اکبر اعظم کے نو رتن پہلا حصہ
زیادہ تر تذکروں میں فقیر عذی الدین کا نام بطور نو رتن کے ملتا ہے
جلال الدین محمد اکبرکے نام سے بھلا کون واقف نہیں، شاہان مغلیہ کا تیسرا شہنشاہ، جسے اکبر دی گریٹ اور اکبر اعظم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ایک ایسی شخصیت تھا جس میں طاقت، دانائی، منصوبہ بندی اور طاقت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، اکبر نے کم و بیش پچاس برس ہندوستان پر بلاشرکت غیرے حکومت کی اور اپنی حکمت عملی سے ہر بغاوت کوکچل دیا، اکبر نصیر الدین ہمایوں اور حمیدہ بانو بیگم کی اولاد تھا، بابر جو مغلیہ سلطنت کا بانی تھا، اکبرکا دادا تھا۔
اس کا دور امن اور خوشحالی کا دور تھا، وہ 1542 میں سندھ کے ایک مقام امرکوٹ میں پیدا ہوا تھا (اب اس جگہ کو عمر کوٹ کہتے ہیں) جس وقت اکبر پیدا ہوا، اس وقت ہمایوں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں دلی کی سلطنت کھوکر مارا مارا پھر رہا تھا، اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ اپنے بیٹے کی پیدائش پر اپنے ساتھیوں میں مٹھائی تقسیم کرتا، جیب میں صرف مشک نافہ تھا وہی نکال کر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا اور بیٹے کے لیے دعا کرنے کو کہا، ایک مصاحب نے کہا ''گھبرائیے مت حضور! شہزادے کا نام مشک کی خوشبو کی طرح ساری دنیا میں پھیلے گا۔
اکبرکی پرورش بچپن میں اس کے چچا مرزا کامران کے گھر ہوئی، اکبرکی دایہ ماہم انگہ نے اسے پالا اور تربیت کی، اکبر ماہم انگہ کا بہت احترام کرتا تھا، اسی لیے ماہم انگہ محل کے سیاہ و سفید میں دخیل ہو گئی تھی۔
اکبر تیرہ برس کا تھا کہ جب ہمایوں نے دلی کا تخت واپس لے لیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد ہمایوں کی موت اپنے کتب خانے کی سیڑھیوں سے گر کر ہوگئی۔ اس وقت بیرم خان نے اکبر کو سہارا دیا، بیرم خان اکبر کا اتالیق تھا، کچھ عرصے تک وہی سارے احکامات جاری کرتا رہا، پھر 14 فروری 1556 عیسوی میں جب اکبر صرف چودہ برس کا تھا تو اسے تخت پہ بٹھا دیا گیا اور اس کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی۔
اکبر کو پڑھنے لکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا، لیکن صرف دس سال کی عمر میں اس نے گھڑ سواری، تیر اور تلوار چلانے میں مہارت حاصل کرلی، قدرت نے اسے ذہین بنایا تھا اسے کئی زبانیں آتی تھیں، بیرم خان 1560 تک اکبر کا اتالیق رہا، پھر اکبر نے بیرم خان کو بہت سارا مال و زر دے کر حج کے لیے بھیج دیا اور خود آزاد ہو کر عنان حکومت سنبھالی، اس نے اپنے دور حکومت میں مذہبی اور شخصی آزادی دی۔
اس نے راجہ بھگوان داس کی بیٹی جودھا بائی سے شادی کی جس سے بہت سے راجپوت راجہ اس کے حلقہ بگوش ہوگئے، وہ ہر مذہب کا احترام کرتا تھا ، وہ ہندوؤں کی پوجا کا بھی احترام کرتا تھا، عیسائیوں کے گرجا گھروں میں بھی جاتا تھا، سکھوں کے گوردواروں کا بھی احترام کرتا تھا اور مسجد میں نماز پڑھنے بھی جاتا تھا، وہ نہایت جفاکش اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔
