نواز شریف پاک بھارت امن اور جماعتِ اسلامی
مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں نواز شریف کی متوقع آمد آمد کی ’’نویدیں‘‘ سنائی جا رہی ہیں
مسلم لیگ نون کے قائد ، جناب محمد نواز شریف، کی برطانیہ سے پھر پاکستان آمد کا غلغلہ مچا ہے۔اب تو سابق پی ٹی آئی حکومت کے بغض گزیدہ سابق مشیر، شہزاد اکبر، بھی نواز شریف کی تعریفیں کر رہے ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں نواز شریف کی متوقع آمد آمد کی ''نویدیں'' سنائی جا رہی ہیں۔ ہمارے مین اسٹریم میڈیا کے جملہ ٹاک شوز میں دو سوالات مسلسل پوچھے جا رہے ہیں:(1)کیا اگست میں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد واقعی نومبر 2023 میں عام انتخابات ہو جائیں گے ؟ (2)کیا واقعی میاں محمد نواز شریف مذکورہ انتخابات سے قبل پاکستان آ جائیں گے ؟
وزیر اعظم جناب شہباز شریف سمیت تمام نون لیگی قائدین اپنے ہر انٹرویو اور ہر ٹاک شومیں بڑے تیقن کے ساتھ کہتے سنائی دیتے ہیں: نواز شریف صاحب انتخابات سے قبل ہر صورت پاکستان میں تشریف فرما ہوں گے ۔ مگر کسی کے علم میں نہیں ہے کہ عام انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوں گے تو کب ہوں گے ؟
بے یقینی اور نااُمیدی کی کیفیات نے ہر پاکستانی شہری کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ یہ بے یقینی اور نااُمیدی معاشی بھی ہے ، سماجی بھی ہے اور سیاسی بھی ۔اگرچہ اگلے روز اسلام آباد میں منعقدہ ایک سرکاری جلسہ نما اکٹھ( بعنوان Green Pakistan Initiative) کے دوران وزیر اعظم اور دیگر ذمے داران نے اعلانات کیے کہ ''نااُمیدی کفر ہے '' اور یہ کہ '' کوئی دُنیاوی طاقت پاکستان کو ترقی سے نہیں روک سکتی ۔'' درست فرمایا گیا ہے لیکن حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ایسے بیانات تو ہم عوام کالانعام پچھلے 75برسوں سے سُنتے آ رہے ہیں ، مگر ہمارے ہر قسم کے حکمران عوام کی بے یقینی ، مایوسی اور نااُمیدی دُور نہیں کر سکے ہیں ۔
ہمہ قسم حکمرانوں اور اتحادی حکومت کی پیدا کردہ بے انتہا مایوسی اور نااُمیدی کے ایسے ماحول میں نواز شریف سے منسوب یہ بیان بھی سامنے آیا ہے :'' وطن واپسی پر جیل جانا پڑا تو پروا نہیں ۔''نواز شریف کے اِس بیان نے نون لیگی عشاق کے قلوب میں اُمیدوں اور توقعات کی نئی شمعیں روشن کر دی ہیں۔
اگر نواز شریف عام انتخابات سے قبل پاکستان نہ آئے تو نون لیگ کی لُٹیا ڈُوبنے کے بے حد خدشات موجود ہیں ۔ نواز شریف کے پھر سے پاکستانی سیاست میں سرگرم ہونے سے اِن توقعات کو تقویت ملتی ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں پھر سے گرمجوشی پیدا ہوگی۔ اگر دونوں ہمسایہ ممالک میں امن کے پرچم لہرا اُٹھتے ہیں تو توقع یہی ہے کہ ہماری بیٹھی تجارت پھر سے اُٹھ کھڑی ہوگی۔
واقعاتی حقیقتیں بھی یہی ہیں کہ نواز شریف جب جب پاکستان کے حکمران منتخب ہُوئے ، پاک بھارت تعلقات کو فروغ بھی ملا اور امن کے لیے کوششیں بھی تیز کی گئیں ۔پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے اور جنوبی ایشیا کے اِن دونوں ممالک میں امن سازی کی کوششیں کرتے ہُوئے نواز شریف کو بھاری سیاسی قیمتیں بھی ادا کرنا پڑیں۔
آج وقت نے مگر ثابت کیا ہے کہ نواز شریف کی یہ امن ساز مساعی جمیلہ ہی پاکستان کی خوشحالی، امن اورتجارت کے لیے اصل ضرورتیں تھیں۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیں ( جنہیں وزیر اعظم عمران خان نے مسترد کر دیا تھا) تو یہ بھی دراصل اِس امر کا غماز تھا کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کی نواز شریف کی کوششیں اور اقدامات ہی حقیقت تھے ۔مگر ہمارے ''بعض طاقتوروں '' کا اپنی طاقت کے زعم میں یہ خیال اور دعویٰ تھا کہ بھارت کے ساتھ اِٹ کھڑکّا کرکے ہی جیا جا سکتا ہے ۔
