ممتاز ٹی وی اداکار شکیل
راقم الحروف کی ان سے بہت خوبصورت ملاقاتیں رہیں ہمارے استاد محترم علی سفیان آفاقی سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے
گزشتہ دنوں پی ٹی وی کے ممتاز اداکار شکیل جو ہمیشہ ٹی وی کے لیجنڈ کہلائے، اپنے چاہنے والوں کو اداس چھوڑ کر چلے گئے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی 86 بہاریں دیکھیں اور خوب دیکھیں یہ فن کے عظیم سپوت بھوپال میں پیدا ہوئے جب وہ پاکستان آئے تھے تو یوسف کمال تھے پھر فنکارانہ صلاحیتوں نے انھیں شکیل بنا دیا، انھوں نے ایک ہائی فائی انگریزی اسکول فرنچ مشنری سے تعلیم حاصل کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ انگریزی پر مکمل عبور رکھتے تھے مگر بلاوجہ انگریزی نہیں بولتے تھے۔
راقم الحروف کی ان سے بہت خوبصورت ملاقاتیں رہیں ہمارے استاد محترم علی سفیان آفاقی سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے اور ہماری ملاقاتوں کی وجہ بھی یہی تھی کہ علی سفیان آفاقی کا تعلق بھی بھوپال سے تھا۔
اداکار شکیل مرحوم کا تعلق فوجی گھرانے سے تھا ان کے نانا جان عبدالقیوم مرحوم بھوپال کے آرمی چیف بھی رہے ۔ 1952 میں جب وہ پاکستان آئے تھے تو انھوں نے شوبزنس کا سفر ریڈیو سے شروع کیا اور جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو آرٹ ایڈورٹائزنگ کمپنی میں جاب کر لی۔ حسن اور نفاست ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کے سبب فلموں اور ٹی وی سے ان کو آفرز آنی شروع ہوگئیں، انھوں نے جن فلموں میں کام کیا۔ ان میں جوش، ہونہار، انتقام، ناخدا، داستان اور پاپی نامی فلموں میں خوبصورت کردار ادا کیے۔
علی سفیان آفاقی کے پاشا صاحب سے بہت اچھے مراسم تھے انھوں نے انھیں اپنی فلم '' انتقام '' میں کاسٹ کیا مگر ریلیز کے بعد فلم نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ کراچی کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں علی سفیان آفاقی کی بیٹی کی شادی تھی ہم بھی شریک تھے وہاں اداکار شکیل سے آفاقی نے ہماری ملاقات کروائی چونکہ وہ آدھے گھنٹے کی ملاقات تھی تو ان سے تفصیلی بات نہ ہوسکی۔
دوسرے دن شکیل کے دوست اعجاز بھائی جو بزنس مین تھے اور آفاقی ان کی پسندیدہ شخصیت تھے نے ہمیں شکیل اور آفاقی صاحب کو اپنے گھر رات کے کھانے پر مدعو کیا، وہاں تفصیلی گفتگو ہوئی جب آفاقی اپنی ذاتی فلم ''آس'' بنا رہے تھے، جس کے مرکزی کردار محمد علی، شبنم اور عقیل نے کیے تھے یہ اپنے وقت کی پاکستان میں سپرہٹ فلم تھی جس نے بے شمار ایوارڈز حاصل کیے، اس گفتگو میں آفاقی صاحب نے بتایا کہ میں نے شکیل سے بھائیوں کی طرح محبت کا ثبوت دیا۔
میں نے اداکار عقیل کی جگہ اس کردار کے لیے شکیل کو آفر دی تھی عقیل نے ولن کا کردار ادا کیا تھا مگر شکیل نے معذرت کر لی تھی کہ میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں مصروف ہوں اور پھر وقت نہیں دے سکوں گا۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ شاید پچھلی فلموں کی ناکامیوں نے انھیں مایوس کر دیا ہو۔
