افغانستان اور دہشت گردی
ملک کی سماجی حالت بھی سب کے سامنے ہے، پورا ملک مختلف لسانی اور نسلی گروہوں میں تقسیم ہے
پاک فوج نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ افعانستان سے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مؤثر جوابی کارروائی ہوگی۔ مسلح افواج ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جمعہ کوکوئٹہ گیریژن کا دورہ کیا۔آرمی چیف جنرل سید عاصم کو ژوب میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو دستیاب محفوظ پناہ گاہوں اور کارروائی کی آزادی پر شدید تحفظات ہیں۔توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت پر تشویش ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلاامتیاز جاری رہے گا اور مسلح افواج ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔
جنرل سید عاصم منیر2 روزہ سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف اپنے دورہ کے دوران ایرانی فوجی اور سول قیادت سے ملاقاتیں کریں گے، جن میں سی او اے ایس دفاع اور سیکیورٹی تعاون سے متعلق دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اقوام متحدہ کے کسی نے بھی رکن ملک نے تاحال تسلیم نہیں کیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اقوام عالم کی توقعات اور معیار پر پورا نہیں اتررہی ہے،یقیناً افغانستان کی حکومت چلانے والوں کو حقائق کا زیادہ بہتر علم ہوگا۔
اندرون ملک عبوری افغان حکومت کی کیا مشکلات ہیں، اس کے بارے میں بھی طالبان قیادت زیادہ بہتر جانتی ہے، تاہم عمومی مشاہدے میں یہی سامنے آرہا ہے کہ افغانستان دوحہ معاہدہ کی شرائط پر مکمل عمل کرنے میں ناکام ہے۔ افغانستان کے اندر بھی داعش اور دیگر طالبان مخالف گروپس اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن افغانستان کی عبوری حکومت اس کی توقعات پر بھی پورا نہیں اتر رہی ، پاکستان کے اصرار کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی البتہ اس مسلح تنظیم کی قیادت اور اس کے جنگجوؤں کو اپنی سرزمین پر تحفظ فراہم کیا ہے۔
افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف بطور پریشر ٹیکٹکس استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو بھی استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں افغان باشندوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ انھیں پاکستان میں موجود سہولت کاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔
افغان طالبان کو دوحہ معاہدے کے تحت حکومت دی گئی ہے۔ اس معاہدے میں دیگر کئی شرائط کے علاوہ طالبان نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ ان کے دور اقتدار میں افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور نہ ہی دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں رہنے دیا جائے گا مگر حالات کچھ اور ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔پاکستان میں ٹی ٹی پی نے افغانستان کی سر زمین کو استعمال کر کے دہشت گردی کی وارداتیں جاری رکھی ہوئی ہیں، یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
افغانستان کئی دہائیوں سے بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور ابھی تک مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت رہی ہو، پاکستان کے لیے مسائل ہی کھڑے ہوتے رہے ہیں، افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان میں اب تک موجود ہے۔ پہلے پاکستان کے بڑے شہر تھے اور اب بات تو دیہات تک پہنچ چکی ہے، ہم مسلسل افغانستان کے لیے اپنی معاشرت اور معیشت قربان کرتے آئے ہیں، انڈیا ہمارا دشمن ملک ہے، مگر وہاں سے جتھے پاکستان آکر حملہ آور نہیں ہوتے۔
یہ افغانستان ہے، جہاں سے جتھے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اندرون ملک دہشت گردی کرائی جاتی ہے۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات جتنے خوشگوار ہونے چاہیے تھے، اتنے نہیں ہوسکے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے زعما کواس کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا۔
ہمارے پالیسی سازوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ جن افغان طالبان کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، جب انھیں اقتدار ملا تو انھوں نے پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کیا۔ اتنے حملے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دور میں نہیں ہوتے تھے، جتنے اس دور میں شروع ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں پچھتر برس سال سے پاکستان دشمنی پر مبنی نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے۔وہاں کی حکمران اشرافیہ اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے لیے اس نفرت کو بڑھاتی رہی ہے' اس کام میں دائیں اور بائیں بازو کی کوئی تفریق نہیں ہے۔
افغانستان کے باشندوں کے ذہنوں کواس قدر آلودہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی کو افغان حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس سوچ اور فکر کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں اوراس سے ملحقہ بندوبستی علاقوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں ' کتنی عجیب بات ہے کہ افغانستان کے لاکھوں باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں' یہاں کاروبار کر رہے ہیں ' پاکستان کی ریاست کے مہیا کردہ وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں' یہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ' پرامن زندگی گزار رہے ہیں، عزت سے کاروبار کر رہے ہیں لیکن سوچ کے اعتبار سے منفی اور پاکستان مخالف رویے اختیار کرتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے وطن میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ لوگ پاکستان کے مفاد کے برعکس کام کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے جینز میں پاکستان سے نفرت کو ساتھ لے کر آئے ہیں۔ اس لیے افغانستان میں کوئی بھی حکومت آجائے، پاک افغان تعلقات یونہی رہیں گے، یہ فالٹ لائن ہے، اسے درست کرنا ہوگا، تبھی جا کر نارمل تعلقات کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت بھی آشکار ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہیں۔ افغان عبوری حکومت جو مؤقف پیش کرتی ہے، وہ بھی اس کی غیرسنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ افغان حکومت کہتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہو رہی بلکہ ان میں پاکستان کے باشندے ہی ملوث ہیں۔
