کیا یہ احتجاج کا مؤثر طریقہ ہے

قرآن کو جلانے کی جسارت کرنے والوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔وہ اس کے تیزی سے پھیلتے پیغام کو ہر گز نہیں روک سکیں گے

gfhlb169@gmail.com

قرآن کا جلایا جانا،اﷲ کے آخری نبی و رسول کے خاکے بنانا یا آپﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنا مغربی دنیا کا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔

امریکا میں ایسا کئی بار ہوا ہے۔یورپ کے کئی ممالک خاص طور پر فرانس،ہالینڈ،ناروے اور سویڈن میں تو اب یہ روش ہی چل نکلی ہے ۔اسلام دشمنی میں کیے گئے یہ افسوس ناک واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ مغربی دنیا ان کا یہ جواز پیش کرتی ہے کہ ہر شخص کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے ۔

انسانی ترقی کے لیے رائے کا اظہار ایک بہت ہی سراہا جانے والا حق ہے جس کی قدر کی جانی چا ہیے لیکن مقدس کتابوں کی بے حرمتی آزادیٔ رائے نہیں ہے۔یورپ اور امریکا ہر دفعہ شخصی آزادی کے حق کے پیچھے چھپ جاتے ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ مغرب کے دہرے معیار ہیں۔کیا یہ ممکن ہے کہ یہودی مقدس کتاب کو بھی یوں ہی کھلم کھلا جلایا جائے۔

کیا یہ امرِ واقع نہیں کہ یہودیوں کے بارے میں کوئی اختلافی بات کرتے ہی اینٹی سیمیٹک ہونے کا الزام لگ جاتا ہے۔کیا ہولوکاسٹ کے بارے میں یہودی نقطۂ نظر کے خلاف بات کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف نہیں۔ پچھلے دنوں سویڈن میں قرآنِ پاک کے نسخوں کو جلایا گیا۔جلانے والے بد نصیب ملعون نے سویڈن کی ایک عدالت میں درخواست دی کہ اسے دینِ اسلام کی الہامی کتاب قرآن،جلانے کی اجازت دی جائے۔

عدالت نے اجازت دے دی۔ ملعون نے اس ناپاک حرکت کے لیے بقرہ عید کے دن کا انتخاب کیا کیونکہ اس دن عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔اس واقعے کے رپورٹ ہوتے ہی مسلمانوں کے اندر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

کئی مسلمان ممالک میں افسوس ناک واقعے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔پاکستان میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی۔ اس کے بعد جمعہ 7جولائی کو حکومت اور کئی تنظیموں کی اپیل پر سارے ملک کے طول و عرض میں واقعے کی مذمت میں ریلیاں نکالی گئیں۔اقوامِ متحدہ نے بھی پاکستان کی پیش کردہ مذمتی قرارداد منظور کی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ سویڈنی ملعون نے قرآنِ مجید کو جلا کر کیا حاصل کیا؟ اس کا مقصد کیا تھا؟میری رائے میں ایک تو وہ جنونی ہو سکتا ہے جو کسی اسلام دشمن لابی کا آلہ بنا کیونکہ انھیں بخوبی علم ہے کہ اس افسوس ناک قدم پر مسلمان جذباتی ہوں گے جس سے اس ملعون کی خوب تشہیر ہو گی۔بہت سارے غیر مسلم اس کو اپنا ہیرو تصور کریں گے۔

اس کو یہ بھی پتا تھا کہ اس سے پہلے ایسی ناپاک حرکت کرنے والوں کو مغربی دنیا نے نہ روکا ،نہ لعن طعن کی اور نہ ہی سزا دی تو اس وجہ سے اس کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ ایسا کرے اور مشہور ہو۔ وہ مسلمانوں کو ان کی اوقات بھی یاد دلانا چاہتا تھا کہ تم لوگ تاریخ میں اس وقت کمزور اور بزدل ہو،تم کچھ نہیں کر سکتے،کہ تم لوگ تفرقات میں بٹے ہوئے منتشر لوگ ہو۔ تم ایک ناکارہ ہجوم ہو۔سوچنے کی بات ہے کہ ہم جلسے،جلوسوںاور ریلیوں سے کیا حاصل کر پاتے ہیں۔

ہم نے ملعون رشدی کے خلاف کتنا غم وغصہ دکھایا۔،اُلٹا وہ مغرب اور غیر مسلم دنیا کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔اس کی غلیظ کتاب نے شاید بہت تھوڑی توجہ حاصل کرنی تھی،لیکن ہمارے ردِ عمل نے اسی کتاب کی مانگ کئی گنا بڑھا دی۔جن لوگوں نے نہیں پڑھنا تھا،انھوں نے بھی پڑھی۔کیا ہم اپنے ان اقدامات سے بے حرمتی اور گستاخی کو بڑھاوا دینے کا باعث تو نہیں بن رہے۔ کیا اس سلسلے میں سارا عالمِ اسلام ایک پیج پر ہے۔