اداکار شکیل نے مصنفہ حسینہ معین کے تحریرکردہ ڈرامہ '' نیا راستہ '' میں کام کیا۔ نیلوفر علیم جو بعد میں نیلوفر عباسی بنی، انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ شکیل بہت باصلاحیت اداکار ہیں اور شرافت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ نیلوفر عباسی نے اداکار شکیل کے ساتھ پی ٹی وی کے سپر ہٹ ڈراموں میں نیا راستہ، تمہیں عید مبارک اور شہ زوری میں زبردست اداکاری کی تھی جب کہ ڈراموں میں شکیل نے چارچاند لگا دیے تھے وہ زمانہ شوبزنس کے قدردانوں کا تھا، اب تو قدر ختم ہوئی صرف شو ہی شو رہ گئی ہے۔
اس زمانے میں رات 8 بجے پی ٹی وی سے ڈرامہ آن ایئر ہوتا تھا 9 بجے خبر نامہ شام ساڑھے 7 بجے ڈرامے کی وجہ سے مارکیٹیں بند ہو جاتی تھیں کہ لوگوں کے پاس انٹرٹینمنٹ کا دوسرا راستہ نہیں تھا، ان کی وجہ شہرت ڈرامہ '' انکل عرفی'' تھا وہ فلم سے بہت دل برداشتہ تھے پاکستان فلم انڈسٹری میں صرف 4 اداکار اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ان میں اداکار حبیب ( ایم۔اے اردو)، وحید مراد ( ایم۔اے انگلش)، ایم اے رشید (اکنامکس)، سپرہٹ فلم پاٹے خان اور تم سلامت رہو جس میں انھوں نے 20 سال بعد وحید مراد اور محمد علی کو یکجا کیا تھا اس کے بعد فلم اور ٹی وی کے معروف آرٹسٹ راحت کاظمی یہ CSS آفیسر تھے اور لاڑکانہ کے DC رہ چکے تھے۔
ان کی پہلی فلم ''آج اور کل'' اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی جب کہ اداکار شکیل بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے وہ اپنے وقت میں پی ٹی وی کے دلیپ کمار تھے پھر نہ جانے انھوں نے فلم میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟ پی ٹی وی کی سینئر پروڈیوسر فہمیدہ نسرین بہت نیک خاتون تھیں ان کے کمرے میں اکثر شکیل بھائی سے ملاقات ہوتی تھی وہ پروڈیوسر کاظم پاشا کی اہلیہ تھیں اور مارننگ شو کی مقبول میزبان ندا کاظمی کی والدہ محترم تھیں۔
ہدایت کار ایم اے رشید فلم ''دل جلا'' کا آغاز کرنے والے تھے اور انھوں نے شکیل کو اس میں بطور ہیرو اداکاری کی دعوت دی، اس ملاقات میں جو ایک بڑے ہوٹل میں ہوئی تھی راقم شامل تھا یہ واحد فلم تھی جس میں اداکار شکیل راضی ہوئے کہ '' ٹھیک ہے آپ کی فلم میں کام کروں گا۔'' ایم اے رشید لاہور چلے گئے جب کہ اس فلم میں شکیل کا مرکزی کردار تھا مگر وہ ہیرو نہیں تھے۔
ایم اے رشید بہت سلجھے ہوئے انسان تھے اور اداکار شکیل ان کی بہت عزت کرتے تھے پھر ایم اے رشید کی طبیعت ناساز ہوگئی اور فلم '' دل جلا '' اپنے انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ ایم اے رشید کو ان کا ڈرامہ '' نانا خالو ، کالونی 52 '' بہت اچھا لگا تھا۔ فلم کا نام تو '' دل جلا '' تھا مگر یہ مزاحیہ فلم تھی اور اس میں ان کا کردار چھوٹے بڑے دادا کا تھا اداکار شکیل وہ آرٹسٹ تھے جنھوں نے بڑے مصنف حضرات کے ڈراموں میں کام کیا۔ یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو ملتا ہے انھوں نے جن رائٹرزکے ڈراموں میں کام کیا۔ ان میں انور مقصود، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، بانو قدسیہ اور فاطمہ ثریا بجیا تھیں۔
ماضی میں ڈرامہ معاشرے کی برائیوں پر روشنی ڈالتا تھا، آج کے زمانے میں ڈراموں میں کوئی مثبت پیغام نہیں ہوتا یہ گلہ شکیل بھائی کو بھی تھا انھوں نے آج سے 30 سال پہلے ہم سے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' اب ڈرامے میں کام کرنے کو دل نہیں چاہتا، اداکار اسکرپٹ یاد کر کے نہیں آتے ہیں اگر اسکرپٹ بھول جاتے ہیں اور کیمرہ آن ایئر ہو تو اپنی مرضی سے جملے بول دیتے ہیں اس موقع پر ہمیں ڈرامہ دفن ہوتے محسوس ہوتا ہے۔''