اس میں حکومت کرنے کی خداداد صلاحیت تھی، اسے لوگوں کو پہچاننے اور پرکھنے کی فطری صلاحیت تھی، وہ خود پڑھا لکھا نہ تھا لیکن اس نے اپنے دربار میں پڑھے لکھے لوگوں اور عالموں کو جمع کر رکھا تھا۔
اس نے مختلف شعبہ زندگی کے قابل لوگوں کو بہت عزت دی، انھیں رتبے دیے، اکبرکے دربار میں بہت سے باصلاحیت افراد موجود تھے، باوجود اس کے کہ اس کا کتابی علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس نے اپنے کتب خانے میں نہایت اہم اور نادرکتب جمع کی ہوئی تھیں، اسے جب بھی کسی نئی اور اہم کتاب کا پتا چلتا وہ اس کو فوراً اپنے کتب خانے کے لیے منگوا لیتا، تاکہ عوام اور خواص اس سے استفادہ کرسکیں۔
اکبرکی وفات 29 اکتوبر 1605 عیسوی میں ہوئی، اکبر نے اپنی زندگی ہی میں فتح پور سیکری سے چار کلو میٹر دور سکندرہ میں اپنا مزار اپنی زندگی میں بنوانا شروع کردیا تھا، سکندرہ کا نام سکندر لودھی کے نام پر پڑا۔
سکندر لودھی اکبر سے پہلے یہاں آیا تھا، مقبرہ اکبر کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا، بعد میں جہانگیر نے باپ کا مقبرہ مکمل کروایا، مقبرہ بہت ہی خوبصورت ہے، ہم دو بار سکندرہ گئے اور مزار کی خوبصورتی، پچی کاری اور جالیوں کا کام دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے دیواروں پر نقش و نگارکے علاوہ قرآنی آیات بھی درج ہیں، سب کچھ انتہائی اچھی حالت میں ہے، پہلے یہاں ٹکٹ خریدا جاتا تھا، لیکن اب سب کچھ آن لائن ہوگیا ہے مزار پر جانے سے پہلے آن لائن ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔
مغلوں نے ہندوستان میں ایسی ایسی خوبصورت اور نادر الوجود عمارتیں بنائی ہیں جنھیں دیکھ کر مغلوں کے ذوق اور آرٹ کی سمجھ اور چاہت کا اندازہ ہوتا ہے، خواہ تاج محل ہو، لال قلعہ ہو، جامع مسجد ہو، گوالیار کا قلعہ ہو، جہانگیرکا مقبرہ ہو، فتح پور سیکری ہو یا ہندوستان اور پاکستان میں پھیلی ہوئی عمارات، باغ اور مقابر۔ مغلوں کو آرٹ سے عشق تھا، ہمایوں کا مقبرہ آرٹ کا بہترین شاہکار ہے جس کی دیکھ بھال اقوام متحدہ کے ذمے ہے۔
تاج محل کا شمار تو عجائبات عالم میں ہوتا ہے۔ کیا خوب مناظر ہیں اس کے خاص کر تیرہ، چودہ اور پندرہویں چاند کی شب کا نظارہ انسانی آنکھ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتی ہے، چاند کی روشنی سفید سنگ مر مر کے اندر سے منعکس ہوکر اسے ایسی جادوئی چیز بنا دیتی ہے یوں لگتا ہے جیسے فضا میں روشن تاج محل بقعہ نور بنا ہوتا ہے۔
چاند کی روشنی تاج محل کے اندر گھس کر اسے روشن کر دیتی ہے، جیسے اندر ہزاروں وولٹ کے بلب جل رہے ہوں، یہ مغل بھی عجیب دیوانے لوگ تھے، افغانستان سے ہندوستان آئے، یہاں کے لوگوں سے محبت کی۔
ان کے، سکون، روزگار اور تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا، بھارت کو ان نوادرات کے بدلے اتنا زرمبادلہ ملتا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، یہ نیک لوگ تھے، بہادر تھے، جری تھے، قابل لوگوں کی عزت کرتے تھے، انھیں دربار میں بلند مقام دیتے تھے، انھوں نے ہندوستان کو اپنا گھر سمجھ کر بہترین عمارتیں بنائیں، باغات بنائے، آج تک لوگ ان باغوں، مقبروں اور عمارتوں کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔
جلال الدین محمد اکبر کے دربار میں تو ایسے قابل لوگ موجود تھے جنھیں اکبر اپنے نو رتن کہتا تھا، رتن کے معنی یاقوت یا جواہر کے ہیں، ان نو رتنوں کے مشورے کے بغیر وہ کوئی اہم فیصلہ نہ کرتا تھا، ان میں ہندو اور مسلمان دونوں مذہب کے منفرد لوگ شامل تھے، ان میں سب سے پہلا نام ابوالفضل کا ہے۔
(1)۔ ابوالفضل
ابو الفضل کے والد شیخ مبارک ناگوری، ناگور کے رہنے والے تھے، ان کے دو بیٹے تھے، ابوالفضل اور فیضی، دونوں ہی اکبرکے نو رتنوں میں شامل تھے۔ ابوالفضل تاریخ، ادب، فلسفہ اور طب میں مہارت رکھتا تھا اکبر نے اسے شہزادہ مراد کا اتالیق مقرر کیا تھا، ابوالفضل نے 1575 عیسوی میں اکبر کے دربار میں رسائی حاصل کی، شیخ مبارک پہلے ہی سے دربار سے وابستہ تھے ابوالفضل بہت بڑا مصنف تھا۔
اس کی تصانیف کی تعداد ایک سو ایک (101) تھی وہ مغلیہ فوج کے سپہ سالار بھی رہے، اکبر کی سوچ پر ابوالفضل خاصے اثر انداز تھے۔ اکبر نامہ، آئین اکبری ان کی مشہور تصانیف ہیں، انھوں نے مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔
وہ نہایت قابل شخص تھا اور یہی قابلیت اور شہنشاہ اکبر سے قربت اس کی دشمن بن گئی، وہ دوسرے امرا کی طرح شہزادہ سلیم کی تاج پوشی کے خلاف تھا، یہ بات سلیم کو پتا چل گئی، جب کہ ابوالفضل شہزادوں کے اتالیق بھی تھے، اکبر اسے بے حد عزیز رکھتا تھا، وہ اکبر کا وزیر اعظم بھی تھا، لیکن شہزادہ سلیم نے ایک سازش کے ذریعے اسے 1602 عیسوی میں قتل کروا دیا۔ اکبر کو اس کی موت کا اتنا رنج ہوا کہ وہ کئی دن اپنے حجرے سے باہر نہیں نکلا ''آئین اکبری'' اکبر کے دور حکومت پر لکھی گئی اور ''اکبر نامہ'' اکبر کی زندگی پر۔
(2)۔فیضی
یہ بھی صوفی بزرگ شیخ مبارک ناگوری کا فرزند تھا۔ 1547 عیسوی میں پیدا ہوا، ابوالفضل کا بھائی تھا، درباری شاعر تھا، ایجوکیشن منسٹر تھا۔
اکبر کے اہم فیصلوں پر اثرانداز ہوتا تھا، 1595 عیسوی میں اس کا انتقال ہو گیا تھا، دونوں بھائی واقعی بہت قیمتی رتن تھے، لیکن محلاتی سازشوں کی بنا پر مخالفتیں بھی سہیں، ابوالفضل کو تو جہانگیر نے بندیلہ راجہ کی مدد سے قتل کروا دیا، لیکن فیضی جو اپنی شاعری اور تعلیم و تربیت کے لیے مشہور تھا، اسے بھی سازشوں کا شکار ہونا پڑا۔
اکبر نے فیضی کی ذہانت، فطانت اور علمیت کی وجہ سے اسے ''ملک الشعرا'' کا خطاب دیا تھا وہ دونوں بھائیوں کو بہت عزیز رکھتا تھا وہ اکبر کے بیٹوں، سلیم، مراد اور شہزادہ دانیال کا اتالیق بھی تھا۔ (جاری ہے)
(3)۔ فقیر عذی الدین، حکیم ہمام ، اکبرکے نو رتنوں میں ایک نام فقیر عذی الدین کا ملتا ہے جو مغل دربار میں ایک خاص اہمیت رکھتے تھے، وہ ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کے انچارج تھے، ان کا مرتبہ اکبر کے نزدیک بہت اہم تھا، وہ بہت قابل اور بھروسہ مند انسان تھے، محل کی ساری ثقافتی اور علمی سرگرمیاں فقیر عذی الدین نہایت خوبی سے سنبھالتے تھے۔
تاریخ میں ان کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ بعض تذکرہ نگاروں کے ہاں حکیم ہمام کا نام بھی نو رتنوں میں ملتا ہے جو باورچی خانہ کے انچارج تھے۔ ان کے بارے میں بھی بہت زیادہ معلومات نہیں ملتیں وہ بھنڈاری بھی تھے اور تمام ذخیروں کی خبر رکھتے تھے۔