اگر ٹی ٹی پی کے ٹھکانے افغانستان میں نہیں ہیں اور ان کی قیادت پاکستان میں ہے تو پھر افغان طالبان کی سرپرستی میں کابل میں مذاکرات کیسے ہوتے رہے؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر کے غلطی کی تھی، پاکستان کو افغانستان سے ان لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح ان کے خلاف کارروائی پر افغان طالبان پر دباؤ رکھنا چاہیے تھا۔
ٹی ٹی پی کو فریق بنا کر سیکیورٹی غلطی کی گئی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کو اس کا ادراک ہوگیا ہوگا۔ افغانستان کی عبوری حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ جس پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے،یہ پالیسی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔دہشت گرد تنظمیںکبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسے گروہ امن و امان کے مسائل ضرور پیدا کریں گے، جیسا کہ وہ کر رہے ہیں، مگر ریاستی ادارے اب پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔
پاکستان اب بھی چاہتا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کامیاب ہوجائے اور وہ اس سے تعاون کررہا ہے۔پاکستان آج بھی افغانستان کی بات سن رہا ہے اور افغان عبوری حکومت کو موقع بھی دے رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کودرست کریں۔ دراصل افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل طالبان میں بھی دھڑے بندی ہے۔ نئی حکومت کے پاس تربیت یافتہ فوج نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی مشینری تربیت یافتہ ہے۔
ملک کی سماجی حالت بھی سب کے سامنے ہے، پورا ملک مختلف لسانی اور نسلی گروہوں میں تقسیم ہے۔ معتدل اور متوازن سوچ کے حامل طالبان کی حکومت پر گرفت کمزور ہے ' ازبک' تاجک اور ہزارہ منگول چپقلش بھی موجود ہے ' ان مشکلات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ملک میں اصلاحات لانے کے قابل نہیں ہے ۔ رجعت پسندی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بظاہر افغانستان ایک خودمختار ریاست ہے لیکن عملاً یہ ملک کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جمعہ کوکوئٹہ گیریژن کا دورہ کیا۔آرمی چیف جنرل سید عاصم کو ژوب میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو دستیاب محفوظ پناہ گاہوں اور کارروائی کی آزادی پر شدید تحفظات ہیں۔توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت پر تشویش ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلاامتیاز جاری رہے گا اور مسلح افواج ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔
جنرل سید عاصم منیر2 روزہ سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف اپنے دورہ کے دوران ایرانی فوجی اور سول قیادت سے ملاقاتیں کریں گے، جن میں سی او اے ایس دفاع اور سیکیورٹی تعاون سے متعلق دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اقوام متحدہ کے کسی نے بھی رکن ملک نے تاحال تسلیم نہیں کیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اقوام عالم کی توقعات اور معیار پر پورا نہیں اتررہی ہے،یقیناً افغانستان کی حکومت چلانے والوں کو حقائق کا زیادہ بہتر علم ہوگا۔
اندرون ملک عبوری افغان حکومت کی کیا مشکلات ہیں، اس کے بارے میں بھی طالبان قیادت زیادہ بہتر جانتی ہے، تاہم عمومی مشاہدے میں یہی سامنے آرہا ہے کہ افغانستان دوحہ معاہدہ کی شرائط پر مکمل عمل کرنے میں ناکام ہے۔ افغانستان کے اندر بھی داعش اور دیگر طالبان مخالف گروپس اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن افغانستان کی عبوری حکومت اس کی توقعات پر بھی پورا نہیں اتر رہی ، پاکستان کے اصرار کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی البتہ اس مسلح تنظیم کی قیادت اور اس کے جنگجوؤں کو اپنی سرزمین پر تحفظ فراہم کیا ہے۔
افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف بطور پریشر ٹیکٹکس استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو بھی استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں افغان باشندوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ انھیں پاکستان میں موجود سہولت کاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔
افغان طالبان کو دوحہ معاہدے کے تحت حکومت دی گئی ہے۔ اس معاہدے میں دیگر کئی شرائط کے علاوہ طالبان نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ ان کے دور اقتدار میں افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور نہ ہی دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں رہنے دیا جائے گا مگر حالات کچھ اور ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔پاکستان میں ٹی ٹی پی نے افغانستان کی سر زمین کو استعمال کر کے دہشت گردی کی وارداتیں جاری رکھی ہوئی ہیں، یہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
