جائے جب گلوکوز فراہم کرنے والی دیگر کاربوہائڈریٹ غذائیں یعنی اناج، پھل، سبزیاں اور دالیں دستیاب نہ ہوں۔ان کی موجودگی میں انھیں ترجیح دی جائے کہ وہ اپنے اندر گلوکوز کے علاوہ وٹامن اور معدنیات بھی رکھتی ہیں۔
ہمارا مدافعتی نظام
انسان کا مدافعتی نظام کئی اقسام کے خلیوں پر مشتمل ہے۔جب انسانی جسم میں کوئی وائرس، جرثومہ یا بیماری پیدا کرنے والا کوئی بھی بیرونی حملہ آور داخل ہو تو یہ خلیے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ وہ پھر اسے مارنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔
اگر مدافعتی خلیے کسی وجہ سے طاقتور نہ رہیں تو حملہ آور انھیں شکست دے کر انسان کو بیماری کا شکار بنا دیتا ہے۔انسان میں مدافعتی نظام کمزور ہو جائے تو ظاہر ہے، وہ امراض کا نشانہ بن کر قبل از وقت دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔نیز اسے بہت تکلیف سہنا پڑتی ہے۔ زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
انسانی جسم میں تقریباً آدھے مدافعتی خلیے لمفی غدود (lymph node) میں بسیرا کرتے ہیں۔ یہ غدود ہمارے مدافعتی نظام کا حصہ ہیں۔ یہ پورے جسم میں پھیلے ہیں مثلاً گردن، بازو، ٹانگوں اور پیٹ میں۔ ان غدود کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں گلوکوز سے بھرپور لمفی مواد ہمیشہ موجود رہتا ہے جو خون سے ملتا جلتا مادہ ہے۔ یوں لمفی غدود میں مقیم مدافعتی خلیوں کو مسلسل گلوکوز ملتا رہتا ہے اور وہ چاق و چوبند رہتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی وائرس یا جرثومہ بدن میں داخل ہو، وہ اس پہ جھپٹ پڑتے ہیں۔
ہمارے مدافعتی خلیوں کی بقیہ آدھی تعداد بافتوں (ٹشوز) مثلاً آنتوں میں قیام پذیر ہے۔ ٹی خلیے مدافعتی خلیوں کی نمایاں قسم ہے۔ ان کی تو 90 فیصد مقدار بافتوں میں پائی جاتی ہے۔ بافتوں میں لمفی مواد نہیں ہوتا لہذا خلیوں کو مسلسل گلوکوز نہیں مل پاتا۔ خون انھیں وقتاً فوقتاً گلوکوز فراہم کرتا ہے۔ مگر جب انسان شکر والی غذائیں کم کھانے لگے تو خون میں گلوکوز کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔
یوں مدافعتی خلیے فوری توانائی فراہم کرنے والے اپنے ایندھن سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی انسان کے جسم میں چکنائی اور پروٹین کی بھی کمی ہے تو صورت حال نہایت سنگین اور گھمبیر ہو جاتی ہے کیونکہ مدافعتی خلیوں کو دیگر دو ذرائع ایندھن سے بھی باآسانی توانائی نہیں مل پاتی۔
بیماریوں کا حملہ
درج بالا سچائی سے واضح ہے کہ جو انسان کاربوہائڈریٹ والی غذائیں کم کھانے لگے، اس کے جسم میں شکر کی کمی کے باعث آدھے مدافعتی خلیے کمزور ہو جاتے ہیں۔
خدانخواستہ کسی کے بدن میں چکنائی اور پروٹین کی بھی کمی ہو تو صورت حال خطرناک ہو جاتی ہے۔ اب لمفی غدود میں بستے مدافعتی خلیوں کو بھی ایندھین کی کمی کی وجہ سے مطلوبہ توانائی میّسر نہیں آتی اور وہ بھی ناکارہ وبیکار ہونے لگتے ہیں۔
اس حالت میں یہ امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ انسان کسی بیماری کا نشانہ بن جائے گا کیونکہ اس کے مدافعتی نظام کے خلیے کمزور و ناتواں ہونے کی بنا پر حملہ آور وائرسوں، جراثیم وغیرہ کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ چناں چہ کوئی طاقتور وائرس یا جرثومہ انھیں شکست دے کر انسان کو بیمار کر ڈالتا ہے۔
بیماری کی حالت میں بھی کوئی مریض کاربوہائڈریٹ (شکر) والی غذائیں نہ کھائے تو یہ گویا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔کیونکہ گلوکوز کی کمی کے باعث مدافعتی خلیے بدستور کمزور رہتے ہیں۔