نواز شریف اور پاک بھارت امن تعلقات کے حوالے سے آجکل ایک تازہ ترین اور معرکہ آرا کتاب (Atal Bihari Vajpayee:India,s Most Loved Prime Minister) کا بڑا شہرہ ہے۔ یہ تحقیقی کتاب ممتاز بھارتی صحافی ، اینکر اور ادیبہ ، محترمہ ساگا ریکا گھوس، نے تین سال کی محنت سے لکھی ہے۔
مصنفہ نے دل کھول کر جناب نواز شریف کی پاک بھارت کے لیے امن ساز کوششوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے اور یہ بھی لکھاہے کہ نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی اپنے اپنے ممالک میں کئی عناصرکی سخت مخالفت کے باوجود، فروری1999میں، لاہور میں اکٹھے ہُوئے اور امن سازی کے لیے تاریخی ''لاہور ڈیکلیریشن'' پر دستخط کیے۔
یہ کتاب آجکل میرے زیر مطالعہ ہے۔اِس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف جنوبی ایشیا کے دونوں مذکورہ ممالک میں مستحکم قیامِ امن کے لیے کسقدر مصمم ارادہ کیے ہُوئے تھے۔ اور اِس ضمن میں اٹل بہاری واجپائی نے بی جے پی کے سربراہ، کوشا بھاؤ ٹھاکرے(جو کٹر پاکستان مخالف تھا) کو پی ایم ہاؤس بلا کر تنبیہ بھی کی تھی کہ پاک بھارت امن ساز مساعی میں رکاوٹیں مت ڈالو۔ مصنفہ، ساگاریکا گھوس، نے بڑے تاسف کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم لاہور میں نواز شریف سے ملنے پہنچے تو پاکستان کی جماعتِ اسلامی کے جتھوں نے اٹل بہاری واجپائی کے خلاف نعرے لگائے۔ اور جب لاہور کے شاہی قلعہ میں نواز شریف صاحب اٹل بہاری واجپائی کی کھانے پر عزت افزائی کررہے تھے، جماعتِ اسلامی والے قلعہ کے باہر سفارتکاروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کررہے تھے ۔
اِسی دوران ہمیں جماعتِ اسلامی کی جانب سے ایک برقی خط موصول ہُوا ہے۔ 10جولائی 2023ء کو اِنہی صفحات پر ہمارا کالم شائع ہُوا تھا جس میں جماعتِ اسلامی بارے چند سطور بھی تھیں۔
جماعتِ اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات قیصر شریف صاحب نے اِس کے جواب میں یوں لکھا ہے: ''آپ کے کالم سے دِلی رنج ہوا۔آپ نے بلاول بھٹو اور پی پی کی تعریف میں جو کچھ کہا ہے، وہ آپ کا حق ہے۔ مگر ہمیں افسوس ہے کہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے بارے میں آپ نے محض وزن برابر کرنے کے لیے جو کہا ہے، وہ صریحاً غلط بیانی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ وہ کبھی سنیٹر نہیںبلکہ رکنِ قومی اسمبلی رہی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جس موروثی جماعت کے ساتھ بیلنس کرنے کے لیے آپ نے انکا نام استعمال کیا ہے،اس میں کسی سطح پر الیکشن کا کلچر ہی نہیں جب کہ ہماری جماعت میں یہ فیصلہ کہ کسی امیر کی بیٹی نے ایم این اے بننا ہے یا نہیں، بالکل الگ اور آزاد فورم پر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ خود امیرِ جماعت کو بھی اکثر تب معلوم ہوتا ہے جب متعلقہ ذمے داران اُنھیں اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں۔ حلقہ خواتین جماعت ِاسلامی کا اپنا فورم ہے جس پر یہ فیصلے ہوتے ہیں۔
محترمہ عائشہ منور صاحبہ اور راحیل قاضی صاحبہ دوسری جماعتوں کی طرح موروثیت کی بنیاد پر نہیں، اپنی صلاحیت اور کام کی بنیاد پر، اندرونِ جماعت الیکشن کی بنیاد پر ،اپنی ذمے داریوں اور قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوتی رہی ہیں -ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی 1986سے متحرک کارکن ہیں ،جماعت ِاسلامی میں میرٹ کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں کام کرتی رہی ہیں اور اب جب کہ قاضی صاحب کو رخصت ہُوئے گیارہواں برس ہو چلا ہے ، وہ جماعت کی اہم ذمے داریاں ادا کر رہی ہیں۔اُمید ہے آپ میرے اس پیغام کواپنے کالم میں شائع کرکے صحافتی اخلاقیات کا ثبوت دیں گے۔''
مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں نواز شریف کی متوقع آمد آمد کی ''نویدیں'' سنائی جا رہی ہیں۔ ہمارے مین اسٹریم میڈیا کے جملہ ٹاک شوز میں دو سوالات مسلسل پوچھے جا رہے ہیں:(1)کیا اگست میں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد واقعی نومبر 2023 میں عام انتخابات ہو جائیں گے ؟ (2)کیا واقعی میاں محمد نواز شریف مذکورہ انتخابات سے قبل پاکستان آ جائیں گے ؟
وزیر اعظم جناب شہباز شریف سمیت تمام نون لیگی قائدین اپنے ہر انٹرویو اور ہر ٹاک شومیں بڑے تیقن کے ساتھ کہتے سنائی دیتے ہیں: نواز شریف صاحب انتخابات سے قبل ہر صورت پاکستان میں تشریف فرما ہوں گے ۔ مگر کسی کے علم میں نہیں ہے کہ عام انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوں گے تو کب ہوں گے ؟
بے یقینی اور نااُمیدی کی کیفیات نے ہر پاکستانی شہری کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ یہ بے یقینی اور نااُمیدی معاشی بھی ہے ، سماجی بھی ہے اور سیاسی بھی ۔اگرچہ اگلے روز اسلام آباد میں منعقدہ ایک سرکاری جلسہ نما اکٹھ( بعنوان Green Pakistan Initiative) کے دوران وزیر اعظم اور دیگر ذمے داران نے اعلانات کیے کہ ''نااُمیدی کفر ہے '' اور یہ کہ '' کوئی دُنیاوی طاقت پاکستان کو ترقی سے نہیں روک سکتی ۔'' درست فرمایا گیا ہے لیکن حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ایسے بیانات تو ہم عوام کالانعام پچھلے 75برسوں سے سُنتے آ رہے ہیں ، مگر ہمارے ہر قسم کے حکمران عوام کی بے یقینی ، مایوسی اور نااُمیدی دُور نہیں کر سکے ہیں ۔
ہمہ قسم حکمرانوں اور اتحادی حکومت کی پیدا کردہ بے انتہا مایوسی اور نااُمیدی کے ایسے ماحول میں نواز شریف سے منسوب یہ بیان بھی سامنے آیا ہے :'' وطن واپسی پر جیل جانا پڑا تو پروا نہیں ۔''نواز شریف کے اِس بیان نے نون لیگی عشاق کے قلوب میں اُمیدوں اور توقعات کی نئی شمعیں روشن کر دی ہیں۔
اگر نواز شریف عام انتخابات سے قبل پاکستان نہ آئے تو نون لیگ کی لُٹیا ڈُوبنے کے بے حد خدشات موجود ہیں ۔ نواز شریف کے پھر سے پاکستانی سیاست میں سرگرم ہونے سے اِن توقعات کو تقویت ملتی ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں پھر سے گرمجوشی پیدا ہوگی۔ اگر دونوں ہمسایہ ممالک میں امن کے پرچم لہرا اُٹھتے ہیں تو توقع یہی ہے کہ ہماری بیٹھی تجارت پھر سے اُٹھ کھڑی ہوگی۔
واقعاتی حقیقتیں بھی یہی ہیں کہ نواز شریف جب جب پاکستان کے حکمران منتخب ہُوئے ، پاک بھارت تعلقات کو فروغ بھی ملا اور امن کے لیے کوششیں بھی تیز کی گئیں ۔پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے اور جنوبی ایشیا کے اِن دونوں ممالک میں امن سازی کی کوششیں کرتے ہُوئے نواز شریف کو بھاری سیاسی قیمتیں بھی ادا کرنا پڑیں۔
آج وقت نے مگر ثابت کیا ہے کہ نواز شریف کی یہ امن ساز مساعی جمیلہ ہی پاکستان کی خوشحالی، امن اورتجارت کے لیے اصل ضرورتیں تھیں۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیں ( جنہیں وزیر اعظم عمران خان نے مسترد کر دیا تھا) تو یہ بھی دراصل اِس امر کا غماز تھا کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کی نواز شریف کی کوششیں اور اقدامات ہی حقیقت تھے ۔مگر ہمارے ''بعض طاقتوروں '' کا اپنی طاقت کے زعم میں یہ خیال اور دعویٰ تھا کہ بھارت کے ساتھ اِٹ کھڑکّا کرکے ہی جیا جا سکتا ہے ۔