ان کی فنی خدمات پر انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، صدر پاکستان نے انھیں اعتراف فن کا ایوارڈ بھی دیا تھا، رب ان کی مغفرت کرے۔(آمین)
راقم الحروف کی ان سے بہت خوبصورت ملاقاتیں رہیں ہمارے استاد محترم علی سفیان آفاقی سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے اور ہماری ملاقاتوں کی وجہ بھی یہی تھی کہ علی سفیان آفاقی کا تعلق بھی بھوپال سے تھا۔
اداکار شکیل مرحوم کا تعلق فوجی گھرانے سے تھا ان کے نانا جان عبدالقیوم مرحوم بھوپال کے آرمی چیف بھی رہے ۔ 1952 میں جب وہ پاکستان آئے تھے تو انھوں نے شوبزنس کا سفر ریڈیو سے شروع کیا اور جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو آرٹ ایڈورٹائزنگ کمپنی میں جاب کر لی۔ حسن اور نفاست ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کے سبب فلموں اور ٹی وی سے ان کو آفرز آنی شروع ہوگئیں، انھوں نے جن فلموں میں کام کیا۔ ان میں جوش، ہونہار، انتقام، ناخدا، داستان اور پاپی نامی فلموں میں خوبصورت کردار ادا کیے۔
علی سفیان آفاقی کے پاشا صاحب سے بہت اچھے مراسم تھے انھوں نے انھیں اپنی فلم '' انتقام '' میں کاسٹ کیا مگر ریلیز کے بعد فلم نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ کراچی کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں علی سفیان آفاقی کی بیٹی کی شادی تھی ہم بھی شریک تھے وہاں اداکار شکیل سے آفاقی نے ہماری ملاقات کروائی چونکہ وہ آدھے گھنٹے کی ملاقات تھی تو ان سے تفصیلی بات نہ ہوسکی۔
دوسرے دن شکیل کے دوست اعجاز بھائی جو بزنس مین تھے اور آفاقی ان کی پسندیدہ شخصیت تھے نے ہمیں شکیل اور آفاقی صاحب کو اپنے گھر رات کے کھانے پر مدعو کیا، وہاں تفصیلی گفتگو ہوئی جب آفاقی اپنی ذاتی فلم ''آس'' بنا رہے تھے، جس کے مرکزی کردار محمد علی، شبنم اور عقیل نے کیے تھے یہ اپنے وقت کی پاکستان میں سپرہٹ فلم تھی جس نے بے شمار ایوارڈز حاصل کیے، اس گفتگو میں آفاقی صاحب نے بتایا کہ میں نے شکیل سے بھائیوں کی طرح محبت کا ثبوت دیا۔
میں نے اداکار عقیل کی جگہ اس کردار کے لیے شکیل کو آفر دی تھی عقیل نے ولن کا کردار ادا کیا تھا مگر شکیل نے معذرت کر لی تھی کہ میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں مصروف ہوں اور پھر وقت نہیں دے سکوں گا۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ شاید پچھلی فلموں کی ناکامیوں نے انھیں مایوس کر دیا ہو۔
اداکار شکیل نے مصنفہ حسینہ معین کے تحریرکردہ ڈرامہ '' نیا راستہ '' میں کام کیا۔ نیلوفر علیم جو بعد میں نیلوفر عباسی بنی، انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ شکیل بہت باصلاحیت اداکار ہیں اور شرافت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ نیلوفر عباسی نے اداکار شکیل کے ساتھ پی ٹی وی کے سپر ہٹ ڈراموں میں نیا راستہ، تمہیں عید مبارک اور شہ زوری میں زبردست اداکاری کی تھی جب کہ ڈراموں میں شکیل نے چارچاند لگا دیے تھے وہ زمانہ شوبزنس کے قدردانوں کا تھا، اب تو قدر ختم ہوئی صرف شو ہی شو رہ گئی ہے۔