بیمار اگر چکنائی یا پروٹین والی غذائیں کھا بھی لے تو مدافعتی خلیے زیادہ طاقتور نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کا بنیادی ذریعہ ایندھن گلوکوز ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں بیمار جلد تندرست نہیں ہو پاتا کہ مدافعتی خلیے ناتواں رہتے ہیں۔
ماہرین غذائیات کے نزدیک سالم اناج ، آلو اور دالوں میں پایا جانے والا نشاستہ گلوکوز کا عمدہ ذریعہ ہے۔ (نشاستہ شوگر سے مختلف ہے کہ میٹھا نہیں ہوتا) وجہ یہ کہ شوگر والی میٹھی غذائیں جیسے پھل اور سبزیاں اور شکر وچینی انسان کے خون میں گلوکوز کی مقدار تیزی سے بڑھا دیتی ہیں۔
گلوکوز کنٹرول کرنے کے لیے پھر ہمارا پتّا انسولین ہارمون خارج کرتا ہے۔اگر انسان متواتر بڑی تعداد میں شوگر والی غذائیں کھاتا رہے تو اس کے جسم میں گلوکوز کنٹرول کرنے والا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ تب خون میں گلوکوز کی سطح ہر وقت بلند رہنے لگتی ہے۔یہ ایک خطرناک حالت ہے جو اہم جسمانی اعضا (دل ، گردوں، پھیپھڑوں ، دل)کو نقصان پہنچاتی ہے۔طبی اصطلاح میں یہ حالت''ذیابیطس''کہلاتی ہے۔
لیکن جیسا کہ بتایا گیا، بعض صورتوں میں چینی جیسی بظاہر فضول غذا بھی کارآمد بلکہ زندگی بخش بن جاتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب انسان کے جسم میں گلوکوز، چکنائی اور پروٹین، تینوں ذرائع ایندھن کی کمی واقع ہو جائے۔
تب انسان چینی کھاکر اپنے جسم کے دو اہم نظاموں ... دماغ اور مدافعتی خلیوں کو گلوکوز فراہم کر سکتا ہے۔ یوں وہ توانائی پا کر اپنے کام بہتر انداز میں کرنے لگتے ہیں۔ تب چینی انسان کے لیے مثل آب حیات بن جاتی ہے۔
کئی مرد و زن کے مدافعتی نظام اٹکل پچو غذائیں کھانے کی وجہ سے کمزور ہو جاتے ہیں مگر انھیں اس آفت کا احساس نہیں ہوتا۔ مثلاً پاکستان سمیت کئی ملکوں میں لوگ روٹی، چاول اور دیگر اناج سے پرہیز کرنے لگے ہیں کہ ان سے شوگر بڑھ جاتی ہے۔
حالانکہ یہی اناج انسان کو نشاستہ (اور گلوکوز) فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو مدافعتی نظام کو عمدہ رکھتا ہے۔
یہی لوگ اکثر عام بیماری کا شکار ہو کر آناً فاناً چل بستے ہیں اور ان کے دوست احباب حیران و پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو بھلا چنگا تھا، اچانک اسے کیا ہوا۔ وہ نہیں جانتے کہ مرنے والے کی موت کا ذمے دار کمزور مدافعتی نظام تھا جو گلوکوز کی عدم موجودگی سے رفتہ رفتہ کمزور ہونے لگتا ہے۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ اپنی غذا سے روٹی، چاول، مکئی، آلو حتی کہ میدے اور چینی کو بھی بالکل ہی خارج نہ کریں بلکہ اعتدال سے یہ اشیا استعمال کریں۔ یوں آپ کے جسم کو گلوکوز کی مطلوبہ مقدار ملتی رہے گی۔ اس طرح آپ کے دو اہم ترین جسمانی نظام ... دماغی اور مدافعتی تندرست و توانا رہیں گے۔ یوں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ آپ کو موذی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ صحت ہی اللہ تعالی کی عطا کردہ سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے۔
مگر یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ دراصل شکر، چینی اور شوگر کی دیگر اقسام اسی وقت انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں جب انھیں حد سے زیادہ استعمال کیا جائے۔
تب یقیناوہ انسان کو متفرق بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں۔لیکن ان کا اعتدال سے استعمال انسانی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتا ... بلکہ حال ہی میں یہ زبردست انکشاف ہوا ہے کہ جو انسان شوگر والی غذائیں بہت کم کھائے، اس کے سر پہ کسی بھی وقت مرنے کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔ جی ہاں، سائنسی نقطہ نظر سے یہ بات درست ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (National Academy of Sciences) سائنس و طب کے شعبوں میں تحقیق کرنے والا امریکا کا ممتاز سائنسی ادارہ ہے۔ یہ ایک ہفتہ وار رسالہ ''پی این اے ایس'' (PNAS) شائع کرتا ہے۔ چند ماہ قبل رسالے میں نیشنل اکیڈمی آف سائنسز سے وابستہ طبی سائنس دانوں کی ایک چشم کشا تحقیق شائع ہوئی۔
