محنت میں عظمت
صحابہ کرامؓ حلال رزق کمانے کیلیے ہرقسم کی صلاحیتوں کوبہ روئے کارلاتے اورمحنت ومشقت کرنے سے کبھی عارمحسوس نہیں کرتے تھے
دنیا میں انسانی حقوق کی بنیاد رکھنے والا مذہب دینِ اسلام ہے، اسی مذہب نے معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بنایا اور تقسیم کار کے فطری قانون کے ذریعے کسی کو مالک تو کسی کو مملوک، کسی کو خادم تو کسی کو مخدوم، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم قراردیا۔
اسی بنا پر باہمی حقوق و فرائض عاید کیے گئے اور اسی کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ شفقت وہم دردی کی تعلیم دی گئی۔ محنت مزدوری کرنا، ہاتھ سے کما کر کھانا، کوئی ذریعہ معاش اِختیار کرنا، کسی ہنر، فن، کاریگری اور صنعت و حرفت کو ذریعہ معاش کے لیے بہ طورِ پیشہ اِختیار کرنا کوئی معیوب بات نہیں، متعدد انبیائے کرامؑ ، صحابہ اور سلف صالحین نے حصولِ رزق کے لیے کئی پیشوں کو اِختیار فرمایا ہے۔
انبیائے کرامؑ کے پیشے:
ابنِ جوزی نے المنتظم میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے : ''حضرت آدمؑ ہل جوتتے ، حضرت نوح ؑبڑھئی کا کام کرتے ، حضرت ادریس ؑکپڑے سیتے ، حضرت صالحؑ تجارت کرتے ، حضرت ابراہیمؑ کھیتی باڑی کرتے، حضرت شعیب ؑ و موسی ؑ بکریوں کی نگہبانی کرتے اور حضرت داؤدؑ زرہ بنا تے تھے جب کہ حضرت سلیمان ؑبادشاہ تھے، ہمارے نبیؐ مقام اجیاد پر بکریوں کی نگہبانی فرماتے تھے۔''
قارئین کرام! اسلام ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو حلال طریقے سے محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بے وجہ بھیک مانگنے اور بلاعذر دست سوال دراز کرنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا بل کہ اس طرح کرنے والوں کو دردناک وعید سے آگاہ بھی کیا گیا ۔
کسب حلال کی اہمیت:
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ رزقِ حلال کمانے اور اﷲ تعالی کے فضل کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ تعالی کے فضل کو تلاش کرو۔'' (سورہ جمعہ)
اس آیت مبارکہ میں حلال رزق کمانے کو فضلِ الہی سے تعبیر کیا گیا اور بھی متعدد مقامات پر حلال کمانے اور حلال کھانے کی تاکید کی گئی نیز انتہائی سختی کے ساتھ رزقِ حرام سے منع بھی کیا گیا، کیوں کہ جو چیزیں حرام اور ناپاک ہیں، وہ انسانی اخلاق پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے انسان کے لیے مضر ہیں، ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اے ایمان والو! آپس میں ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ۔'' (سورۃ النسائ)
احادیث میں بھی حلال رزق کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رزق حلال کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ آدمی جو حرام ذریعہ سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہوگا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لیے زادِ راہ ثابت ہوگا۔
ایک مرتبہ ایک انصاری صحابیؓ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کچھ سوال کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے جواب دیا کہ صرف کمبل اور پانی پینے کا پیالہ ہے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اس کو کون خریدے گا؟ ایک صحابی نے اس کی قیمت ایک درہم لگائی۔
آپؐ نے فرمایا کہ ان کی اس سے زیادہ کوئی قیمت دے سکتا ہے ؟ ایک اور صحابیؓ نے کہا کہ میں اس کو دو درہم میں خریدتا ہوں ۔ آپؐ نے یہ اشیا اس صحابی کے حوالہ کیں اور دو درہم صحابیؓ کو دے کر کہا کہ ایک درہم کی کلہاڑی اور ایک درہم کا گھر کے لیے سامان لے آ۔ انہوں نے ارشاد نبوی کی تعمیل کی۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کلہاڑی میں دستہ لگا کر ان کو دیا اور فرمایا جاؤ اس سے لکڑی کاٹ کاٹ کر بیچو، اب پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا، وہ صحابی جب پندرہ دن کے بعد حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا کیا حال ہے ؟ صحابی نے جواب دیا کہ میں نے دس درہم کما لیے ہیں ، جن میں سے چند درہم کے کپڑے اور چند درہم سے غلہ خریدا ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے ؟