نواز شریف اور پاک بھارت امن تعلقات کے حوالے سے آجکل ایک تازہ ترین اور معرکہ آرا کتاب (Atal Bihari Vajpayee:India,s Most Loved Prime Minister) کا بڑا شہرہ ہے۔ یہ تحقیقی کتاب ممتاز بھارتی صحافی ، اینکر اور ادیبہ ، محترمہ ساگا ریکا گھوس، نے تین سال کی محنت سے لکھی ہے۔
مصنفہ نے دل کھول کر جناب نواز شریف کی پاک بھارت کے لیے امن ساز کوششوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے اور یہ بھی لکھاہے کہ نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی اپنے اپنے ممالک میں کئی عناصرکی سخت مخالفت کے باوجود، فروری1999میں، لاہور میں اکٹھے ہُوئے اور امن سازی کے لیے تاریخی ''لاہور ڈیکلیریشن'' پر دستخط کیے۔
یہ کتاب آجکل میرے زیر مطالعہ ہے۔اِس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف جنوبی ایشیا کے دونوں مذکورہ ممالک میں مستحکم قیامِ امن کے لیے کسقدر مصمم ارادہ کیے ہُوئے تھے۔ اور اِس ضمن میں اٹل بہاری واجپائی نے بی جے پی کے سربراہ، کوشا بھاؤ ٹھاکرے(جو کٹر پاکستان مخالف تھا) کو پی ایم ہاؤس بلا کر تنبیہ بھی کی تھی کہ پاک بھارت امن ساز مساعی میں رکاوٹیں مت ڈالو۔ مصنفہ، ساگاریکا گھوس، نے بڑے تاسف کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم لاہور میں نواز شریف سے ملنے پہنچے تو پاکستان کی جماعتِ اسلامی کے جتھوں نے اٹل بہاری واجپائی کے خلاف نعرے لگائے۔ اور جب لاہور کے شاہی قلعہ میں نواز شریف صاحب اٹل بہاری واجپائی کی کھانے پر عزت افزائی کررہے تھے، جماعتِ اسلامی والے قلعہ کے باہر سفارتکاروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کررہے تھے ۔
اِسی دوران ہمیں جماعتِ اسلامی کی جانب سے ایک برقی خط موصول ہُوا ہے۔ 10جولائی 2023ء کو اِنہی صفحات پر ہمارا کالم شائع ہُوا تھا جس میں جماعتِ اسلامی بارے چند سطور بھی تھیں۔
جماعتِ اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات قیصر شریف صاحب نے اِس کے جواب میں یوں لکھا ہے: ''آپ کے کالم سے دِلی رنج ہوا۔آپ نے بلاول بھٹو اور پی پی کی تعریف میں جو کچھ کہا ہے، وہ آپ کا حق ہے۔ مگر ہمیں افسوس ہے کہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے بارے میں آپ نے محض وزن برابر کرنے کے لیے جو کہا ہے، وہ صریحاً غلط بیانی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ وہ کبھی سنیٹر نہیںبلکہ رکنِ قومی اسمبلی رہی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جس موروثی جماعت کے ساتھ بیلنس کرنے کے لیے آپ نے انکا نام استعمال کیا ہے،اس میں کسی سطح پر الیکشن کا کلچر ہی نہیں جب کہ ہماری جماعت میں یہ فیصلہ کہ کسی امیر کی بیٹی نے ایم این اے بننا ہے یا نہیں، بالکل الگ اور آزاد فورم پر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ خود امیرِ جماعت کو بھی اکثر تب معلوم ہوتا ہے جب متعلقہ ذمے داران اُنھیں اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہیں۔ حلقہ خواتین جماعت ِاسلامی کا اپنا فورم ہے جس پر یہ فیصلے ہوتے ہیں۔
محترمہ عائشہ منور صاحبہ اور راحیل قاضی صاحبہ دوسری جماعتوں کی طرح موروثیت کی بنیاد پر نہیں، اپنی صلاحیت اور کام کی بنیاد پر، اندرونِ جماعت الیکشن کی بنیاد پر ،اپنی ذمے داریوں اور قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوتی رہی ہیں -ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی 1986سے متحرک کارکن ہیں ،جماعت ِاسلامی میں میرٹ کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں کام کرتی رہی ہیں اور اب جب کہ قاضی صاحب کو رخصت ہُوئے گیارہواں برس ہو چلا ہے ، وہ جماعت کی اہم ذمے داریاں ادا کر رہی ہیں۔اُمید ہے آپ میرے اس پیغام کواپنے کالم میں شائع کرکے صحافتی اخلاقیات کا ثبوت دیں گے۔''