اس میں انکشاف کیا گیا کہ انسان کا مدافعتی نظام (immune system) اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرتا ہے جب اسے شوگر کی ایک قسم ''گلوکوز'' مطلوبہ مقدار میں ملتی رہے۔ یہ گلوکوز چینی یا شکر، دونوں میں موجود ہوتا ہے۔
سائنسی تحقیق کی رو سے انسان کے مدافعتی نظام کو اگر مطلوبہ گلوکوز نہ ملے تو وہ ناکارہ اور بیکار ہونے لگتا ہے۔
یہ نہایت خطرناک صورت حال ہے کیونکہ انسان کو یہی نظام ہر قسم کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔اگر یہ نظام کمزور ہو جائے تو انسان ترنت کسی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔یہی نہیں، بیماری اگر موذی ہو تو وہ بہت جلد انسان کو قبر میں اتار دیتی ہے کہ کمزور مدافعتی نظام اس کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔
شوگر کیا ہے؟
شوگر کی چند اقسام ہیں جن میں سب سے زیادہ ''چینی'' (White sugar) مشہور ہے جو گنے یا چقندر سے بنائی جاتی ہے۔ شوگر کی تمام قسمیں خود کاربوہائڈریٹ کا ایسا حصہ ہیں جو مٹھاس رکھتی ہیں۔ جبکہ کاربوہائڈریٹ میں شوگر کا خاندان ''سکہریڈی'' (saccharide) نامی قبیلے میں شامل ہے جس کے دیگر ارکان نشاستہ (starch) اور سیلولوز (cellulose)ہیں۔
یہ ''سکہریڈی'' ہی انسان سمیت دنیا کے تمام جانداروں (حیوانیات و نباتات) میں توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کے بعد پروٹین اور چکنائی (fat) جانداروں کو توانائی فراہم کرنے والے ایندھن ہیں۔
گلوکوز، فروکٹوز اور گلاکٹوز شوگر کی بنیادی اقسام ہیں۔ یہ تینوں اقسام پھر مل کر مذید نئی قسمیں تشکیل دیتی ہیں جن میں سکروز(گلوکوز اور فروکٹوز)، لیکٹوز (گلوکوز اور گلاکٹوز)اور مالٹوز(گلوکوز کے دو خامرے یعنی مالیکیول) مشہور ہیں۔ ''چینی'' سکروز کی ریفائنڈ شکل ہے، معنی یہ کہ کارخانے میں سکروز سے سارا ''راب'' نکال لیا جاتا ہے۔ جس سرکوز سے راب نہ نکالا جائے، اسے ہمارے ہاں ''شکر'' کہتے ہیں۔
چینی اور شکر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آخر الذکر میں بعض معدنیات مثلاً فولاد، میگنیشم اور کیلشیم پائی جاتی ہیں۔ چینی میں وٹامن اور معدن بالکل نہیں ہوتے، وہ صرف گلوکوز کی شکل میں توانائی (energy) فراہم کرتی ہے۔ مگر یہی توانائی تب انسان کی قیمتی زندگی بھی بچا سکتی ہے جب اس کے جسم میں گلوکوز شوگرکی شدید کمی واقع ہو جائے۔
انسانی خلیوں کو گلوکوز چاہیے
وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کے اربوں خلیے گلوکوز کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ تبھی وہ کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور انسان اپنی روزمرہ سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ انسانی خلیے پروٹین اور چکنائی سے بھی ایندھن پاتے ہیں۔ مگر انسان کاربوہائڈریٹ وافر کھاتے ہیں، اسی لیے انھیں گلوکوز بھی وافر ملتا ہے۔ اس باعث کروڑوں برس کے ارتقائی مراحل سے گذر کر انسانی خلیوں کا بنیادی ایندھن گلوکوز بن چکا جو آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔
خاص طور پہ ہمارے دماغ کے خلیوں (نیورونز)کو گلوکوز نہ ملے تو وہ ناکارہ ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے دماغ کو چاق و چوبند رکھنے میں گلوکوز مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ گلوکوز کو ہمارا جسم گلایکوجن کی شکل میں جگر اور عضلات میں ذخیرہ بھی کرتا ہے۔