مختلف کتابوں میں یہ دو نام نورتن کے طور پر ملتے ہیں، لیکن زیادہ تر تذکروں میں فقیر عذی الدین کا نام بطور نو رتن کے ملتا ہے۔
ایک ایسی شخصیت تھا جس میں طاقت، دانائی، منصوبہ بندی اور طاقت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، اکبر نے کم و بیش پچاس برس ہندوستان پر بلاشرکت غیرے حکومت کی اور اپنی حکمت عملی سے ہر بغاوت کوکچل دیا، اکبر نصیر الدین ہمایوں اور حمیدہ بانو بیگم کی اولاد تھا، بابر جو مغلیہ سلطنت کا بانی تھا، اکبرکا دادا تھا۔
اس کا دور امن اور خوشحالی کا دور تھا، وہ 1542 میں سندھ کے ایک مقام امرکوٹ میں پیدا ہوا تھا (اب اس جگہ کو عمر کوٹ کہتے ہیں) جس وقت اکبر پیدا ہوا، اس وقت ہمایوں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں دلی کی سلطنت کھوکر مارا مارا پھر رہا تھا، اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ اپنے بیٹے کی پیدائش پر اپنے ساتھیوں میں مٹھائی تقسیم کرتا، جیب میں صرف مشک نافہ تھا وہی نکال کر اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا اور بیٹے کے لیے دعا کرنے کو کہا، ایک مصاحب نے کہا ''گھبرائیے مت حضور! شہزادے کا نام مشک کی خوشبو کی طرح ساری دنیا میں پھیلے گا۔
اکبرکی پرورش بچپن میں اس کے چچا مرزا کامران کے گھر ہوئی، اکبرکی دایہ ماہم انگہ نے اسے پالا اور تربیت کی، اکبر ماہم انگہ کا بہت احترام کرتا تھا، اسی لیے ماہم انگہ محل کے سیاہ و سفید میں دخیل ہو گئی تھی۔
اکبر تیرہ برس کا تھا کہ جب ہمایوں نے دلی کا تخت واپس لے لیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد ہمایوں کی موت اپنے کتب خانے کی سیڑھیوں سے گر کر ہوگئی۔ اس وقت بیرم خان نے اکبر کو سہارا دیا، بیرم خان اکبر کا اتالیق تھا، کچھ عرصے تک وہی سارے احکامات جاری کرتا رہا، پھر 14 فروری 1556 عیسوی میں جب اکبر صرف چودہ برس کا تھا تو اسے تخت پہ بٹھا دیا گیا اور اس کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی۔
اکبر کو پڑھنے لکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا، لیکن صرف دس سال کی عمر میں اس نے گھڑ سواری، تیر اور تلوار چلانے میں مہارت حاصل کرلی، قدرت نے اسے ذہین بنایا تھا اسے کئی زبانیں آتی تھیں، بیرم خان 1560 تک اکبر کا اتالیق رہا، پھر اکبر نے بیرم خان کو بہت سارا مال و زر دے کر حج کے لیے بھیج دیا اور خود آزاد ہو کر عنان حکومت سنبھالی، اس نے اپنے دور حکومت میں مذہبی اور شخصی آزادی دی۔
اس نے راجہ بھگوان داس کی بیٹی جودھا بائی سے شادی کی جس سے بہت سے راجپوت راجہ اس کے حلقہ بگوش ہوگئے، وہ ہر مذہب کا احترام کرتا تھا ، وہ ہندوؤں کی پوجا کا بھی احترام کرتا تھا، عیسائیوں کے گرجا گھروں میں بھی جاتا تھا، سکھوں کے گوردواروں کا بھی احترام کرتا تھا اور مسجد میں نماز پڑھنے بھی جاتا تھا، وہ نہایت جفاکش اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔
اس میں حکومت کرنے کی خداداد صلاحیت تھی، اسے لوگوں کو پہچاننے اور پرکھنے کی فطری صلاحیت تھی، وہ خود پڑھا لکھا نہ تھا لیکن اس نے اپنے دربار میں پڑھے لکھے لوگوں اور عالموں کو جمع کر رکھا تھا۔