اس زمانے میں رات 8 بجے پی ٹی وی سے ڈرامہ آن ایئر ہوتا تھا 9 بجے خبر نامہ شام ساڑھے 7 بجے ڈرامے کی وجہ سے مارکیٹیں بند ہو جاتی تھیں کہ لوگوں کے پاس انٹرٹینمنٹ کا دوسرا راستہ نہیں تھا، ان کی وجہ شہرت ڈرامہ '' انکل عرفی'' تھا وہ فلم سے بہت دل برداشتہ تھے پاکستان فلم انڈسٹری میں صرف 4 اداکار اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ان میں اداکار حبیب ( ایم۔اے اردو)، وحید مراد ( ایم۔اے انگلش)، ایم اے رشید (اکنامکس)، سپرہٹ فلم پاٹے خان اور تم سلامت رہو جس میں انھوں نے 20 سال بعد وحید مراد اور محمد علی کو یکجا کیا تھا اس کے بعد فلم اور ٹی وی کے معروف آرٹسٹ راحت کاظمی یہ CSS آفیسر تھے اور لاڑکانہ کے DC رہ چکے تھے۔
ان کی پہلی فلم ''آج اور کل'' اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی جب کہ اداکار شکیل بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے وہ اپنے وقت میں پی ٹی وی کے دلیپ کمار تھے پھر نہ جانے انھوں نے فلم میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟ پی ٹی وی کی سینئر پروڈیوسر فہمیدہ نسرین بہت نیک خاتون تھیں ان کے کمرے میں اکثر شکیل بھائی سے ملاقات ہوتی تھی وہ پروڈیوسر کاظم پاشا کی اہلیہ تھیں اور مارننگ شو کی مقبول میزبان ندا کاظمی کی والدہ محترم تھیں۔
ہدایت کار ایم اے رشید فلم ''دل جلا'' کا آغاز کرنے والے تھے اور انھوں نے شکیل کو اس میں بطور ہیرو اداکاری کی دعوت دی، اس ملاقات میں جو ایک بڑے ہوٹل میں ہوئی تھی راقم شامل تھا یہ واحد فلم تھی جس میں اداکار شکیل راضی ہوئے کہ '' ٹھیک ہے آپ کی فلم میں کام کروں گا۔'' ایم اے رشید لاہور چلے گئے جب کہ اس فلم میں شکیل کا مرکزی کردار تھا مگر وہ ہیرو نہیں تھے۔
ایم اے رشید بہت سلجھے ہوئے انسان تھے اور اداکار شکیل ان کی بہت عزت کرتے تھے پھر ایم اے رشید کی طبیعت ناساز ہوگئی اور فلم '' دل جلا '' اپنے انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ ایم اے رشید کو ان کا ڈرامہ '' نانا خالو ، کالونی 52 '' بہت اچھا لگا تھا۔ فلم کا نام تو '' دل جلا '' تھا مگر یہ مزاحیہ فلم تھی اور اس میں ان کا کردار چھوٹے بڑے دادا کا تھا اداکار شکیل وہ آرٹسٹ تھے جنھوں نے بڑے مصنف حضرات کے ڈراموں میں کام کیا۔ یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو ملتا ہے انھوں نے جن رائٹرزکے ڈراموں میں کام کیا۔ ان میں انور مقصود، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، بانو قدسیہ اور فاطمہ ثریا بجیا تھیں۔
ماضی میں ڈرامہ معاشرے کی برائیوں پر روشنی ڈالتا تھا، آج کے زمانے میں ڈراموں میں کوئی مثبت پیغام نہیں ہوتا یہ گلہ شکیل بھائی کو بھی تھا انھوں نے آج سے 30 سال پہلے ہم سے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' اب ڈرامے میں کام کرنے کو دل نہیں چاہتا، اداکار اسکرپٹ یاد کر کے نہیں آتے ہیں اگر اسکرپٹ بھول جاتے ہیں اور کیمرہ آن ایئر ہو تو اپنی مرضی سے جملے بول دیتے ہیں اس موقع پر ہمیں ڈرامہ دفن ہوتے محسوس ہوتا ہے۔''
ان کی فنی خدمات پر انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، صدر پاکستان نے انھیں اعتراف فن کا ایوارڈ بھی دیا تھا، رب ان کی مغفرت کرے۔(آمین)