طالبان خواتین اور ترقی
افغانستان میں2021 میں تبدیلی آئی، افغانستان کے صدر اشرف غنی کابل چھوڑ کر چلے گئے
افغانستان میں طالبان حکومت نے خواتین سے میک اپ کرنے کا حق بھی چھین لیا۔ ملا ہیبت اﷲ اخونزادہ کی اسلامک امارات حکومت نے افغانستان میں تمام بیوٹی پارلرز پر پابندی لگادی ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں پاکستان، سعودی عرب، قطر اور انڈونیشیا سے مذہبی اسکالرز نے طالبان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ طالبان حکومت اپنی عمل داری میں خواتین کے تعلیم اور روزگار کے حق کو تسلیم کرے۔
لڑکیوں کو اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح لڑکیوں کے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کا حق تسلیم کیا جائے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ نے ایک خبر رساں ایجنسی کے نمایندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ ، خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے نمایندہ مسٹر موزٹل کا بیانیہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے طالبان کو آمادہ کرنے کے لیے مسلمان ممالک کے اسکالرز سے تعاون کی استدعا کی تھی جس کا مثبت ردعمل سامنے آیا۔ مسلمان ممالک کی تنظیم اسلامی تعاون کی تنظیم O.I.C کے وفد نے طالبان حکومت کے زعماء سے مذاکرات کیے ہیں۔
اس وفد میں پاکستان، سعودی عرب اور قطر کے علماء شامل تھے جب کہ ان میں ایک عالمہ بھی تھیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ نے یہ بھی کہا ہے کہ فوری طور پر افغانستان کی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ مسٹر موزٹل کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کے معاملہ میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔
مسٹر موزٹل نے جو کابل میں مقیم ہیں کا واضح کہنا ہے کہ دنیا بھر میں افغانستان ہیروئن پیدا کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے مگر طالبان حکومت یہ دعویٰ ضرور کرتی ہے کہ ہیروئن کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی پوست کی فصل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور افغانستان کی حکومت کے اقدامات کے نتیجہ میں پوست کی کاشت کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔
افغانستان میں2021 میں تبدیلی آئی، افغانستان کے صدر اشرف غنی کابل چھوڑ کر چلے گئے۔ طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ طالبان جب امریکا اور اتحادی فوج کے خلاف جنگ میں مصروف تھے تو دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے رہنما نے یہ بیانیہ اختیار کیا تھا کہ طالبان میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
اب امریکا اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ نوجوان امریکا کے خلاف جنگ کو کمانڈ کر رہے ہیں اور اب طالبان کی حکومت دوبارہ کابل پر قائم ہوئی تو خواتین اور غیر مسلم افغان شہریوں کے خلاف مذہبی پالیسیاں بھی تبدیل ہوجائیں گی۔
طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو پہلی اسلامی امارات کے خلیفہ ملا عمر دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ اب ہیبت اﷲ اخونزادہ کی امارات میں حکومت قائم ہوگئی تھی۔ ہیبت اﷲ کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ فوجی کمانڈ کے علاوہ قرآن اور حدیث کے عالم بھی ہیں۔ طالبان حکومت کے ترجمان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے بیانیہ میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے حق میں نرم رویہ اختیار کیا۔
افغان حکومت نے پہلے یہ حکم دیا کہ یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات ایک کلاس روم میں تعلیم حاصل نہیں کریں گے۔ اس کے بعد خواتین کے لباس کے بارے میں نئی ہدایات دی گئیں۔ جیسے جیسے حکومت کی پورے افغانستان پر عمل داری قائم ہوتی گئی افغان حکومت کا ایک رجعت پسند چہرہ سیاسی منظر نامہ پر ابھر کر سامنے آنے لگا۔ افغان حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ طالبات کے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
طالبان کے خواتین بارے اس رویہ کو ساری دنیا میں پسند نہیں کیا گیا۔ امریکا، یورپی ممالک اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد بند کر دی۔ صرف سابق وزیر اعظم عمران خان واحد رہنما تھے جنھوں نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کا اپنا کلچر ہے۔
اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان سے علماء کا ایک وفد کابل گیا اور طالبان حکومت کے پالیسی بنانے والے ادارہ نے اراکین کو خواتین کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے دلائل دیے مگر پاکستانی علماء کا یہ وفد طالبان کو قائل کرنے میں کامیاب نہ رہا۔ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے منفی نتائج نکلنا شروع ہوگئے۔
افغانستان کے وہ شہری جو امراء کے طبقہ میں شامل تھے ان خاندانوں کے افراد یورپ اور امریکا چلے گئے، جو نہیں گئے وہ اس جستجو میں لگ گئے۔