گلوکوز چینی کا حصہ ہے۔ لہذا انسانی جسم میں گلوکوز کی شدید کمی واقع ہو جائے تو بظاہر غذائیات (nutrients) سے عاری چینی بھی انسان کی جان بچانے کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک تو وہ انسانی بدن کے بادشاہ، دماغ کو فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔ دوسرے وہ انسان کے محافظ، مدافعتی نظام کو بھی تقویت دینے کا سبب بن جاتی ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے طبی سائنس دانوں کی تحقیق نے اسی دوسرے امر کو زیادہ نمایاں کر دیا۔ یہ مگر یاد رہے، چینی صرف اسی وقت استعمال کی جائے جب گلوکوز فراہم کرنے والی دیگر کاربوہائڈریٹ غذائیں یعنی اناج، پھل، سبزیاں اور دالیں دستیاب نہ ہوں۔ان کی موجودگی میں انھیں ترجیح دی جائے کہ وہ اپنے اندر گلوکوز کے علاوہ وٹامن اور معدنیات بھی رکھتی ہیں۔
ہمارا مدافعتی نظام
انسان کا مدافعتی نظام کئی اقسام کے خلیوں پر مشتمل ہے۔جب انسانی جسم میں کوئی وائرس، جرثومہ یا بیماری پیدا کرنے والا کوئی بھی بیرونی حملہ آور داخل ہو تو یہ خلیے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ وہ پھر اسے مارنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں۔
اگر مدافعتی خلیے کسی وجہ سے طاقتور نہ رہیں تو حملہ آور انھیں شکست دے کر انسان کو بیماری کا شکار بنا دیتا ہے۔انسان میں مدافعتی نظام کمزور ہو جائے تو ظاہر ہے، وہ امراض کا نشانہ بن کر قبل از وقت دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔نیز اسے بہت تکلیف سہنا پڑتی ہے۔ زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
انسانی جسم میں تقریباً آدھے مدافعتی خلیے لمفی غدود (lymph node) میں بسیرا کرتے ہیں۔ یہ غدود ہمارے مدافعتی نظام کا حصہ ہیں۔ یہ پورے جسم میں پھیلے ہیں مثلاً گردن، بازو، ٹانگوں اور پیٹ میں۔ ان غدود کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں گلوکوز سے بھرپور لمفی مواد ہمیشہ موجود رہتا ہے جو خون سے ملتا جلتا مادہ ہے۔ یوں لمفی غدود میں مقیم مدافعتی خلیوں کو مسلسل گلوکوز ملتا رہتا ہے اور وہ چاق و چوبند رہتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی وائرس یا جرثومہ بدن میں داخل ہو، وہ اس پہ جھپٹ پڑتے ہیں۔
ہمارے مدافعتی خلیوں کی بقیہ آدھی تعداد بافتوں (ٹشوز) مثلاً آنتوں میں قیام پذیر ہے۔ ٹی خلیے مدافعتی خلیوں کی نمایاں قسم ہے۔ ان کی تو 90 فیصد مقدار بافتوں میں پائی جاتی ہے۔ بافتوں میں لمفی مواد نہیں ہوتا لہذا خلیوں کو مسلسل گلوکوز نہیں مل پاتا۔ خون انھیں وقتاً فوقتاً گلوکوز فراہم کرتا ہے۔ مگر جب انسان شکر والی غذائیں کم کھانے لگے تو خون میں گلوکوز کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔
یوں مدافعتی خلیے فوری توانائی فراہم کرنے والے اپنے ایندھن سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی انسان کے جسم میں چکنائی اور پروٹین کی بھی کمی ہے تو صورت حال نہایت سنگین اور گھمبیر ہو جاتی ہے کیونکہ مدافعتی خلیوں کو دیگر دو ذرائع ایندھن سے بھی باآسانی توانائی نہیں مل پاتی۔
بیماریوں کا حملہ
درج بالا سچائی سے واضح ہے کہ جو انسان کاربوہائڈریٹ والی غذائیں کم کھانے لگے، اس کے جسم میں شکر کی کمی کے باعث آدھے مدافعتی خلیے کمزور ہو جاتے ہیں۔
خدانخواستہ کسی کے بدن میں چکنائی اور پروٹین کی بھی کمی ہو تو صورت حال خطرناک ہو جاتی ہے۔ اب لمفی غدود میں بستے مدافعتی خلیوں کو بھی ایندھین کی کمی کی وجہ سے مطلوبہ توانائی میّسر نہیں آتی اور وہ بھی ناکارہ وبیکار ہونے لگتے ہیں۔