ایک صحابی کے ہاتھ محنت مزدوری کرنے سے سوج گئے۔ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: ''کسب رزق میں مزدوری کرنے سے سوج جانے والا وہ ہاتھ ہے جسے اﷲ تعالی اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پسند فرماتے ہیں۔''
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک اور جگہ پر ہاتھ سے کمانے والے آدمی کے متعلق یوں فرمایا: اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے ۔ ایک صحابی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔
مزدوروں کے حقوق:
دین اسلام نے مزدور کو سب سے پہلے وسیع اور جامع ترین حقوق فراہم کیے اور ہر قسم کے ظالمانہ سلوک سے باز رہنے کا حکم دیا۔ مزدور کے حقوق کا اندازہ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے ہو جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔
آج مغرب میں مزدوروں کے حقوق کے لیے بہت آواز بلند کی جاتی ہے ؛ جبکہ اسلام نے آج سے 1400پہلے ہی مزدور کے حقوق متعین فرما دیے تھے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری خطبہ حجۃ الوداع کو انسانی حقوق کا منشور کہا جاتا ہے، اس موقع پر نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنے غلاموں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھاؤ انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو انہیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو۔
نبی رحمت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ سے ہمیں مزدور کی عزت و احترام کا پتا چلتا ہے۔ نبی رحمت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے کام نہیں کرتے جس کو میں خود کرتا ہوں، اﷲ کی قسم میں تم سے زیادہ اﷲ کا خوف رکھتا ہوں ۔
اسی طرح شریعت مطہرہ کی رو سے مستاجر کو یہ حق ہے کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اجرت چاہے مقرر کرے ، مگر اس آزادی کے باوجود چند باتیں اصولی طور پر طے ہے، جن کی پابندی دونوں کو لازم ہے ۔
(1) ان کو کم از کم اتنی اجرت دی جائے کہ ان کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں۔
(2) ان کے کام کا وقت متعین ہو مگر اس وقت میں بھی ان سے اتنا کام اور ایسا کام نہ لیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ کام عام حالات میں آدمیوں سے نہ لیا جاتا ہو یا جن کی وجہ سے ان کی صحت اور قوت کار پر جلد برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔
(3) مدت ملازمت میں بیماری کی دیکھ بھال اور علاج کی ذمہ داری مستاجر پر ہوگی۔
(4) مزدور سے اگر اچانک کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس نے قصدا کوئی نقصان کیا ہے تو مستاجر کو یہ حق ہوگا کہ وہ اس سے اس کا تاوان وصول کرے گا اگر وہ تاوان ادا نہ کر سکے تو یہ حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ مزدور کی طرف سے خود تاوان ادا کرے۔
(5) اگر کام کے درمیان میں مزدور کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی تلافی مستاجر کو کرنی پڑے گی، اس کی کوئی متعین صورت نہیں بتائی جا سکتی۔ اس کی تعیین حالات اور حادثہ کی کیفیت و کمیت کے مطابق ہی متعین ہوگی۔
(6) اگر مزدور کام میں سستی کرے یا دل نہ لگا ئے تو مستاجر کو اس کی اجرت میں کمی کر دینے کا حق ہوگا اور اگر اس کا رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ علاحدہ بھی کر سکتا ہے مگر علاحدہ کرنے سے پہلے اس کو سمجھانے بجھانے اور کام کی رغبت پیدا کرنے کی تدبیریں اختیار کرنی ضروری ہوں گی اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ چیز کسی عذر یا بد دلی کی وجہ سے ہو۔
(7) محض نفع کی کمی یا معمولی نقصان کی بنا پر مزدور کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ یا تو وہ مزدور کو خود اس پر راضی کرے یا مستاجر حکومت کے سامنے اس کو علیحدہ کرنے کی وجہ بیان کر کے اس کے لیے اجازت حاصل کرے ۔
(اسلامی قانون محنت)