اس نے مختلف شعبہ زندگی کے قابل لوگوں کو بہت عزت دی، انھیں رتبے دیے، اکبرکے دربار میں بہت سے باصلاحیت افراد موجود تھے، باوجود اس کے کہ اس کا کتابی علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس نے اپنے کتب خانے میں نہایت اہم اور نادرکتب جمع کی ہوئی تھیں، اسے جب بھی کسی نئی اور اہم کتاب کا پتا چلتا وہ اس کو فوراً اپنے کتب خانے کے لیے منگوا لیتا، تاکہ عوام اور خواص اس سے استفادہ کرسکیں۔
اکبرکی وفات 29 اکتوبر 1605 عیسوی میں ہوئی، اکبر نے اپنی زندگی ہی میں فتح پور سیکری سے چار کلو میٹر دور سکندرہ میں اپنا مزار اپنی زندگی میں بنوانا شروع کردیا تھا، سکندرہ کا نام سکندر لودھی کے نام پر پڑا۔
سکندر لودھی اکبر سے پہلے یہاں آیا تھا، مقبرہ اکبر کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا، بعد میں جہانگیر نے باپ کا مقبرہ مکمل کروایا، مقبرہ بہت ہی خوبصورت ہے، ہم دو بار سکندرہ گئے اور مزار کی خوبصورتی، پچی کاری اور جالیوں کا کام دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے دیواروں پر نقش و نگارکے علاوہ قرآنی آیات بھی درج ہیں، سب کچھ انتہائی اچھی حالت میں ہے، پہلے یہاں ٹکٹ خریدا جاتا تھا، لیکن اب سب کچھ آن لائن ہوگیا ہے مزار پر جانے سے پہلے آن لائن ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔
مغلوں نے ہندوستان میں ایسی ایسی خوبصورت اور نادر الوجود عمارتیں بنائی ہیں جنھیں دیکھ کر مغلوں کے ذوق اور آرٹ کی سمجھ اور چاہت کا اندازہ ہوتا ہے، خواہ تاج محل ہو، لال قلعہ ہو، جامع مسجد ہو، گوالیار کا قلعہ ہو، جہانگیرکا مقبرہ ہو، فتح پور سیکری ہو یا ہندوستان اور پاکستان میں پھیلی ہوئی عمارات، باغ اور مقابر۔ مغلوں کو آرٹ سے عشق تھا، ہمایوں کا مقبرہ آرٹ کا بہترین شاہکار ہے جس کی دیکھ بھال اقوام متحدہ کے ذمے ہے۔
تاج محل کا شمار تو عجائبات عالم میں ہوتا ہے۔ کیا خوب مناظر ہیں اس کے خاص کر تیرہ، چودہ اور پندرہویں چاند کی شب کا نظارہ انسانی آنکھ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتی ہے، چاند کی روشنی سفید سنگ مر مر کے اندر سے منعکس ہوکر اسے ایسی جادوئی چیز بنا دیتی ہے یوں لگتا ہے جیسے فضا میں روشن تاج محل بقعہ نور بنا ہوتا ہے۔
چاند کی روشنی تاج محل کے اندر گھس کر اسے روشن کر دیتی ہے، جیسے اندر ہزاروں وولٹ کے بلب جل رہے ہوں، یہ مغل بھی عجیب دیوانے لوگ تھے، افغانستان سے ہندوستان آئے، یہاں کے لوگوں سے محبت کی۔
ان کے، سکون، روزگار اور تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا، بھارت کو ان نوادرات کے بدلے اتنا زرمبادلہ ملتا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، یہ نیک لوگ تھے، بہادر تھے، جری تھے، قابل لوگوں کی عزت کرتے تھے، انھیں دربار میں بلند مقام دیتے تھے، انھوں نے ہندوستان کو اپنا گھر سمجھ کر بہترین عمارتیں بنائیں، باغات بنائے، آج تک لوگ ان باغوں، مقبروں اور عمارتوں کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔
جلال الدین محمد اکبر کے دربار میں تو ایسے قابل لوگ موجود تھے جنھیں اکبر اپنے نو رتن کہتا تھا، رتن کے معنی یاقوت یا جواہر کے ہیں، ان نو رتنوں کے مشورے کے بغیر وہ کوئی اہم فیصلہ نہ کرتا تھا، ان میں ہندو اور مسلمان دونوں مذہب کے منفرد لوگ شامل تھے، ان میں سب سے پہلا نام ابوالفضل کا ہے۔
