لیپ ٹاپ بمقابلہ لنگر خانہ

شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا ایک شفاف نظام بنایا تھا

msuherwardy@gmail.com

آجکل وزیر اعظم شہباز شریف ملک بھر میں نوجوانوں میں میرٹ پر لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں۔ ان کے لیپ ٹاپ تقسیم کر نے کی تقاریب میں نوجوانوں کی جانب سے انھیں بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ نوجوان لیپ ٹاپ لے کر خوش ہیں۔

کسی ایک نوجوان نے بھی وزیر اعظم شہباز شریف یا حکومت پاکستان سے لیپ ٹاپ لینے سے انکار نہیں کیا۔

میں ذاتی طور پر بھی اس اسکیم کے حق میں ہوں۔ آج کے دور میں لیپ ٹاپ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ غریب نہیں مڈل کلاس لوگ بھی اپنے بچوں کو لیپ ٹاپ لے کر دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جہاں اب گریجویشن کی سطح کی تعلیم کے لیے بھی لیپ ٹاپ ناگزیر ہو گیا ہے وہاں اس کی قیمت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ لیپ ٹاپ صرف اعلیٰ تعلیم کے لیے ضروری نہیں بلکہ گریجویشن کی سطح پر بھی اس کی ضرورت ہے۔ بلکہ انٹر کی سطح پر بھی اس کی ضرورت نظر آتی ہے۔ اس کے بغیر تعلیم جاری رکھنا مشکل ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ بچے لیپ ٹاپ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی تعلیم کا نقصان بھی کرتے ہیں۔ لیکن والدین اس کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

پاکستان کا سوشل میڈیا بھی کمال ہے۔ کبھی کبھی وہاں ایسا ایسا حسب حال تبصرہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے سب حیران رہ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ چل رہی ہے جہاں ایک طرف سابق وزیر اعظم لنگر خانوں کا افتتاح کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں۔ لکھنے والے نے کمال لکھا ہے کہ ایک طرف لنگر خانہ کھل رہے تھے دوسری طرف لیپ ٹاپ تقسیم ہو رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تبصرہ غلط نہیں ہے۔

عمران خان کی حکومت نے شہباز شریف کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی اسکیم بند کر دی تھی۔ بلکہ انھوں نے تو بچوں کو اسکالر شپ دینے کی انڈومنٹ فنڈ کی اسکیم بھی بند کر دی تھی۔ یہ سب کوئی نوجوانوں کی دشمنی میں کیا گیا تھا یا شہباز شریف کی دشمنی میں کیا گیا تھا۔ یہ طے کرنا مشکل ہے۔

شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا ایک شفاف نظام بنایا تھا۔ میٹرک کی سطح پر نتائج میں نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دیے جاتے تھے۔ ایک شفاف نظام تھا کہ جس بچے کے نوے فیصد نمبر ہونگے اسے حکومت کی جانب سے لیپ ٹاپ دیا جائے گا۔ جن بچوں کے نوے فیصد یا اس سے زائد نمبر تھے ان کو گھر پر لیپ ٹاپ مل جاتے تھے۔

انھیں لیپ ٹاپ دینے کے لیے متعلقہ بورڈز میں تقاریب منعقد ہوتی تھیں۔ جہاں آسانی سے رزلٹ کارڈ دیکھ کر انھیں لیپ ٹاپ دیے جاتے تھے۔ کسی سفارش کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اب بھی یہی نظام بنایا گیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے لائق بچوں کو ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جن بچوں میں آگے جانے کا دم ہے انھیں آگے نکلنے کے لیے حکومت کو مدد کرنی چاہیے۔

جو لائق ہیں انھیں نہ صرف اسکالر شپ دینے چاہیے بلکہ لیپ ٹاپ سمیت تمام وسائل حکومت کو دینے چاہیے تاکہ ان کا میرٹ اور لیاقت ضایع نہ ہو جائے۔کوئی بھی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے نہ رہ جائے۔ والدین کی غربت کسی کے آگے نکلنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ یہ ہر حکومت کا فرض ہونا چاہیے۔ نوجوانوں کے لیے اسکیموں کو بند کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔


لاہور کے ایک نوجوان کا بھی آجکل بہت شور ہے۔ شہباز شریف کے دور وزارت اعلیٰ میں اس نوجوان نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔

بلکہ تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ یہ نوجوان اس وقت بھی زندگی گزارنے کے لیے ایک تندور پر روٹیاں لگاتا تھا۔ زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے اس کے لیے کام کرنا ناگزیر تھا۔ میٹرک کرنے پر اپنے انٹرویو میں اس نے کہا تھا کہ اس نے تندور پر کام کے دوران پڑھ کر میٹرک پاس کیا ہے۔ وہ آگے پڑھنا چاہتا تھا۔

میاں شہباز شریف نے جب میٹرک میں پوزیشن لینے پر اسے اسکالر شپ دیا تو مجھے یاد ہے اس نے میاں شہباز شریف سے کہا تھا کہ وہ پڑھنا چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اسے وسائل دیے اسکالر شپ دیے آج وہ لاہور کے ایک کالج میں لیکچرر ہے۔

وہ کامیابی کی ایک داستان ہے۔ اگر سرکار مدد نہ کرتی تو وہ آج بھی کسی تندور پر روٹیاں ہی لگا رہا ہوتا۔ جب سرکار نوجوانوں کی مدد کرتی ہے تو ایک نسل کی زندگی بدل جاتی ہے۔اسی طرح ایک نوجوان نے لیپ ٹاپ وصول کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس لیپ ٹاپ کے ملنے سے ملک کا وزیر اعظم بھی بن سکتا ہے۔

اس ایک فقرہ میں ساری کہانی موجود ہے کہ اس نوجوان کے لیے یہ لیپ ٹاپ کتنا اہم ہے کہ وہ یہ ملنے کے بعد ملک کا وزیر اعظم بننے کے خواب کو عملی جامہ پہناتا دیکھ رہا ہے۔ شہباز شریف نے اس کی خواہش کے بعد اسے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا کر اس کا حوصلہ بڑھایا ہے۔

لنگر خانوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن لنگر خانوں اور لیپ ٹاپ کے موازنے میں لیپ ٹاپ کو برتری حاصل ہے۔ حکومت کو وسائل وہیں استعمال کرنا چاہیے جہاں اس کے نتائج بہتر ہوں۔ تعلیمی وظائف اور لیپ ٹاپ پاکستان کو ایک پڑھی لکھی قوم دے سکتے ہیں۔ آج ہمیں اپنی نوجوان نسل سے شکوہ ہے کہ ایک تو وہ بہت بدتمیز ہو گئی ہے۔

دوسرا وہ اپنے مستقبل سے نا امید نظر آتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں اپنی نوجوان نسل میں ایک غصہ نظر آتا ہے۔ ایک ماحول بن رہا ہے کہ نوجوان نسل کو پاکستان میں اپنا کوئی مستبقل نظر نہیں آرہا ہے۔ اسی لیے سب باہر جانا چاہتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر نوجوانوں کے باہر جانے کے خلاف نہیں ہوں۔ ہمارے پاس بہت نوجوان ہیں۔ ہمیں پڑھے لکھے نوجوان باہر بھیجنے چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر اور انجینئر بہت باہر جا رہے ہیں۔ کیا ایسا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹر اور انجینئر کم ہو گئے ہیں۔

کیا ایسا ہے کہ حکومت نے ڈاکٹروں اور انجینئر کی بھرتی کے لیے اشتہار دیے ہوں اور کوئی آیا ہی نہیں۔ آج بھی ایک نوکری کے لیے ہزاروں نوجوان درخواست دیتے ہیں۔ اس لیے اگر ہمارے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ انجینئر اور ڈاکٹر ہیں تو انھیں باہر بھیجنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں کوئی برین ڈرین ہو رہا ہے۔

آپ بھارت کی مثال دیکھیں وہاں کے پڑھے لکھے نوجوان جب باہر گئے ہیں تو انھوں نے اپنا ہی نہیں بھارت کا بھی نام بنایا ہے۔

ہم نے ماضی میں پڑھے لکھے نوجوان کم باہر بھیجے ہیں۔ صرف ڈاکٹر گئے وہ امریکا میں فعال نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد میں اضافے سے نہ صرف پاکستان کو بیرون ممالک سے زر مبادلہ کی ترسیلات میں اضافہ ہوگا۔ بلکہ ملک کی نیک نامی بھی ہوگی۔ اس حوالے سے پراپیگنڈے کو نظر انداز کرنا چاہیے۔
Load Next Story