قارئین کرام! درحقیقت اسلام نے ان زریں تعلیمات کے ذریعہ اپنے پیروکاروں میں ایسی سوچ پیدا کر دی تھی کہ جس سے ہر شخص محنت مزدوری میں فخر اور بھیک مانگنے سے نفرت کرتا تھا۔ اس دور میں صحابہ کرامؓ کسی دوسرے پر اپنا معاشی بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین حلال رزق کمانے کے لیے ہر قسم کی صلاحیتوں کو بہ روئے کار لاتے اور محنت و مشقت کرنے سے کبھی عار محسوس نہیں کرتے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے رزق کمانے کے لیے مختلف پیشوں کو اختیار کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کپڑے کے تاجر تھے، وہ خلیفہ بننے کے بعد کپڑا بیچنے کے لیے گھر سے نکلے، راستہ میں حضرت عمر ؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ ملے ، انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں، آپ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں ؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں اگر کپڑا نہیں بیچوں گا تو اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا، پھر ان کے لیے تن خواہ مقرر کر دی گئی۔ دیگر صحابہ کرامؓ بھی محنت میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے ۔
چنانچہ حضرت خباب بن ارتؓ لوہار تھے تو حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓچرواہے تھے، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓتیر ساز تھے، حضرت زبیر بن عوامؓ درزی تھے، حضر ت سلمان فارسیؓ حجام تھے، حضر ت علیؓ کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔
ازدواج مطہراتؓ اور صحابیاتؓ بھی محنت کرنے سے گھبراتی نہیں تھیں، وہ گھروں میں اون کاتتی اور کھالوں کو دباغت دیتی تھیں، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں، کچھ خواتین کھانا پکا کر اور کچھ دودھ نکال کر فروخت کرتی تھیں، کچھ صحابیاتؓ دایہ کا کام کرتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ نے حضرت زینب بنت حجشؓ (زوجہ رسولؐ کریم ﷺ) کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی محنت سے کماتیں اور اﷲ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو جائز طریقے سے مال کمانے سے روکتا نہیں بلکہ ان کو ترغیب اور عزت و احترام دیتا ہے۔ چناں چہ محنت و مزدوری سے حلال رزق کمانے اور جائز پیشہ اختیار کرنے کو بہت بڑی عبادت کہا گیا ہے۔ انبیائے کرامؑ، صحابہؓ، صلحائؒ سب نے محنت مزدوری کر کے ہی ضروریات زندگی حاصل کیں۔ ہمیں بھی ایک مسلمان ہونے کے ناتے محنت مزدوری کر کے حلال رزق کمانا چاہیے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں حلال کی وافر روزی عطا فرمائے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی محتاجی سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
اسی بنا پر باہمی حقوق و فرائض عاید کیے گئے اور اسی کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ شفقت وہم دردی کی تعلیم دی گئی۔ محنت مزدوری کرنا، ہاتھ سے کما کر کھانا، کوئی ذریعہ معاش اِختیار کرنا، کسی ہنر، فن، کاریگری اور صنعت و حرفت کو ذریعہ معاش کے لیے بہ طورِ پیشہ اِختیار کرنا کوئی معیوب بات نہیں، متعدد انبیائے کرامؑ ، صحابہ اور سلف صالحین نے حصولِ رزق کے لیے کئی پیشوں کو اِختیار فرمایا ہے۔
انبیائے کرامؑ کے پیشے:
ابنِ جوزی نے المنتظم میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کا قول نقل کیا ہے : ''حضرت آدمؑ ہل جوتتے ، حضرت نوح ؑبڑھئی کا کام کرتے ، حضرت ادریس ؑکپڑے سیتے ، حضرت صالحؑ تجارت کرتے ، حضرت ابراہیمؑ کھیتی باڑی کرتے، حضرت شعیب ؑ و موسی ؑ بکریوں کی نگہبانی کرتے اور حضرت داؤدؑ زرہ بنا تے تھے جب کہ حضرت سلیمان ؑبادشاہ تھے، ہمارے نبیؐ مقام اجیاد پر بکریوں کی نگہبانی فرماتے تھے۔''
قارئین کرام! اسلام ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو حلال طریقے سے محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بے وجہ بھیک مانگنے اور بلاعذر دست سوال دراز کرنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا بل کہ اس طرح کرنے والوں کو دردناک وعید سے آگاہ بھی کیا گیا ۔
کسب حلال کی اہمیت:
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ رزقِ حلال کمانے اور اﷲ تعالی کے فضل کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ تعالی کے فضل کو تلاش کرو۔'' (سورہ جمعہ)
اس آیت مبارکہ میں حلال رزق کمانے کو فضلِ الہی سے تعبیر کیا گیا اور بھی متعدد مقامات پر حلال کمانے اور حلال کھانے کی تاکید کی گئی نیز انتہائی سختی کے ساتھ رزقِ حرام سے منع بھی کیا گیا، کیوں کہ جو چیزیں حرام اور ناپاک ہیں، وہ انسانی اخلاق پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے انسان کے لیے مضر ہیں، ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اے ایمان والو! آپس میں ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ۔'' (سورۃ النسائ)