متوسط طبقہ نے بھی راہِ فرار اختیار کی۔ بہت سے خاندان پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک چلے گئے اور جن لوگوں کو موقع ملا انھوں نے یورپ، امریکا اور کینیڈا کی راہ لی۔ افغانستان کے میڈیکل کالجوں میں سیکڑوں پاکستانی طالبات بھی زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ طالبات گھروں کو لوٹ آئیں اور یہ مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ انھیں پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں داخلے دیے جائیں مگر افغانستان کی آبادی کی اکثریت کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہوئے۔
خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کا مطلب غربت و افلاس کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ وکی پیڈیا پر دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی 85 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچی زندگی گزار رہی ہے اور 40 ملین افراد کی زندگیوں کا دارومدار اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسیوں کی امداد پر ہے۔
بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے اس سال 4.6 بلین ڈالر کی امداد دی ہے جو ضرورت مند لوگوں کی ضروریات کے لیے انتہائی کم ہے۔اپنے پہلے دور میں طالبان نے رجعت پسند پالیسیاں نافذ کیں جس کے نتیجہ میں خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔
طالبان کی تحریک کے اثرات پاکستان پر بڑھے۔ طالبان نے منظم طور پر قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں خواتین کے اسکولوں کو تباہ کرنا شروع کیا۔ اس دوران کئی خواتین اساتذہ اور خواتین سماجی کارکن قتل کردی گئیں۔
یہ وہ وقت تھا جب افغانستان سے پناہ لے کر بہت سی روشن خیال خواتین پشاور میں آباد ہوئیں۔ ان خواتین نے ایک انجمن بنائی۔ اس انجمن کی عہدیدار خواتین کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔
سوات میں ملالہ یوسفزئی کا یہ قصور تھا کہ اس نے خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھائی۔ دائیں بازو کی جماعتیں اور نام نہاد دانشور طالبان نے کارناموں کو عظیم کارنامے گنواتے تھے۔ جب امریکا اور اتحادیوں کے حملہ سے طالبان حکومت ختم ہوئی تو حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین پر تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کے دروازے کھل گئے۔
بہت سی طالبات اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان اور بھارت کے علاوہ یورپی ممالک اور امریکا گئیں، یوں ایک مڈل کلاس وجود میں آئی مگر طالبان کے دوبارہ کابل پر قبضہ سے صورتحال پھر خراب ہوگئی۔ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا اور خواتین کے لیے ترقی کے تمام دروازے بند ہوئے، افغانستان پھر ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔
ادھر اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں پاکستان، سعودی عرب، قطر اور انڈونیشیا سے مذہبی اسکالرز نے طالبان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ طالبان حکومت اپنی عمل داری میں خواتین کے تعلیم اور روزگار کے حق کو تسلیم کرے۔
لڑکیوں کو اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح لڑکیوں کے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کا حق تسلیم کیا جائے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ نے ایک خبر رساں ایجنسی کے نمایندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ ، خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے نمایندہ مسٹر موزٹل کا بیانیہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے طالبان کو آمادہ کرنے کے لیے مسلمان ممالک کے اسکالرز سے تعاون کی استدعا کی تھی جس کا مثبت ردعمل سامنے آیا۔ مسلمان ممالک کی تنظیم اسلامی تعاون کی تنظیم O.I.C کے وفد نے طالبان حکومت کے زعماء سے مذاکرات کیے ہیں۔
اس وفد میں پاکستان، سعودی عرب اور قطر کے علماء شامل تھے جب کہ ان میں ایک عالمہ بھی تھیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ نے یہ بھی کہا ہے کہ فوری طور پر افغانستان کی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ مسٹر موزٹل کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کے معاملہ میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔
مسٹر موزٹل نے جو کابل میں مقیم ہیں کا واضح کہنا ہے کہ دنیا بھر میں افغانستان ہیروئن پیدا کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے مگر طالبان حکومت یہ دعویٰ ضرور کرتی ہے کہ ہیروئن کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی پوست کی فصل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور افغانستان کی حکومت کے اقدامات کے نتیجہ میں پوست کی کاشت کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔
افغانستان میں2021 میں تبدیلی آئی، افغانستان کے صدر اشرف غنی کابل چھوڑ کر چلے گئے۔ طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ طالبان جب امریکا اور اتحادی فوج کے خلاف جنگ میں مصروف تھے تو دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے رہنما نے یہ بیانیہ اختیار کیا تھا کہ طالبان میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