میرے خیال میں تو شاید یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ صرف غریب مسلمان ممالک میں یہ احتجاج ہو رہا ہے اور اس سے پوری دنیا میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ہم جلسے،جلوس اور ریلیوں کے ذریعے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ہم اپنی ہی حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ البتہ متعلقہ ملک کو بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگر مسلمان ممالک کی فوجی قوت ایسی ہو کہ ان کے بحری بیڑے بحفاظت کہیں بھی پہنچ کر گستاخی کے مرتکب فرد اور ملک کو سبق سکھا سکیں،اگر بحری بیڑے کی موجودگی اور فوجی قوت کے حامل مسلمان ملک کا میزائل نظام اتنا طاقتور ہو کہ دلوں میں خوف پیدا کر سکے تو متعلقہ ملک کو ایسی ناپاک حرکت کرنے سے پہلے سوچنا پڑے۔دوسرا سب سے کارگر ہتھیار متعلقہ ملک کا معاشی مقاطعہ ہے۔

چالیس سے اوپر مسلمان ممالک اگر یک جان ہو کر معاشی مقاطعے کی وارننگ دے دیںاور متعلقہ ملک کے ساتھ ہر قسم کا لین دین ختم کر دیں توسارے ممالک کو نصیحت ہو جائے۔ہم نے اہم مسلمان ممالک مصر،مراکش،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے کسی احتجاج کا نہیں سنا۔او آئی سی سے ایک انتہائی نحیف آواز آئی۔اگر مسلمانوں نے یہی رویہ رکھا اور احتجاج کا یہی لیول رہا تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس سلسلے میں قرآنِ کریم ہمیں کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے اور رسول اﷲ کی بعثت کے بعد اﷲ کے رسول اور صحابہ کرام کا کیا طرزِ عمل رہا۔

جن لوگوں نے نبی کریمﷺ کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ کفارِ مکہ نے بہت سے ایسے اشعار لکھے جن میں حضورِ اکرمﷺ کی توہین اور دل آزاری کی کوشش کی گئی مگر وہ اشعار تاریخ میں رقم نہیں ہوئے اور بعد کی نسلوں تک نہیں پہنچے ۔وہ اذیت دینے والے اشعار ہم تک اس لیے نہیں پہنچے کیونکہ صحابہ نے نہ تو وہ اشعار یاد کیے،اور نہ ہی آپس میں شیئر کیے۔اس طرح وہ اشعار خود بخود فنا سے دوچار ہو گئے ۔

یہی وہ صحیح طریقہ ہے جو ہمیں اپنانا ہو گا مگر آج کل یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ گستاخانہ مواد کو کفار سے زیادہ خود مسلمان پھیلا رہے ہیں۔کفار میں سے کوئی ایک ناپاک حرکت کرتا ہے،گستاخانہ خاکہ یا تصویر بناتا ہے تو ہمارے مسلمان بھائی اس کی ویڈیو، آڈیو یا تصویر کے اوپر لکھ دیتے ہیںکہ لکھنے،بنانے یا جلانے والے پر لعنت بھیج کر آگے شیئر کریں۔اب کفار کا کام ختم اور مسلمانوں کا شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد اکثر مسلمان سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے چکر میں ایسے شروع ہوتے ہیں کہ وہ چیز فوراً وائرل ہو کر ہر ایک تک پہنچ جاتی ہے۔اس طرح اسلام مخالف قوتوں کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔قرآن اﷲ کی آخری کتاب اور زندہ حجت ہے۔یہ بہت طاقتورکلام ہے۔اس کو سننے اور سمجھ کر پڑھنے والے کی دنیا بدل جاتی ہے۔

اس کی حفاظت ،اس کا نازل کرنے والا خود کر رہا ہے ۔یہ نور ہی نور ہے جس کی روشنی بڑی سرعت سے چہار دانگِ عالم پھیل رہی ہے۔ قرآن کی بدولت اسلام اس وقت سب سے تیزی سے پھیلتا دین ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔قرآن کو جلانے کی جسارت کرنے والوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔وہ اس کے تیزی سے پھیلتے پیغام کو ہر گز نہیں روک سکیں گے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن کی اشاعت کا زیادہ سے زیادہ بندوبست کریں۔اس پیغام کو غیر مسلموں تک پہنچانے کی کوشش کریں اور خود اس پر عمل کر کے ایک بہترین نمونہ بنیں۔غیر مسلم جو ناپاک حرکتیں کرتے ہیں ،ان پرردِ عمل نہ دیں۔شیئر کر کے ان کے کام میں مددگار نہ بنیں۔ردِ عمل نہ ہونے سے ایسا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور شاید یہی صحیح طرزِ عمل ہے۔واﷲ اعلم۔
Load Next Story