احادیث میں بھی حلال رزق کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رزق حلال کی تلاش ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ آدمی جو حرام ذریعہ سے مال جمع کرتا ہے وہ خوش نہ ہوگا، اگر وہ اسے خیرات بھی کرے گا تو وہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور جو باقی رہے گا وہ جہنم کے لیے زادِ راہ ثابت ہوگا۔
ایک مرتبہ ایک انصاری صحابیؓ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کچھ سوال کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو اس نے جواب دیا کہ صرف کمبل اور پانی پینے کا پیالہ ہے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اس کو کون خریدے گا؟ ایک صحابی نے اس کی قیمت ایک درہم لگائی۔
آپؐ نے فرمایا کہ ان کی اس سے زیادہ کوئی قیمت دے سکتا ہے ؟ ایک اور صحابیؓ نے کہا کہ میں اس کو دو درہم میں خریدتا ہوں ۔ آپؐ نے یہ اشیا اس صحابی کے حوالہ کیں اور دو درہم صحابیؓ کو دے کر کہا کہ ایک درہم کی کلہاڑی اور ایک درہم کا گھر کے لیے سامان لے آ۔ انہوں نے ارشاد نبوی کی تعمیل کی۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کلہاڑی میں دستہ لگا کر ان کو دیا اور فرمایا جاؤ اس سے لکڑی کاٹ کاٹ کر بیچو، اب پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا، وہ صحابی جب پندرہ دن کے بعد حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا کیا حال ہے ؟ صحابی نے جواب دیا کہ میں نے دس درہم کما لیے ہیں ، جن میں سے چند درہم کے کپڑے اور چند درہم سے غلہ خریدا ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ کیا بھیک مانگ کر قیامت کے دن ذلت اٹھانے سے یہ بہتر نہیں ہے ؟
ایک صحابی کے ہاتھ محنت مزدوری کرنے سے سوج گئے۔ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: ''کسب رزق میں مزدوری کرنے سے سوج جانے والا وہ ہاتھ ہے جسے اﷲ تعالی اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پسند فرماتے ہیں۔''
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک اور جگہ پر ہاتھ سے کمانے والے آدمی کے متعلق یوں فرمایا: اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے ۔ ایک صحابی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔
مزدوروں کے حقوق:
دین اسلام نے مزدور کو سب سے پہلے وسیع اور جامع ترین حقوق فراہم کیے اور ہر قسم کے ظالمانہ سلوک سے باز رہنے کا حکم دیا۔ مزدور کے حقوق کا اندازہ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے ہو جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔
آج مغرب میں مزدوروں کے حقوق کے لیے بہت آواز بلند کی جاتی ہے ؛ جبکہ اسلام نے آج سے 1400پہلے ہی مزدور کے حقوق متعین فرما دیے تھے ۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری خطبہ حجۃ الوداع کو انسانی حقوق کا منشور کہا جاتا ہے، اس موقع پر نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنے غلاموں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو، ان سے بہتر سلوک کرو، جو خود کھاؤ انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو انہیں پہناؤ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرو۔
نبی رحمت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ سے ہمیں مزدور کی عزت و احترام کا پتا چلتا ہے۔ نبی رحمت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے کام نہیں کرتے جس کو میں خود کرتا ہوں، اﷲ کی قسم میں تم سے زیادہ اﷲ کا خوف رکھتا ہوں ۔
اسی طرح شریعت مطہرہ کی رو سے مستاجر کو یہ حق ہے کہ وہ جس مزدور کو چاہے اپنے یہاں کام پر رکھے اور جو اجرت چاہے مقرر کرے ، مگر اس آزادی کے باوجود چند باتیں اصولی طور پر طے ہے، جن کی پابندی دونوں کو لازم ہے ۔
(1) ان کو کم از کم اتنی اجرت دی جائے کہ ان کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں۔
(2) ان کے کام کا وقت متعین ہو مگر اس وقت میں بھی ان سے اتنا کام اور ایسا کام نہ لیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور وہ کام عام حالات میں آدمیوں سے نہ لیا جاتا ہو یا جن کی وجہ سے ان کی صحت اور قوت کار پر جلد برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔
(3) مدت ملازمت میں بیماری کی دیکھ بھال اور علاج کی ذمہ داری مستاجر پر ہوگی۔
(4) مزدور سے اگر اچانک کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس نے قصدا کوئی نقصان کیا ہے تو مستاجر کو یہ حق ہوگا کہ وہ اس سے اس کا تاوان وصول کرے گا اگر وہ تاوان ادا نہ کر سکے تو یہ حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ مزدور کی طرف سے خود تاوان ادا کرے۔
(5) اگر کام کے درمیان میں مزدور کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی تلافی مستاجر کو کرنی پڑے گی، اس کی کوئی متعین صورت نہیں بتائی جا سکتی۔ اس کی تعیین حالات اور حادثہ کی کیفیت و کمیت کے مطابق ہی متعین ہوگی۔
(6) اگر مزدور کام میں سستی کرے یا دل نہ لگا ئے تو مستاجر کو اس کی اجرت میں کمی کر دینے کا حق ہوگا اور اگر اس کا رکھنا اس کے لیے نقصان دہ ہو تو وہ علاحدہ بھی کر سکتا ہے مگر علاحدہ کرنے سے پہلے اس کو سمجھانے بجھانے اور کام کی رغبت پیدا کرنے کی تدبیریں اختیار کرنی ضروری ہوں گی اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ چیز کسی عذر یا بد دلی کی وجہ سے ہو۔
(7) محض نفع کی کمی یا معمولی نقصان کی بنا پر مزدور کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ یا تو وہ مزدور کو خود اس پر راضی کرے یا مستاجر حکومت کے سامنے اس کو علیحدہ کرنے کی وجہ بیان کر کے اس کے لیے اجازت حاصل کرے ۔
(اسلامی قانون محنت)
قارئین کرام! درحقیقت اسلام نے ان زریں تعلیمات کے ذریعہ اپنے پیروکاروں میں ایسی سوچ پیدا کر دی تھی کہ جس سے ہر شخص محنت مزدوری میں فخر اور بھیک مانگنے سے نفرت کرتا تھا۔ اس دور میں صحابہ کرامؓ کسی دوسرے پر اپنا معاشی بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین حلال رزق کمانے کے لیے ہر قسم کی صلاحیتوں کو بہ روئے کار لاتے اور محنت و مشقت کرنے سے کبھی عار محسوس نہیں کرتے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے رزق کمانے کے لیے مختلف پیشوں کو اختیار کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کپڑے کے تاجر تھے، وہ خلیفہ بننے کے بعد کپڑا بیچنے کے لیے گھر سے نکلے، راستہ میں حضرت عمر ؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ ملے ، انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے معاملات کے والی ہیں، آپ یہ کام کیسے کرسکتے ہیں ؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں اگر کپڑا نہیں بیچوں گا تو اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا، پھر ان کے لیے تن خواہ مقرر کر دی گئی۔ دیگر صحابہ کرامؓ بھی محنت میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے ۔
چنانچہ حضرت خباب بن ارتؓ لوہار تھے تو حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓچرواہے تھے، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓتیر ساز تھے، حضرت زبیر بن عوامؓ درزی تھے، حضر ت سلمان فارسیؓ حجام تھے، حضر ت علیؓ کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔
ازدواج مطہراتؓ اور صحابیاتؓ بھی محنت کرنے سے گھبراتی نہیں تھیں، وہ گھروں میں اون کاتتی اور کھالوں کو دباغت دیتی تھیں، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں، کچھ خواتین کھانا پکا کر اور کچھ دودھ نکال کر فروخت کرتی تھیں، کچھ صحابیاتؓ دایہ کا کام کرتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ نے حضرت زینب بنت حجشؓ (زوجہ رسولؐ کریم ﷺ) کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی محنت سے کماتیں اور اﷲ کی راہ میں صدقہ کرتیں تھیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو جائز طریقے سے مال کمانے سے روکتا نہیں بلکہ ان کو ترغیب اور عزت و احترام دیتا ہے۔ چناں چہ محنت و مزدوری سے حلال رزق کمانے اور جائز پیشہ اختیار کرنے کو بہت بڑی عبادت کہا گیا ہے۔ انبیائے کرامؑ، صحابہؓ، صلحائؒ سب نے محنت مزدوری کر کے ہی ضروریات زندگی حاصل کیں۔ ہمیں بھی ایک مسلمان ہونے کے ناتے محنت مزدوری کر کے حلال رزق کمانا چاہیے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں حلال کی وافر روزی عطا فرمائے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی محتاجی سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)