اس حالت میں یہ امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ انسان کسی بیماری کا نشانہ بن جائے گا کیونکہ اس کے مدافعتی نظام کے خلیے کمزور و ناتواں ہونے کی بنا پر حملہ آور وائرسوں، جراثیم وغیرہ کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ چناں چہ کوئی طاقتور وائرس یا جرثومہ انھیں شکست دے کر انسان کو بیمار کر ڈالتا ہے۔
بیماری کی حالت میں بھی کوئی مریض کاربوہائڈریٹ (شکر) والی غذائیں نہ کھائے تو یہ گویا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔کیونکہ گلوکوز کی کمی کے باعث مدافعتی خلیے بدستور کمزور رہتے ہیں۔
بیمار اگر چکنائی یا پروٹین والی غذائیں کھا بھی لے تو مدافعتی خلیے زیادہ طاقتور نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کا بنیادی ذریعہ ایندھن گلوکوز ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں بیمار جلد تندرست نہیں ہو پاتا کہ مدافعتی خلیے ناتواں رہتے ہیں۔
ماہرین غذائیات کے نزدیک سالم اناج ، آلو اور دالوں میں پایا جانے والا نشاستہ گلوکوز کا عمدہ ذریعہ ہے۔ (نشاستہ شوگر سے مختلف ہے کہ میٹھا نہیں ہوتا) وجہ یہ کہ شوگر والی میٹھی غذائیں جیسے پھل اور سبزیاں اور شکر وچینی انسان کے خون میں گلوکوز کی مقدار تیزی سے بڑھا دیتی ہیں۔
گلوکوز کنٹرول کرنے کے لیے پھر ہمارا پتّا انسولین ہارمون خارج کرتا ہے۔اگر انسان متواتر بڑی تعداد میں شوگر والی غذائیں کھاتا رہے تو اس کے جسم میں گلوکوز کنٹرول کرنے والا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ تب خون میں گلوکوز کی سطح ہر وقت بلند رہنے لگتی ہے۔یہ ایک خطرناک حالت ہے جو اہم جسمانی اعضا (دل ، گردوں، پھیپھڑوں ، دل)کو نقصان پہنچاتی ہے۔طبی اصطلاح میں یہ حالت''ذیابیطس''کہلاتی ہے۔
لیکن جیسا کہ بتایا گیا، بعض صورتوں میں چینی جیسی بظاہر فضول غذا بھی کارآمد بلکہ زندگی بخش بن جاتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب انسان کے جسم میں گلوکوز، چکنائی اور پروٹین، تینوں ذرائع ایندھن کی کمی واقع ہو جائے۔
تب انسان چینی کھاکر اپنے جسم کے دو اہم نظاموں ... دماغ اور مدافعتی خلیوں کو گلوکوز فراہم کر سکتا ہے۔ یوں وہ توانائی پا کر اپنے کام بہتر انداز میں کرنے لگتے ہیں۔ تب چینی انسان کے لیے مثل آب حیات بن جاتی ہے۔
کئی مرد و زن کے مدافعتی نظام اٹکل پچو غذائیں کھانے کی وجہ سے کمزور ہو جاتے ہیں مگر انھیں اس آفت کا احساس نہیں ہوتا۔ مثلاً پاکستان سمیت کئی ملکوں میں لوگ روٹی، چاول اور دیگر اناج سے پرہیز کرنے لگے ہیں کہ ان سے شوگر بڑھ جاتی ہے۔
حالانکہ یہی اناج انسان کو نشاستہ (اور گلوکوز) فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو مدافعتی نظام کو عمدہ رکھتا ہے۔
یہی لوگ اکثر عام بیماری کا شکار ہو کر آناً فاناً چل بستے ہیں اور ان کے دوست احباب حیران و پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو بھلا چنگا تھا، اچانک اسے کیا ہوا۔ وہ نہیں جانتے کہ مرنے والے کی موت کا ذمے دار کمزور مدافعتی نظام تھا جو گلوکوز کی عدم موجودگی سے رفتہ رفتہ کمزور ہونے لگتا ہے۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ اپنی غذا سے روٹی، چاول، مکئی، آلو حتی کہ میدے اور چینی کو بھی بالکل ہی خارج نہ کریں بلکہ اعتدال سے یہ اشیا استعمال کریں۔ یوں آپ کے جسم کو گلوکوز کی مطلوبہ مقدار ملتی رہے گی۔ اس طرح آپ کے دو اہم ترین جسمانی نظام ... دماغی اور مدافعتی تندرست و توانا رہیں گے۔ یوں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ آپ کو موذی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ صحت ہی اللہ تعالی کی عطا کردہ سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے۔