اب امریکا اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ نوجوان امریکا کے خلاف جنگ کو کمانڈ کر رہے ہیں اور اب طالبان کی حکومت دوبارہ کابل پر قائم ہوئی تو خواتین اور غیر مسلم افغان شہریوں کے خلاف مذہبی پالیسیاں بھی تبدیل ہوجائیں گی۔
طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو پہلی اسلامی امارات کے خلیفہ ملا عمر دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ اب ہیبت اﷲ اخونزادہ کی امارات میں حکومت قائم ہوگئی تھی۔ ہیبت اﷲ کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ فوجی کمانڈ کے علاوہ قرآن اور حدیث کے عالم بھی ہیں۔ طالبان حکومت کے ترجمان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے بیانیہ میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے حق میں نرم رویہ اختیار کیا۔
افغان حکومت نے پہلے یہ حکم دیا کہ یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات ایک کلاس روم میں تعلیم حاصل نہیں کریں گے۔ اس کے بعد خواتین کے لباس کے بارے میں نئی ہدایات دی گئیں۔ جیسے جیسے حکومت کی پورے افغانستان پر عمل داری قائم ہوتی گئی افغان حکومت کا ایک رجعت پسند چہرہ سیاسی منظر نامہ پر ابھر کر سامنے آنے لگا۔ افغان حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ طالبات کے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
طالبان کے خواتین بارے اس رویہ کو ساری دنیا میں پسند نہیں کیا گیا۔ امریکا، یورپی ممالک اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد بند کر دی۔ صرف سابق وزیر اعظم عمران خان واحد رہنما تھے جنھوں نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کا اپنا کلچر ہے۔
اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان سے علماء کا ایک وفد کابل گیا اور طالبان حکومت کے پالیسی بنانے والے ادارہ نے اراکین کو خواتین کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے دلائل دیے مگر پاکستانی علماء کا یہ وفد طالبان کو قائل کرنے میں کامیاب نہ رہا۔ افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے منفی نتائج نکلنا شروع ہوگئے۔
افغانستان کے وہ شہری جو امراء کے طبقہ میں شامل تھے ان خاندانوں کے افراد یورپ اور امریکا چلے گئے، جو نہیں گئے وہ اس جستجو میں لگ گئے۔
متوسط طبقہ نے بھی راہِ فرار اختیار کی۔ بہت سے خاندان پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک چلے گئے اور جن لوگوں کو موقع ملا انھوں نے یورپ، امریکا اور کینیڈا کی راہ لی۔ افغانستان کے میڈیکل کالجوں میں سیکڑوں پاکستانی طالبات بھی زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ طالبات گھروں کو لوٹ آئیں اور یہ مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ انھیں پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں داخلے دیے جائیں مگر افغانستان کی آبادی کی اکثریت کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہوئے۔
خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کا مطلب غربت و افلاس کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ وکی پیڈیا پر دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی 85 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچی زندگی گزار رہی ہے اور 40 ملین افراد کی زندگیوں کا دارومدار اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسیوں کی امداد پر ہے۔
بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے اس سال 4.6 بلین ڈالر کی امداد دی ہے جو ضرورت مند لوگوں کی ضروریات کے لیے انتہائی کم ہے۔اپنے پہلے دور میں طالبان نے رجعت پسند پالیسیاں نافذ کیں جس کے نتیجہ میں خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔
طالبان کی تحریک کے اثرات پاکستان پر بڑھے۔ طالبان نے منظم طور پر قبائلی علاقوں کے علاوہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں خواتین کے اسکولوں کو تباہ کرنا شروع کیا۔ اس دوران کئی خواتین اساتذہ اور خواتین سماجی کارکن قتل کردی گئیں۔
یہ وہ وقت تھا جب افغانستان سے پناہ لے کر بہت سی روشن خیال خواتین پشاور میں آباد ہوئیں۔ ان خواتین نے ایک انجمن بنائی۔ اس انجمن کی عہدیدار خواتین کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔
سوات میں ملالہ یوسفزئی کا یہ قصور تھا کہ اس نے خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھائی۔ دائیں بازو کی جماعتیں اور نام نہاد دانشور طالبان نے کارناموں کو عظیم کارنامے گنواتے تھے۔ جب امریکا اور اتحادیوں کے حملہ سے طالبان حکومت ختم ہوئی تو حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین پر تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کے دروازے کھل گئے۔
بہت سی طالبات اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان اور بھارت کے علاوہ یورپی ممالک اور امریکا گئیں، یوں ایک مڈل کلاس وجود میں آئی مگر طالبان کے دوبارہ کابل پر قبضہ سے صورتحال پھر خراب ہوگئی۔ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا اور خواتین کے لیے ترقی کے تمام دروازے بند ہوئے، افغانستان پھر ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