(1)۔ ابوالفضل
ابو الفضل کے والد شیخ مبارک ناگوری، ناگور کے رہنے والے تھے، ان کے دو بیٹے تھے، ابوالفضل اور فیضی، دونوں ہی اکبرکے نو رتنوں میں شامل تھے۔ ابوالفضل تاریخ، ادب، فلسفہ اور طب میں مہارت رکھتا تھا اکبر نے اسے شہزادہ مراد کا اتالیق مقرر کیا تھا، ابوالفضل نے 1575 عیسوی میں اکبر کے دربار میں رسائی حاصل کی، شیخ مبارک پہلے ہی سے دربار سے وابستہ تھے ابوالفضل بہت بڑا مصنف تھا۔
اس کی تصانیف کی تعداد ایک سو ایک (101) تھی وہ مغلیہ فوج کے سپہ سالار بھی رہے، اکبر کی سوچ پر ابوالفضل خاصے اثر انداز تھے۔ اکبر نامہ، آئین اکبری ان کی مشہور تصانیف ہیں، انھوں نے مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔
وہ نہایت قابل شخص تھا اور یہی قابلیت اور شہنشاہ اکبر سے قربت اس کی دشمن بن گئی، وہ دوسرے امرا کی طرح شہزادہ سلیم کی تاج پوشی کے خلاف تھا، یہ بات سلیم کو پتا چل گئی، جب کہ ابوالفضل شہزادوں کے اتالیق بھی تھے، اکبر اسے بے حد عزیز رکھتا تھا، وہ اکبر کا وزیر اعظم بھی تھا، لیکن شہزادہ سلیم نے ایک سازش کے ذریعے اسے 1602 عیسوی میں قتل کروا دیا۔ اکبر کو اس کی موت کا اتنا رنج ہوا کہ وہ کئی دن اپنے حجرے سے باہر نہیں نکلا ''آئین اکبری'' اکبر کے دور حکومت پر لکھی گئی اور ''اکبر نامہ'' اکبر کی زندگی پر۔
(2)۔فیضی
یہ بھی صوفی بزرگ شیخ مبارک ناگوری کا فرزند تھا۔ 1547 عیسوی میں پیدا ہوا، ابوالفضل کا بھائی تھا، درباری شاعر تھا، ایجوکیشن منسٹر تھا۔
اکبر کے اہم فیصلوں پر اثرانداز ہوتا تھا، 1595 عیسوی میں اس کا انتقال ہو گیا تھا، دونوں بھائی واقعی بہت قیمتی رتن تھے، لیکن محلاتی سازشوں کی بنا پر مخالفتیں بھی سہیں، ابوالفضل کو تو جہانگیر نے بندیلہ راجہ کی مدد سے قتل کروا دیا، لیکن فیضی جو اپنی شاعری اور تعلیم و تربیت کے لیے مشہور تھا، اسے بھی سازشوں کا شکار ہونا پڑا۔
اکبر نے فیضی کی ذہانت، فطانت اور علمیت کی وجہ سے اسے ''ملک الشعرا'' کا خطاب دیا تھا وہ دونوں بھائیوں کو بہت عزیز رکھتا تھا وہ اکبر کے بیٹوں، سلیم، مراد اور شہزادہ دانیال کا اتالیق بھی تھا۔ (جاری ہے)
(3)۔ فقیر عذی الدین، حکیم ہمام ، اکبرکے نو رتنوں میں ایک نام فقیر عذی الدین کا ملتا ہے جو مغل دربار میں ایک خاص اہمیت رکھتے تھے، وہ ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کے انچارج تھے، ان کا مرتبہ اکبر کے نزدیک بہت اہم تھا، وہ بہت قابل اور بھروسہ مند انسان تھے، محل کی ساری ثقافتی اور علمی سرگرمیاں فقیر عذی الدین نہایت خوبی سے سنبھالتے تھے۔
تاریخ میں ان کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ بعض تذکرہ نگاروں کے ہاں حکیم ہمام کا نام بھی نو رتنوں میں ملتا ہے جو باورچی خانہ کے انچارج تھے۔ ان کے بارے میں بھی بہت زیادہ معلومات نہیں ملتیں وہ بھنڈاری بھی تھے اور تمام ذخیروں کی خبر رکھتے تھے۔
مختلف کتابوں میں یہ دو نام نورتن کے طور پر ملتے ہیں، لیکن زیادہ تر تذکروں میں فقیر عذی الدین کا نام بطور نو رتن کے ملتا ہے۔