افغانستان کئی دہائیوں سے بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور ابھی تک مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی حکومت رہی ہو، پاکستان کے لیے مسائل ہی کھڑے ہوتے رہے ہیں، افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان میں اب تک موجود ہے۔ پہلے پاکستان کے بڑے شہر تھے اور اب بات تو دیہات تک پہنچ چکی ہے، ہم مسلسل افغانستان کے لیے اپنی معاشرت اور معیشت قربان کرتے آئے ہیں، انڈیا ہمارا دشمن ملک ہے، مگر وہاں سے جتھے پاکستان آکر حملہ آور نہیں ہوتے۔
یہ افغانستان ہے، جہاں سے جتھے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اندرون ملک دہشت گردی کرائی جاتی ہے۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات جتنے خوشگوار ہونے چاہیے تھے، اتنے نہیں ہوسکے ہیں۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے زعما کواس کی وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا۔
ہمارے پالیسی سازوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ جن افغان طالبان کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، جب انھیں اقتدار ملا تو انھوں نے پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کیا۔ اتنے حملے تو حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دور میں نہیں ہوتے تھے، جتنے اس دور میں شروع ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں پچھتر برس سال سے پاکستان دشمنی پر مبنی نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے۔وہاں کی حکمران اشرافیہ اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے لیے اس نفرت کو بڑھاتی رہی ہے' اس کام میں دائیں اور بائیں بازو کی کوئی تفریق نہیں ہے۔
افغانستان کے باشندوں کے ذہنوں کواس قدر آلودہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی کو افغان حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس سوچ اور فکر کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں اوراس سے ملحقہ بندوبستی علاقوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں ' کتنی عجیب بات ہے کہ افغانستان کے لاکھوں باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں' یہاں کاروبار کر رہے ہیں ' پاکستان کی ریاست کے مہیا کردہ وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں' یہاں کے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ' پرامن زندگی گزار رہے ہیں، عزت سے کاروبار کر رہے ہیں لیکن سوچ کے اعتبار سے منفی اور پاکستان مخالف رویے اختیار کرتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے وطن میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ لوگ پاکستان کے مفاد کے برعکس کام کرنے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے جینز میں پاکستان سے نفرت کو ساتھ لے کر آئے ہیں۔ اس لیے افغانستان میں کوئی بھی حکومت آجائے، پاک افغان تعلقات یونہی رہیں گے، یہ فالٹ لائن ہے، اسے درست کرنا ہوگا، تبھی جا کر نارمل تعلقات کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت بھی آشکار ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہیں۔ افغان عبوری حکومت جو مؤقف پیش کرتی ہے، وہ بھی اس کی غیرسنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ افغان حکومت کہتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہو رہی بلکہ ان میں پاکستان کے باشندے ہی ملوث ہیں۔
اگر ٹی ٹی پی کے ٹھکانے افغانستان میں نہیں ہیں اور ان کی قیادت پاکستان میں ہے تو پھر افغان طالبان کی سرپرستی میں کابل میں مذاکرات کیسے ہوتے رہے؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر کے غلطی کی تھی، پاکستان کو افغانستان سے ان لوگوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح ان کے خلاف کارروائی پر افغان طالبان پر دباؤ رکھنا چاہیے تھا۔
ٹی ٹی پی کو فریق بنا کر سیکیورٹی غلطی کی گئی۔ ممکن ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کو اس کا ادراک ہوگیا ہوگا۔ افغانستان کی عبوری حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ جس پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے،یہ پالیسی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتی۔دہشت گرد تنظمیںکبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ انھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسے گروہ امن و امان کے مسائل ضرور پیدا کریں گے، جیسا کہ وہ کر رہے ہیں، مگر ریاستی ادارے اب پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہیں۔
پاکستان اب بھی چاہتا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کامیاب ہوجائے اور وہ اس سے تعاون کررہا ہے۔پاکستان آج بھی افغانستان کی بات سن رہا ہے اور افغان عبوری حکومت کو موقع بھی دے رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات کودرست کریں۔ دراصل افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل طالبان میں بھی دھڑے بندی ہے۔ نئی حکومت کے پاس تربیت یافتہ فوج نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی مشینری تربیت یافتہ ہے۔
ملک کی سماجی حالت بھی سب کے سامنے ہے، پورا ملک مختلف لسانی اور نسلی گروہوں میں تقسیم ہے۔ معتدل اور متوازن سوچ کے حامل طالبان کی حکومت پر گرفت کمزور ہے ' ازبک' تاجک اور ہزارہ منگول چپقلش بھی موجود ہے ' ان مشکلات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ملک میں اصلاحات لانے کے قابل نہیں ہے ۔ رجعت پسندی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بظاہر افغانستان ایک خودمختار ریاست ہے لیکن عملاً یہ ملک کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